اسلامی جہاد
اگر ایک شخص میدان میں کھڑا ہو کر اپنے ہاتھ پاؤں ہلائے یا اٹھ بیٹھ کرے اور کہے کہ میں نماز پڑھ رہا ہوں تو اس کے کہنے سے اس کا یہ فعل نماز نہیں بن جائے گا۔ نماز کی کچھ متعین شرطیں ہیں۔ ان شرطوں کے ساتھ جو عمل کیا جائے وہ نماز ہے ،ورنہ وہ نماز نہیں۔
یہی معاملہ اسلامی جہاد کا ہے ۔ جہاد کی کچھ متعین شرطیں ہیں۔ان شرطوں کی پابندی کے ساتھ جو عمل کیا جائے وہ اللہ کے نزدیک جہاد ہو گا۔ اور جس عمل میں یہ شر طیں نہ پائی جائیں وہ بے معنی ہنگامہ آرائی ہے، نہ کہ حقیقی معنوں میں جہاد۔
اسلامی جہاد وہ ہے جو اللہ کے راستہ میں کیا جائے۔ ملک یا مال جیسی دنیوی چیزوں کے لیے لڑائی چھیڑ نا اور اس کو جہاد بتانا صرف فساد ہے۔ ایسے لوگوں کو کسی بھی حال میں اسلامی جہاد کا کریڈٹ نہیں دیا جاسکتا۔ اسی طرح اسلامی شریعت کے مطابق کسی کے خلاف جنگ کا اعلان باقاعدہ طور پر قائم شدہ حکومت ہی کر سکتی ہے ۔ افراد کو یہ اجازت نہیں کہ وہ بطور خود جہاد کے نام پر کسی کے خلاف لڑائی چھیڑ دیں۔افراد کو خواہ کوئی بھی شکایت ہو مگر انھیں لا زم پر امن دائرہ میں کام کرنا ہے ۔ جنگ اور تشد د کا طریقہ اختیار کر ناان کے لیے کسی بھی حال میں جائز نہیں۔ اسی طرح جہاد (بمعنی قتال) مکمل طور پر ایک دفاعی عمل ہے۔ جارحانہ قتال اسلام میں قطعاً جائز نہیں۔ مزید یہ کہ اگر کوئی قوم جارحانہ حملہ کرے تب بھی پہلے جنگ کو ٹالنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے گی۔ جنگ صرف اس وقت کی جائے گی جب کہ اس کو ٹالنے یا اعراض کر نے کی ساری کو ششیں ناکام ہو چکی ہوں۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالفین نے ان کو 80 سے زیادہ بار جنگ اور ٹکر اؤ میں الجھانا چاہا مگر ہر بار آپ نے حسنِ تد بیر سے جنگ کو ٹال دیا۔ صرف تین بار ، بدراور احد اور حنین کے مواقع پر آپ عملی طور پر جنگ میں شریک ہوئے جبکہ جنگ کے بغیر کوئی چارہ ہی باقی نہیں رہ گیا تھا۔
اس طرح خود حکومت کے لیے بھی جنگ کر ناصرف اس وقت جائز ہو گا جب کہ اس نے جنگ کی ضروری تیاری کر لی ہو۔ ضروری تیاری کے بغیر جنگ میں کود نا خود کشی ہے، نہ کہ اسلامی معنوں میں کوئی جہاد۔ اسلام میں صرف نتیجہ خیز اقدام کی اجازت ہے۔ جس اقدام کا کوئی مثبت نتیجہ نہ نکلے وہ اپنی حقیقت کے اعتبار سے خود کشی کی ایک چھلانگ ہے، نہ کہ کوئی اسلامی یاد ینی عمل۔ اسلام میں جائز جنگ بھی ایک کھلے عمل کا نام ہے ، خفیہ انداز کی جنگی کاروائی کر تا اسلام میں ہر گز جائز نہیں۔ اس اصول کی بنا پر پراکسی وار (proxy war) اسلام میں نا جائز قرار پاتی ہے۔ کیوں کہ پراکسی وار میں ملوث حکومت خفیہ مدد کے ذریعہ کسی اور گروہ سے تشد د کی کاروائی کراتی ہے ، وہ اعلان کے ساتھ اس میں شریک نہیں ہوتی۔