تصورِ دین

مولانا مودودی کا جو دینی تصور ہے ، اس کو انھوں نے سب سے زیادہ واضح اور مربوط شکل میں اپنی اُس کتاب میں پیش کیا ہے ، جس کا نام ہے — ’’ قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں ‘‘ ۔یہ کتاب اس فکر کے تحت پیدا شدہ لٹریچر میں اس حیثیت سے نہایت اہمیت رکھتی ہے کہ وہ واحد کتاب ہے جس میں علمی طور پر اس فکر کو ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ یہ کتاب اس فکر کی علمی بنیاد ہے ۔ ترجمان القرآن منصب رسالت نمبر ( ستمبر 1961ء) میں اس کتاب کا تعارف ان الفاظ میں دیا گیا ہے  

’’ صحیح معنوں میں فہم قرآن کی کنجی، یہ کتاب پڑھ کر قرآن مجید پڑھیے ، معرفت قرآن کے دروازے کھل جائیں گے ‘‘۔

حقیقت یہ ہے کہ مولانا مودودی کے تصور دین کا جائزہ لینے کے لیے ان کے سارے لٹریچر میں ’’ قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں ‘‘ سب سے زیادہ موزوں اور معتبر کتاب ہے ، اسی لیے اس باب کی بنائے بحث کے طور پر میں نے اسی کو منتخب کیا ہے ۔

        اس کتاب میں قرآن کے چار بنیادی الفاظ — الہٰ ، رب ، عبادت ، دین کی تشریح کی گئی ہے اور ثابت کیا گیا ہے کہ انھیں چار الفاظ میں وہ ساری انقلابی دعوت چھپی ہوئی ہے جو زیرِ بحث تعبیر نے پیش کی ہے ۔ مگر ایک عرصہ سے ان الفاظ کا وسیع اور مکمل مفہوم ذہنوں میں نہیں ہے ۔ اس لیے اسلام کا وسیع اور انقلابی تصور لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتا ۔ لکھتے ہیں :

’’ عرب میں جب قرآن پیش کیا گیا تھا اس وقت ہر شخص جانتا تھا کہ الہٰ کے کیا معنی ہیں اور رب کسے کہتے ہیں ، کیوں کہ یہ دونوں لفظ ان کی بول چال میں پہلے سے مستعمل تھے ، انھیں معلوم تھا کہ ان الفاظ کا اطلاق کس مفہو م پر ہوتا ہے ، اس لیے جب ان سے کہا گیا کہ اللہ ہی اکیلا الہٰ اور رب ہے اور الو ہیت اور ربوبیت میں کسی کا قطعاً کوئی حصہ نہیں تو وہ پوری بات کو پا گئے ۔ انھیں بلاکسی التباس واشتباہ کے معلوم ہو گیا کہ دوسروں کے لیے کس چیز کی نفی کی  جارہی ہے اور اللہ کے لیے کس چیز کو خاص کیا جا رہا ہے ۔ جنھوں نے مخالفت کی یہ جان کر کی کہ غیر اللہ کی الوہیت وربویت کے انکار سے کہاں کہاں ضرب پڑتی ہے ، اور جو ایمان لائے وہ یہ سمجھ کر ایمان لائے کہ اس عقیدہ کو قبول کر کے ہمیں کیا چھوڑنا اور کیا اختیار کرنا ہو گا۔ اسی طرح عبادت اور دین کے الفاظ بھی ان کی بولی میں پہلے سے رائج تھے ، ان کو معلوم تھا کہ عبد کسے کہتے ہیں ، عبودیت کس حالت کا نام ہے ، عبادت سے کون سا رویہ مراد ہے ، اور دین کا کیا مفہوم ہے ۔ اس لیے جب ان سے کہا گیا کہ سب کی عبادت چھوڑ کر صرف اللہ کی عبادت کرو، اور ہر دین سے الگ ہو کر اللہ کے دین میں داخل ہو جاؤ تو انھیں قرآن کی دعوت کو سمجھنے میں کوئی غلط فہمی پیش نہ آئی ، وہ سنتے ہی سمجھ گئے کہ یہ تعلیم ہماری زندگی کے نظام میں کس نوعیت کے تغیر کی طالب ہے ۔

لیکن بعد کی صدیوں میں رفتہ رفتہ ان سب الفاظ کے وہ اصلی معنی جو نزول قرآن کے وقت سمجھے جاتے تھے ، بدلتے چلے گئے ، یہاں تک کہ ہر ایک اپنی پوری وسعتوں سے ہٹ کر نہایت محدود بلکہ مبہم مفہومات کے لیے خاص ہو گیا ۔ اس کی ایک وجہ تو خالص عربیت کے ذوق کی کمی تھی اور دوسری وجہ یہ تھی کہ اسلام کی سوسائٹی میں جو لوگ پیدا ہوئے تھے ان کے لیے الہٰ اور رب اور دین اور عبادت کے وہ معانی باقی نہ رہے تھے جو نزول کے وقت غیر مسلم سوسائٹی میں رائج تھے انہی دونوں وجوہ سے دورِ ا خیر کی کتب لغت وتفسیر میں اکثر قرآنی الفاظ کی تشریح اصل معانی لغوی کے بجائے ان معانی سے کی جانے لگی جو بعد کے مسلمان سمجھتے تھے ۔ مثلاً :

لفظ الہٰ کو قریب قریب بتوں اور دیوتاؤں کا ہم معنی بنا دیا گیا ، رب کو پالنے اور پوسنے والے یا پروردگا ر کا مترادف ٹھہرا یا گیا ، عبادت کے معنی پوجا اور پرستش کے کیے گئے ۔ دین کو دھرم اور مذہب اور religion کے مقابلے کا لفظ قرار دیا گیا۔

طاغوت کا ترجمہ بت یا شیطان کیا جانے لگا، 

نتیجہ یہ ہو اکہ قرآن کا اصل مدعا ہی سمجھنا لوگوں کے لیے مشکل ہو گیا۔

 پس یہ حقیقت ہے کہ محض ان چار بنیادی اصطلاحوں کے مفہوم پر پردہ پڑ جانے کی بدولت قرآن کی تین چوتھائی سے زیادہ تعلیم ، بلکہ اس کی حقیقی روح نگاہوں سے مستور ہو گئی ہے ، اور اسلام قبول کرنے کے باوجود لوگوں کے عقائد واعمال میں جو نقائص نظر آرہے ہیں ان کا ایک بڑا سبب یہی ہے ۔ لہٰذا قرآن مجید کی مرکزی تعلیم اور اس کے حقیقی مدعا کو واضح کرنے کے لیے یہ نہایت ضروری ہے کہ ان اصطلاحوں کی پوری پوری تشریح کی جائے ‘‘۔

)قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں ، مقدمہ(

اس تمہید کے بعد کتاب میں ان ’’ چاروں اصطلاحوں کا مکمل مفہوم ‘‘ بیان کیا گیا ہے ۔ مگر یہ تمہیدی بقیہ کتاب کی صحت کو مشکوک کر دیتی ہے ۔ کیوں کہ قرآنی آیات کے جس مفہوم کے بارے میں یہ اعتراف کیا گیا ہو کہ دور اول کے بعدوہ موجودہ صدی میں پہلی بار اخذ کیا گیا  ہے ، اور درمیان میں امت کا تحریری سرمایہ اس سے ’’ اکثر  ‘‘ خالی ہے ، وہ یقینی طور پر اس کے ناقص ہونے کا ثبوت ہے ، نہ کہ اس کے کامل ہونے کا ۔ ’’ بعد کی صدیوں میں ‘‘ لغت اور تفسیر کی جو کتابیں مدون ہوئیں ، ان کی حیثیت یہ نہیں ہے کہ وہ صرف بعد کے لوگوں کی ذہنی کوششیں ہیں، بلکہ اسی کے ساتھ وہ دورِ اول کے خیالات کا ریکارڈ بھی ہے ۔ یہ ایک تسلسل ہے جس کے ذریعہ سے قرن اول قرون آخر کی طرف منتقل ہوا ہے ۔ اب دور اول کے لوگوں نے اگر وہی سمجھا تھا جو آج ایک شخص ان کی طرف منسوب کر رہا ہے ، تو دور اول کے بعد کی نسلیں ، جنھوں نے دور اول کے اقوال وافعال کو محفوظ کرنے کا نہایت شدید اہتمام کیا ہے ، وہ اس اہم ترین بات کو بھی ضرور محفوظ کرتیں جس کے بغیر ’’ قرآن کی تین چوتھائی سے زیادہ تعلیم بلکہ ا س کی حقیقی روح نگاہوں سے مستور ہو گئی ‘‘۔ اگر اس تحریری ریکارڈ میں وہ بات لکھی ہوئی نہیں ملتی جو آج ان کی طرف منسوب کی جا رہی ہے ، تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ ان کی بات ہی نہیں ۔ ایسی صورت میں یہ انتساب حقیقتاً کسی خارجی واقعہ کا اظہار نہیں ہے بلکہ وہ اپنی اس اندرونی خلش کو دور کرنے کی ایک تدبیر ہے کہ — ’’اگر قرآنی آیات کا مفہوم وہی ہے جیسے میں سمجھ رہا ہوں تو پچھلے لوگوں نے ان کا یہ مفہوم کیوں نہیں سمجھا ‘‘۔

تفصیلی بحث سے پہلے اس کتاب پر میں عمومی حیثیت سے ایک مختصر تبصرہ کرنا چاہتا ہوں تاکہ غلطی کی وہ مشترک نوعیت واضح ہو سکے جو اصطلاحات اربعہ کی تشریح میں کی گئی ہے ۔ یہ غلطیاں عموماً تین قسم کی ہیں

1۔  اصل ا ور تقاضے کی یکساں فہرست بندی ۔

2۔  تقاضے کو اصل قرار دے کر اس پر دوسری چیزوں کو متفرع کرنا۔

3۔  پھر اسی کو قرآن کی اصل دعوت کی حیثیت سے پیش کرنا۔

اس کتاب کی تشریح کے مطابق قرآن کی یہ دعوت کہ

’’ اللہ تعالیٰ ہی اکیلا رب اور الہٰ ہے ، اس کے سوا نہ کوئی الہٰ ہے نہ رب ، اور نہ الوہیت اور ربوبیت میں کوئی اس کا شریک ہے ، لہٰذا اسی کو اپنا الہٰ اور رب تسلیم کرو اور اس کے سوا ہر ایک کی الہٰیت وربوبیت سے انکار کر دو ، اس کی عبادت اختیار کرو اور ا سکے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ، اس کے لیے اپنے دین کو خالص کر لو اور ہر دوسرے دین کو رد کردو ‘‘۔

یہ دراصل ایک ایسے نظام کے تحت زندگی گزارنے کی دعوت ہے جس میں عقیدے اور عبادت سے لے کر سیاسی اور تمدنی معاملات تک تمام انفرادی واجتماعی شعبے ایک خاص نقشہ کے مطابق تعمیر کیے گئے ہوں ۔ اور جب قرآن کی دعوت یہ ہے تو آج بھی اس دعوت کے لیے کام کرنے کا طریقہ یہی ہو سکتا ہے کہ ہم زندگی کے اس مفصل نقشہ کو دنیا میں غالب کرنے کی جدوجہد کریں ۔

چاروں الفاظ کا یہ وسیع اور ہمہ گیر مفہوم جس طرح ثابت کیا گیا ہے اس کا طریقہ یہ ہے کہ ہر لفظ کی بحث میں پہلے مختلف مقامات کی متفرق آیتوں کو جمع کر کے دکھا یا گیا ہے کہ قرآن میں یہ لفظ اتنے الگ الگ مفہومات کے لیے استعمال ہوا ہے (الہٰ کا لفظ پانچ معنوں میں ، عبادت تین معنوں میں، دین چار معنوں میں )، اور اس کے بعد یہ نتیجہ نکال لیا گیا ہے کہ یہ لفظ اتنے مختلف مفہومات کا جامع ہے ۔

کسی چیز کے متعدد پہلوؤں کو مختلف شقوں میں تقسیم کر کے بیان کرنا بجائے خود غلط نہیں ہے ۔ مگر حیثیت کے فرق سے کبھی وہ غلط بھی ہو جاتا ہے ۔ مثلاً ایک شخص اگر کہے کہ ’’ انڈا نام ہے تین چیزوں کے مجموعہ کا — زردی سفیدی، باریک جھلی اور چونے کے خول‘‘ تو انڈے کی فنی تشریح کے معنی میں یہ بات بالکل صحیح اور مناسب ہو گی ۔ لیکن اسی کے اعتبار سے اگر انڈے کی غذائی حیثیت مقرر کی جائے، دوسرے لفظوں میں انڈے اور انسان کے درمیان تعلق بتانے کے لیے اسے استعمال کیا جائے تو ایسی صورت میں انڈے کی سہ گانہ تقسیم بالکل غلط ہو گی ۔ کیوں کہ انسان کی غذا ہونے کے اعتبار سے انڈے کی اصل حقیقت اس کی زردی اور سفید ی ہے اور باقی صرف اس کے متعلقات۔

مصنف کے نزدیک مذکورہ تمام معانی کے جمع ہونے سے وہ چیز بنتی ہے جس کو الوہیت ، ربوبیت، عبادت یاد ین کہا گیا ہے ۔ مگر اس طرح مختلف مقامات سے ایک لفظ کے مختلف استعمالات جمع کر کے ان کے مجموعہ سے ایک واحد مفہوم اخذ کرنا اور ان کی بنیاد پر دین کی ایک جامع تصویر بنانا بالکل ایسا ہی ہے جیسے کسی کتاب میں محبت کی کہانی بیان کی گئی ہو ایک جگہ لکھا ہو کہ زید کو بکرسے شدید محبت ہے ۔ دوسری جگہ یہ ہو کہ ایک بار جب دونوں اسٹیشن پر ملے تو زید نے بکر کو گلے سے لگا لیا ۔ تیسری جگہ یہ ذکر ہو کہ بکر ایک مرتبہ زید کی بستی میں آیا تو زید نے اس کو اپنے گھر بلا کر اس کی دعوت کی ۔ اب تینوں اقتباسات ایک پیراگراف میں جمع کر کے ایک شخص اس کتاب کے حوالہ سے کہے کہ محبت نام ہے تین چیزوں کا — ’’گلے ملنا، دعوت کرنا، دل سے چاہنا‘‘ ممکن ہے کسی سطح بیں کو محبت کی یہ تعریف بہت جامع معلوم ہو۔ مگر درحقیقت اس میں ایک شدید غلطی کی گئی ہے ۔ اس میں محبت کی اصل حقیقت اور اس کے تقاضوں کو بالکل برابر کی حیثیت دے کر بیان کر دیا گیا ہے ۔ گویا یہ تینوں باتیں جب ایک شخص اپنے اندر جمع کر لے ، اسی وقت اس کی محبت واقعی محبت قرار پائے گی ۔ حالانکہ یہ بالکل ممکن ہے کہ کسی مثال میں صرف آخری جزء ( دل سے چاہنا ) پایا جائے اور بقیہ دو اجزا نہ تو اس کے اندر موجود ہوں اور نہ ان کو حاصل کرنے کی باقاعدہ کوشش کی گئی ہو ، اس کے باوجود وہ مکمل معنوں میں محبت ہو۔ 

حقیقت اور تقاضے میں یہ فرق ہے کہ حقیقت اصل چیز کے براہ راست مطالبہ کے طور پر مطلقاً مطلوب ہوتی ہے جب کہ تقاضا اس طرح مطلق طور پر مطلوب نہیں ہوتا ۔ بلکہ کسی اور چیز کے واسطہ سے مطلوب ہوتا ہے اگر واسطہ کی نسبت پائی جائے تو وہ مطلوب ہو گا ورنہ نہیں ۔ مثلاً اگر یہ کہا جائے کہ ’’ ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ آدمی سچی گواہی دے ‘‘ تو اس کا مطلب یہ نہیں ہو گا کہ ہر وہ شخص جو مومن ہے وہ کسی نہ کسی طرح یہ صورت نکالے۔ جب کہ اس نے عدالت میں حاضر ہو کر سچی گواہی دی ہو۔ اس کے بغیر اس کا ایمان مکمل ایمان نہیں۔ بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ جب اسے گواہی کے لیے کھڑا کیا جائے تو وہ جھوٹ نہ بولے بلکہ جو بات اسے معلوم ہے اسے سچ سچ بتا دے ۔

