جنگ اسلام میں

بعض "مفکرین اسلام "کاکہنا ہے کہ اسلام میں جنگ کی دوقسمیں ہیں— مصلحانہ جنگ اور مدافعانہ جنگ۔ مگریہ بالکل بے بنیاد بات ہے۔ اس نظریہ کے لیے قرآن اور حدیث میں کوئی دلیل موجود نہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ اسلام میں صرف ایک جنگ ہے اور وہ مدافعانہ جنگ ہے ۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق ، مصلحانہ تحریک ہو تی ہے ، مصلحانہ جنگ نہیں ہوتی۔ مصلحانہ جنگ قرآن وسنت کے پورے ذخیرے میں ایک اجنبی چیز ہے ۔ اس کا ما خذشاعروں اورخطیبوں اور انشا پر دازوں کی طبع آزمائیاں ہیں، نہ کہ خد اکی کتاب اور اس کے رسول کی سنت۔ مشہور حدیث کے مطابق ہرقسم کی اصلاح کا مدار قلب پر ہے ۔ حدیث میں کہاگیا ہے کہ بس طرح جسمانی نظام میں قلب کی اصلاح سے پورے جس کی اصلاح ہوتی ہے (صحیح البخاری، حدیث نمبر 52)۔ وہی معاملہ دینی نظام کا بھی ہے۔ انسان کواصلاح یافتہ بنانے کی صورت یہ ہے کہ قلب یا ذ ہن کی سطح پر اس کے اندراصلاح لائی جائے ۔

اس حدیث کے مطابق مصلحانہ تحریک (نہ که مصلحانہ جنگ) کا اصول یہ ہے کہ ساری طاقت انسان کے فکر وشعو رکو بدلنے پر صرف کی جائے — دلائل کے ذریعہ آدمی کی سو چ کو بدلنا۔ جنت اور جہنم کی باتوں کے ذریعہ اس کے قلب میں نرمی پید اکرنا ، خد اکی نشا نیوں کی یادہانی کے ذریعہ اس کی ربانی فطرت کو جگانا۔ یہ ہے انسانی اصلاح کاطریقہ ۔ اس کو دوسرے لفظوں میں مصلحانہ تحریک بھی کہا جاسکتا ہے۔

جنگ کا مقصد ہمیشہ کسی خارجی رکاوٹ کو دور کر نا ہو تا ہے، نہ کہ انسان کے اندر باطنی کیفت پیدا کرنا۔ باطنی کیفیت یا باطنی شعور کا ذریعہ صرف وعظ و تلقین ہے، اس کا جنگ سے کوئی تعلق نہیں۔

 اسلام میں جنگ کی صرف ایک قسم ہے اور وہ دفاع (defence) ہے ۔ اگر کوئی کردہ اہل اسلام کے خلاف جارحیت کرے تو حسبِ استطاعت اس سے مقابلہ کیا جائے گا خواہ یہ مقا بلہ کھلی جنگ کی صورت میں ہو یاکسی اور صورت میں ۔ عام حالات میں اسلام کا طریقہ پرامن دعوت کا طریقہ ہے ، اور جارحیت کی صورت میں مسلح مقابلہ کا طریقہ ۔

Maulana Wahiduddin Khan
Book :
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom