امن کی طاقت
حدیث میں آیا ہے : إِنَّ اللهَ يُعْطِي عَلَى الرِّفْقِ مَا لَا يُعْطِي عَلَى الْعُنْفِ(صحيح مسلم، حديث نمبر 2593) یعنی اللہ نرمی پر وہ چیز دیتا ہے جو وہ سختی پر نہیں دیتا۔ اس حدیث کے مطابق، پُر امن طریقِ کار (peaceful activism) کو متشددانہ طریقِ عمل(violent activism) کے اوپر واضح فوقیت حاصل ہے۔
اس حدیث میں جو بات کہی گئی ہے وہ کوئی پُر اسرار بات نہیں۔ یہ ایک سادہ اور معلوم فطری حقیقت ہے۔ جنگ اور تشدد کی صورتِ حال میں یہ ہوتا ہے کہ طرفین کے درمیان نفرت اور عداوت بھڑکتی ہے۔ موجود ذرائع تباہ ہوتے ہیں۔ دونوں طرف کے بہترین افراد قتل کیے جاتے ہیں۔ پورا سماج منفی نفسیات کا جنگل بن جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسے ماحول میں تعمیر واستحکام کا کوئی کام نہیں کیا جاسکتا۔ جنگ و تشدد میں نقصان تو یقینی ہے مگر نقصان کے باوجود اس میں کوئی فائدہ نہیں۔
اس کے برعکس امن کا ماحول ہو تو لوگوں کے درمیان معتدل تعلقات قائم ہوتے ہیں۔ دوستی اور محبت میں اضافہ ہوتا ہے۔ موافق ماحول کے نتیجہ میں تعمیری سرگرمیاں فروغ پاتی ہیں۔ موجود ذرائع کو ترقیاتی کاموں میں استعمال کرنا ممکن ہو جاتا ہے۔ لوگ مثبت نفسیات میں جیتے ہیں جس کی بنا پر علمی اور فکری ترقی میں اضافہ ہوتا ہے۔
جنگ کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے کہ وہ مواقع کار کو مسدود کر تی ہے۔ اس کے مقابلہ میں امن کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ وہ مواقعِ کار کو آخری حد تک کھول دیتی ہے۔ جنگ سے ہمیشہ مزید نقصان ہوتا ہے، اور امن سے ہمیشہ مزید فائدہ۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام ہر قیمت پر اور آخری حدتک جنگ اور ٹکراؤ سے اعراض کی تعلیم دیتا ہے۔ اورامن کو ہر قیمت پر قائم کرنے کا حکم دیتا ہے۔