اسلامی تحریک نہیں
کشمیر کے جنگجو مسلمان اپنی موجودہ جنگ کو اسلامی جہاد کہتے ہیں۔ یہ ایک سخت قسم کا مغالطہ ہے جس میں یہ حضرات مبتلا ہیں۔ اس معاملہ میں ہمارے لوگوں کی ناقابلِ فہم خاموشی نے ان کے اس یقین میں مزید اضافہ کیا ہے۔ کشمیر کی موجودہ جنگ یقینی طورپر جہاد نہیں۔ اس میں حصہ لینے والے کوہر گز جہاد کا انعام نہیں مل سکتا۔
جس طرح نماز کی شرطیں ہیں اسی طرح جہاد فی سبیل اللہ کی بھی شرطیں ہیں اور کشمیر کی لڑائی ان شرطوں پر پوری نہیں اترتی—جہاد کے لیے ایک باقاعدہ امیر ہونا چاہیے۔ جہاد کے لیے ایک بااختیارمسلم علاقہ بطور مرکز ہونا چاہیے۔ جہاد کے لیے پہلے ضروری تیاری ہونا چاہیے۔ جہاد ملک و مال کے لیے نہیں ہوتا بلکہ اعلاءِ کلمۃ اللہ کے لیے ہوتا ہے، وغیرہ۔ اور یہ ایک واقعہ ہے کہ کشمیر کی لڑائی ان میں سے کسی بھی شرط پر پوری نہیں اترتی۔ کشمیر کی موجودہ لڑائی کو یا تو گوریلا وار کہا جاسکتا ہے یا پراکسی وار۔ اور ان دونوں ہی قسم کی جنگوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ گوریلا وار اس لیے غیر اسلامی ہے کہ اسلام میں جہاد حاکم کا کام ہے، نہ کہ عوام کا کام۔ اور پراکسی وار اس لیے غیر اسلامی ہے کہ جو حکومت اس پراکسی وار کو چلارہی ہے اس نے اس کا اعلان نہیں کیا اور اسلامی جنگ کے لیے کھلا اعلان لازمی شرط ہے۔
اس حقیقت کو سامنے رکھا جائے تو کشمیر کی موجودہ ناکام جنگ کشمیریوں کو یہ پیغام دے رہی ہے کہ ایک لمحہ کی تاخیر کے بغیر تم اپنی لڑائی کو بندکردو۔ اس لیے کہ اس لڑائی میں تمہارے لیے دنیا کی تباہی بھی ہے اورآخرت کی تباہی بھی۔ دنیا کی تباہی اس لیے کہ تم ضروری تیاری کے بغیر لڑ رہے ہو۔ اور آخرت کی تباہی اس لیے کہ تم جہاد کے نام سے ایک ایسی لڑائی لڑ رہے ہو جو اسلامی اصول کے مطابق جہاد ہی نہیں۔
سیاسی آزادی کی تحریک کوئی اسلامی تحریک نہیں، وہ سر تاسر ایک قومی تحریک ہے۔ ایسی کوئی تحریک اگر قومیت کے نام پر چلائی جائے تو اس میں بظاہر کوئی حرج نہیں لیکن اگر ایسی کوئی تحریک اسلامی جہاد کے نام پر چلائی جائے تو یقینی طورپر وہ ایک غلط تحریک بن جائے گی۔
پیغمبروں میں سے کسی بھی پیغمبر نے ملکی آزادی یا سیاسی آزادی کے نام پر کوئی تحریک نہیں چلائی۔ حالانکہ اکثر پیغمبروں کے زمانہ میں عین وہی حالات موجود تھے جن میں سیاسی لیڈر آزادی ٔ وطن کی تحریک چلایا کرتے ہیں۔ مثلاً حضرت یوسف علیہ السلام کے زمانہ میں ایک مشرک اور غیر ملکی خاندان مصر کے اوپر حکمراں تھا۔ مگر حضرت یوسف نے مذکورہ قسم کی سیاسی تحریک ملک میں نہیں اٹھائی۔ حضرت یوسف کے بعد اس طرح کی تحریک ملک میں اٹھی مگر وہ ملک کے قومی لیڈروں نے چلائی تھی، نہ کہ حضرت یوسف یا ان کے ساتھیوں نے۔
کشمیر کے مسلمان اگر اپنی جدوجہد کو اسلامی بنانا چاہتے ہیں تو ان پر لازم ہے کہ سب سے پہلے وہ اپنی جد وجہد کی موجودہ صورت کو ختم کریں۔ وہ اس روش سے بازآئیں کہ انہوں نے سراسر ایک قومی تحریک چلائی اوراس کے اوپر اسلام کا لیبل لگا دیا۔ اس قسم کی تحریک کو کبھی اللہ کی نصرت نہیں مل سکتی۔
کشمیر کے مسلمان اکثر یہ کہتے ہوئے سنائی دیتے ہیں کہ ہم تو دو پاٹوں کے درمیان پس رہے ہیں۔ ایک طرف انڈین فوج اور دوسری طرف جنگجو۔ پھر اس پر اضافہ کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ اصل یہ ہے کہ پہلے جب یہ کشمیری جہاد شروع ہوا تو اس میں اچھے لوگ موجود تھے مگر اب کشمیر کی لڑائی برے لوگوں کے ہاتھ میں آگئی ہے۔
یہ ایک سخت قسم کا مغالطہ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ گوریلا وار کا انجام ہمیشہ اور ہر جگہ یہی ہوتا ہے۔ گوریلا وار پہلے بظاہر اچھے لوگ شروع کرتے ہیں مگربعد کو اس میں برے لوگ شامل ہو جاتے ہیں۔ اس لیے کہ اس میں شامل ہو کر انہیں اسلامی جہاد یا وطنی آزادی کا شلٹر(shelter) مل جاتا ہے جس کے زیر سایہ وہ اپنی لوٹ مار کو جائز بتا کرجاری رکھ سکیں۔
مذکورہ قسم کا عذر کشمیریوں کے لیے کوئی کام آنے والا نہیں۔ انہیں یہ اعتراف کرنا چاہیے کہ گوریلا وار شروع کرنا اول دن ہی سے ایک غلطی تھی۔ اس طرح کے حالات میں اپنی غلطی کا اعتراف کرنا پہلا قدم ہوتا ہے، نہ کہ دوسرے کو ذمہ دار ٹھہرانا۔