کشمیر میں امن
زیرِ نظر مجموعہ کشمیر گائڈ کے طورپر شائع کیا جارہا ہے۔ میں تحریری اعتبار سے 1968 سے کشمیر سے وابستہ رہا ہوں۔ اول دن سے میری یہ رائے ہے کہ کشمیر کو غیر حقیقت پسندانہ سیاست نے تباہ کیا ہے، اور اب حقیقت پسندانہ سیاست کے ذریعہ اس کو دوبارہ ایک ترقی یافتہ کشمیر بنایا جاسکتا ہے۔
کشمیری مسلمانوں کی موجودہ نفسیات یہ ہے کہ وہ ہر ایک سے بیزار ہوچکے ہیں۔ وہ بے اعتمادی کی فضا میں جی رہے ہیں۔ زیرِ نظر مجموعہ کا مقصد یہ ہے کہ ان کو اس بے اعتمادی کی فضا سے نکالا جائے اور انہیں حوصلہ اور اعتماد پر کھڑا کرنے کی کوشش کی جائے۔
کشمیریوں کے لیے اس نئی زندگی کا آغاز ہر لمحہ ممکن ہے۔ مگر اس کی دو لازمی شرطیں ہیں۔ اول یہ کہ آج وہ جس ناخوش گوا ر صورت حال سے دوچار ہیں، اس کا ذمہ دار وہ خود اپنے آپ کو ٹھہرائیں۔ جب تک وہ اس کا ذمہ دار دوسروں کو ٹھہراتے رہیں گے، ان کے لیے نئی زندگی کا آغاز ممکن نہیں۔
دوسری ضروری بات یہ ہے کہ وہ مفروضات کی دنیا سے نکلیں اور عملی حقائق کی دنیا میں جینا شروع کریں۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ ان کے نااہل لیڈروں نے انہیں جن خوش فہمیوں میں مبتلا کیا تھا ان سے وہ باہر آئیں۔ وہ حالاتِ موجودہ سے ہم آہنگی کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے اپنی تعمیر کا نیا منصوبہ بنائیں۔حالات کا فیصلہ ہے کہ وہ آزادانہ طورپر، نہ کہ مجبورانہ طورپر، یہ جرأت مندانہ فیصلہ کریں کہ تقدیر نے ان کو انڈیا کا ایک حصہ بنا دیا ہے اور اب ان کے لیے اس کے سوا کوئی ممکن صورت نہیں کہ وہ خوش دلی کے ساتھ تقدیر کے اس فیصلہ کو قبول کرلیں۔
مزید یہ کہ یہ ان کے لیے کوئی برائی نہیں، وہ یقینی طورپر ان کے لیے ہر اعتبار سے خیر کی حیثیت رکھتی ہے۔ انڈیا ایک بڑا ملک ہے۔ یہاں آزادی اور جمہوریت ہے۔ یہاں تقریباً بیس کروڑ کی تعداد میں ان کے ہم مذہب مسلمان رہتے ہیں۔ بر صغیر ہند کے تمام بڑے اسلامی ادارے انڈیا میں قائم ہیں۔ انڈیا میں اس علاقہ کے مسلمانوں کی ہزار سالہ تاریخ کے نقوش موجود ہیں جو اس علاقہ کے مسلمانوں کو زندگی کا حوصلہ دیتے ہیں۔ ان سب سے بڑھ کر یہ کہ انڈیامیں دعوتِ دین کے وہ عظیم مواقع موجودہیں جن کی انجام دہی پر حدیث میں نجاتِ آخرت کی خوش خبری دی گئی ہے۔ (سنن النسائی، حدیث نمبر 3175، مسند احمد، حدیث نمبر8823)
ایک بار میں چند دن کے لیے کراچی میں تھا۔ وہاں میری ملاقات ایک مسلم صنعت کار سے ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ آپ لوگ انڈیا میں ہم سے زیادہ بہتر پوزیشن میں ہیں۔ میں نے اس کا سبب پوچھا تو انہوں نے کہا کہ دیکھیے، پاکستان ایک چھوٹا ملک ہے۔ اگر ہم کوئی پروڈکٹ تیار کریں تو اس کو مارکیٹ کرنے کے لیے ہمارے پاس بہت محدود دنیا ہوتی ہے۔ اس کے برعکس، انڈیا بہت بڑا ملک ہے۔ انڈیا میں اگر آپ کوئی پروڈکٹ تیار کریں تو اس کو مارکیٹ کرنے کے لیے آپ کے پاس ایک نہایت وسیع دنیا موجود ہوتی ہے۔
مذکورہ مسلم تاجر کی یہ بات اب ایک واقعہ بن چکی ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ اکیسویں صدی میں پہنچ کر انڈیا کے مسلمان پورے بر صغیر ہند کے سب سے زیادہ ترقی یافتہ مسلمان بن چکے ہیں۔ یہ بات بلا مبالغہ درست ہے اور کسی بھی شہر کا تقابلی سروے کرکے اس کی تصدیق کی جاسکتی ہے۔ اس واقعہ کی ایک علامتی مثال یہ ہے کہ آج نہ صرف بر صغیر ہند بلکہ پوری مسلم دنیا کا سب سے زیادہ دولت مند آدمی ہندستان میں پایا جاتا ہے، یعنی بنگلور کے مسٹر عظیم ہاشم پریم جی۔
کشمیر کے مسلمان اگر دل کی آمادگی سے انڈیا کے ساتھ مل جائیں تو ان کے لیے ہر قسم کی ترقی کے شاندار مواقع کھل جائیں گے۔ تعلیم، اقتصادیات اور دوسرے تمام ترقیاتی شعبوں میں یہاں ان کے لیے ترقی کے جو امکانات ہیں وہ کسی بھی دوسرے مقام پرنہیں۔
مزید یہ کہ سیاست کے اعتبار سے انڈیا میں ان کے لیے ترقی کے عظیم مواقع موجود ہیں۔ کچھ عرصہ پہلے میرا ایک مضمون اردو اورہندی اور انگریزی اخباروں میں چھپا تھا۔ اس میں میں نے لکھا تھا کہ کشمیر کے مسلمان اگر ٹکراؤ کی پالیسی چھوڑ دیں اور ہندستان کو دل سے قبول کرتے ہوئے اس کا حصہ بن جائیں تو آئندہ جمہوری ہندستان میں جو پہلا مسلم وزیر اعظم بنے گا وہ ایک کشمیری مسلمان ہوگا۔ یہ ایک ایسا واقعہ ہے جس کے بارے میں مجھے کوئی شبہ نہیں—اگلے صفحات میں جو کچھ لکھا جارہا ہے وہ مختلف پہلوؤں سے اسی حقیقت کی تفصیل و تشریح ہے۔