یہی وجہ ہے کہ مصنف ایک اصطلاح کو جن مختلف مفہومات کا جامع قرار دیتے ہیں ، بعض مستثنیات کو چھوڑ کر وہ الگ الگ تو نکلتا ہے ، مگر کسی ایک آیت سے اس کا وہ جامع مفہوم ثابت نہیں ہوتا جو مختلف حوالوں کے مجموعہ سے یک جائی طور پر بیان کیا گیا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں ایسا تو ہے کہ مختلف مقامات پر اس طرح  کے فقرے لکھے ہوئے موجود ہیں کہ ’’زید کو بکر سے دلی محبت ہے‘‘ ۔ ’’ بکر سے ملاقات ہوئی تو زید نے جوش محبت میں اس کو گلے سے لگا لیا‘‘ ۔ ’’بکر زید کی بستی میں آیا تو اس نے بکر کی پر خلوص دعوت کی‘‘ ۔ مگر ساری کتاب میں ایسا کوئی جملہ نہیں ملتا جس میں یہ لکھا ہو کہ ’’ محبت نام ہے تین چیزوں کا — دل سے محبت کرنا، گلے لگانا ، دعوت کرنا ‘‘۔ جامع مفہوم کو ثابت کرنے کے لیے جو آیتیں نقل کی گئی ہیں ان پر تبصرہ ہر لفظ کی الگ الگ بحث میں آگے آرہا ہے ۔ 

مگر غلطی یہیں نہیں رکتی ۔ اسی کے ساتھ ایک اور مشترک غلطی ہے جو چاروں بحثوں میں کم وبیش پائی جاتی ہے ۔ اور وہ یہ کہ اصل اور تقاضے کی یکساں فہرست بندی سے جب ذہن کو تسکین نہیں ہوئی تو اس نے پورے معاملہ کو الٹ دیا اور جو چیز تقاضے کے درجے میں مطلوب تھی اسے اصل قرا ر دے کر اصل کو اس کا تابع کر دیا ۔ اس کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے کسی کو دعوت مدارات سے زیادہ دل چسپی ہو تو وہ دعوت کو محبت کے اجزائے سہ گانہ میں سے ایک جزء کی حیثیت دے کر مطمئن نہیں ہو سکتا۔ وہ تو اسی کو سب سے اوپر رکھنا چاہے گا ۔ وہ کہے گا کہ محبت کی اصل حقیقت دعوت کرنا ہے ۔ اب چونکہ دعوت میں ملاقات ہوتی ہے اس لیے دوست کو گلے بھی لگا لیا جاتا ہے ۔ اور جب اس طرح سے دعوت اور معانقہ میں کچھ دن گزر جاتے ہیں تو فطری طور پر دل میں ایک دوسرے کی محبت بھی پیدا ہو جاتی ہے(۱)۔

(۱)یہاں محبت کی جو مثال میں نے دی ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ زیرِ  بحث کتاب میں اصطلاحات اربعہ کے جو تقاضے گنائے گئے ہیں ، وہ بھی لازمی طور پر اسی درجہ کے تقاضے ہیں ۔ یہ محض ایک مثال ہے جو میں نے مسئلہ کی نوعیت واضح کرنے کے لیے دی ہے ۔ ورنہ یہ ایک معلوم بات ہے کہ تقاضے سب یکساں درجے کے نہیں ہوتے ۔ ان میں اہمیت کے اعتبار سے بہت فرق ہوتا ہے ۔

اس غلطی کو واضح کرنے کے لیے یہاں میں عبادت کی مثال دوں گا۔ عبادت اصلاً اس مخصوص کیفیت کا نام ہے جو خدا سے بے حد خوف اور اس سے بے حد محبت کے نتیجے میں بندۂ مومن کے دل میں پیدا ہوتی ہے ۔ جب یہ کیفیت کسی کے اندر ابھر آتی ہے تو اس کے لازمی نتیجے کے طور پر وہ خدا کا پرستار ہو جاتا ہے ۔ وہ اس کی مرضیات پر چلنے لگتا ہے ،وہ اپنے تمام معاملات میں اس کا مطیع فرمان بن جاتا ہے ۔ لیکن زیرِ بحث ذہن کو عبادت کی یہ تصویر کچھ زیادہ پسند نہیں آئی ۔ کیوں کہ اس میں اقتدار اعلیٰ کو مان کر اس کی ماتحتی میں ایک نظام اطاعت بنانا اصل مفہوم کا محض ایک خارجی تقاضا قرار پا رہا تھا اس لیے اس نے عبادت کے تصور کو الٹ دیا۔ عبادت کی بحث میں اس لفظ کی لغوی تحقیق کے بعد لکھتے ہیں :

’’ اس تشریح سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ مادۂ عبد کا اساسی مفہوم کسی کی بالا دستی وبرتری تسلیم کر کے اس کے مقابلے میں اپنی آزادی وخود مختاری سے دست بردار ہو جانا، سرتابی ومزاحمت چھوڑ دینا اور اس کے لیے رام ہو جانا ہے ۔ یہی حقیقت بندگی اور غلامی کی ہے۔ لہٰذا اس لفظ سے اولین تصور جو ایک عرب کے ذہن میں پیدا ہوتا ہے وہ بندگی وغلامی ہی کا تصور ہے ۔ پھر چونکہ غلام کا اصلی کام اپنے آقا کی اطاعت وفرمانبردای ہے اس لیے لازماً اس کے ساتھ ہی اطاعت کا تصور پید ا ہوتا ہے ، اور جب کہ ایک غلام اپنے آقا کی بندگی اور اطاعت میں محض اپنے آپ کو سپرد ہی نہ کر چکا ہو بلکہ اعتقاداً اس کی برتری کاقائل اور اس کی بزرگی کا معترف بھی ہو، اور اس کی مہربانیوں پر شکر واحسان مندی کے جذبے سے بھی سر شارہو ، تو وہ اس کی تعظیم وتکریم میں مبالغہ کرتا ہے ۔ مختلف طریقوں سے اعتراف نعمت کا اظہارکرتا ہے اور طرح طرح سے مراسم بندگی بجا لاتا ہے ، اسی کا نام پرستش ہے اوریہ تصور عبدیت کے مفہوم میں صرف اس وقت شامل ہوتا ہے جبکہ غلام کا محض سر ہی آقا کے سامنے جھکا ہوا نہ ہو بلکہ اس کا دل بھی جھکا ہوا ہو ‘‘۔

)قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں دوسرا ایڈیشن، صفحہ71-72(

اسی طرح اس کتاب میں چاروں اصطلاحوں کا مفہوم الٹ گیا ہے ۔ الہٰ اور رب میں ’’اقتدار‘‘ کے تصور سے اس کے دیگر ’’مفہومات ‘‘ اخذ کیے گئے ہیں ، حالانکہ حقیقۃً احساس احتیاج اور احساس پرورش اس کے دوسرے تمام پہلوؤں کے درمیان وجہ اشتراک ہے۔ عبادت کی بحث میں بالاتری تسلیم کرکے ا س کے مقابلے میں اطاعت اختیار کرنے کو اس کے دیگر ’’اجزاء ‘‘کی اسا س قرار دیا گیا ہے، حالانکہ عبادت کی اصل حقیقت خدا سے عاجزانہ اور مشتاقانہ تعلق ہے ۔ اور اسی سے دوسری تمام چیزیں اس کے تقاضے یا نتیجے کے طورپر پیدا ہوتی ہیں ۔ دین میں ’’ نظام ‘‘ کے تصور کو اس کے دیگر اجزاء کے لیے سبب جامع قرار دیا گیا ہے ۔ حالانکہ اصل حقیقت کے اعتبار سے دین ، اندرونی جھکاؤ اور مغلوبیت کانام ہے اور اسی سے دوسری تمام چیزیں اس میں ظاہر ہوتی ہیں۔ 

اصطلاحات اربعہ کی تشریح کا یہ فرق ، محض لفظی ہیر پھیر کا فرق نہیں ہے، بلکہ اس کی وجہ سے دین کی اصل حقیقت مجروح ہو گئی ہے ۔ قرآنی اصطلاحات کا جامع اور مکمل مفہوم متعین کرنے کے باوجود قرآن کی اصل اور اعلیٰ ترین حقیقت اس میں اوجھل ہو گئی۔

یہ ایک حقیقت ہے کہ قرآن کو اختیار کرنے کے بعد ایک مومن کو جب سب سے بڑی چیز اس دنیا میں ملتی ہے، وہ تعلق باللہ ہے ۔ یہی اس دنیا میں اہل ایمان کا سب سے بڑا حاصل ہے ۔ تعلق باللہ سے مراد خدا کو ایک مخصوص ’’ ضابطۂ حیات ‘‘ کی فکری بنیاد کے طور پر ماننا نہیں  ہے ۔ بلکہ ا س کا مطلب ایک گہری وابستگی ہے ۔ جو حیاتی سطح پر خدا اور بندے کے درمیان قائم ہوتی ہے ۔ اس سے مراد بندے کی وہ نفسیاتی حالت ہے جب اسے خدا کے ساتھ ’’حبِ شدید ‘‘ پیداہو گیا ہو ( البقرہ،2:165)، جب اسے ’’ سجدۂ قربت ‘‘ والی نمازیں حاصل ہونے لگی ہوں ( العلق،96:19)، جب وہ ’’ خوف  وطمع ‘‘ کے ساتھ خدا کو پکارنے لگا ہو ( الاعراف، 7:56)، جب اس پر حضوری کی ایسی کیفیت طاری ہونے لگے جس کو حدیث میں شِبہ رویت سے تعبیر کیا گیا ہے (صحیح البخاری، حدیث نمبر 50)۔

مگر اس کتاب میں قرآن کے مطلوب کی جو تصویر بنائی گئی ہے ، اس میں یہ سب سے بڑی چیز جیسے گم ہو گئی۔ وہ اپنی صحیح شکل میں اس کے اندر باقی نہیں رہی۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کسی آدمی کا فوٹو سامنے کے بجائے پیچھے سے لیا جائے ۔ ظاہر ہے کہ ایسا فوٹو بظاہر آدمی کا پورا فوٹو ہو گا ۔ مگر اس میں اس کا چہرہ دکھائی نہیں دے گا جو کہ انسان کا اصل نمائندہ ہے ۔

اس تشریح کے مطابق الہٰ ، خدا اور بندے کے درمیان ایک ایسے تعلق کا عنوان ہے جس میں آدمی خدا کو ’’ اقتدار اعلیٰ ‘‘ کا مالک سمجھتا ہو ۔ ایک اِس حیثیت سے کہ وہی زمین وآسمان کے اوپر حکومت کر رہا ہے اور دوسرے اِس حیثیت سے کہ وہی سیاسی اور تمدنی زندگی کا مقتدر اعلیٰ ہے۔ اسی طرح ربوبیت پر ایمان کا مطلب یہ ہے کہ ’’ وہی اکیلا خدا تمہارا فوق الفطری رب بھی ہے اور اخلاقی وتمدنی اور سیاسی رب بھی‘‘ (صفحہ 64)۔ عبادت سے جو چیز مقصود ہے وہ یہ کہ عملی زندگی میں خدا کے احکام کی تعمیل کی جائے اور اسی کے آگے مراسم پرستش بجا لائے جائیں ۔ دین سے زندگی کی وہ تفصیلی صورت مراد ہے جو ’’ اعتقادی وفکری ، اخلاقی وتعلیمی ، تمدنی ومعاشرتی اور معاشی وسیاسی ‘‘ حیثیت سے زمین پر بنتی ہے ۔

مجھے تسلیم ہے کہ یہ چیزیں جو اصطلاحات اربعہ کی تشریح میں بیان کی گئی ہیں وہ سب کسی نہ کسی حیثیت سے اس میں شامل ہیں ۔ مگر ان کی مجموعی تصویر جس طرح بنائی گئی ہے وہ ایسی ہے کہ ا صل اور اولین حقیقت اس میں اوجھل ہو گئی۔ یا اگر باقی رہی تو بہت دھندلی شکل میں ۔

مگر آپ جانتے ہیں کہ قرآن ایک ایسی کتاب ہے جس کی شان یہ ہے کہ :

‌لا ‌يَأْتِيهِ ‌الْباطِلُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَلا مِنْ خَلْفِهِ ( 41:42)۔ یعنی کوئی غیر واقعی بات قرآن میں نہ اس کے آگے کی طرف سے آسکتی ہے، نہ اس کے پیچھے کی طرف سے ۔ کوئی ایسی بات جو اس کتاب کے عین مطابق نہ ہو ، وہ کسی طرح اس میں چسپاں نہیں ہو سکتی ۔ ایسی ہر تفسیر کو یہ کتاب اسی طرح اگل دے گی جیسے کوئی نہایت لطیف  مزاج رکھنے والا آدمی نا مناسب غذا کو ہضم نہیں کر سکتا اور قے کر کے اسے باہر نکال دیتاہے ۔ چنانچہ اصطلاحات اربعہ کی تشریح میں جو مختلف باتیں کہی گئی ہیں ، اگرچہ ان میں سے اکثر کسی نہ کسی اعتبار سے صحیح ہیں۔ مگر صرف اس بنا پر وہ قرآنی آیات پر چسپاں نہیں ہو سکیں کہ ان باتوں کو جس مخصوص حیثیت سے قرآن کی دعوت ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے ، اس حیثیت سے وہ قرآن کی دعوت نہیں ہیں۔ ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے سارے قرآن نے ا س کو ماننے سے انکار کر دیا ہو۔

مثال کے طور پر اگر آپ کہیں کہ ’’اسلام نے معاشی معاملات کے بارے میں بھی احکام دیے ہیں ‘‘ تو یہ بات ہر طرح اسلام کے ماخذ سے ثابت ہو سکتی ہے ۔ لیکن اگر آپ کا دعویٰ یہ ہو کہ خدا کے رسول اس لیے آئے تھے کہ الٰہی معاشیات کی بنیاد پر ایک مخصوص معاشی ڈھانچہ تعمیر کریں ،تو باوجود یکہ اسلام نے معاشی معاملات کے بارے میں احکام دیے ہیں ، مگر اس مخصوص حیثیت یا دوسرے لفظوں میں مقصد نبوت کے طور پر یہ بات ہر گز ثابت نہ ہوسکے گی ۔ اور قرآن وحدیث اس کو ماننے سے مکمل طور پر انکار کر دیں گے ۔      

مثال کے طور پر اس کتاب میں ’’ رب ‘‘ کے پانچ مفہومات میں سے تیسرا مفہوم ’’ اجتماع کا مرکز‘‘ بتایا گیا ہے ( صفحہ 63)۔ یعنی ’’وہ جو مرکزی حیثیت رکھتا ہو، جس پر متفرق اشخاص مجتمع ہوتے ہوں ‘‘ ( صفحہ 29)۔جس کا ’’مرکزی اقتدار مملکت کی تمام رعیت کے لیے اجتماع کی بنیاد ہو‘‘ (صفحہ 40)، جس کی مرکزی شخصیت کسی سر زمین کے تمدن واجتماع کی اساس ہو ‘‘ (صفحہ51)۔ اس مفہوم کے لحاظ سے خدا کا رب ہونا یہ معنی رکھتا ہے کہ :

’’ اس کی وفاداری وہ قدرتی بنیاد ہے جس پر ہماری اجتماعی زندگی کی عمارت صحیح طورپر قائم ہوتی ہے ۔ اور اس کی مرکزی شخصیت سے وابستگی تمام متفرق افراد اور گروہوں کے درمیان ایک امت کا رشتہ پیدا کرتی ہے ‘‘۔ (صفحہ 68)

یعنی خدا کے رب ہونے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہماری سماجی اور تمدنی زندگی کا مرکز ہے اور اسی کے گرد ہماری اجتماعی زندگی کی تعمیر ہوتی ہے ۔ جس طرح ایک جمہوری سوسائٹی میں قوم یا وطن وہ مشترک نقطہ ہے جو کسی علاقہ میں بسنے والے افراد کو باہم جوڑ کر ایک نیشن بناتا ہے۔ اور ان کو اس کے لیے تیار کرتا ہے کہ ان کے درمیان ریاست کا مشترک اجتماعی ادارہ وجود میں آسکے۔ اسی طرح خدا کو ’’رب‘‘ کہنے کا مطلب بھی ، ایک لحاظ سے یہ ہے کہ وہ ہماری اجتماعی تشکیل کی بنیادہے ۔ وہ ہم کو ’’ امت ‘‘ کی شکل میں منظم کرتا ہے ۔ 

اصولاً مجھے اس سے اختلاف نہیں کہ خدا ئے واحد پر ایمان ہی وہ مشترک تصور ہے جو مسلمانوں کو ایک امت ہونے کا احساس دلاتا ہے اور انھیں ایک مشترک رشتہ میں باندھتا ہے۔ مگر مذکورہ بالا قسم کے اجتماعی اور تمدنی نظریہ کو رب کے ’’ تیسرے مفہوم ‘‘ کی حیثیت سے پیش کرناایک قطعاً غیر قرآنی تصور ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ اس کو ثابت کرنے کے لیے جو حوالے دیے گئے ہیں ، وہ سب کے سب اصل مسئلہ سے بالکل غیر متعلق ہیں ۔ ان میں سے کسی ایک حوالے سے بھی یہ ’’ تیسرا مفہوم ‘‘ ثابت نہیں ہوتا ۔

یہ کل پانچ آیتیں ہیں، جن میں سے پہلی آیت یہ ہے :

هُوَ رَبُّكُمْ ‌وَإِلَيْهِ ‌تُرْجَعُونَ  (11:34)۔ یعنی، وہی تمہارا رب ہے اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے ۔

یہ سورہ ہود کی آیت ہے اور اس میں جس رجوع الی الرب کا ذکر ہے اس کا تعلق آخرت سے ہے، نہ کہ دنیا ہے ۔ پورا ٹکڑا حسب ذیل ہے :

قالُوا يَا نُوحُ قَدْ جادَلْتَنا فَأَكْثَرْتَ جِدالَنَا فَأْتِنَا بِما تَعِدُنَا إِنْ كُنْتَ مِنَ الصَّادِقِينَ ۔ قالَ إِنَّما يَأْتِيكُمْ بِهِ اللهُ إِنْ شاءَ وَما أَنْتُمْ بِمُعْجِزِينَ ۔ وَلا يَنْفَعُكُمْ نُصْحِي إِنْ أَرَدْتُ أَنْ أَنْصَحَ لَكُمْ إِنْ كانَ اللهُ يُرِيدُ أَنْ يُغْوِيَكُمْ هُوَ رَبُّكُمْ ‌وَإِلَيْهِ ‌تُرْجَعُونَ (11:32-34)۔ یعنی، انھوں نے کہا، اے نوح تم ہم سے بہت بحث کر چکے سو اب تم وہ چیز لاؤ جس کی تم ہمیں دھمکی دیتے رہے ہو۔ انھوں نے جواب دیا اس کو اللہ تعالیٰ ، بشرطیکہ اسے منظورہو ، تمہارے سامنے لائے گا اور تم اسے عاجز نہ کر سکو گے ۔ اور میری خیر خواہی تمہارے کام نہیں آسکتی گو میں کیسی ہی خیر خواہی کرنا چاہوں ، جب کہ اللہ ہی کو تمہارا گمراہ کرنا منظورہو، وہی تمہارا رب ہے اور اسی کے پاس تم کو جانا ہے ۔

اس آیت میں جو بات کہی گئی ہے وہ صرف یہ ہے کہ حضرت نوح لمبی مدت تک تبلیغ کا کام کرتے رہے، مگر ان کی قوم نے ان کے پیغام کو نہیں سنا ۔ یہاں تک کہ جب بہت ہو گیا تو قوم نے کہا کہ ہم تو تمہاری بات نہیں مانتے ۔ اب تم نہ ماننے کی صورت میں ہم کو جس عذاب کی دھمکی دے رہے تھے ، اسے لے آؤ ۔ اس کے جواب میں پیغمبر نے فرمایا کہ عذاب دینے کا کام تو خدا کا ہے ۔ ایک وقت آئے گا جب تم سب کے سب اس کی طرف پکڑ کر لے جائے جاؤ گے اور تم مجبور ہو گے کہ جو سزا تمہیں دی جائے اس کو بھگتو ۔ اس بات کا مندرجہ بالا ’’ تمدنی اور اجتماعی ربوبیت ‘‘ سے کیا تعلق ۔ 

دوسری آیت یہ ہے :

‌ثُمَّ ‌إِلى ‌رَبِّكُمْ ‌مَرْجِعُكُمْ(39:7)۔ یعنی، پھر تمہارا لوٹنا خدا کی طرف ہے ۔

یہ آیت بھی آخرت سے متعلق ہے ۔ پورا ٹکڑا یہ ہے :

إِنْ تَكْفُرُوا فَإِنَّ اللهَ غَنِيٌّ عَنْكُمْ وَلا يَرْضى لِعِبادِهِ الْكُفْرَ وَإِنْ تَشْكُرُوا يَرْضَهُ لَكُمْ وَلا تَزِرُ وازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرى ‌ثُمَّ ‌إِلى ‌رَبِّكُمْ ‌مَرْجِعُكُمْ فَيُنَبِّئُكُمْ بِما كُنْتُمْ تَعْمَلُونَ إِنَّهُ عَلِيمٌ بِذاتِ الصُّدُورِ (39:7)۔ یعنی، اگر تم کفر کرو تو اللہ تم سے بے نیاز ہے اور وہ اپنے بندوں کے لیے کفر کو پسند نہیں کرتا ۔ اور اگر تم شکر کرو تو اس کو تمہارے لیے پسند کرتا ہے ۔ اور کوئی کسی کا بوجھ اٹھانے والا نہیں ہے ۔ تم سب کو اپنے رب کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔ اس وقت وہ بتا دے گا جو کچھ تم کر رہے تھے ۔ وہ دلوں تک سے با خبر ہے ۔ 

ظاہر ہے کہ اس آیت میں جس ’’ مرجعیت ‘‘ کا ذکرہے اس کا تعلق آخرت سے ہے۔ کہا گیا ہے کہ دنیا کی زندگی میں اگر تم شکر گزار بندے ہو گے تو اللہ تعالیٰ تم سے راضی ہو گا اور اگر تم نے کفر کا رویہ اختیار کیا تو کفر کر کے تم کہیں جا نہیں سکتے ۔ تمام لوگوں کو بالآخر خداہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے ۔ وہ تمہارے دلوں تک سے با خبر ہے ۔ اور وہ ہر ایک کو پورا پورا بدلے گا ۔ اس ’’لوٹنے‘‘ اور اپنے عمل سے ’’خبر دار‘‘ کیے جانے کا دنیا کی سماجی تنظیم سے کیا تعلق۔

تیسری آیت یہ ہے :

