جوابات
رام پور ،11 ستمبر 1962ء
محترمی مولانا جلیل احسن صاحب سلام مسنون
گرامی نامہ مورخہ 6 ستمبر ملا۔ عرض ہے کہ آپ کے سوالات بے حد مختصر ہیں ہو سکتا ہے کہ آپ ان سوالات یا ان آیات کے حوالے سے میرے نقطہ نظر کی تردید کر رہے ہوں۔ مگر یہ آپ کے خط میں بالکل واضح نہیں ہے۔ اس کے بجائے خط میں مجرد قسم کے چند چھوٹے چھوٹے سوالات ہیں۔ اگر آپ اپنا پورا مدعا تحریر فرما دیتے تو مجھے غور و فکر کا اور اس کے مطابق تفصیلی جواب کا زیادہ موقع مل سکتا تھا۔ موجودہ صورت میں آپ کے سوالات نہایت تشنہ اور اصل مسئلہ کی نسبت سے غیر واضح ہیں۔ اس لیے قدرتی طور پر ان سوالات کے پیش نظر میں جو جو اب دوں گا، وہ بھی آپ کو تشنہ اور غیر واضح نظر آئے گا۔ کیوں کہ یہ ظاہر ہے کہ آپ نے جتنا سوال کیا ہے، میں اتنے ہی کا جواب دے سکتا ہوں، نہ کہ ان باتوں کا جو ابھی آپ کے ذہن میں ہیں، اور آپ نے سوالات کے ساتھ انھیں بیان نہیں فرمایا۔
آئندہ کے لیے گزارش ہے کہ آپ براہ کرم زیرِ بحث مسئلہ سے تعلق کو واضح کرتے ہوئے اپنے سوالات ارسال فرمائیں تاکہ اصل مسئلہ کے بارے میں آپ کے نقطہ نظر کو سمجھنے اور اس کے مطابق اپنا جواب روانہ کرنے میں مجھے آسانی ہو۔
ذیل میں آپ کے سوالات کا جواب درج کرتا ہوں۔
سورہ الحدید آیت 29
1۔ ’’بینات‘‘ سے مراد میرے نزدیک وہی ہے جس کو علامہ آلوسی اور دوسرے مفسرین نے لکھا ہے یعنی جج و معجزات۔
2۔ ’’کتاب‘‘ سے مراد ’’وحی‘‘ ہے جیسا کہ کشاف نے لکھا ہے۔
3۔ ’’میزان‘‘ کی تشریح میں خازن نے لکھا ہے یعنی العدل ای وامرنا بالعدل
4۔ ’’لیقوم الناس بالقسط‘‘ کا ترجمہ جیسا کہ مترجمین نے کیا ہے، یہ ہو گا :
- تاکہ لوگ قسط پر قائم رہیں۔
- تاعمل کنند مرد ماں بانصاف (شاہ ولی اللہ صاحب )
- لیتعاملوا بینھم بالعدل (خازن)
5۔ مذکورہ شعر میں قیام بالنصر کا مطلب مصیبت کے وقت مدد کے لیے پہنچنا ہے دوسرے لفظوں میں مدافعت۔
6۔ ’’الناس‘‘ سے مراد عام انسان ہیں، بظاہر تخصیص کا کوئی قرینہ یہاں نظر نہیں آتا۔
7۔ ’’قسط‘‘ کا مطلب انصاف ہے امام رازی کے الفاظ میں وَهُوَ أَنْ تُعْطِيَ قِسْطَ غَيْرِكَ كَمَا تَأْخُذُ قِسْطَ نَفْسِكَ(تفسیر کبیر، جلد 8، صفحہ101)۔
8۔ ’’لیقوم‘‘ میں لام غایت کی ہے، یہی سمجھ میں آتا ہے۔
9۔ ’’انزال حدید‘‘ کے ذکر کی وجہ اس کے بعد کے الفاظ پر غورکرنے سے سمجھ میں آتی ہے، یعنی وقت قتال اس سے ’’قوت‘‘ ملتی ہے اور اسی طرح دوسری ضرورتوںمیں وہ انسان کا بہترین مددگار ہے۔
10۔ ’’ولیعلم‘‘ کا عطف جلالین میں لیقوم الناس پر بتایا ہے، انزال حدید پر بھی اس کا عطف مان سکتے ہیں۔ ایسی صورت میں ایک فقرہ محذوف ماننا ہو گا، یعنی لِيَسْتَعْمِلُوهُ وَلِيَعْلَمَ اللهُ…(تفسیر ابوالسعود،جلد 8 ، صفحہ 212)۔ میرے خیال سے دونوں ہی لیے جا سکتے ہیں۔
11۔ ’’آخری ٹکڑا کیوں آیا ہے‘‘ یہ اس مطلوب الٰہی کا اظہار ہے کہ جب نبی اور اس کے مخالفین میں کشمکش ہو تو اہلِ ایمان کا فرض ہے کہ وہ دشمنانِ رسول کے مقابلے میں رسول کا ساتھ دیں۔
سورہ البقرۃ آیت 129
1۔ جب قرآن نے چار الگ الگ الفاظ استعمال کیے ہیں تو غالب قرینہ یہی ہے کہ اس سے چار مختلف کام مراد ہوں۔
2۔ ان چاروں الفاظ کی تشریح میں علامہ آلوسی نے جو کچھ لکھا ہے، اس سے مجھے اتفاق ہے، (روح المعانی، جلد 1 ، صفحہ 386-87)۔
3۔ اگر کوئی شخص اس کو نبی کی بعثت کا مقصد قرار دے تو مجھے اس پر اعتراض نہیں ہے۔
لِتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ (2:143)
شَھِدَ بِصِلَۃِ لَامٍ وَشَھِدَ بِصِلَۃِ عَلٰیمیں جو فرق آپ نے بتایا ہے وہ عمومی استعمال کے لحاظ سے صحیح ہے مگر حصر درست نہیں۔ علیٰ کا صلہ کبھی مجرد شہادت کے موقع پر بھی استعمال ہوتا ہے، خواہ وہ خلاف ہویا موافق (شَهِدَ فُلَانٌ عَلَى فُلَانٍ بِحَقٍّ، فَهُوَ شَاهِدٌ، لسان العرب) اگر شہد علیٰ میں اس عموم کو تسلیم کر لیا جائے تو اردو مترجمین نے جو ترجمے کیے ہیں ان پر وہ اعتراض واقع نہیں ہوتا جس کا آپ نے اپنے خط میں ذکر فرمایا ہے۔
خادم وحید الدین
