سیاسی ٹکراؤ سے احتراز
دانش مند آدمی کی تعریف یہ کی گئی ہے کہ دانش مند انسان وہ ہے جو چیزوں کی اضافی حیثیت کو جانے:
A wise man is he who knows the relative value of things.
اس مقولہ کی روشنی میں دیکھا جائے تویہ کہنا پڑے گا کہ شاید کشمیر کے رہنماؤں میں کوئی بھی شخص نہیں جس کو اس مقولہ کے مطابق، دانش مند کہا جا سکے۔ چنانچہ انہوں نے اپنے اقدام کو جانا مگر انہوں نے اپنے اقدام کے نتیجہ کو نہیں جانا۔
اس معاملہ کو قرآن کی ایک آیت کی روشنی میں سمجھیے۔ قرآن میں بتایا گیا ہے کہ سلیمان علیہ السلام نے جب ملکہ ٔ سبا کے نام اپنا خط بھیجا اور اس سے اطاعت کا مطالبہ کیا تو اس نے اپنے درباریوں سے مشورہ کیا۔ درباریوں نے کہا کہ ہمارے پاس فوجی طاقت ہے پھر ہم کیوں کسی غیر کی اطاعت قبول کریں۔ اس کا جواب جو ملکہ ٔ سبا نے دیا وہ قرآن میں اس طرح بیان ہوا ہے:
ملکۂ سبا نے کہا کہ بادشاہ لوگ جب کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو وہ اس کو خراب کردیتے ہیں اور اس کے عزت والوں کو ذلیل کردیتے ہیں۔ اور یہی یہ لوگ کریںگے۔ (النمل، 27:34)
قرآن میں یہ واقعہ جو نقل کیا گیا ہے، اس سے ایک نہایت اہم حقیقت معلوم ہوتی ہے۔ وہ یہ کہ طاقتور حکمراں سے ٹکراؤ کرتے ہوئے یہ سوچنا چاہیے کہ اس کا نتیجہ کیا ہوگا۔ نتیجہ اگر منفی نکلتا ہو تو اعراض کیا جائے گا نہ کہ ٹکراؤ۔ تجربہ بتاتا ہے کہ طاقتور حکمراں سے ٹکراؤ کا نتیجہ ہمیشہ الٹی صورت میں نکلتا ہے ۔ اس کے نتیجہ میں آبادیاں تباہ ہوتی ہیں اور عزت والے لوگوں کو ذلت کا سامنا کرناپڑتا ہے۔ سیاسی ٹکراؤ کا یہ تباہ کن نتیجہ ہمیشہ ظاہر ہوتا ہے، خواہ حکمراں کوئی بھی ہو، اور خواہ وہ کوئی صالح انسان کیوں نہ ہو۔
طاقتور حکمراں سے ٹکراؤ ہر حال میں اس قابل ہے کہ اس سے بچا جائے۔ اگر کچھ لوگ اس نصیحت کی پروا نہ کریں اور وہ طاقتور حکمراں سے براہِ راست ٹکرا جائیں تو اس کے بعد ان کے لیے جان و مال کی تباہی کی شکایت کرنا لاحاصل ہے۔ انہیں جاننا چاہیے کہ جو تباہی انہیں پیش آرہی ہے وہ در اصل ٹکراؤ کی قیمت ہے۔ جو لوگ اقتدار کے خلاف مسلّح ٹکراؤ کی پالیسی اختیار کریں ان کو بہرحال یہ قیمت دینی پڑے گی۔ اس دنیا میں یہ ممکن نہیں کہ غلطی کوئی ایک گروہ کرے اوراس کی قیمت کسی اور گروہ کی طرف سے ادا کی جائے۔
کشمیری لیڈروں اور پاکستانی لیڈروں کی طرف سے اکثر ایسے مضامین چھپتے ہیں جن کا عنوان ہوتا ہے زخمی کشمیر(Wounded Kashmir) یا زخمی وادی (Wounded Valley)، وغیرہ۔ ان مضامین میں بتایا جاتا ہے کہ انڈیا کی فوج کس طرح کشمیر کے لوگوں پر ظلم کر رہی ہے۔ اس قسم کی رپورٹیں ساری دنیا میں ہزاروں کی تعداد میں چھاپ کر شائع کی گئی ہیں۔ مگر عملاً ان کا کوئی بھی مثبت فائدہ نہیں۔ اس قسم کی تمام رپورٹیں بے فائدہ چیخ وپکار بن کر رہ گئی ہیں۔
فریاد و احتجاج کی اس بے اثری کی شکایت کشمیریوں کو کسی اور سے کرنے کے بجائے خود اپنے آپ سے کرنا چاہیے۔ ان کشمیریوں کے لیے ملکہ ٔ سبا کے مذکورہ واقعہ میں بہت بڑا سبق ہے۔ ملکہ ٔ سبا نے یہ حکیمانہ پالیسی اختیار کی کہ فوجوں کے ظلم و ستم کی نوبت ہی نہ آئے۔ اس کے برعکس، کشمیریوں نے اپنی بے دانشی کے تحت فوجوں کو دعوت دی کہ وہ ان پر ٹوٹ پڑیں اور انہیں اپنے ظلم کا نشانہ بنائیں۔ کشمیریوں نے ’’آبیل مجھے مار‘‘ کا طریقہ اختیار کیا، اور ملکہ ٔ سبا نے بیل سے اعراض کا۔ یہی ایک جملہ میں کشمیر کی پوری کہانی کا خلاصہ ہے۔
کشمیر کے لوگ آج جس مسئلہ سے دوچار ہیں اس کے حل کا آغاز یہ ہے کہ وہ اس معاملہ میں اپنی غلطی کا اعتراف کریں اور قرآن میں بتائے ہوئے ملکہ ٔ سبا کے واقعہ سے سبق لے کر اپنی زندگی کی تعمیر کی ازسرِ نو منصوبہ بندی کریں۔ اس کے سوا اس مسئلہ کا اور کوئی حل نہیں۔