قُلْ يَجْمَعُ بَيْنَنا رَبُّنا (34:26)۔ یعنی، کہوکہ ہم کو ہمارا رب جمع کرے گا ۔

اس آیت میں بھی جس ’’ اجتماع ‘‘ کا ذکر ہے وہ آخرت کا اجتماع ہے ۔ پورا ٹکڑا حسب ذیل ہے :

قُلْ مَنْ يَرْزُقُكُمْ مِنَ السَّماواتِ وَالْأَرْضِ قُلِ اللهُ وَإِنَّا أَوْ إِيَّاكُمْ ‌لَعَلى ‌هُدىً أَوْ فِي ضَلالٍ مُبِينٍ ۔ قُلْ لا تُسْئَلُونَ عَمَّا أَجْرَمْنا وَلا نُسْئَلُ عَمَّا تَعْمَلُونَ ۔ قُلْ يَجْمَعُ بَيْنَنا رَبُّنا ثُمَّ يَفْتَحُ بَيْنَنا بِالْحَقِّ وَهُوَ الْفَتَّاحُ الْعَلِيمُ   (34:24-26)۔ یعنی، پوچھو تم کو آسمان اور زمین سے کون روزی دیتا ہے کہہ دو اللہ ۔ اور ہم یا تم ضرور راہ راست پر ہیں یا صریح گمراہ ہیں ۔ کہہ دو ( اگر ہم مجرم ہوں ) تو ہمارے جرائم کی باز پرس تم سے نہ ہو گی اور نہ تمہارے اعمال کے بارے میں ہم سے پوچھا جائے گا ۔ کہہ دو کہ ہمارا رب ہم کو جمع کرے گا پھر ہمارے درمیان ٹھیک ٹھیک فیصلہ کر دے گا ۔ اور وہ بڑا فیصلہ کرنے والا اور جاننے والا ہے ۔

اس آیت میں پیغمبر اپنی قوم سے کہہ رہا ہے کہ ہم تم دونوں حق پر نہیں ہو سکتے ۔ ہم میں سے کوئی ایک یا تو حق پر ہے یا بدترین گمراہی میں ۔ پھر ہر ایک کا عمل اس کے اپنے ساتھ ہے ۔ کوئی شخص دوسرے کے عمل میں حصہ پانے والا نہیں ۔ عنقریب وہ دن آئے گا جب ہم دونوں خدا کے یہاں جمع کیے جائیں گے ۔ اس وقت وہ جو میرے اور تمہارے حال کو بخوبی جانتا ہے ، وہ حق کے مطابق ٹھیک ٹھیک فیصلہ کر دے گا — اس بات کا اجتماعی اور سماجی ربوبیت سے کیا تعلق۔ 

چوتھی آیت یہ ہے :

ثُمَّ إِلى رَبِّهِمْ يُحْشَرُونَ (6:38)۔ یعنی، پھر وہ سب اپنے رب کی طرف سمیٹے جائیں گے۔

اس آیت کا بھی تمدنی حشر سے کوئی تعلق نہیں ۔ پوری آیت یہ ہے :

وَما مِنْ دَابَّةٍ فِي الْأَرْضِ وَلا طائِرٍ ‌يَطِيرُ ‌بِجَناحَيْهِ إِلَاّ أُمَمٌ أَمْثالُكُمْ مَا فَرَّطْنا فِي الْكِتابِ مِنْ شَيْءٍ ثُمَّ إِلى رَبِّهِمْ يُحْشَرُونَ (6:38)۔ یعنی، اور زمین میں جتنے قسم کے جانور ہیں اور جتنے قسم کے پرند ہیں وہ سب تمہاری ہی طرح کے گروہ ہیں ۔ ہم نے نہیں چھوڑی لکھنے میں کوئی چیز ۔ پھر سب اپنے رب کے پاس جمع کیے جائیں گے۔ 

یہاں جو بات کہی گئی ہے وہ یہ کہ انسان یا تمام جان داروں کا ایک ’’ حشر ‘‘ ہونے والا ہے۔ اس حشر سے دو چیزیں مراد لی گئی ہیں ۔ بعض مفسرین نے موت مراد لی ہے اور بعض نے قیامت ۔ دونوں صورتوں میں مطلب یہی ہے کہ تمام مخلوقات خدا کی طرف سمیٹی جانے والی ہیں — مگر اس سے جو سمٹاؤ مراد ہے وہ وہی ہے جو موت کے بعد پیش آئے گا ۔ موت سے پہلے کے سمٹاؤ کا یہاں کوئی ذکر نہیں ۔

پانچویں آیت یہ ہے :

وَنُفِخَ فِي الصُّورِ فَإِذا هُمْ مِنَ الْأَجْداثِ إِلى رَبِّهِمْ ‌يَنْسِلُونَ (36:51)۔ یعنی، اور جوں ہی صور پھونکا گیا وہ سب اپنی قبروں سے اپنے رب کی طرف نکل پڑیں گے۔

یہ آیت بھی ظاہر ہے آخرت سے متعلق ہے ۔ اس میں اُس اجتماع کا ذکر ہے جب لوگ دوبارہ زندہ کیے جائیں گے اور اپنی قبروں سے اُٹھ کر خدا کے حضور جمع کیے جائیں گے ۔ میدان حشر کے اس اجتماع سے سماجی زندگی کے لیے مرکز اجتماع کا مفہوم نکالنا ایسا ہی ہے جیسے ’’قرآنی نظام ربوبیت‘‘ کے علم بردار جنت کی زندگی سے متعلق آیتوں (مثلاً طہٰ، 20:118-119) کو پیش کر کے اس سے کھیت اور کارخانوں کی ریاستی ملکیت کا اصول ثابت کرتے ہیں۔

اس تمہید کے بعد میں چاروں اصطلاحات کا الگ الگ جائزہ لوں گا۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom

Ask, Learn, Grow

Your spiritual companion