ایک مطالعہ

صلح حد یبیہ (7ھ ) کے بعد جب حالات معتد ل ہوئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ کے باہر مختلف علاقوں میں تبلیغی دستے روانہ فرمائے۔ انھیں میں سے ایک تبلیغی دستہ وہ تھا جو مدینہ کے شمال میں شام کی سرحد سے ملے ہوئے علاقہ کی طرف بھیجا گیا۔ یہاں عیسائی قبائل آباد تھے اور وه رومی ( بازنطینی) حکومت کے ماتحت تھے ۔

اس تبلیغی وفد میں پندرہ آدمی تھے اور ان کے سردار کعب بن عمیر الغفاری تھے ۔ وہ شام کے قریب ذات اطلاح میں پہنچے۔ وہاں انھوں نے دیکھا کہ ایک مقام پر کافی لوگ جمع ہیں۔ انھوں نے ان کو اسلام کی دعوت دی ۔ مگر انھوں نے ان کی پکار پر لبیک نہیں کہا ۔ بلکہ ان پر تیر برسانے لگے (فَدَعَوْهُمْ إلَى الْإِسْلَامِ فَلَمْ يَسْتَجِيبُوا لَهُمْ وَرَشَقُوهُمْ بِالنّبْل)مغازی الواقدی، جلد2، صفحہ753۔

 اس یک طرف حملہ میں بارہ مسلمان شہید ہوگئے ۔ صرف ایک آدمی زخمی حالت میں مدینہ واپس آیا۔ شامی سرحد پر بسنے والے ان عیسایئوں کا حملہ ، بالواسطہ طور پر رومی سلطنت کا حملہ تھا ۔ اس طرح رومی سلطنت نے سب سے پہلے اسلام کے خلاف اپنی جارحیت کا آغاز کیا۔

 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے الحارث بن عمیرالازدی کو ایک دعوتی مکتوب لے کر حاکم بُصریٰ کی طرف روانہ کیا، جب وہ موتہ (شام) میں پہنچے توان کی ملاقات شُرحبِیل ابن عمر و الغسانی سے ہوئی ۔ اس نے ان سے پو چھا کہ تم کہاں جا رہے ہو۔ انھوں نے کہا کہ حاکم بُصریٰ کے پاس ۔ اس نے کہا ، شایدتم محمد کے فرستادہ ہو۔ انھوں نے کہا ہاں۔ اس کے بعد اس نے اپنے آدمیوں کو حکم دیا اور انھوں نے الحارث بن عمیرکو تلوارمارکرقتل کر دیا۔ کہا جاتاہےکہ اس نے یہ قتل حاکم بُصریٰ کے اشارہ پرکیاتھا (الرسول فی المدینۃ، صفحہ 229)۔

شرحبیل بن عمرد الغسانی عیسائی تھا اور وہ رومی حکومت کا ایک افسر تھا۔ اس کا یہ فعل بین اقوامی روایت کے مطابق ، اقدام جنگ کے ہم معنی تھا۔ اس نے آپ نے تین ہزار افراد کا ایک لشکر تیار کیا اور جمادی الاولی 8ھ میں اس کو مؤتہ (شام) کی طرف روانہ فرمایا۔

شرحبیل کوجب مسلم لشکر کی روانگی کا علم ہوا تو اس نے ایک لاکھ آدمیوں کالشکر مسلمانوں کے مقابلہ کے لیے جمع کیا۔ اس کے ساتھ خودشاہ ہرقل ایک لاکھ فوج لے کر شرحبیل کی مدد کے لیےبلقاء کے مقام پر پہنچا۔ تین ہزار اور دو لاکھ کا تنا سب بہت زیادہ غیر مساوی تھا۔ یہ مقابلہ فیصلہ کن نہ بن سکا، تاہم مسلمانوں نے اتنی بہادری کے ساتھ مقابلہ کیا کہ رومیوں کے اوپرمسلمانوں کی فوجی صلاحیت کارعب قائم ہوگیا۔

مستشرق واشنگٹن ارونگ (Washington Irving) نے پیغمبراسلام کی زندگی پر ایک تحقیقی کتاب لکھی ہے ۔ اس کا اقتباس دکتورعلی حسنی الخربوطلی نے اپنی کتاب " الرسول فی المدینہ" میں نقل کیا ہے۔ واشنگٹن ارونگ نے لکھا ہے کہ عرب میں اسلام کی اشاعت سے جب عرب کے بکھرے ہوئے قبائل متحد ہوگئے توشہنشاہ ہرقل کو یہ عرب اتحاد اپنے لیے خطرہ محسوس ہوا۔ اس نے طے کی کہ ایک بڑالشکر تیار کرے،  اور اپنے اس "امکانی دشمن" پر حملہ کر کے اس کو کچل ڈالےچنانچہ اس نے عرب کی سرحد پر اپنی فو میں جمع کر نا شروع کر دیا۔ (صفحه 232)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بر ابر اطراف کے حالات معلوم کرتے رہتے تھے۔ چنانچہ جب آپ کو معلوم ہواکہ ہرقل نے سرحدِ عرب پر فوجیں جمع کی ہیں تاکہ عرب پر حملہ کر کے اسلام کازورتوڑ دے تو آپ نے فور اًجوابی کارروائی کا فیصلہ کیا۔ اس کے بعد وہ مہم پیش آئی جس کو غزوۂ تبوک کہا جاتا ہے۔

 آپ نے مسلسل وعظ و تلقین کے ذریعہ مسلمانوں میں یہ جذبہ پید اکیا کہ ز یا دہ سے زیادہ لوگ اس مہم کے لیے نکلیں ۔ چنانچہ سخت حالات کے با وجود 30 ہزار آدمیوں کالشکر اس مہم کے لیے تیار ہو گیا۔ اس سلسلہ میں جو روایتیں آئی ہیں، ان میں ایک واقعہ یہ ہے:

وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَلَّ مَا يَخْرُجُ فِي غَزْوَةٍ إِلَّا كَنَّى عَنْهَا إِلَّا مَا كَانَ مِنْ غَزْوَةِ تَبُوكَ فَإِنَّهُ بَيَّنَهَا لِلنَّاسِ ... فَأَمَرَهُمْ بِالْجِهَادِ وَأَخْبَرَهُمْ أَنَّهُ يُرِيدُ الرُّومَ (البدایۃ و النہایۃ، جلد5، صفحہ 3)۔ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی غزوہ کے لیے نكلتے تو زیادہ تر آپ اشارہ اورکنایہ سے کام لیتےمگرغزوہ تبوک میں آپ نے اس سے مختلف طریقہ اختیار فرمایا۔ اس کی بارے میں آپ نے صاف طور پرلوگوں کے سامنے اعلان کیا ۔ آپ نے انھیں جہادکا حکم دیا اور ان کو اس بات کی خبردی کہ آپ کا قصد روم کی طرف ہے ۔

غزوۂ تبوک اسلامی تاریخ کا ایک اہم واقعہ ہے ۔ اس کے بارے میں بہت سی تفصیلات سیرت اور تاریخ کی کتابوں میں آئی ہیں ۔ اس واقعہ کا مطالع کیجیے تو اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریق جنگ کے بارے میں نہایت اہم اصول سامنے آتے ہیں ۔ ان میں سے دو اصول یہ ہیں :

 1۔ ایک یہ کہ تبوک کی مہم کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فوجی اقدام بطوردفاع تھا، وہ جار حانہ اقدام کے طور پر نہ تھا۔ اس سے معلوم ہواکہ اسلام میں جارحانہ جنگ نہیں ہے، اسلام میں جنگی اقدام صرف اس وقت کیا جاتا ہے، جب کہ بطور دفاع ایسااقدام کر نا ضروری ہوگیا ہو۔

 2۔ دوسری بات یہ ہے کہ دفاعی اقدام میں بھی ٹکر اؤ لازمی طور پر ضروری نہیں ہے ۔ اگر اس کا امکان ہو کہ طاقت کے مظاہرے سے یہ فائدہ ہو سکتا ہے کہ دشمن پیچھے ہٹ جائے اور اپنے جار حانہ ارا دہ سے باز آ جائے تو اپنے اقدام کو "مظاہرہ" کی حد میں رکھا جائے گا، اس کو لاز ماً جنگی ٹکراؤ تک نہیں لے جا یا جائے گا۔

یہی مصلحت تھی جس کی بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی عام عادت کے خلاف غزوہ ٔتبوک کی تیاری پورے اعلان و اظہار کے ساتھ کی، اور روانگی میں ہی اخفاء کے بجائے اظہار کا طریقہ اختیارفرمایا۔ اس کا نتیجہ یہ ہو اکہ آپ کے سرحد شام پہنچنے سے پہلے رومیوں تک یہ خبر پہنچ گئی کہ پیغمبراسلام 30ہزار جاں بازوں کے ساتھ تمہاری طرف بڑھ رہے ہیں۔

اس مظاہرہ کا متوقع فائدہ حاصل ہوا۔ رومی حکمراں نے مرعوب ہو کر اپنی فوجوں کو پیچھے لوٹنےکاحکم دے دیا۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رومی فوجوں کی پسپائی کا علم ہوا تو آپ بھی مزیداقدام سے رک گئے (الرسول فی المدینہ ، صفحہ 234) ۔

