مذہبِ امن
پیسیفزم(pacifism) ایک مستقل موضوع ہے جس پر صدیوں سے غور وفکر جاری ہے اور اس کے بارے میں اہل علم نے بہت کچھ لکھا ہے اور لکھ رہے ہیں۔ انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا (1984) میں پیسیفزم پر ایک تفصیلی مقالہ ہے جو 8 صفحات پر مشتمل ہے۔ یہ مقالہ جرمن پروفیسر موہلمان (Wilhelm Emil Muhlmann) کا لکھا ہوا ہے جو اس موضوع پر اکسپرٹ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ پیسیفزم کے موضوع پر انگریزی میں چھپی ہوئی چند کتابوں کے نام یہ ہیں:
- E. L. Allen, F.E. Pollard, and G. A. Sutherland, The Case for Pacifism and Conscientious Objection. 1946.
- Hannah Arendt, On Violence. 1970
- Raymon Aron, Peace and War. 1962
- C.J. Cadoux, Christian Pacifism Re-examined. 1940
- Ted Dunn, Alternatives to War and Violence: A search. 1963.
- Carl Joachim Friedrich, Inevitable Peace. 1948
- Richard Gregg, The Power of Non-violence. 1966
- Aldous Huxley, An Encyclopaedia for Pacifism. 1937.
- Ralph T. Templin, Democracy and Non-Violence. 1965.
- Quincy Wright, A Study of War. 1965.
امن پسندی یا مذہبِ أمن (Pacifism) صدیوں پُرانی ایک تحریک ہے۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ دنیا سے جنگ کا خاتمہ کر دیا جائے تاکہ انسانی سماج میں مستقل طور پر امن کی حالت قائم ہو۔وہ تحریکیں جن کو عدمِ تشدد کی تحریک (non-violent movement) کہا جاتا ہے، اُن کا مقصد جزئی یا بنیادی طورپر یہی رہا ہے۔
پیسیفزم کی یہ تحریک تاریخ کے تقریباً تمام دوروں میں پائی جاتی رہی ہے۔ کبھی مذہبی بنیاد پر اور کبھی فلسفیانہ بنیاد پر اور کبھی اخلاقی بنیاد پر۔ پیسیفزم کے ماننے والوں میں ایک گروہ وہ ہے جو امن برائے امن کا قائل ہے۔ اُس کے نزدیک امن کی تعریف ہے عدم جنگ (absence of war)۔ دوسرا طبقہ وہ ہے جو امن کے ساتھ انصاف کو ضروری قرار دیتا ہے۔ وہ امن کے ساتھ انصاف (peace with justice) کی وکالت کرتا ہے۔ ان لوگوں کا کہنا ہے کہ صرف امن ایک منفی امن (negative peace) ہے اور امن مع انصاف مثبت امن (positive peace) ۔
گاندھی عدم تشدد کے علم بردار تھے۔ مگر کچھ اہل علم کا کہنا ہے کہ گاندھی کا عدم تشدد (non violence) محدود مقصد کے حصول کے لیے تھا۔ اسی لیے وہ 15 اگست 1947 کو اچانک ختم ہوگیا۔ اُن کی تحریک کا اصل مقصد برٹش رول کو ختم کرنا تھا، نہ کہ حقیقۃً ملک میں ایک پُر امن سماج قائم کرنا۔
Gandhi’s policy of non-violence was not to establish peace in the society, but to stage a coup in order to oust the British rule. He was successful, but not in the first sense rather in the second sense.
