اس کے بعد میں نے حسب ذیل مکتوب مولاناابواللیث صاحب کی خدمت میں روانہ کیا۔

رام پور، 19 اگست1962ء

محترمی    سلام مسنون                               

گرامی نامہ مورخہ 13 اگست 1962ء ملا۔ میرا ارادہ تھا کہ اگر آپ نے مولانا صدرالدین صاحب کی تحریر کے سلسلے میں میرے تاثرات مانگے تو میں ان کے ایک ایک پوائنٹ کے بارے میں واضح طور پر اپنا تبصرہ لکھ کر بھیجوں گا، مگر آپ نے چونکہ فرمایا ہے کہ ’’میں اپنے خیالات مختصراً قلم بند کرکے بھیجوں ‘‘۔ اس لیے چند ضروری باتیں عرض کرتا ہوں۔

مولانا صدر الدین صاحب اصلاحی نے سب سے پہلے ’’موضوع بحث کیا ہونا چاہیے تھا‘‘ کے عنوان کے تحت لکھا ہے کہ میں نے جماعت اسلامی کے نصب العین اور اس کی تعبیر دین کی غلطی ثابت کرنے کے لیے اس کے لٹریچر کو بنیاد بنایا ہے۔ حالانکہ صحیح طریقہ یہ تھا کہ پہلے دستور جماعت کی وہ دفعہ پوری نقل کر دی جاتی جس میں نصب العین اوراس کی تشریح درج ہے اور پھر اس پرتنقید کی جاتی۔

عرض ہے کہ میرا اعتراض اصلاً ’’جماعت اسلامی بحیثیت قانونی ڈھانچہ‘‘ پر نہیں ہے بلکہ اس خاص تعبیر دین پر ہے جس کے نتیجے کے طور پر یہ ڈھانچہ وجود میں آیا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ اس تعبیر کی تفصیلات لٹریچر میں ہیں، نہ کہ دستور کی قانونی دفعات میں۔ پھر دستورمیں نصب العین کے فقرے کی تبدیلی کا مطلب جیسا کہ خود تبدیل شدہ دستورکے حاشیہ میں تصریح ہے، یہ نہیں ہے کہ جماعت کاسابقہ تصور دین بدل گیا۔ اس کے برعکس، حقیقت صرف یہ ہے کہ سابقہ تصور دین کو بطور نصب العین ایک قانونی فقرے میں ظاہر کرنے کے لیے جماعت نے اب ایک نیا جملہ استعمال کیا ہے۔ گویا یہ بحث بالکل اضافی ہے کہ جماعت اسلامی کا نصب العین حکومت الٰہیہ ہے یا اقامت دین، کیوں کہ کہ خواہ جو لفظ بھی بولا جائے اس کا تفصیلی مفہوم متعین کرنے کے لیے وہی لٹریچر دیکھنا ہو گا جو پہلے بھی جماعت کا واحد فکری سرمایہ تھااور آج بھی عملی طور پر وہی جماعت کاواحد فکری سرمایہ ہے۔ (واضح ہو کہ یہ بات میں نے محض اصولی طور پر کہی ہے، ورنہ نہ تو ایسا ہے کہ میں نے محض ’’حکومت الٰہیہ‘‘ کے لفظ کو بنیاد بنا کر اپنے مضمون میں ساری تنقید کر ڈالی ہے اور نہ ایسا ہے کہ ’’اقامت دین‘‘ کے لفظ سے وہ بات ثابت ہو جاتی ہے جس کی موصوف ترجمانی کر رہے ہیں)۔

2۔ زیرِ بحث تعبیر کے حق میں سب سے پہلا استدلال ’’شہادت‘‘ کی آیت سے کیا جاتا ہے، ’’شہادت حق‘‘ نامی پمفلٹ کی تشریح کے مطابق شہادت کا کام جس کے لیے انبیاء بھیجے گئے تھے، وہ یہ تھا کہ زبانی تبلیغ کے ساتھ ساتھ اسلام کے پورے نظام کا زندگی کے تمام انفرادی اور اجتماعی قومی اور بین الاقوامی شعبوں میں عملی مظاہرہ کیا جائے، اس کے بغیر شہادت اور تبلیغ کی ذمہ داری پوری طرح ادا نہیں ہو سکتی اور نہ نوع انسانی پر اتمام حجت ہو سکتا ہے، اس کا مطلب یہ ہوا کہ جماعت اسلامی نے جو انقلابی نصب العین اپنے سامنے رکھا ہے وہ وہی ہے جو شہادت کی آیت کے تحت ہم پر فرض کیا گیا ہے۔

اس استدلال پر میں نے اعتراض کیا تھاکہ شہادت اور اتمام حجت کا یہ مطلب کسی بھی رسول کی زندگی سے ثابت نہیں ہوتا، وہ تمام رسول جن سے ہم واقف ہیں اور جن کا قرآن میں ذکر ہے، انہوں نے زبانی تبلیغ ہی کے ذریعہ شہادت کی ذمہ داری کو ادا کیا تھا۔ کسی بھی رسول نے اس طرح اتمام حجت نہیں کی کہ اس نے اپنی امت دعوت کے سامنے پورے نظام اسلامی کا ہمہ گیر عملی مظاہرہ کر کے دکھایا ہو، قرآن میں درجنوں بلکہ سینکڑوں آیتیں ہیں جن میں نبی کے دعوتی کام کا ذکر ہے، مگر کہیں بھی ’’عملی شہادت‘‘ یا اتمام حجت کے لیے اسلامی نظام زندگی کے ’’مظاہرہ‘‘ کا کوئی ذکر نہیں، بلکہ ہر جگہ ’’کہنے‘‘ اور ’’سنانے‘‘ کی قسم کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ اس سلسلے میں میرے استدلال کا جواب دیتے ہوئے فرماتے ہیں:

’’دراصل انھیں دھوکا ان آیتوںکو دیکھ کر اوران کے سیاق و سباق اور مقصد بیان پر پوری طرح غور نہ کر سکنے کی وجہ سے لگ رہا ہے جن میں یہ فرمایا گیا ہے کہ رسولوں پر اچھی طرح پہنچا دینے کے سوا اورکوئی ذمہ داری نہیں (فَهَلْ ‌عَلَى ‌الرُّسُلِ ‌إِلَاّ ‌الْبَلاغُ الْمُبِين [16:35]، وغیرہ)حالانکہ اس طرح کی آیتیں انبیاء کے پورے کار شہادت اور فریضۂ رسالت کاتعین کرنیوالی ہیں ہی نہیں، یہ تو کار شہادت کے صرف آغاز اور اس کی ابتدائی منزل کا تعین کرتی ہیں، اور جہاں تک حصر کا اسلوب رکھنے والی آیتوں کاتعلق ہے وہ تو صرف ان معاندین حق کے پیش نظر فرمائی گئی ہیں۔ جو کسی طرح بھی دعوت حق کے قبول کرنے پرآمادہ نہیںہوتے۔ اور ان کے فرمانے کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ ایک طرف تو نبی کو یہ اطمینان دلایا جائے کہ ان لوگوں کی حد تک — صرف ان لوگوں کی حد تک — تمہاری ذمہ داری ختم ہو چکی ہے، اس لیے ان کے ایمان نہ لانے کے سلسلے میں تمہیں پریشان نہ ہونا چاہیے۔ دوسری طرف ان منکروں کو متنبہ کردیا جائے کہ تمہیں سمجھانے بجھانے کا مرحلہ اب ختم ہو چکا ہے۔ اب اگر تم نہیں مانتے تواس کے انجام کے تم خود ذمہ دار ہو۔‘‘

اگرچہ یہ توجیہ صرف ان آیتوں سے متعلق ہے جو موصوف کے الفاظ میں ’’حصر کااسلوب ‘‘رکھنے والی ہیں، ان کے سوا بے شمار دیگر آیات کے حق میں یہ توجیہ صادق نہیں آتی، تاہم اصل مسئلہ نسبت سے یہ بحث بالکل غیر ضروری ہے۔ اس لیے میں اس کو چھوڑتا ہوں۔ میں یہ پوچھتا ہوں کہ موصوف نے جن ’’معاندین حق‘‘ کا حوالہ دیا ہے، ان کامعاند ہونا کیسے معلوم ہوا تھا، کیا یہ کوئی انکشاف تھا جو محض علم غیب کی بنیاد پر کر دیا گیا تھا، یا تبلیغ و شہادت کی کسی کوشش کے بعد اس کا علم حاصل ہوا تھا آخر حق کو قبول کرانے کی وہ کون سی کوشش تھی جس نے بتایا کہ وہ کسی طرح بھی حق کو قبول کرنے والے نہیں ہیں‘‘۔ اور یہ کہ ان لوگوں کی حد تک نبی کی بات پہنچانے کی ’’ذمہ داری ختم ہو چکی ہے‘‘۔ اب وہ قیامت میں یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم کو آپ ایک ایسے جرم کی سزا دے رہے ہیں جو ہم پر واضح نہیں کیا گیا تھا، دوسرے لفظوںمیں یہ کہ جو ذمے داری شاہد پر تھی وہ ذمہ داری اب مشہود کی طرف جا چکی تھی، آخر شہادت ادا کرنے یا بات پہنچانے کی وہ کون سی کوشش تھی جس کے نتیجے میں یہ ساری چیزیں متحقق ہوئیں۔

ظاہر ہے کہ یہ کسی ’’نظام حیات‘‘ کی عملی شہادت نہیں تھی، کیوں کہ ایسا کوئی نظام اس وقت تک وجود ہی میں نہیں آیا تھا بلکہ یہ وہی چیز تھی جس کو موصوف نے دوسرے مقام پر ’’دعوتی مساعی‘‘ کے لفظ سے تعبیرکیا ہے، اب اگر موصوف کے ذوق خاص کو یہ ’’محض ابتدائی شہادت‘‘ نظر آتی ہے تو مجھے اس سے کوئی بحث نہیں، کیوں کہ خود موصوف کے اعتراف کے مطابق یہی ابتدائی شہادت اللہ تعالیٰ کی نظر میں ’’ انتہائی شہادت‘‘ بن گئی۔ اور اس کی بنیاد پر اعلان کر دیا گیا کہ ان کے اوپر شہادت حق کی حجت تمام ہو چکی ہے۔ اب آخرت کی عدالت اس حیثیت میں ہو چکی ہے کہ ان کے بارے میں آخری فیصلہ کر سکے۔

’’عملی شہادت‘‘ کے نظریہ پر میں نے جو تنقید کی ہے اس سے شاید موصوف کو غلط فہمی ہو گئی ہے۔ لکھتے ہیں:

