موجودہ زمانہ کی جہادی تحریکیں

موجودہ زمانہ میں  اسلامی جہاد کے نام سے بہت سے ملکوں کے مسلمان مسلّح جہاد کی تحریکیں چلا رہے ہیں۔ مگر کوئی تحریک محض اس بناپر جہاد کی تحریک نہیں ہوسکتی کہ اس کے   َعلم برداروں نے اس کو جہاد کا نام دے دیا ہو۔ کوئی عمل صرف اس وقت اسلامی جہاد قرار پاتا ہے جب کہ وہ اسلام کی مقرر کی ہوئی شرطوں پر پورا اترے۔ جہاد کی شرطوں کی تکمیل کے بغیرجو جہاد کیا جائے وہ عملاً جہاد نہیں ہوگا بلکہ فساد ہوگا۔ جو لوگ اس کام میں  مشغول ہوں وہ اپنے اس کام پر جہاد کا انعام نہیں پائیں گے بلکہ اللہ کی طرف سے وہ صرف سزا کے مستحق ہوں گے۔

جہاد بمعنیٰ قتال کی شرطیں کیا کیا ہیں، اس کو میں  اپنی کتابوں میں  تفصیل کے ساتھ لکھ چکا ہوں۔یہاں صرف ایک بات کا اظہار کرنا ضروری ہے۔ وہ یہ کہ جہاد بمعنیٰ قتال کی حیثیت نماز روزہ جیسے انفرادی عمل کی نہیں ہے بلکہ وہ ایک ایسا عمل ہے جس کا تعلق مکمل طورپر  ریاست سے ہے۔

جہاد (بمعنیٰ قتال ) کی یہ اصولی حیثیت قرآن وحدیث کی مختلف نصوص سے واضح طور پر معلوم ہوتی ہے۔ مثلاً قرآن میں  حکم دیا گیا ہے کہ دشمن کی طرف سے خوف کی صورت پیدا ہو تو اس کو لے کر خود سے اس کے خلاف کارروائی شروع نہ کردو بلکہ اس کو اولوا الأمر (ارباب حکومت) کی طرف لوٹاؤ، تاکہ وہ معاملہ کی صحیح نوعیت کو سمجھیں اور اس کے بارے میں  صحیح اور ضروری اقدام کریں (النساء 83)۔ یہ آیت بتاتی ہے کہ خوف (جنگی صورت حال ) پیش آنے کی صورت میں  عوام کے لیے خود سے اقدام کرنا جائز نہیں۔ وہ صرف یہ کر سکتے ہیں کہ معاملہ کو حاکم کے حوالہ کردیں اور حاکم کی طرف سے جو اقدام کیا جائے اس میں  اس کا ساتھ دیں۔

اسی طرح حدیث میں  آیا ہے :انما الامام جنۃ، یقاتل من ورائہ و یتقی بہ (صحيح البخاري، حديث نمبر 2957) یعنی بلاشبہ امام ڈھال ہے، قتال اس کی ماتحتی میں  کیا جاتا ہے اور اس کے ذریعہ حفاظت حاصل کی جاتی ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ جنگی دفاع ہمیشہ حاکم کی قیادت میں کیا جائے گا۔ عام مسلمانوں کا فرض صرف یہ ہوگا کہ وہ اپنے حاکم کی اتباع کریں اور اس کا ساتھ دے کر حکومت کے منصوبہ کو کامیاب بنائیں۔

فقہ میں یہ مسئلہ ایک متفق علیہ مسئلہ ہے جس میں غالباً کسی قابلِ ذکر عالم کا اختلاف نہیں۔ چنانچہ فقہاء کے متفقہ مسلک کے مطابق، جنگ کا اعلان صرف ایک قائم شدہ حکومت ہی کرسکتی ہے، غیر حکومتی عوام کو اس قسم کا اعلان کرنے کا حق نہیں۔ اسی لیے فقہ میں یہ مسئلہ ہے کہ: الرحیل للإمام (جنگ کا اعلان کرنا صرف حاکم وقت کا کام ہے)۔

اصل یہ ہے کہ جنگ ایک انتہائی منظم عمل کا نام ہے۔ اس قسم کا منظم عمل صرف با اختیار حکومت ہی کرسکتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جنگی اقدام صرف حکومت کے لیے جائز ہے، عوام کے لیے جنگی اقدام کرنا سرے سے جائز ہی نہیں۔

موجودہ زمانہ میں مختلف مقامات پر مسلمان جہاد کے نام پر حکومتوں سے پُر تشدد ٹکراؤ چھیڑے ہوئے ہیں۔ مگر تقریباً بلا استثنا ان میں سے ہر ایک کی حیثیت فسادکی ہے، نہ کہ اسلامی جہاد کی۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اُن میں سے کوئی بھی ’’جہاد‘‘ کسی حکومت کی طرف سے جاری نہیں کیا گیا ہے۔

آج کل کی زبان میں ان میں سے ہر ایک جہاد غیر حکومتی تنظیموں (NGOs) کی طرف سے شروع کیا گیا اور انہی کی طرف سے ان کو چلایا جارہا ہے۔ اگر ان میں سے کسی جہادی سرگرمی کو بالفرض کسی مسلم حکومت کا تعاون حاصل ہے تو یہ تعاون بلا اعلان صرف خفیہ انداز میں کیا جارہا ہے، اور شریعت کے مطابق کسی مسلم حکومت کو بھی جہاد کاحق صرف اس وقت ہے جب کہ وہ باقاعدہ طورپر اس کا اعلان کرے (الأنفال، 8:58) ۔ اعلان کے بغیر کسی مسلم حکومت کے لیے بھی قتال کرناجائزنہیں۔

موجودہ زمانہ میں مختلف علاقوں میں مسلمانوں کی طرف سے جہاد کے نام پر جو سرگرمیاں جاری ہیں، آج کل کی زبان میں وہ دو قسم کی ہیں۔ یا تو اس کی حیثیت گوریلا وار  (gorilla war) کی ہے ، یا پراکسی وار(proxy war) کی۔ اور یہ دونوں ہی قسم کی جنگیں یقینی طورپر اسلام میں ناجائز ہیں۔ گوریلا وار اس لیے ناجائز ہے کہ وہ غیر حکومتی تنظیموں کی طرف سے چلائی جاتی ہے، نہ کہ کسی قائم شدہ حکومت کی طرف سے۔ اور پراکسی وار اس لیے ناجائز ہے کہ کوئی حکومت اس کو بلا اعلان جاری کرواتی ہے، اور اعلان کے بغیر جنگ اسلام میں جائز نہیں۔

Maulana Wahiduddin Khan
Book :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom