جواب
اعظم گڑھ
محترمی سلام مسنون
گرامی نامہ مورخہ 19 اکتوبر62 ء ملا۔ آپ نے اپنے سات صفحات کے اس خط میں یہ دکھانے کی کوشش کی ہے کہ جو کچھ میں نے لکھا وہ محض میری غلط فہمی تھی۔ ورنہ آپ کی طرف سے کوئی غلطی نہیں ہوئی ہے۔ اس کے بعد لکھتے ہیں:
’’اب آپ کو اختیار ہے کہ آپ میری بات مانیں یا نہ مانیں‘‘۔
میں بہرحال آپ پر یہ الزام تو عائد نہیں کر سکتا کہ آپ جان بوجھ کر غلط بیانی کریں گے۔ مجھے ماننا چاہیے کہ آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں وہی صحیح ہو گا۔ مگر افسوس کہ آپ کے الفاظ آپ کے اس بیان کا ساتھ نہیں دیتے۔ مثلاً آپ نے لکھا ہے:
’’میں آج آپ پر یہ ظاہر کر دینا چاہتا ہوں کہ میں نے اپنے طور سے بہت پہلے سے یہ طے کر رکھا تھا جس کا اظہار میں نے کچھ رفقاء سے کیا بھی تھا کہ اگر خدانخواستہ آپ کو مطمئن کرنے کے سلسلے کی کوششیں ناکام ثابت ہوئی تو آخر میں اس موضوع پر میں ضرور آپ سے بات چیت کروں گا۔ مگر معلوم نہیں آپ کی اس تحریر کے بعد اس کا موقع باقی رہا یا نہیں۔‘‘
دوسری طرف مولانا صدر الدین صاحب کے نام 28 اگست والے خط پر آپ کے قلم سے یہ الفاظ درج ہیں:
’’وحید الدین خاں کی تازہ تحریر بھیج رہا ہوں۔ اسے پڑھ کرمطلع فرمائیے کہ ابھی ان سے کچھ بات چیت کرنے کی گنجائش ہے یا ان کو لکھ دیا جائے کہ ہم کو جو کچھ کرنا تھا کر چکے۔ اب وہ اپنے لیے جو فیصلہ چاہیں کر لیں۔‘‘
ان دونوں فقروں میں کھلا ہوا تضاد ہے۔ صدر الدین صاحب کے نام آپ کی مذکورہ بالا تحریر سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ انھیں کی بات کو اپنی طرف سے آخری قرار دے رہے ہیں۔ اور اگر وہ کہہ دیں کہ ان کے نزدیک اب مجھ سے ’’بات کرنے کی گنجائش‘‘ نہیں ہے، تو آپ مجھے یہ لکھ دیں گے کہ آپ کو ’’جو کچھ کرنا تھا کر چکے‘‘۔ اب میں اپنے لیے جو فیصلہ چاہوں کر لوں۔ دوسری طرف موجودہ خط کے مندرجہ بالااقتباس میں آپ لکھتے ہیں کہ آپ نے طے کر رکھا تھا کہ صدر الدین صاحب کی کوششوں کی ناکامی کے بعد آپ مجھے میرے حوالے نہیں کر دیں گے بلکہ اس کے بعد آخری طور پر آپ خود بھی ضرور اس موضوع پر مجھ سے بات چیت کریں گے۔
بہرحال ان سب باتوں کے باوجود ، جہاں تک میرا تعلق ہے، میں ہر آن آپ سے گفتگو کرنے کے لیے تیار ہوں۔ بلکہ اس کا متمنی ہوں۔ جلیل احسن صاحب جس طرح مجھے ’’پڑھانا لکھانا‘‘ چاہتے ہیں وہ تو میرے نزدیک بے فائدہ ہے۔ اس دوران میں ان کے دو سوالنامے آئے ہیں۔ دونوں کا حال یہ ہے کہ اس میں بالکل مجرد قسم کے سوالات ہیں۔ جیسے امتحان کے پرچے میں طالب علموں سے کیے جاتے ہیں۔ انہوں نے یہ بالکل واضح نہیں کیا کہ ان سوالات کا اصل مسئلے سے کیا تعلق ہے۔ ظاہر ہے کہ ایسی غیر متعلق بحث میں دلچسپی نہیں لےسکتا۔ مگر اس طرز کو چھوڑ کر اصل موضوع کے بارے میں جو بھی مجھ سے گفتگو کرے میں ان شاء اللہ ضرور اس سے گفتگو کروں گا۔ لیکن کسی کے اندر خود ہی آمادگی نہ ہو تو اس کو پکڑ کر زبردستی تو اگلوایا نہیں جا سکتا۔
خادم وحید الدین
