جواب
ظاہر ہے کہ یہ خط ایسا نہیں تھا جس سے میری تشفی ہو سکتی۔ چنانچہ میں نے اس کے جواب میں 25 جون کی ڈاک سے ان کے نام حسب ذیل خط روانہ کیا۔
’’گرامی نامہ مورخہ 15جون1962ء مجھے رام پور میں23 جون کو ملا۔ افسوس کہ بالکل خلاف توقع آپ نے میری تحریر کی صرف رسید بھیجنے پر اکتفا کی۔ اور اس کا جواب دینے سے انکار کر دیا۔ میں پھر آپ کو خدا کا واسطہ دے کر لکھتا ہوں کہ براہ کرم میری مدد فرمائیے۔ میں خدا کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ میرے سامنے مذہب کے نام پر محض ایک شورش برپا کرنا نہیں ہے۔ بلکہ میں بے لاگ مطالعہ کے بعد بالکل دیانتداری کے ساتھ ایک نتیجے پر پہنچا ہوں۔ میری عقل اور ضمیر اپنی موجودہ معلومات کی روشنی میں مجھ کو یہ یقین کرنے پر مجبور کرتے ہیں کہ دین کی وہ تشریح غلط ہے جس سے میں پچھلے پندرہ سال سے وابستہ تھا۔ اس کے بالمقابل دوسری تشریح جو مجھے صحیح معلوم ہوتی ہے اس کو بھی میں نے کافی وضاحت سے اپنی تحریر میں بیان کر دیا ہے۔ آپ اس کو پڑھ کر متعین دلائل کے ساتھ اپنی رائے تحریر فرمائیں۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں پوری سنجیدگی کے ساتھ اس پر غور کروں گا، اور اگر میری فہم نے گواہی دی کہ آپ کی بات قرآن و سنت سے زیادہ قریب ہے تو ان شاء اللہ کوئی چیز مجھے آپ کی بات مان لینے میں روک نہیں بنے گی، بے شک آپ اپنے خیالات تفصیل کے ساتھ اپنی کتابوں اور اپنے مضامین میں بیان کر چکے ہیں۔ مگر اس قسم کا کوئی بھی تصنیفی ذخیرہ آئندہ پیش آنے والے سوالات کا دروازہ بند نہیں کرتا۔ آپ کی کتابیں آپ کے نقطۂ نظر کا اظہار ہیںنہ کہ میرے سوالات کا جواب۔ اپنے نقطۂ نظر کے حق میں آپ نے اپنی تصنیفات میں جو دلائل قائم کیے ہیں، ان میں اگر کوئی شخص کسی سقم کی نشاندہی کرتا ہے تو ضرورت ہے کہ اس بیان کردہ سقم کی نسبت سے دوبارہ آپ اپنے نقطہ نظر کی وضاحت فرمائیں۔ اس سلسلے میں آپ کو بہت زیادہ تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔ آپ نے اس سے پہلے ایسا کیا ہے کہ کسی معترض کی تحریر کو پڑھ کر اس کے بنیادی نکات متعین کر لیے اور تفصیلات کو چھوڑ کر صرف ان بنیادی نکات کا جواب دے دیا۔ ایسا ہی آپ میری تحریر کے معاملہ میں کر سکتے ہیں۔
آپ خود بھی بار بار یہ اعلان کرتے رہے ہیں کہ اگر کسی کے نزدیک آپ کا نقطہ نظر قرآن و سنت کے مطابق نہیں ہے تو وہ اسے قرآن و سنت کے ذریعہ آپ پر واضح کرے۔ آپ یقیناً اس پر غور کریں گے اور جس وقت بھی آپ پر منکشف ہو گا کہ آپ ’’کہیں بال برابر بھی قرآن و سنت سے ہٹے ہوئے ہیں‘‘ آپ فوراً حق کی طرف رجوع کر لیں گے۔ اس لیے جب ایک شخص قرآن و سنت کی روشنی میں آپ کی غلطیوں کی طرف آپ کی توجہ دلاتا ہے تو آپ کا یہ رویہ کیسے صحیح ہو سکتا ہے کہ آپ نہ اس کو قبول کریں، نہ دلائل سے اس کی تردید کریں، حتی کہ اس کو پورا پڑھنے کی زحمت بھی گوارا نہ فرمائیں۔ اور محض بلا دلیل اس کے خلاف ایک فیصلہ سنا دیں۔
میں یہ بھی عرض کر دوں کہ یہ محض ایک میری ذات کا مسئلہ نہیں ہے۔ بلکہ یہاں جن جن ساتھیوں کو میں نے یہ تحریر دکھائی ہے، اور ان میں نیچے سے اوپر تک کے افراد شامل ہیں، تقریباً سب کے سب آپ کے جواب کے منتظر ہیں۔ انہوں نے اگرچہ میرے خیالات سے اتفاق ظاہر نہیں کیا۔ مگر سابقہ نظریہ پر اپنے شرح صدر کو باقی رکھنے کے لیے وہ ضرورت سمجھتے ہیں کہ آپ دلائل کے ساتھ ان اعتراضات کی تردید فراہم کریں۔ جو میری تحریر میں اٹھائے گئے ہیں۔ ایسی حالت میں یہ صرف میرے اعتراضات کی تردید فراہم کریں۔ جو میری تحریر میں اٹھائے گئے ہیں۔ ایسی حالت میں یہ صرف میرے اوپر نہیں بلکہ ان تمام لوگوں کے اوپر بہت بڑا ظلم ہو گا کہ اس مسئلہ پر آپ خاموشی اختیار کر لیں۔ پھر مجھے یہ بھی امید نہیں ہے کہ آپ فی الواقع اس مسئلہ پر ہمیشہ خاموش رہ سکیں گے۔ پھر آئندہ جو کچھ آپ کہیں گے، اس کو پہلے کیوں نہ کہہ دیں۔ یہ آپ کی طرف سے اس بات کی کوشش ہو گی کہ یہ مسئلہ آپس کی گفتگو سے حل ہو جائے۔ اور برسرعام بحث و تکرار کی نوبت نہ آئے، جیسا کہ خود میں نے اپنی تحریر کو اشاعت کے لیے دینے سے پہلے اسی غرض سے اس کو آپ کے پاس بھیجا ہے۔
آخر میں پھر کہوں گا کہ آپ کا علم کتاب و سنت اگر یہ بتاتا ہے کہ میں حق پر نہیں ہوں اور اس کے لیے آپ کے پاس قاطع دلیل بھی موجود ہے تو آپ کا فرض ہے کہ مجھ پر دلائل سے میری غلطی واضح فرمائیں۔ اگر آپ دلیل رکھنے کے باوجود خاموش رہتے ہیں اور ایک ایسی بات جو آپ کے نزدیک گمراہی ہے، اس کے متعلق مجھ سے کہتے ہیں کہ جاؤ اس کی تبلیغ کرو، تو مجھے نہیں معلوم کہ آپ خدا کے یہاں کس طرح بری الذمہ ہو سکیں گے۔
خادم وحید الدین
