نظریاتی دینداری
عام مسلمانوںمیں دین جس محدود اور بے روح شکل میں پایا جاتا ہے۔ اس کو یہ تعبیر رسمی دینداری کہتی ہے۔ مجھے اس تنقید سے اتفاق ہے۔ مگر خود اس تعبیر نے جو ذہن پیدا کیا، وہ بھی صحیح اسلامی ذہن نہیں ہے۔ اس کا کارنامہ صرف یہ ہے کہ اس نے رسمی دینداری کی جگہ ایک قسم کی نظریاتی دینداری پیدا کر دی۔ حالانکہ دین سے تعلق کی اصل روح دلسوزی اور گھلاوٹ ہے۔ مگر یہ چیز نہ یہاں موجود ہے اور نہ وہاں موجود۔
اس تعبیر نے اسلام کا جو تصور پیش کیا ہے۔ وہ یہ ہے کہ ’’اسلام ایک ہمہ گیر انقلابی نظریہ ہے جو ساری دنیا کے نظریات کو بدل کر اپنے نظریہ کے مطابق تعمیر کرنا چاہتا ہے‘‘۔ یہ بات کلیتاً غلط نہیں ہے۔ مگر اس تعبیر نے اسی چیز کو اسلام کی اصل حیثیت قرار دے دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اسلام بس ایک طرح کا نظریاتی تصور بن کر رہ گیا۔ اور اس کے اندر وہی خرابیاں پیدا ہو گئیں، جو اس طرح کے دوسرے نظریات میں ہم دیکھتے ہیں۔ دنیا کے تمام انقلابی نظریات محض کچھ الفاظ کے مجموعے ہیں۔ ان کے پیچھے کوئی نفسیاتی بنیاد موجود نہیں۔ اس لیے وہ کاغذ پر تو خوب زیرِ بحث آتے ہیں۔ اور زبانوں پر بھی ان کا بڑا چرچا رہتا ہے۔ مگر وہ آدمی کی روح کو نہیں چھوتے، وہ اس کی فطرت کا جزء نہیں بنتے۔ اور اس کے اندرونی وجود کو متاثر نہیں کرتے۔ اسی طرح اسلام کو جب دوسرے نظریات کے مقابلے میں ایک نظریہ کی حیثیت دی گئی تو وہ بھی اپنے حریفوں کی مانند بس ایک قسم کا ’’نظریہ‘‘ بن کر رہ گیا۔ جو اپنے افراد کو نظریاتی بحثیں تو دیتا ہے، مگر ان کے اندرون کو نہیں جگاتا ۔ ان کے اندر نفسیاتی وابستگی پیدا نہیں کرتا۔ وہ ان کو قربت الٰہی کی حقیقت سے آشنا نہیں کرتا جو اس دنیا میں کسی بندۂ خدا کا سب سے بڑا حاصل ہے۔
اس تشریح کا نقصان یہیں نہیں رکتا، بلکہ اور آگے بڑھ کر وہ ایسی صورت اختیار کر لیتا ہے، جہاں نہ حقیقت باقی رہتی ہے اور نہ نظریہ۔ حقیقت سے ہٹ کر کسی چیز کی جو تشریح کی جائے وہ صرف ایک لفظی مجموعہ ہوتا ہے، وہ کبھی انسان کی فطرت میں جڑ نہیں پکڑ سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ دین کی زیرِ بحث تشریح کو جو لوگ اپناتے ہیں، وہ ابتداء ً تو ان کی زندگی میں کچھ جوش و خروش دکھاتی ہے۔ مگر وہ کسی گہرے عمل کا محرک نہیں بنتی۔ اور بالآخر ایک بے جان نظریے کی طرح اس کی ذہنی سطح پر جا کر ٹھہر جاتی ہے۔ آدمی اس کے بعد بھی دیندار بنا رہتا ہے۔ مگر اب اس کی دینداری اس کے فکری سرچشمہ سے نکلی ہوئی دینداری نہیں ہوتی۔ بلکہ محض ان پیدائشی اثرات کا نتیجہ ہوتی ہے، جو اتفاق سے اس کے اندر پہلے سے موجود تھے، اور فکری تعلق ٹوٹنے کے بعد اس کا سہارا بن گئے۔ اس دینداری کی مثال بالکل ایسی ہے، جیسے کوئی پتی اپنی جڑ چھوڑنے کے بعد نیچے کی شاخوں میں اٹک کر رہ گئی ہو۔ بظاہر وہ درخت پر ہے۔ مگر حقیقتاً وہ اس سے الگ ہو چکی ہے۔ اب اس کا کوئی وجود نہیں۔ حقیقت سے انحراف آدمی کو صرف حقیقت سے محروم نہیں کرتا۔ بلکہ اس دوسری چیز سے بھی محروم کر دیتا ہے، جس کے لیے اس نے حقیقت کو چھوڑا تھا۔ کیوں کہ اس کائنات میں ایک ہی سرچشمہ ہے، جس سے تمام چیزیں نکلتی ہیں اس سے تعلق ٹوٹنے کے بعد کسی بھی چیز کا کوئی وجود نہیں۔
