اعظم گڑھ، 7 فروری1963ء
اعظم گڑھ، 7 فروری1963ء
محترمی مولانا ابواللیث صاحب سلام مسنون
آپ کا خط مورخہ19 جنوری ملا۔ آپ نے لکھا ہے کہ ’’جماعت اسلامی کے فکر کے تعین کے لیے اصل ماخذ اس کا دستور ہے۔‘‘ میں عرض کروں گا کہ یہ میرے سوال کا جواب نہیں ہے۔ میں نے اپنی تحریر مورخہ23جنوری میں یہ نہیں پوچھا تھا کہ جماعت کے فکر کا تعین کرنے کے لیےماخذ کیا ہے۔ بلکہ میرا سوال اس فکر کی شرح کے بارے میں تھا، میں نے معلوم کیا تھا کہ جماعت اسلامی کے فکر کی شرح کے سلسلے میں مولانا مودودی کے لٹریچر کی حیثیت کیا ہے۔ اس سلسلے میں جہاں تک دستور کا تعلق ہے۔ میں جانتا ہوں کہ دستور کسی جماعت کے فکر کا محض قانونی اظہار ہوتا ہے۔ وہ اس کے فکر کی شرح نہیں ہوتا۔ اس لیےآپ کا یہ جواب دراصل ایک فاضل بات ہے جس کا اصل سوال سے کوئی تعلق نہیں۔
اسی طرح آپ کا یہ جملہ بھی اصل سوال کے لحاظ سے بالکل بے محل ہے کہ ’’رہا جماعت کے لٹریچر کا معاملہ تو وہ کسی ایک مصنف کی کتابوں کا نام نہیں ہے بلکہ وہ متعدد مصنفین کی تصنیفات پر مشتمل ہے۔‘‘ آپ کا یہ جواب اس وقت صحیح ہو سکتا تھا جب میں نے یہ دریافت کیا ہوتا کہ وہ مجموعۂ کتب جس کا نام آپ کے نزدیک ’’جماعتی لٹریچر‘‘ ہے، وہ ایک مصنف کی تصنیفات پر مشتمل ہے یا متعدد مصنفین اس کی فہرست میں شامل ہیں اس کے بجائے میں نے متعین طور پر مولانا مودودی کے لٹریچر کے بارے میں سوال کیا تھا کہ وہ جماعت اسلامی کے فکر کی شرح کے سلسلے میں کیا حیثیت رکھتا ہے۔
اپنا یہ جواب درج کرنے کے بعد آپ نے اپنے خط میں لکھا ہے، ’’میری یہ وضاحت معلوم نہیں آپ کی خلش دور کرنے کے لیے کافی ہو گی یا نہیں۔‘‘ یہ الفاظ پڑھ کر مجھے محسوس ہوا کہ مندرجہ بالا جواب لکھتے ہوئے شاید آپ پر خود بھی یہ احساس طاری تھا کہ آپ میری اصل بات کا جواب نہیں دے رہے ہیں۔ اور ظاہر ہے کہ جب لکھنے والا خود ہی مطمئن نہ ہو تو پڑھنے والے کو کس طرح اطمینان ہو سکتا ہے۔
تاہم آپ کے خط کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ آپ نے میری زبانی اور تحریری تاکید کے باوجود، اگرچہ کسی وجہ سے میرے سوال کا براہ راست جواب نہیں دیا۔ مگر بالواسطہ طور پر آپ نے بتا دیا ہے کہ میرے اس سوال کا آپ کے پاس کیا جواب ہے اس سے میری مراد آپ کے خط کا حسب ذیل فقرہ ہے۔
’’یہ لٹریچر بحیثیت مجموعی جماعت کے نصب العین کی صحیح ترجمانی کرتا ہے۔‘‘
آپ کے اس جملہ کا مطلب میرے نزدیک دوسرے لفظوں میں یہی ہے کہ جماعت کے فکر کی ترجمان کے سلسلے میں زیرِبحث لٹریچر کو آپ مستند شرح کا مقام دیتے ہیں۔ اس سلسلے میں آپ کی یہ وضاحت غیر ضروری ہے کہ ’’البتہ وہ انسانی ذہن و قلم کا پیدا کردہ ہے۔ اس لیے دیگر تمام مصنفین کی تصنیفات کی طرح اس میں غلطیاں ہو سکتی ہیں‘‘۔ کیوں کہ جب میں کہتا ہوں کہ جماعت اسلامی کے افراد مولانا مودودی کے لٹریچر کو جماعت کے فکر کی شرح کے سلسلے میں مستند درجہ دیتے ہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ خدانخواستہ یہ لوگ الٰہی کلام کی طرح اس کو ہر قسم کی غلطیوں سے یکسر پاک سمجھتے ہیں۔ ’’بعض ایسی چیزیں‘‘ جن کا اس لٹریچر میں موجود ہونے کا آپ نے اعتراف کیا ہے وہ تو انسانی کلام کی خصوصیت ہے۔ ایک دو سطریں یا پیراگراف ہر انسانی تحریر میں ایسی ہو سکتی ہیں اور ہوتی ہیں۔ کوئی انسانی کلام اس سے خالی نہیں ہو سکتا۔ دراصل اس قسم کی اتفاقی بھول چوک کا کوئی سوال نہیں ہے بلکہ اس عمومی اور مجموعی ترجمانی کا سوال ہے جو زیرِ بحث لٹریچر کے صفحات میں پھیلی ہوئی ہے۔ اور یہ ترجمانی جیسا کہ آپ نے لکھا، آپ کے نزدیک جماعت اسلامی کے فکر کی صحیح ترجمانی ہے۔
اس بنا پر اب میں دوبارہ اسی نتیجے پر پہنچا ہوں کہ میرے لیے جماعت اسلامی میں رہنے کا کوئی سوال نہیں ہے۔ جیسا کہ میں واضح طور پر بتا چکا ہوں، مولانا مودودی جس انداز سے دین کی تشریح کرتے ہیں اس سے مجھے اختلاف ہے۔ اور چوں کہ یہی تشریح آپ کے اور عام افراد جماعت کے نزدیک جماعت کے فکر کی صحیح ترجمانی ہے، اس لیے میرے لیے صحیح راہ یہی ہے کہ میں اس سے الگ ہو جاؤں۔
یہ ہے اصل بات کے سلسلے میں آپ کے خط کا جواب۔ مگر آپ نے اسی کے ساتھ ایک اور چھیڑ دیا ہے۔ آپ نے لکھا ہے:
’’ہمارے اطمینان کے لیے صرف اتنی بات کافی نہیں ہو سکتی کہ لٹریچر کے بارے میں آپ کی خلش رفع ہو جائے تو آپ اپنی بحث واپس لے لیں اور جماعت میں رہ کر اپنا کام جاری رکھیں۔ بلکہ آپ کو یہ اطمینان بھی دلانا ہو گا کہ آپ جماعت کے نصب العین کو قبول کرتے ہیں۔‘‘
معلوم نہیں کس بزرگ نے آپ کو یہ مشورہ دیا ہے کہ آپ مجھ سے نصب العین یا دوسرے لفظوں میں دستور کے ساتھ حلف وفاداری کا مطالبہ کریں۔ آپ نے اپنے خط مورخہ 19 اکتوبر62ء میں میرے بارے میں لکھا تھا کہ ’’آپ اس وقت بہرحال رکن جماعت ہیں‘‘ ایسی حالت میں اگر میں یہ کہوں تو آپ کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہو گا کہ آپ کے الفاظ میں چونکہ ’’رفقاء جماعت اصلاً محض دستور کے پابند ہیں‘‘۔ اس لیے ایک ایسا شخص جس کو آپ ابھی تک رکن تسلیم کر رہے ہوں، اس سے اس قسم کا مطالبہ کرنے سے پہلے آپ کو یہ بتانا ہو گا کہ کس قانونی دفعہ کے تحت آپ اس سے یہ مطالبہ کر رہے ہیں۔ آپ کو معلوم ہے کہ جماعت اسلامی میں ایسے لوگ موجود ہیں جن کا یہ خیال ہے کہ دستور میں نصب العین کا فقرہ بدل کر آپ حضرات نے جماعت کا اصل نصب العین ہی بدل دیا ہے۔ پھر کیا آپ نے ایسے ارکان سے موجودہ دستور کا حلف اٹھوایا ہے۔ اور ان حضرات کی طرف سے اس قسم کی تعمیل کے بعد آپ ان کو جماعت میں لیے ہوئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ نے اپنے اس مطالبہ کی نوعیت اور اس کے عواقب پر پوری طرح غور نہیں فرمایا۔ ورنہ آپ ہرگز اس قسم کی بات نہ لکھتے۔ آپ کو یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ دستور کی شکل میں جو قانونی ڈھانچہ آپ حضرات نے تیار کیا ہے وہ جس طرح آپ کے لیے محفوظ دیوار ہے، اسی طرح دیگر ارکان کے لیے بھی وہ محفوظ دیوار بن سکتا ہے، اور بنارس کے بعض افراد جماعت کا تجربہ تو یہ بتاتا ہے کہ یہ دیواران کے حق میں اتنی محفوظ ہے کہ آپ خواہش کے باوجود اسے توڑ نہیں سکتے۔
لیکن آپ مطمئن رہیں مجھے اس قسم کا کوئی قانونی کھیل نہیں کھیلنا ہے۔ میں اچھی طرح جانتا ہوں کہ مولانا مودودی کے لٹریچر کی حیثیت کے بارے میں جس بات کا تقاضا میں نے کیا تھا اور جس کے بعد اپنی بحث کو واپس لے لینے کی آمادگی ظاہر کی تھی ، وہ خالص اصولی حیثیت سے میرے لیےکوئی مناسب بات نہیں تھی، مگر یہ صرف آپ لوگ ہیں جنہوں نے مجھ کو اس بات کے لیے آمادہ کیا۔ آپ اور بہت سے دیگر افراد عرصہ دراز سے مجھ سے یہ کہتے رہے ہیں کہ تمہاری تنقیدوں سے قطع نظر، اصولی طور پر بات تم کہتے ہو، وہ جماعت کے افراد کو بالکل اپنے دل کی آواز معلوم ہوتی ہے۔ اس میں اور موجودہ فکر میں کوئی فرق نہیں۔ اس لیے اختلافی بحث کو چھوڑ دو اور مل کر بدستور کام کرتے رہو۔ ابھی حال میں مولانا عبدالعلیم اصلاحی اور دیگر افراد جماعت نے یہی بات شدت سے میرے سامنے رکھی۔ اور آپ نے بھی دوبارہ یہی بات اپنے خط مورخہ19 دسمبر1962ء میں ان الفاظ میں کہی ہے:
’’جہاں تک میرا تعلق ہے، جماعت کے نصب العین کے بارے میں آپ کا بنیادی نقطہ اختلاف میری سمجھ میں نہیں آ سکا۔‘‘
مگر اب معلوم نہیں کس خطرے کے پیش نظر آپ مجھ سے اس قسم کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ بہرحال میں تو بہت پہلے اس رائے پر پہنچ گیا تھا کہ اب میرے لیے جماعت اسلامی میں رہنا ممکن نہ ہو سکے گا۔ مگر آپ حضرات مندرجہ بالا باتوں اور زیرِ بحث مسئلہ کی نزاکت کی وجہ سے اصولی اعتبار سے اپنے کو مجروح کرتے ہوئے میں نے یہ گوارا کر لیا تھا کہ ضمیر کی خلش کا مسئلہ ختم ہو جائے تو میں اپنے آپ کو اس ڈھانچہ میں باقی رکھوں۔ یہ محض مطابقت کی ایک صورت تھی، اور وہ بھی صرف اسی وقت ممکن تھی جب کہ لٹریچر کی حیثیت کے بارے میں آپ وہ بات مان لیتے جو پہلے رام پور میں زبانی اور پھر یہاں سے تحریری شکل میں میں نے آپ کے سامنے رکھی تھی۔ مگر آپ کے مندرجہ بالا جواب کے بعد یہ آخری گنجائش بھی ختم ہو گئی۔ اس لیےگزارش ہے کہ براہ کرم میرے استعفیٰ کی منظوری کی اطلاع دے کر مجھے سبکدوش فرمائیں۔
خادم وحید الدین
