امن اور انصاف
امن کے ساتھ آپ ابدی طورپر رہ سکتے ہیں مگرجنگ آپ ابدی طورپر نہیں لڑسکتے— کشمیر کے لیڈروں کو شاید اس آزمودہ تاریخی حقیقت کا علم نہیں۔ وہ اپنی بے نتیجہ جنگ کو مسلسل طورپر جاری رکھے ہوئے ہیں یہاں تک کہ یہ بے نتیجہ جنگ اب خود کش بمباری کی حد تک پہنچ چکی ہے۔ ان لوگوں کو معلوم نہیں کہ خود کش بمباری کا طریقہ جاپان نے دوسری عالمی جنگ میں ان کے مقابلہ میں ہزار گنازیادہ بڑے پیمانہ پر استعمال کیا مگر وہ مکمل طورپر ناکام رہا۔ دنیا میں کبھی کوئی بادشاہ بھی کسی جنگ کو ابدی طورپر جاری نہ رکھ سکا۔ پھر کشمیر کے کمزور عوا م کس طرح اس بے نتیجہ جنگ کو ابدی طورپر جاری رکھ سکتے ہیں۔ آخر کار جو کچھ ہونے والا ہے وہ یہ کہ کشمیر کے جنگجو تھک جائیں اور مجبورانہ طورپر اپنی جنگ کو ختم کردیں۔ مگر صحیح یہ ہوگا کہ کشمیر کے لوگ دانش مندی کا طریقہ اختیار کرتے ہوئے خود اپنے فیصلہ کے تحت اس تباہ کن جنگ کا خاتمہ کردیں۔
کشمیر کے ایک تعلیم یافتہ مسلمان سے بات ہوئی۔ میں نے کہا کہ کشمیر میں سب سے زیادہ جس چیز کی ضرورت ہے وہ امن (peace) ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم بھی امن چاہتے ہیں، مگر کون سا امن۔ امن وہ ہے جس کے ساتھ انصاف ملے، جس امن کے ساتھ انصاف شامل نہ ہو وہ توصرف ظالموں کے لیے مفید ہے،نہ کہ مظلوموں کے لیے۔
میں نے کہا کہ یہ سب سے زیادہ سنگین غلط فہمی ہے جس میں تمام دنیا کے مسلم رہنما مبتلا ہیں۔ امن کی تعریف عدم جنگ (absence of war) سے کی جاتی ہے۔ اور یہ بالکل صحیح تعریف ہے۔ امن کبھی انصاف کے لیے نہیں ہوتا۔ امن صرف اس لیے ہوتا ہے کہ انصاف کے حصول کی کوشش کے لیے کار گر فضا حاصل ہوسکے۔ یہی عقل کے مطابق بھی ہے اور یہی اسلام کے مطابق بھی۔
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حدیبیہ کا امن معاہدہ کیا تو اس میں آپ کو صرف امن ملا تھا، انصاف نہیں ملا تھا۔ البتہ جب امن کے ذریعہ معتدل حالات پیدا ہوئے تو آپ نے ان حالات میں عمل کرکے بعد کو انصاف بھی حاصل کر لیا۔ انصاف کبھی امن کا جزء نہیں ہوتا، انصاف ہمیشہ امن کے بعد حاصل شدہ مواقع کو استعمال کرنے سے ملتا ہے، نہ کہ براہ راست طورپر خود امن سے۔
کشمیر کی متشددانہ تحریک کے رہنماؤں سے بات کی جائے تو وہ ہمیشہ اور یکساں طورپر ایک بات کو دہراتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ وہ یہ کہ ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ اقوام متحدہ کی تجویزوں کی روشنی میں ہمارے معاملہ کا فیصلہ کیا جائے۔ بالفاظ دیگر یہ کہ کشمیر میں (referendom)کرایا جائے۔ قانونی یا منطقی طورپر اس بات کا بے وزن ہونا اس وقت ساری دنیا کو معلوم ہوگیا جب کہ اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل کوفی عنان نے اپنے ایک دورہ کے درمیان اسلام آباد میں یہ اعلان کیا کہ کشمیر کے بارے میں اقوام متحدہ کا رزولیوشن اب غیر متعلق (irrelevant) ہوچکا ہے۔
تاہم اس سے قطع نظر میں ایک اصولی بات کہوں گا۔ وہ یہ کہ اپنا حق خود اپنی طاقت سے حاصل کیا جاتا ہے۔ دوسرے کی طاقت کے زور پر کبھی کسی نے اپنا حق حاصل نہیں کیا۔ حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ قسم کا نظریہ صرف کسی خوش فہم انسان کے دماغ میں جگہ پاسکتا ہے۔ عالم واقعہ میں ایسے کسی نظریہ کا وجود نہیں۔ اب کشمیریوں کو یہ فیصلہ کرنا ہے کہ وہ تاریخ میں اپنا نام خوش فہم قوم کی حیثیت سے لکھوانا چاہتے ہیں یا حقیقت شناس قوم کی حیثیت سے۔