جہاد لغت میں
جہاد کی اصل جُہد ہے۔ اس کے معنی کوشش کے ہیں مگر جہد کے مادے میں مبالغہ کا مفہوم ہے۔ مثلاً کہا جاتا ہے :جَهَدَ اللَّبَنَ ( کوشش کرکے سارا مکھن نکال لیا) اور أَجهَد دَابَّتَهُ (جانور کے اوپر طاقت سے زیادہ لادنا)۔ اسی طرح کہا جاتا ہے:بَذَل جُهْدَه( اس نے اپنی پوری طاقت صرف کی)۔ اسی طرح کہا جاتا ہے:لأَبْلُغَنَّ جُهَيْدَاي فِي هَذَا الْأَمر ( میں معاملہ میں اپنی طرف سے پوری کوشش کروں گا) ۔جہاد یا مجاہدہ کا مفہوم بھی یہی ہے۔ قرآن میں آیا ہے: وَجَاهِدُوا فِي اللَّهِ حَقَّ جِهَادِهِ (22:78)۔یعنی اللہ کے راستہ میں پوری کوشش کرو جیسا کہ کوشش کرنے کا حق ہے۔
مشہور عربی لغت لسان العرب میں بتایا گیا ہے کہ جھد کے معنی مبالغہ آمیز کوشش کے ہیں۔ مثلاً کہا جاتا ہے:جَهَدْت جَهْدي واجْتَهَدتُ رأْيي وَنَفْسِي حَتَّى بَلَغْتُ مَجهودي ( میں نے ہر طرح اپنی پوری کوشش کی یہاں تک کہ میں اپنی آخری کوشش تک پہنچ گیا)۔ اسی طرح کہا جاتا ہے: جَهَدَ الرَّجُلُ فِي كَذَا أَي جدَّ فِيهِ وَبَالَغَ۔ (آدمی نے معاملے میں کوشش کی اور اپنی پوری کوشش کر ڈالی) جہاد د یا اجتہاد کا مطلب ہے:بَذَلَ الْوُسْعَ فِي طَلَبِ الأَمر (کسی کام میں اپنی پوری کوشش صرف کر نا) لسان العرب ،جلد3،ص 135۔
حالات کی نسبت سے کبھی جہاد یا جد وجہد کا یہ عمل دشمنوں سے مقابلہ تک پہنچ جاتا ہے۔ اس وقت، باعتبار استعمال نہ کہ باعتبار لغت، اس میں محاربہ کا مفہوم بھی شامل ہو جاتا ہے۔ چنانچہ امام راغب اصفہانی نے استعمال کی نسبت سے جہاد کی تین قسمیں بتائی ہیں: ظاہری دشمن سے مقابلہ اور شیطان سے مقابلہ اور نفس سے مقابلہ(الجھاد ثلاثۃ اضرب:مجاهدۃ العدو الظاهر، ومجاهدۃ الشیطان، ومجاهدۃ النفس)المفردات في غريب القرآن، ص 208۔