پازیٹیو اسٹیٹس کوازم
جب بھی کوئی آدمی عمل کرنا چاہے تواُس کو فوراً محسوس ہوتا ہے کہ اُس کے راستہ میں کچھ رکاوٹیں حائل ہیں۔ ایسا ایک فرد کے لیے بھی ہوتا ہے اور پوری قوم کے لیے بھی۔ اب عمل کاایک طریقہ یہ ہے کہ پہلے رکاوٹوں سے لڑکر اُن کو راستہ سے ہٹا دیا جائے اور اُس کے بعد اپنا مطلوب عمل شروع کیا جائے۔ اس طریقہ کو عام طورپر ریڈیکلزم (radicalism) کہا جاتا ہے۔
ریڈیکلزم کا طریقہ جذباتی لوگوں کو یا انتہا پسند لوگوں کو بظاہر پسند آتا ہے، مگر وہ کسی مثبت مقصد کے لیے مفید نہیں۔ ریڈیکلزم کا طریقہ تخریب کے لیے کار آمد ہے، وہ تعمیر کے لیے کار آمد نہیں۔ ریڈیکلزم کے طریقہ میں صرف موجودہ سسٹم ہی نہیں ٹوٹتا، بلکہ اس عمل کے دوران وہ سماجی روایات ٹوٹ جاتی ہیں جو صدیوں کے درمیان بنی تھیں۔ قتل وخون اور توڑ پھوڑ کی وجہ سے بے شمار لوگ طرح طرح کی مصیبتوں کا شکار ہوتے ہیں۔ تجربہ بتاتا ہے کہ ریڈیکلزم کا طریقہ نظریاتی طورپر بظاہر خوب صورت معلوم ہوتا ہے، مگر عملی انجام کے اعتبار سے اُس میں کوئی خوبی نہیں۔
اس کے مقابلہ میں دوسرا طریقہ یہ ہے کہ صورت موجودہ سے ٹکراؤ نہ کرتے ہوئے ممکن دائرہ میں اپنے عمل کی منصوبہ بندی کی جائے۔ صورت موجودہ (status quo) کو وقتی طورپر قبول کرتے ہوئے اُن مواقع کواستعمال کیا جائے جو اب بھی موجود ہیں۔ اس طریقہ کو ایک لفظ میں پازیٹیو اسٹیٹس کوازم (positive status-quoism) کہا جاسکتا ہے۔
ریڈیکلزم کا طریقہ ہمیشہ تشدد پیدا کرتا ہے۔ اس کے برعکس، پازیٹیو اسٹیٹس کو ازم سماج کے امن کو باقی رکھتے ہوئے اپناکام انجام دیتا ہے۔ ریڈیکلزم کا طریقہ ہمیشہ مسئلہ میں اضافہ کرتا ہے۔ اس کے برعکس پازیٹیو اسٹیٹس کو ازم کا طریقہ سماج میں کوئی مسئلہ پیدا کیے بغیر اپنا عمل انجام دیتا ہے۔ ایک اگر بگاڑ کا راستہ ہے تو دوسرا بناؤ کا راستہ۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے قدیم عرب میں اصلاح کاجو طریقہ اختیار کیا اُس کو ایک لفظ میں ، پازیٹیو اسٹیٹس کو ازم کہا جاسکتا ہے۔ مثلاً اُس زمانہ میں خانۂ کعبہ کے اندر 360 بُت رکھے ہوئے تھے۔ یہ ایک بڑا مسئلہ تھا۔ مگر قرآن کے ابتدائی دور میں اس قسم کا حکم نہیں اُترا کہ طہر الکعبۃ من الاصنام(کعبہ کو بتوں سے پاک کرو)۔ اس کے بجائے اس ابتدائی دور میں قرآن میں جو آیت اُتری وہ یہ تھی: وَثِيَابَكَ فَطَهِّرْ (74:4) یعنی اپنے کپڑے کو پاک کرو۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اپنے اخلاق کو اور دوسروں کے اخلاق کو درست بناؤ۔