دین کو اپنے ذہنی سانچے میں ڈھالنا

آدمی جس قسم کی تعبیر سے متاثر ہو، وہ ہر مسئلے کو اسی رنگ میں د یکھنا چاہتا ہے۔ مثلاً سیاست ، دین کا ایک لازمی جزء ہے۔ لیکن اگر آپ اس کو اس کے اصل مقام سے ہٹا کر مرکزی جگہ رکھ دیں اور دین کی ایسی تشریح کریں کہ سیاسی انقلاب ہی اسلامی تحریک کا آخری مقصود نظر آنے لگے، تو یقینی طور پر آپ کے سوچنے کا انداز بدل جائے گا۔ آپ دوسری تمام چیزوں کی تشریح اسی کی روشنی میں کریں گے۔ دین کے کسی جزء کو آپ اس وقت تک سمجھ ہی نہیں سکتے، جب تک سیاست کے مرکزی تصور سے اس کاتعلق معلوم نہ کر لیں۔ یہاں تک کہ نماز آپ کے ذہن میں ایک تربیتی ضمیمے کی شکل اختیار کر سکتی ہے، جس کا مقصد اسلام کے لیے سیاسی مجاہدین تیار کرنا ہو گا۔ اور اگر کوئی مسلمان کسی غیر آباد جزیرے میں اپنے آپ کو تنہا پائے تو اس فلسفے سے متاثر شخص کے لیے یہ سمجھنا مشکل ہو گا کہ وہاں نماز کی آخر کیا ضرورت ہے۔

ایسا آدمی اپنے ذہن سے مجبور ہو گا کہ ہر سوال کا جواب سیاسی ڈکشنری میں ڈھونڈنے کی کوشش کرے۔ اسلام کے کسی جزء کی ایسی تشریح اس کو مطمئن ہی نہیں کر سکتی، جس کے اندر سیاست کی چاشنی موجود نہ ہو۔ مثال کے طور پر اگر آپ دیکھیں کہ اسلامی کارکنوں میں جوش و جذبے کی کمی ہے۔ خدا کے لیے تڑپ اور اس کے لیے آنسو بہانے کی کیفیت ان میں نہیں پائی جاتی، تو آپ کے نزدیک اس کی وجہ یہ ہو گی کہ کارکنوں کی زندگی سیاسی ہلچل سے خالی ہے۔ آپ کا بہترین مشورہ یہ ہو گا کہ ایسے پروگرام اختیار کیے جائیں، جو انھیں وقت کی سیاسی طاقتوں سے ٹکرانے والے ہوں۔ بے شک اہل ایمان کی زندگی میں ایسے مراحل بھی پیش آتے ہیں۔ مگر اسلامی تڑپ پیدا کرنے کے لیے دوسرے اس سے زیادہ موثر ذرائع ہیں، جو آپ کے اپنے پاس موجود ہیں اور ہر وقت حاصل ہو سکتے ہیں— قرآن کامطالعہ،کائنات کی نشانیوں پر غور کرنا، لمبی لمبی نمازیں، روزے کی مشقت، رات کے وقت آپ کے پہلو کا بستر سے جدا رہنا ، تنگی کے باوجود خدا کی خوشنودی کے لیے خرچ کرنا، آخرت کی طلب میں اپنے ذوق ، اپنی عادتوں اور اپنے آرام و عیش کوترک کرنا۔ اس قسم کے بے شمار مواقع ہیں، جو ہر آن اور ہر جگہ آپ کا انتظار کر رہے ہیں اور ان میں سے ہر ایک آپ کو تڑپادینے کی بے پناہ صلاحیت رکھتا ہے۔ مگر آپ صرف اس لیے ان سے محروم رہے کہ آپ کے ذہن میں دین کی ایک خودساختہ تشریح بیٹھ گئی ۔ آپ اسلام کو ایک غلط رخ سے دیکھنے لگے۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ آپ کو وہ مقامات نظر ہی نہ آئے جہاں خدا کے فرشتے ترقی ایمان کی بے حساب غذائیں تقسیم کر رہے ہیں۔ اور بے حسی اور تنزل کی بیماری میں مبتلا ہو کر اس بات کا شکوہ کر رہے ہیں کہ آپ کے رہنما آپ کو ایسا کوئی انقلابی پروگرام ہی نہیں دیتے جو آپ کو زندہ اورمتحرک کر سکے۔

اس طرح قرآن کی دعوت کی غلط تعبیر کا نتیجہ یہ ہو گا کہ آدمی پورے قرآن کو بالکل دوسرے رنگ میں دیکھنے لگے گا۔ اس کے بعد نفسیاتی طور پر ایسا ہو گا کہ قرآن کی وہی آیتیں یا آیات کی وہی تفسیریں آپ کے ذہن کا جزء بنیں گی، جن میں آپ اپنے مخصوص تصور کی تصدیق پارہے ہوں۔ بقیہ آیتیں یا آیات کی دوسری تشریحیں آپ کے ذہن میں ہرگز وہ جگہ حاصل نہیں کر سکتیں جن کی وہ مستحق ہیں۔

اس ذہنی صورت حال کو آپ کسی کے اندر گھس کر دیکھ تو نہیں سکتے، مگر اس کے ظاہری رویے میں یقینی طور پر اس کو محسوس کر سکتے ہیں۔ میں نے ایسے لوگ دیکھے ہیں جن کے سامنے دعوت اسلامی کے کام کو موثر بنانے اور اس کی مشکلوں سے نمٹنے کے لیے ایک روزانہ اخبار جاری کرنے کی تجویز ہو تو وہ بہت جلد اس کی اہمیت کے قائل ہو جائیں گے۔ وہ یہ بات بھی بہت آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ دوسرے اخباروں کو روپیہ دے کر یا بڑی تعداد میں ان کے پرچے کی  ’’خریداری ‘‘ قبول کر کے ان سے اپنے پروپیگنڈے کا کام لیا جائے۔ حتیٰ کہ اگر بازار سے کچھ صلاحیتوں کو خرید کر انھیں استعمال کرنے کا موقع ہو تو وہ اسے بھی بڑی خوشی سے گوارا کر سکتے ہیں۔ مگر یہ بات ان کی سمجھ میں نہیں آئے گی کہ ’’داعی بننے کے لیے نماز سے مدد لو‘‘ اور ’’قیام لیل کے ذریعہ اپنے آپ کو موثر دعوتی کام کے لیے تیار کرو‘‘۔ ان کو قرآن کی صریح آیتیں سنائی جائیں گی۔ مگر وہ کہیں گے ’’یہ تو تصوف کی بات ہے‘‘— ائْتِ بِقُرْاٰنٍ غَيْرِ ھٰذَآ اَوْ بَدِّ لْهُ  (10:15)۔یعنی،اس کے سوا کوئی اور قرآن لاؤ یا اس کو بدل دو۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom

Ask, Learn, Grow

Your spiritual companion