پُر امن طریق کار زیادہ بہتر

ایک روایت میں بتایا گیا ہے کہ معاملات میں پیغمبر اسلام کی پالیسی کیا تھی۔ اس روایت کے الفاظ یہ ہیں: مَا خُيِّرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَ أَمْرَيْنِ، إِلَّا اخْتَارَ أَيْسَرَهُمَا(صحيح البخاري، حديث نمبر 3560؛ صحيح مسلم، حديث نمبر 2327) یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب بھی کسی معاملہ میں دو میں سے ایک طریقہ کا انتخاب کرناہوتا توآپ ہمیشہ دونوں میں سے آسان ترکا انتخاب کرتے تھے۔

اختیار أیسر کے اس اصول کو اگر متشددانہ طریقِ کار اور پُر امن طریقِ کار کے اعتبار سے دیکھا جائے تو یہ کہنا صحیح ہوگا کہ پیغمبر کا طریقہ یہ تھا کہ جب کوئی معاملہ پیش آئے تو اُس سے نپٹنے کے لیے متشددانہ طریقِ کار کو اختیار نہ کیا جائے بلکہ پُر امن طریقِ کار کواختیار کیا جائے۔ کیوں کہ متشددانہ طریقِ کار یقینی طورپر مشکل ہے اور پُر امن طریقِ کار یقینی طورپر آسان۔

تاہم یہ سادہ طورپر صرف آسان اور مشکل کا معاملہ نہیں۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ معاملات میں پُر امن طریقہ ہمیشہ نتیجہ خیز ہوتا ہے اور متشددانہ طریقہ یقینی طورپر بے نتیجہ ہے۔ وہ مسئلہ کو حل نہیںکرتا البتہ اُس میں کچھ اور اضافہ کر کے اُس کو مزید پیچیدہ بنادیتا ہے۔ حدیث میں مشکل طریقہ سے مراد وہ طریقہ ہے جس کے ذریعہ مقصد کا حصول مشکل ہو۔ اس کے مقابلہ میں آسان سے مراد وہ طریقہ ہے جس کے ذریعہ مقصد کا حصول آسان اور یقینی ہو۔

Maulana Wahiduddin Khan
Book :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom