شکایت کو فوراً ختم کرنا
شکایتی مزاج ایک قاتلانہ مزاج ہے۔ شکایتی مزاج آدمی کے اندر منفی سوچ پیدا کرتا ہے۔ وہ آدمی کو مثبت سوچ سے محروم کردیتا ہے۔ اور اس قسم کا مزاج بلاشبہ تمام برائیوں کی جڑ ہے۔ اکثر تشددکے پیچھے شکایتی مزاج ہی کام کرتاہوا نظر آتاہے۔
موجودہ دنیا کا تخلیقی نظام کچھ اس طرح بنا ہے کہ یہاں لازماً ایک کودوسرے سے شکایت پیدا ہوتی رہتی ہے۔ ایسے موقع پر کرنے کا کام یہ ہے کہ شکایت کا خیال آتے ہی فوراً اُس کو اپنے دماغ سے نکال دیا جائے۔ شکایت جب پیدا ہوتی ہے تو پہلے وہ آدمی کے شعوری ذہن (conscious mind) میں ہوتی ہے۔ اگر اُس کو یاد رکھا جائے یا بار بار دہرایا جائے تو وہ دھیرے دھیرے آدمی کے غیرشعوری ذہن (unconscious mind) میں چلی جاتی ہے۔ اوراس طرح بیٹھ جاتی ہے کہ اس کے بعد کسی طرح اُس کو نکالا نہیں جاسکتا۔
ایسی حالت میں عقل مندی یہ ہے کہ شکایت کے معاملہ میں وہ ’’گُربہ کشتن روز اول‘‘ کا معاملہ کیا جائے۔ شکایت پیدا ہوتے ہی اس کو فوراً ختم کر دیا جائے۔ اگر پہلے ہی مرحلہ میں اُس کو ختم نہ کیا جائے تو دھیرے دھیرے وہ آدمی کی نفسیات کا مستقل جزء بن جائے گی۔ اس کے بعد آدمی کی سوچ منفی سوچ بن جائے گی۔ وہ دوسروں کو اپنا دشمن سمجھ لے گا۔اگر موقع ہو تو وہ دوسروں کے خلاف تشدد پر اُتر آئے گا۔ یہاں تک کہ وہ زیر شکایت لوگوں سے عملی ٹکراؤ شروع کردے گیا، خواہ اس کا نتیجہ برعکس صورت میں کیوں نہ ظاہر ہو۔
شکایت کو پہلے ہی مرحلہ میں ختم کرنے کا فارمولا کیا ہے، وہ فارمولا قرآن کے الفاظ میں یہ ہے:وَمَا أَصَابَكُمْ مِنْ مُصِيبَةٍ فَبِمَا كَسَبَتْ أَيْدِيكُمْ(42:30) یعنی جو مصیبت بھی تم پر آتی ہے وہ تمہارے اپنے ہی ہاتھوں کی کمائی کا نتیجہ ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب بھی آپ کو دوسرے کے خلاف شکایت پیداہو تو فوراً آپ کویہ کرنا چاہیے کہ شکایت کا رُخ اپنی طرف کرلیں۔ معاملہ کی کوئی ایسی توجیہہ ڈھونڈیں جس میں قصور خود آپ کا نکلتاہو۔ جب آپ کو یہ احساس ہوگا کہ کوتاہی خود آپ کی ہے، نہ کہ کسی غیر کی تو ایسی حالت میں یہ ہوگا کہ آپ اپنی کوتاہیوں کو دور کرنے میں لگ جائیں گے، نہ کہ کسی مفروضہ دشمن کے خلاف فریاد اور احتجاج میں وقت ضائع کریں گے۔