اسلام کی عام پالیسی ہی ہے کہ حتی الا مکان جنگ سے اعراض کیا جائے ۔ یہ پالیسی اسلام کے اصل مقصد و مدعا کے عین مطابق ہے ۔ کیوں کہ اسلام کا مقصد لوگوں کو جہنم کے راستہ سے ہٹاکر جنت کے راستے پر ڈالنا ہے، نہ یہ کہ وہ جاہلیت کی جس زندگی میں ہیں ، وہیں مارکر انھیں ختم کر دیا جائے ۔

ایک تاجر کی نگاہ آدمی کی جیب پر ہوتی ہے ۔ ایک جنگ با زکی نگاہ آدمی کی گردن پر ۔ اس برعکس، اسلام کی نگاہ آدمی کے دل پر ہوتی ہے ۔ اسلام کا مقصد لوگوں کے دلوں کو بدلنا ہے تاکہ وہ اپنے رب کی رحمتوں میں حصہ پاسکیں۔

 کوئی شخص خواہ دشمن ہو یا غیر مذ ہب سے تعلق رکھتا ہو ۔ ان سب سے پہلے وہ انسان ہے۔ اسلام چا ہتا ہے کہ ہم اس "انسان "تک پہنچیں، اور اس کے دل کے دروازہ پر دستک دیں۔ کیا عجب کہ اس کی فطری صلاحیت جاگ اٹھے، اور وہ دینِ حق کے دائرہ میں داخل ہو جائے۔

 اس کی مثال خودرومیوں کے قصہ میں موجود ہے ۔ عین اس زمانہ میں جب کہ رومیوں سے کش مکش چل رہی تھی ، اسی زمانہ میں رومیوں کی اعلی صف کے ایک آدمی نے اسلام قبول کر لیا۔یہ فروة بن عمرہ الجذامی (م12ھ) تھے ۔ وہ ایک عیسائی تھے اور بنو النافرۃ کے اوپر رومیوں کی طرف سے حاکم تھے ۔ بنوالنا فرۃ کے لوگ خلیج عقبہ اور ینبع کے درمیان رہتے تھے ۔جب اسلام کا ظہور ہوا اور اس کی خبریں عرب میں پھیلیں تو فروۃ اس سے متاثر ہو گئے۔آخر کا را نھوں نے اسلام قبول کرلیا۔

فردة الجذامی نے اپنے قبول اسلام کی اطلاع ایک قاصد کے ذریعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجی۔اور ہدیہ کے طور پہ ایک سفید خچر بھی آپ کے لیے روانہ کیا ۔ رومی حکمراں کو جب اس واقعہ کی اطلاع ہوئی تو انھوں نے فروۃ کو اپنے پاس بلاکر انھیں قید میں ڈال دیا ۔ اس کے بعد وہ فروۃ کوفلسطین میں عفراء نامی ایک چشمہ کے پاس لے گئے اور تلوار مار کر انھیں قتل کر دیا۔ رومی جب فروۃ کوقتل کے مقام پر لائے تو فروۃ نے یہ شعر کہا:

بَلِّغْ سَرَاةَ الْمُسْلِمِينَ بِأَنَّنِي          سَلْمٌ لِرَبِّي أَعْظُمِي وَمَقَامِي

مسلمانوں کے سردار کو یہ خبر پہنچادو کہ میری ہڈیاں اور میراپورا وجود میرے رب کے لیے ہے (سیرت ابن ہشام ، جلد2، صفحہ 591-92)۔

فروة بن عمرو اگر چہ قتل کر دئے گئے، مگر ایک اصول پر قائم رہنے کی بنا پرقتل کیا جا ناکوئی معمولی واقعہ نہیں ۔ایسا آدمی اپنے پورے وجودسے اس اصول کی صداقت کی گواہی دیتا ہے جس کی خاطراس نے اپنی جان دی ہے ۔جہاں لوگوں نے اپنے خود ساختہ نظریات کو با زار کی سیاہی سے لکھ رکھاہے ، وہاں وہ اپنے نظریہ کی صداقت کو اپنے خون کی سرخی سے تحریر کر تا ہے ۔ ایسی موت ہزاروں لوگوں کے لیے زندگی کا سبب ہوتی ہے. چنانچہ یہی ہوا ۔ دورِ اول کے مسلمانوں کی اس قسم کی قربانیوں نے ایک عیسائی علاقہ کو ابدی طور پر ایک مسلم علاقہ بنا دیا۔

Maulana Wahiduddin Khan
Book :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom