رام پور ،13 اگست 1962ء
محترمی! سلام مسنون
گرامی نامہ مورخہ 7 اگست ملا، آپ نے لکھا ہے— ’’میرا مشورہ یہ ہے کہ آپ اعظم گڑھ چلے آئیں اور پھر ہمارے آپ کے درمیان مراسلت ہو، ہو سکتا ہے آپ پر اپنی تعبیر کی غلطی واضح ہو جائے۔‘‘ میں آپ کے اس مشورہ کو قبول کرتا ہوں۔ چنانچہ آج ہی میں امیر جماعت کو خط لکھ رہا ہوں کہ وہ مجھے رام پور سے اعظم گڑھ جانے کی اجازت دے دیں۔ ان شاء اللہ، ان کا جواب آنے کے بعد جو صورت ہو گی اس پر عمل کروں گا، اور اس کےمطابق آپ کو مطلع کر دوں گا۔
اب آپ سے گزارش ہے کہ اپنا کام شروع کر دیں، جب میں نے آپ کامشورہ مان لیا تو اب آپ کے اوپر میرا یہ حق ہو جاتا ہے کہ اپنے ضروری مشاغل کے سوا اپنے تمام اوقات کو میرے لیے خاص کر دیں، کیوں کہ زندگی کا کوئی اعتبار نہیں ۔ کچھ نہیں معلوم کہ کب سننے والے کا وقت ختم ہو جائے اور کب سنانے والے کا۔
اگر کوئی گستاخی ہوئی ہو تو اس کے لیے مجھے معاف فرمائیں گے۔
خادم وحیدالدین
اس دوران میں جناب عبدالحئی صاحب (اڈیٹر الحسنات)نے بطور خود ایک خط مولانا جلیل احسن صاحب کو روانہ کیا، موصول کا یہ خط تو میں نے نہیں دیکھا، البتہ اس کا جو جواب آیا وہ انہوں نے مجھے دے دیا تھا، یہ جواب حسب ذیل ہے
خط بنام عبدالحئی صاحب