’’کیا اگر ہم نے اور آپ نے اعلان و اسرار کے ذریعہ (اپنے مخاطبین کے) سامنے اسلام کی بات پہنچا دی اور اس کے برحق ہونے پر دلائل فراہم کر دیے تو ان پر اس طرح کی حجت تمام ہو جائے گی۔ شاید یہ ایک ایسی بات ہو گی جس کا قائل اور مدعی بننے کے لیے ہمیں دنیا کی نہ کوئی خوش فہمی اجازت دے سکے گی نہ کوئی ہٹ دھرمی‘‘۔

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ موصوف ’’اعلان و اسرار‘‘ کے ذریعہ بات پہنچانے کا مطلب یہ سمجھتے ہیں کہ لاؤڈ اسپیکر کے ذریعہ سارے شہر میں اعلان کر دیا جائے۔ یا کسی گزرتے ہوئے شخص کے کان میں ایک بار پھونک دیا جائے ۔ اگر اس طرح سے ہماری آواز لوگوں کے کانوں میں پڑ گئی تو بس اتمام حجت ہو گیا۔ حالانکہ ’’اعلان و اسرار‘‘ کا لفظ قرآن میں حضرت نوح علیہ السلام کی دعوت و تبلیغ کے سلسلے میں آیا ہے جو دو چار دن نہیں بلکہ سینکڑوں برس تک اپنی قوم کو پکارتے رہے۔ داعی کی پکار محض ایک بار سنا دینے کانام نہیں ہوتی، بلکہ وہ ایک انتہائی حکیمانہ اور صابرانہ عمل ہے جو پوری دلسوزی کے ساتھ طویل ترین مدت تک جاری رہتا ہے۔ قرآن و حدیث میں داعیانہ خطاب کی شرائط نہایت وضاحت کے ساتھ بیان کر دی گئی ہیں۔ ان سب کو شامل کرنے کے بعد دعوتی کام کا جو نقشہ بنتا ہے، اسی کا نام شہادت ہے۔

3۔ اقیموالدین کی آیت سے اس تعبیر کے حق میں جو استدلال کیا جاتا ہے، اس کے متعلق میں نے لکھا ہے کہ یہ صحیح نہیں، کیوں کہ اس آیت میں صرف بنیادی تعلیمات دین کی اقامت کا حکم ہے، جب کہ آپ اپنے نصب العین کو ایک مکمل اور ہمہ گیر نظام حیات کا قیام کے الفاظ میں ظاہر کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں لکھتے ہیں:

’’موصوف کونہ جانے اتنی موٹی سی بات کیوں یاد نہ رہی کہ آیت میں جو حکم دیا گیا ہے، اس میں نہ کوئی تخصیص ہے نہ کوئی توقیت، اس کے بخلا ف وہ واضح طور پر ایک عام ہمہ گیر اور اصولی حکم ہے، اوروہ یہ کہ الدین یعنی اللہ کے دین کو قائم کرو۔ اللہ کا دین کوئی ایسا لفظ نہیں جس میں کوئی ابہام یا اجمال ہو، وہ ایک جانی بوجھی حقیقت ہے، سب جانتے ہیں کہ الدین اور اللہ کا دین کسے کہتے ہیں، اس لیے جو چیزبھی اللہ کے دین کا جزء ہو گی ، جس شے پر بھی دین کا اطلاق ہو گا، وہ اس حکم اقامت میں لازماً داخل ہوگی۔‘‘

میں کہوں گا کہ اقیموالدین کے دو لفظی ٹکڑے میں تو بے شک کوئی تخصیص نہیں ہے پورے فقرے کو سامنے دیجیےتو صریح طور پر یہاں تخصیص پائی جا رہی ہے، وہ یہ کہ پوری آیت کے مطابق حکم یہ ہے کہ اس دین کو قائم کرو جو تمام انبیاء پر اترا تھا اور چونکہ انبیاء پر اترنے والا دین قرآن کی تصریح کے مطابق دو اجزاء پرمشتمل تھا ایک وہ جو سب میںمشترک ہے اوردوسرا وہ جن میں ان کے درمیان اختلاف تھا، اس لیے مقتضائے کلام کے مطابق یہاں حکم اقامت میں صرف پہلا جزء مراد ہو گا اور دوسرا جزء (اس آیت کی حد تک) اس سے خارج سمجھا جائے گا، جیسا کہ مفسرین نے اسی بنا پر یہاں بالاتفاق کہا ہے (مفسرین کے تفصیلی حوالہ کے لیے ملاحظہ ہو کتاب کا باب ’’پنجم‘‘) ۔

حقیقت یہ ہے کہ صرف اقیمواالدین کے دو الفاظ لے کر یہ دعویٰ کرنا کہ اس میں کوئی تخصیص نہیں پائی جاتی، گویا یہ کہنا ہے کہ تخصیص کو انھیں چند الفاظ میں موجود ہونا چاہیے جن کا حوالہ دیا گیا ہو، اگر اس فلسفہ کو تسلیم کر لیا جائے تو پھر شاید کوئی ایسی بات نہ ہو گی جو قرآن سے ثابت نہ ہو سکے۔مثلاً:

لا ‌تَقْرَبُوا ‌الصَّلاةَ (4:43)۔ یعنی، نزدیک نہ جاؤ نماز کے۔

 لَيْسَتِ ‌التَّوْبَةُ (4:18)۔ یعنی، توبہ نہیں ہے۔

ما ‌مِنْ ‌إِلهٍ (3:62)۔ یعنی، کوئی معبود نہیں۔

 جیسے سینکڑوں فقرے ملیں گے جو کسی تخصیص اور استثناء کے بغیر ایک حقیقت کا اظہار کر رہے ہیں— افسوس کہ ایک غلط بات کی وکالت نے موصوف کو ایک ایسے مقام پر پہنچا دیا جہاں وہ خود بھی شعوری طور پر جانا کبھی پسند نہیں کر سکتے۔

اسی قسم کی ایک اور دلچسپ دلیل موصوف نے یہ دی ہے کہ امام راغب اصفہانی نے إِقَامَةُ الشَّيْءِ کے معنی تَوْفِيَةُ حَقِّهِ لکھے ہیں(مفردات القران، صفحہ692)۔ اور ظاہر ہے کہ دین کا توفیہ یعنی اس کے پورے حق کی ادئیگی کل دین کی اقامت کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ اس لیے أَقِيمُوا ٱلدِّينَ کا مطلب یہی ہو سکتا ہے کہ پورے دین کو قائم و جاری کرو۔

مگر امام راغب کی تشریح کے یہ معنی خود تشریح کے اندر موجود نہیں ہیں بلکہ وہ موصوف کے ذہن میں جا کر بن گئے ہیں۔ اس تشریح کا مطلب تو صرف یہ ہے کہ جس چیز کے لیے بھی اقامت کا لفظ بولا جائے، اس کا توفیہ کرنا، امام راغب کی یہ تشریح مفردات میں ’’ق وم ‘‘باب میں ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ لفظ اقامت کا مفہوم بتا رہے ہیں، نہ کہ الدین کے حدود متعین کر رہے ہیں، مگر موصوف چوں کہ اپنے ذہن میں الدین کا مفہوم ’’کل شریعت‘‘ لیے ہوئے ہیں، اس لیے انہوں نے الدین کے اپنے اس ذاتی مفہوم کو لفظ اقامت کے متعلق امام راغب کی تشریح کے ساتھ ملا کر یہ سمجھ لیا کہ آیت کا مطلب یہ ہے کہ ’’کل دین کا توفیہ کرو‘‘۔ حالانکہ اگروہ الدین سے اصل دین مراد لیں تو وہ نہایت آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ اس کا مطلب ہے ’’اصل دین‘‘ یا دین کی بنیادی تعلیمات کا توفیہ کرو، گویا کہنے والے نے تو صرف ’’چار‘‘ کہاتھا، مگر سننے والے نے اپنے مخصوص ذہن کی وجہ سے اس کو ’’چار روٹیاں‘‘ سمجھ لیا۔

أَقِيمُوا ‌الدِّينَ کی آیت کے سلسلے میں میں نے اپنی تحریر میں مفسرین کے اقوال بھی جمع کیے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ سب کے سب یہاں الدین سے اصل دین مراد لیتے ہیں، اور تفصیلی شریعت کو اس سے خارج قرار دیتے ہیں، اس حقیقت کے اظہار کے لیے ان میں سے بعض نے یہ فقرہ استعمال کیا ہے:

’’ وَلَمْ يَرِدِ الشَّرَائِعَ الَّتِي هِيَ مَصَالِحُ الأُمَمِ عَلَىٰ حَسَبِ أَحْوَالِهَا، فَإِنَّهَا مُخْتَلِفَةٌ مُتَفَاوِتَةٌ ‘‘(الکشاف للزمخشری، جلد4، صفحہ215؛ تفسیر القرطبی، جلد16، صفحہ10)۔

اس فقرے کو لے کر میرے بارے میں فرماتے ہیں کہ فی الواقع انھیں غلط فہمی ہوئی ہے۔ ورنہ مفسرین کا مدعا و منشاء وہ ہرگز نہیں ہے جو انہوں نے لیا ہے۔ اس کے بعد میری     ’’غلط فہمی‘‘کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

’’بات دراصل یہ ہے کہ مفسرین کرام نے جو یہ فرمایا ہے کہ ’’اس سے شرائع مراد نہیں ہیں‘‘ تو یہ انہوں نے ایک ظاہری اشکال یا اعتراض کے دفع کرنے کے لیے فرمایا ہے۔ اشکال یا اعتراض یہ پیدا ہو رہا تھا کہ انبیاء کرام کے دین اپنی تفصیلی شکل میں بعینہ ایک سے نہ تھے بلکہ ان کی شریعتوں میں بہت کچھ اختلاف تھا لیکن اس آیت میں دین کی اقامت کا حکم دیتے وقت یہ کہا گیا کہ یہ وہ دین ہے جو سارے انبیاء پر نازل ہوتارہا ہے ۔ تو اس شکل میں آخر اس حکم کی تعمیل کس طرح کی جا سکتی ہے۔ آخر اقامت دین کی وہ کیا صورت ہو سکتی ہے جس سے سارے انبیاء کرام پر نازل ہونے والی ہدایات ربانی کی اقامت اور پیروی کا حق ادا ہو جائے۔ مفسرین کرام کے ذہن میں یہی اشکال تھا جس کا جواب دینے کے لیے انہوں نے اس بات کی وضاحت ضروری سمجھی کہ یہاں شرائع زیرِ بحث ہیں ہی نہیں۔‘‘