امن آزادی کا ایک عمل ہے، نہ کہ مجبوری کا عمل۔ مجبور کن امن جبر ہے وہ امن نہیں۔ امن وہ ہے جو ذہنی انقلاب کے ذریعہ آئے۔ قدیم زمانہ میں رومیوں نے محدود طورپر اپنی ریاست میں امن قائم کیا تھا جس کو وہ رومی امن (Pax Romana) کہتے تھے۔ اسی طرح بیسویں صدی میں سوویت یونین میں بظاہر امن پایا جاتا تھا جس کو کمیونسٹ امن کا نام دیا گیا۔ مگر یہ دونوں جبری امن تھے، اور جبری امن کوئی مطلوب امن نہیں۔
کچھ مفکرین امن کے لیے عالمی ریاست (world state) کا خواب دیکھتے رہے ہیں۔ مگر تاریخ بتاتی ہے کہ عالمی ریاست کا قیام کبھی ممکن نہ ہوسکا۔ حقیقت یہ ہے کہ پُر امن معاشرہ ذہنی تربیت اور فکری انقلاب کے ذریعہ وجود میں لایا جاسکتا ہے، نہ کہ کسی عالمی حکومت کے مرکزی کنٹرول کے ذریعہ۔ مغرب کی نشأۃ ثانیہ کے بعد بہت سے مغربی مفکرین نے جنگ کے بغیر دنیا کا خواب دیکھا مگر یہ خواب پورا نہ ہوسکا۔
ڈَچ فلسفی اور ہیومنسٹ اریسمس (Erasmus) 1466 میں روٹرڈم میں پیدا ہوا اور 1536 میں اُس کی وفات ہوئی۔ اُس کی تعلیم یہ تھی کہ انسانیت کا سب سے اونچا آئیڈیل امن اور انسانی اتحاد ہے:
He taught that the highest ideal of mankind would be peace and concord. (13/849)
اس میں کوئی شک نہیں کہ عملی اعتبار سے امن تمام مطلوب چیزوں میں سب سے بڑا مطلوب ہے۔ اس لیے کہ کسی بھی مثبت یا تعمیری کام کے لیے انسانی آبادی میں امن کا ماحول ہونا ضروری ہے۔ امن کے بغیر کسی بھی قسم کی کوئی ترقی نہیں ہوسکتی۔
عام طورپر یہ سمجھا جاتا ہے کہ امن کے قیام کے سلسلہ میں مذہب کی زیادہ اہمیت نہیں۔ اُن کے نزدیک تاریخ یہ بتاتی ہے کہ مذہب کے ذریعہ امن کبھی قائم نہ ہوسکا:
Efforts to confirm a lasting peace through religious sanctions have had little effect. (13/846)
راقم الحروف کو اس نظریہ سے اتفاق نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ نظریہ ایک ناقص مطالعہ کی بنیاد پر قائم کیا گیاہے۔ یہ حضرات جب قیامِ امن کے سوال پر غور کرتے ہیں تو وہ اسلام کو حذف کرکے صرف دوسرے مذاہب کے مطالعہ کی بنیاد پر رائے قائم کرتے ہیں۔ کیوں کہ غلط طورپر یہ بات مشہور ہوگئی ہے کہ اسلام تشدد کا مذہب ہے۔ حالانکہ امر واقعہ یہ ہے کہ اسلام پورے معنٰی میں امن کا مذہب ہے۔ اسلام نے پہلی بار عملی طورپر امن کا نظام قائم کیا اور انسانیت کے لیے پُر امن زندگی کے بند راستے کھول دیے۔
یہاں اسلام سے میری مراد اسلام کا دور اوّل ہے جو اسلام کو سمجھنے کے لیے گویا نمائندہ حیثیت رکھتا ہے۔ اس دور میں اسلام کے زیر اثر دو بڑے واقعات ہوئے۔ (1) امن کے راستہ کی رکاوٹ کو ہمیشہ کے لیے ختم کردینا۔ (2) نظریاتی اور عملی دونوں اعتبار سے امن کا ایک کامل ماڈل قائم کرنا۔
یہ صحیح ہے کہ اسلام کے دور اول میں کچھ لڑائیاں نظر آتی ہیں۔ مگر ان لڑائیوں کا مقصد عین وہی تھا جس کو اہل علم ان الفاظ میں بیان کرتے رہے ہیں— آخری جنگ تمام جنگوں کو ختم کرنے کے لیے:
Last war to end all wars (13/851)
پیغمبر اسلام 570ء میں مکہ میں پیدا ہوئے۔ 632ء میں مدینہ میں آپ کی وفات ہوئی۔ جیساکہ معلوم ہے، اُس زمانہ میں دنیا میں شہنشاہیت کا نظام قائم تھا۔ یہ نظام ہزاروں سال سے چلا آرہا تھا۔ اس سیاسی نظام نے انسانی آزادی کا خاتمہ کردیا تھا۔ بادشاہ کی مرضی واحد فیصلہ کُن طاقت کی حیثیت رکھتی تھی۔
آزادی اور امن کے قیام کے لیے اس جبری نظام کاخاتمہ ضروری تھا۔ پیغمبر اسلام اور آپ کے اصحاب نے محدود مدت کے لیے طاقت کا استعمال کیا تا کہ اس نظام کو ختم کردیا جائے۔ یہ نظام اولاً عرب میں ختم کیا گیا۔ اُس کے بعد اُس زمانہ کے دو سب سے بڑے شہنشاہی نظام رومن ایمپائر اور ساسانی ایمپائر سے اُن کا ٹکراؤ پیش آیا۔ اس ٹکراؤ میں پیغمبر اسلام اور آپ کے اصحاب کو کامیابی حاصل ہوئی اور دونوں ایمپائر ہمیشہ کے لیے ختم ہوگئے۔
فرانس کے مؤرخ ہنری پرین(Henry Pyrenne) نے اس قدیم نظام کو مطلق شہنشاہیت (absolute imperialism) کا نام دیا ہے۔ اُس نے لکھا ہے کہ اہل اسلام اگر اس مطلق شہنشاہیت کو نہ توڑتے تو دنیا میں کبھی آزادی اور امن کا دور نہ آتا۔