اعظم گڑھ کی ملاقات
مولانا ابواللیث صاحب کے مذکورہ بالا خط مورخہ 7 جنوری 1963ء کے مطابق 22 جنوری کو اعظم گڑھ میں ان سے ملاقات ہوئی۔ یہ ملاقات دو نشستوں میں تھی، ایک نماز عصر سے پہلے، دوسری نماز عصر کے بعد۔ پہلی نشست میں عبدالعلیم اصلاحی امیر جماعت اسلامی شہر بنارس بھی شریک تھے۔ اور دوسری میں وہ اور حمید اللہ صاحب ایم اے، امیر جماعت اعظم گڑھ اور ڈاکٹر اکرام احمد خاں صاحب (اعظم گڑھ) موجود تھے۔
میں نے کہا کہ میرا اصل مسئلہ مولانا مودودی کے لٹریچر کا مسئلہ ہے۔ بقیہ باتیں جو میں جماعت اسلامی کے افراد، اس کے ڈھانچہ اور پالیسی وغیرہ کے بارے میں کہتا ہوںوہ محض ضمناً ہوتی ہیں، نہ کہ اصلاً۔ چنانچہ یہی بات میں نے رام پور کی روانگی سے قبل وہاں مقامی ارکان شوری کی نشست میں آپ سے کہی تھی۔ مگر آپ نے نہیں مانی۔ تاہم اگر آپ اب بھی اسے مان لیں تو یہ مسئلہ ختم ہو سکتا ہے۔ انہوں نے کہا اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم لٹریچر کو بالکل غلط سمجھیں اور اس کو ترک کر دیں، میں نے کہا کہ میرا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ اس کو بالکل غلط سمجھیں اور نہ مکتبہ یا لائبریری میں اس کی موجودگی پر مجھے اعتراض ہے میرا اعتراض دراصل اس کی حیثیت پر ہے۔ کیوں کہ میرا خیال ہے کہ جماعت اسلامی کے حلقہ میں اس کی حیثیت یہ بن گئی ہے گویا یہی لٹریچر جماعت اسلامی کی فکر کا مستند ترجمان ہے۔
انہوں نے کہا نہیں، لٹریچر کو ہم یہ حیثیت نہیں دیتے۔ حمید اللہ صاحب نے کہا ہم میں سے کوئی بھی یہ نہیں سمجھتا کہ مولانا مودودی کا لٹریچر جماعت اسلامی کے فکر کا واحد ماخذ ہے۔ ابواللیث صاحب اور دیگر حاضرین نے بھی اس کی تائید کی۔ اس وقت لوگوں کی گفتگو کا انداز ایسا تھا جیسے میں ایک بالکل بے بنیاد بات کہہ رہا ہوں، میں جماعت اسلامی کے اوپر ایک ایسا الزام عائد کر رہا ہوں جس کا جماعت اسلامی کے حلقہ میں کوئی بھی قائل نہیں ہے۔
میں نے مولانا ابو اللیث صاحب سے کہا کہ پھر حمید اللہ صاحب کا یہی جملہ آپ ذمہ دار اعلیٰ کی حیثیت سے مجھے لکھ کر دے دیجیے۔ انہوں نے کہا ہے کہ ’’مولانا مودودی کا لٹریچر جماعت اسلامی کے فکر کا واحد ماخذ نہیں ہے‘‘ بس یہی الفاظ آپ ایک سادہ کاغذ پر لکھ دیں۔ مگر وہ اس کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ میں نے بار بار کہا کہ آپ حمید اللہ صاحب کے الفاظ ایک کاغذ پر لکھ کر اپنا دستخط کر دیجیے۔ میں مان لوں گا۔ مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ اس نشست کے تمام شرکاء جانتے ہیں، اور محلہ بدرقہ، مکان نمبر 9 کی دوسری منزل کا بڑا کمرہ جس میں یہ گفتگو ہوئی اس کے در و دیوار اور اس کا فرنیچر گواہ ہے کہ میں نے اس رپورٹ میں ذرا بھی کمی بیشی نہیں کی ہے۔
میں نے کہا کہ جب آپ لکھنے کے لیے تیار نہیں ہیں تو آپ کے زبانی الفاظ میری خلش کو دور کرنے کے لیے کافی نہیں ہو سکتے۔ بالآخر عبدالعلیم صاحب اصلاحی کی تجویز کے مطابق یہ طے ہوا کہ میں اپنی بات مختصر طور پر ایک کاغذ پر لکھ کر مولانا ابواللیث صاحب کو دے دوں اور وہ اس کا جواب لکھ دیں، چنانچہ میں نے حسب ذیل تحریر لکھ کر انھیں دی۔
