جنگ کے بغیر فتح
پیغمبر اسلام کی زندگی میں ایک واقعہ وہ ہے جس کو صلح حدیبیہ (628ء ) کہاجاتاہے۔ پیغمبراسلام اس وقت مدینہ میں تھے اور مکہ اہل شرک کے قبضہ میں تھا جو اس وقت آپ سے برسرِ جنگ تھے۔ پیغمبر اسلام نے عمرہ کی عبادت کے لیے مکہ جانا چاہا کیوں کہ کعبہ مکہ میں ہے، اس بنا پر عمرہ کی عبادت مکہ ہی میں ادا کی جاتی ہے۔ آپ کا یہ سفر خالص عبادتی سفر تھا۔ مگر مکہ والوں نے اس کو اپنے لیے عزت (prestige) کا سوال بنا لیا۔ انہوں نے آپ کو مکہ سے باہر حدیبیہ کے مقام پر روک دیا اور کہا کہ آپ یہاں سے واپس جائیں۔ یہ بحث یہاں تک بڑھی کہ جنگ کی صورت حال پیدا ہوگئی۔ اس وقت پیغمبر اسلام کے ساـتھ چودہ سو مسلمان تھے۔ اگر یہ لوگ اس پر اصرار کرتے کہ وہ مکہ میں داخل ہو کر عمرہ کریں گے تو یقینی طورپر دونوں فریقوں کے درمیان جنگ چھڑ جاتی۔ مگر پیغمبر اسلام نے مشرکین کے مطالبہ کو مان لیا اور دس سال کا امن معاہدہ کرکے حدیبیہ سے مدینہ واپس آگئے۔
معاہدۂ حدیبیہ بظاہر مقابلہ کے میدان سے واپسی کا معاہدہ تھا۔ مگر جب یہ معاہدہ ہوگیا تو قرآن میں اس کو اہل اسلام کے حق میں فتح مبین (الفتح، 48:1) قرار دیا گیا۔ اُس وقت کے حالات میں اس کا مطلب یہ تھا کہ تم لوگوں نے اپنے حریف سے جنگ نہ کر کے ان کے اوپر فتح حاصل کر لی۔
اس کا مطلب کیا تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ جنگ سے اعراض کرکے اور امن کا معاہدہ کرکے اہل اسلام کو یہ موقع(opportunity) حاصل ہوگیا کہ وہ اپنی طاقتوں کو جنگ میں ضائع ہونے سے بچائیں اور اس کو مکمل طورپر تعمیر اور استحکام میں لگائیں۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ تاریخ بتاتی ہے کہ حدیبیہ کے معاہدۂ امن کے بعد دو سال کے اندر اہل اسلام نے اپنے آپ کو اتنا مستحکم بنا لیا کہ وہ اس حیثیت میں ہوگئے کہ کسی باقاعدہ لڑائی کے بغیر صرف پُر امن تدبیر کے ذریعہ مکہ پر فتح حاصل کر لیں۔ ’’جنگ کے بغیر فتح‘‘ کا یہ اصول بلاشبہ اسلام کا ایک نہایت اہم اصول ہے۔ یہ اصول فطرت کے اٹل نظام پر قائم ہے۔ وہ افراد اور گروہوں کے لیے بھی اتنا ہی مفید ہے جتنا کہ حکومتوں کے لیے۔ اس اصول کو ایک جملہ میں اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے—ٹکراؤ سے اعراض کرو اور مواقع کو استعمال کرو۔
Avoid the confrontation, and avail the opportunities.