میں نہیں سمجھ سکا کہ ان الفاظ میں میری بات کی تردید کا کیا پہلو ہے، ان الفاظ کا مطلب بظاہر سمجھ میں آتا ہے وہ یہ کہ أَقِيمُوا۟ ٱلدِّينَ  کا حکم جس آیت میں آیا ہے، اس کے الفاظ اس قسم کے ہیں کہ اگر وہاں دین سے کل دین کی اقامت مراد لی جائے تو فوراً اعتراض واقع ہو جائے گا، اس لیے مفسرین نے کہا ہے کہ یہاں شریعتیں زیرِ بحث نہیں ہیں۔ ان کے نزدیک اس  ’’حکم کی تعمیل کی صورت‘‘ یہ ہے کہ دین کااتباع کیا جائے۔ آخر اس کے سوا اورکیا بات ہے، جو میں کہہ رہا ہوں۔ کیامیرا دعویٰ یہ ہے کہ بغیر کسی سبب کے مفسرین نے خواہ مخواہ یہ رائے قائم کر لی ہے کہ یہاں صرف اصل دین کی اقامت کا حکم ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ موصوف کے الفاظ علمائے تفسیر کی رائے کی صرف توجیہ پیش کر رہے ہیں وہ میری ’’غلط فہمی‘‘ کی تردید نہیں کرتے۔

اس سلسلے میں موصوف نے دوسرا نکتہ یہ پیش کیا ہے کہ مفسرین نے ’’لم یردالشرائع‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ حالانکہ اگر وہ بات ہوتی جو میں سمجھ رہا ہوں تو اس کے بجائے لم یرد الشریعۃیا لم یرد الشریعۃ المحمدیۃ جیسے الفاظ ہونے چاہئیں تھے۔

یہ نکتہ موصوف نے غالباً جلدی میں لکھ دیا۔ حالانکہ اگروہ غور کرتے تو انھیں معلوم ہوتا کہ جمع کا صیغہ اس لیے استعمال ہوا ہے کہ (بشمول آخری نبی) تمام انبیاء کی شریعتوں کے بارے میں کہنا تھا کہ وہ یہاں مراد نہیں ہیں۔ شرائع کے لفظ میں شریعت محمدی آپ سے آپ شامل ہے۔ وہ اس سے خارج نہیں ہے۔ البتہ اگر کسی لغت میں یہ لکھا ہوا ہو کہ شرائع کے معنی ’’شریعت محمدی کے سوا شرائع‘‘ تو یقیناً موصوف کا یہ استدلال صحیح ہو گا۔

اب میں اس تحریر کے اس حصہ پر آتا ہوں جو اس کا سب سے زیادہ حیرت انگیز حصہ ہے أَقِيمُوا۟ ٱلدِّينَ کی بحث میں میں نے علمائے تفسیر کے جو حوالے دیے ہیں اس سلسلے میںمیری تردید کرتے ہوئے ارشاد ہوا ہے کہ تمام مفسرین کا یہی خیال نہیں ہے، اس موقع پر موصوف نے دو مفسرین کے حوالے نقل کیے ہیں۔ اور دعویٰ کیا ہے کہ ان کے نزدیک ’’اقامت دین کے اس حکم میں شریعت کے تفصیلی احکام بھی داخل ہیں اور پورے کے پورے داخل ہیں۔‘‘ مگر آپ کو یہ سن کر حیرت ہو گی کہ دو مفسرین کے بارے میں یہ جو انکشاف کیا گیا ہے کہ ان کے نزدیک اقیموالدین کے اس حکم میں شریعت کے تمام احکام اپنی پوری تفصیل کے ساتھ داخل ہیں۔ وہ ان کی اصل عبارتوں میں لکھاہوا موجود ہے۔ بلکہ اس کا ماخذ دوسرا ہے۔ اور وہ ہےعبارت کے کچھ حصوں کو حذف کر کے مفسر کی ایک بات کو غلط رنگ میں پیش کرنا۔

جن دو مفسروں کے حوالے دیے گئے ہیں وہ علامہ صاوی اور شیخ سلیمان ہیں، ان دونوں بزرگوں نے جلالین کی شرح لکھی ہے۔ جلالین میں أَنْ‌أَقِيمُوا‌الدِّينَ وَلا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ کی تشریح ان الفاظ میں کی گئی تھی:

هٰذَا هُوَ الْمَشْرُوعُ الْمُوصَىٰ بِهِ وَالْمُوحَىٰ إِلَىٰ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ التَّوْحِيدُ (تفسیر الجلالین، صفحہ 640)۔

دونوں شارحین نے اس تفسیر سے اتفاق کیا ہے اور اس کی وضاحت کرتے ہوئے لکھا ہے کہ أَقِيمُوا ‌الدِّينَ کے اس مخصوص حکم میں تو توحید ہی کی اقامت مراد ہے۔ مگر اس سے پہلے اَلَّذِي أَوْحَيْنَا إلَيْك کا جو فقرہ ہے وہ اس سے عام ہے اوراس کے مفہوم میں ساری وحی محمدی شامل ہے۔ دونوں کی متعلقہ عبارت ملاحظہ ہو:

شیخ سلیمانثُمَّ فَسَّرَ الْمَشْرُوعَ الَّذِي اشْتَرَكَ فِيهِ هَؤُلَاءِ أَعْلَامٌ مِنْ رُسُلِهِ بِقَوْلِهِ’’:أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ‘‘ وَالْمُرَادُ مِنْ إِقَامَةِ الدِّينِ هُوَ تَوْحِيدُ اللَّهِ وَالإِيمَانُ بِهِ وَبِكُتُبِهِ وَرُسُلِهِ وَالْيَوْمِ الآخِرِ، وَطَاعَةُ اللَّهِ فِي أَوَامِرِهِ وَنَوَاهِيهِ وَسَائِرِ مَا يَكُونُ الرَّجُلُ بِهِ مُسْلِمًا، وَلَمْ يُرِدِ الشَّرَائِعَ الَّتِي هِيَ مَصَالِحُ الأُمَمِ عَلَىٰ حَسَبِ أَحْوَالِهَا، فَإِنَّهَا مُخْتَلِفَةٌ مُتَفَاوِتَةٌ… قَوْلُهُ ’’أَنْ أَقِيمُوا الدِّينَ‘‘ الْمُرَادُ بِإِقَامَتِهِ تَعْدِيلُ أَرْكَانِهِ وَحِفْظُهُ مِنْ أَنْ يَقَعَ فِيهِ زَيْغٌ وَالْمُوَاظَبَةُ عَلَيْهِ… وَلَا تَتَفَرَّقُوا فِيهِ… أَيْ لَا تَتَفَرَّقُوا فِي الدِّينِ الَّذِي هُوَ عِبَارَةٌ عَمَّا ذُكِرَ مِنَ الأُصُولِ، دُونَ الفُرُوعِ الْمُخْتَلِفَةِ حَسَبَ اخْتِلَافِ الأُمَمِ بِاخْتِلَافِ الأَعْصَارِ، كَمَا يَنْطَبِقُ بِهِ قَوْلُهُ تَعَالَىٰ: ’’لِكُلٍّ جَعَلْنَا مِنْكُمْ شِرْعَةً وَمِنْهَاجًا‘‘ …قولہ وھوالتوحیدهذا (۱) هو المرادُ بالدِّينِ الذي اشترَكَ فيه هؤلاءِ الرُّسُلُ…  وأمَّا الذي في قوله ’’ :وَالَّذِي أَوْحَيْنا إِلَيْكَ‘‘فهو أعمُّ من ذلك، لأنَّ المرادَ به جميعُ الشريعةِ المحمدية، أصولاً وفروعاً   (الفتوحات الالٰہیۃ للشیخ سلیمان العجیلی،جلد7، صفحہ 46-48 )۔

قال العلَّامةُ الصاوي: وقوله ’’شَرَعَ لَكُمْ‘‘ الخطابُ لأمَّةِ محمَّدٍ صلى الله عليه وسلم، والمعنى: بيَّنَ لكم وجعلَ لكم ديناً قويًّا واضحاً تطابقت على صحته الأنبياءُ والرُّسلُ من قبلُ… والمقصودُ بإقامةِ الدِّينِ هو تعديلُ أركانه وحفظُه والمواظبةُ عليه… وقوله ’’(وهو التوحيد)‘‘ بيانٌ للمرادِ من الدِّينِ الذي اشترَكَ فيه هؤلاءِ الرُّسُلُ.وأما قوله’’وَالَّذِي أَوْحَيْنا إِلَيْكَ‘‘ فهو أعمُّ من ذلك، إذ إنَّ المرادَ به جميعُ الشريعةِ، أصولاً وفروعاً، وإنَّما اقتصرَ على التَّوحيدِ لأنَّهُ رأسُ الدِّينِ وأساسُهُ (حاشیۃ العلامۃ الصاوی علی تفسیر الجلالین، جلد6، صفحہ 150-151)۔

مندرجہ بالا اقتباسات صاف طور پر ظاہر کر رہے ہیں کہ ان کی طرف موصوف نے ایک ایسی بات منسوب کر دی ہے جو انہوں نے خود نہیں کہی تھی۔ دونوں شارحین نے جو کچھ کہا ہے، وہ یہ ہے کہ أَقِيمُوا ٱلدِّينَ کے فقرے میں تو صرف توحید اور اس کے بنیادی تقاضوں کی اقامت کا حکم ہے۔ جیسا کہ جلالین میں مذکور ہے، نہ کہ تفصیلی شریعت کا۔ مگر دوسرے فقرے ٱلَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ کیوں کہ اس کے مفہوم میں ساری وحی محمدی شامل ہے۔ مگر علامہ صاوی اور شیخ سیلمان نے جو بات ٱلَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ کے بارے میں کہی تھی، اس کو أَقِيمُوا ٱلدِّينَ کے فقرے کے ساتھ جوڑ کر یہ دعویٰ کر دیا گیا کہ دونوں بزرگوںکے نزدیک ’’اقامت دین کے اس حکم میں شریعت کے تفصیلی احکام بھی داخل ہیں اور پورے کے پورے داخل ہیں‘‘۔

4۔ ’’اظہار دین‘‘کی آیت کے سلسلے میں میرا موقف یہ ہے کہ اکثر مفسرین نے لیظھرہ کا فاعل خدا کو مانا ہے،اس کے علاوہ دیگر قرآن بھی موجود ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت میں خدا کا ایک منصوبہ یا فیصلہ بیان کیا گیا ہے، جس کو اس نے رسول کے ذریعہ پورا فرمایا۔ اس لیے اس سے رسول کا وہ مشن اخذ نہیں کیا جا سکتا جس کا وہ بحیثیت ’’انسان‘‘ مکلف ہوتا ہے۔ اور ختم رسالت کے بعد اب جس کی پیروی ہمیں کرنی ہے۔ موصوف نے میرے اس خیال کی تردید کی ہے اور اس کے متعلق اپنے کچھ دلائل دیے ہیں۔ مگر یہ حیرت انگیز بات ہے کہ آگے چل کر انہوں نے خود ہی اپنی بات کی بھی تردید کر دی ہے، فرماتے ہیں

’’مانا کہ آیت اظہار دین میں اظہار دین کو صراحت کے ساتھ رسول کامشن نہیں قرار دیا گیا ہے۔‘‘ کاش موصوف اپنے اس اعتراف کے بعد اس آیت سے رسول کا منصبی مشن ثابت کرنے کی کوشش نہ کرتے ۔ کیوں کہ ایسا استدلال جس کے متعلق یہ تسلیم کر لیا گیا ہو کہ وہ ’’صریح‘‘ نہیں ہے مشن جیسے مسئلہ کو ثابت کرنے کے لیے کافی نہیں ہو سکتا۔

مندرجہ بالا فقرے میں موصوف نے اگرچہ یہ تسلیم کر لیا ہے کہ لیظھرہ علی الدین کلہ والی آیت اظہار دین کو رسول کا مشن ثابت کرنے کے لیے صریح نہیں ہے۔ مگر اصولاً وہ اسی کے قائل ہیں کہ اظہار دین ہی رسالت کا مشن ہے۔ ان کے نزدیک اس کے لیے دوسرے اس سے زیادہ واضح نصوص موجود ہیں ان کا یہ پورا حصہ میں ذیل میں نقل کرتا ہوں تاکہ موصوف کی بات مکمل طور پر سامنے آ جائے۔

’’دین کے غالب کر دیے جانے کا ذکر صرف اسی ایک آیت میں نہیں ہے بلکہ الفاظ و انداز بیان کے فرق کے ساتھ دوسری آیتوں میں (اور کچھ حدیثوں میں بھی موجود ہے، مثلاً وقاتلوھم حتی لاتکون فتنۃ ویکون الدین کلہ لِلّٰہ کی آیت اور امرت ان اقاتل الناس حتی یقولوالاالٰہ الا اللّٰہ کی حدیث۔ مانا کہ آیت اظہار دین میں، اظہار دین کی صراحت کے ساتھ رسول کا مشن نہیں قرار دیا گیا ہے۔ لیکن کیا ان نصوص کے بارے میں بھی ایسا ہی کہا جا سکتا ہے۔ ظاہر ہے کہ نہیں، کیوں کہ ان ارشادات میں یہ بات پوری وضاحت سے فرما دی گئی ہے کہ رسول اس پر مامور ہیں اور اتباع رسول کا یہ فرض ہے کہ اس وقت تک لڑتے رہیں جب تک کہ لوگ اسلام کا اقرار نہ کر لیں اور دین سارے کا سارا اللہ ہی کے لیے نہ ہو جائے، دوسرے لفظوں میں یہ کہ خالص اسلامی اسٹیٹ قائم نہ ہو جائے۔ ہر شخص سمجھ سکتا ہے کہ کفار و مشرکین سے اس وقت تک لڑتے رہنا جب تک وہ لا الٰہ الااللہ کا اقرار نہ کر لیں یا جب تک فتنہ مٹ کر دین پورے کا پورا اللہ ہی کے لیے نہ ہو جائے۔ اور اسلامی نظام یا اسٹیٹ کے لیے جدوجہد کرتے رہنا، ایک ہی حقیقت کی دو مختلف تعبیریں ہیں‘‘۔

میں عرض کروں گا کہ اظہار دین کی آیت کو ’’رسول کا مشن‘‘ ماننے میں جو اشکالات تھے اس سے بدرجہا زیادہ اشکالات اس آیت اور حدیث سے رسول کا مشن اخذ کرنے میں ہیں جس کو موصوف نے پیش کیا ہے۔ حدیث بتاتی ہے کہ لوگوں سے اس وقت تک ’’قتال‘‘ کیا جائے جب تک وہ لا الٰہ الا اللّٰہ اپنی زبان سے نہ کہہ دیں، اور نماز اور زکوٰۃ کی پابندی اختیار کر لیں۔ کیا یہی رسول کا مشن تھا۔ کیا رسول اسی لیے بھیجا گیا تھا کہ وہ تلوار کی نوک پر لوگوں سے کلمہ پڑھوائے۔ موصوف کو یاد نہیں رہا کہ اس حدیث کو رسول کا ’’مشن‘‘ قرار دینے میں نہ صرف یہ کہ لااکراہ فی الدین سے ٹکراؤ ہو رہا ہے بلکہ آخری رسول کا مشن اپنی نوعیت میں تمام انبیاء سے مختلف قرار پاتا ہے۔ کیوں کہ کسی بھی دوسرے نبی کے بارے میں یہ ثابت نہیں کیا جا سکتا کہ اس کو یہ حکم ملا تھاکہ وہ تلوارکے زور سے لوگوں کو مسلمان بنائے۔

یہی معاملہ آیت کا بھی ہے۔ یہ آیت معمولی لفظی فرق کے ساتھ دو سورتوں میں آئی ہے (البقرۃ، 2:193؛ الانفال، 8:39)ان دونوں آیتوںمیں اللہ تعالیٰ نے یہ حکم دیا ہے کہ ’’ان سے جنگ کرتے رہو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین خالصتہً اللہ کے لیے ہو جائے اور وہ باز آ جائیں (انتھوا)۔ اس آیت میں تین الفاظ قابل غور ہیں:فتنۃ، دین، انتھاء

ابن عباس، قتادہ، سدی، حسن، ابوالعالیہ، مجاہد، ربیع، مقاتل، زید بن اسلم اور دوسرے مفسرین کی تقریباً متفقہ تشریح کے مطابق یہاں فتنہ سے مراد شرک ہے۔ دین کا مطلب توحید ہے اور انتہا کا مطلب ہے شرک سے باز آنا، اس تشریح کے مطابق آیت کا مطلب یہ ہوا کہ ’’ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ وہ اپنے دین سے باز آ جائیں اور شرک کو چھوڑ کر توحید قبول کر لیں‘‘۔

اب ظاہر ہے کہ اگر اس آیت کو رسول کے مشن کی آیت قرار دیا جائے تو اس پر وہی اعتراض واقع ہوتا ہے جو اوپر حدیث کے سلسلے میں ہم لکھ چکے ہیں یعنی رسول کو خدا نے اس لیے بھیجا تھا کہ وہ لڑ لڑ کر لوگوں سے کلمہ پڑھوائے ۔

موصوف نے اس اشکال کی یہ عجیب و غریب توجیہ پیش کی ہے کہ ’’اس وقت تک لڑتے رہنا جب تک لوگ لا الٰہ الا اللہ نہ کہہ دیں، دوسرے لفظوں میں خالص اسلامی اسٹیٹ قائم ہو جانے کے ہم معنی ہے‘‘۔ یہ توجیہ نہ تاریخ سے ثابت ہوتی ہے اور نہ حکم کے الفاظ سے۔ ظاہر ہے کہ لا الٰہ الا اللہ کہلانے کے معنی ہیں مسلمان بنانا جب کہ اسلامی اسٹیٹ قائم ہونے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کے تمام ماتحتوں نے دین اسلام قبول کر لیا۔ اگر لوگ سیاسی اطاعت اور ملکی قوانین کو تسلیم کر لیں تو اس کے بعد کسی اسلامی اسٹیٹ کو یہ حق نہیں ہے کہ ان سے مطالبہ کرے کہ تم کلمہ پڑھو اور نماز ادا کرنے کے لیے ہماری مسجدوں میں آؤ۔ غرض میں تو اس توجیہ کو بالکل سمجھ نہ سکا۔ البتہ ادارہ ثقافت اسلامیہ یا ادارۂ طلاع اسلام شاید اس کی معنویت سمجھ سکے۔ کیوں کہ وہ اس طرح کی توجیہات میں کافی درک رکھتا ہے۔

اظہار دین کی آیت سے رسول کامشن اخذ کرنے کے سلسلے میں ایک اعتراض میرا یہ تھاکہ قرآن میں کسی اور نبی کے لیے اس قسم کے الفاظ نہیں آئے ہیں۔ اس لیے جب کہ ہمارا اعتقاد ہے کہ ہر رسول ایک ہی کام کے لیے بھیجا گیا تھا، اس آیت سے ہم آخری رسول کامنصبی مشن اخذ نہیں کر سکتے۔ اس کے جواب میں لکھتے ہیں

’’آخری رسول کا مشن دوسرے انبیاء سے مختلف تو نہیں تھا، مگر وسیع یقیناً تھا۔ دوسرے انبیاء کا خطاب صرف ان کی اپنی قوم سے تھا جو کسی ایک دین کو ماننے والی تھی۔ جب کہ آنحضرت کا خطاب عام تھا۔ ہر گروہ ہر ملت اور ہر د ین کے ماننے والوں کے لیے تھا اس لیے هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدى وَدِينِ الْحَقِّ ‌لِيُظْهِرَهُ ‌عَلَى ‌الدِّينِ كُلِّهِ (9:33) جیسے الفاظ میں آپ ہی کے مشن کو ظاہر کیا جا سکتا تھا، کسی اور کے نہیں‘‘۔

یہ سطریں پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے گویا موصوف آیت میں لفظ ’’کل‘‘ کے استعمال کی توجیہ فرما رہے ہیں۔ حالانکہ مسئلہ یہ نہیں تھا۔ اصل سوال تو یہ تھا کہ انبیاء کا مشن اپنی نوعیت کے اعتبار سے اگر ’’اظہار دین‘‘ ہوتا ہے تو قرآن میں ہر نبی کے لیے اسی قسم کے الفاظ آنے چاہئیں تھے۔ اب اگر انبیاء کے دائرہ خطاب میں وسعت اور تنگی کا فرق تھا تو اس سے اصل مشن کی تعبیر پر کوئی فرق نہیں پڑ سکتا۔ اس فرق کا مطلب تو صرف یہ تھاکہ دیگر انبیاء کے بارے میں کہا جاتا کہ وہ فلاں مخصوص قوم پر ’’اظہار دین‘‘کرنے کے لیے بھیجے گئے تھے۔ اور آخری رسول کو تمام اقوام و ملل پر اظہار دین کرنے کے لیے مبعوث کیا گیا۔ موصوف نے آخری رسول اور دیگر انبیاء میں جس فرق کی نشاندہی فرمائی ہے وہ صرف حلقۂ کار یا دائرۂ خطاب کی وسعت اور تنگی کا فرق ہے۔ جب کہ اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے انھیں دونوں کے درمیان نوعیت کا فرق بتانے کی ضرورت تھی۔

                      خادم وحید الدین

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom

Ask, Learn, Grow

Your spiritual companion