اس کے جواب میں 21 جولائی کی ڈاک سے میں نے تحریر کی ایک نقل مولانا کی خدمت میں روانہ کر دی اور درخواست کی کہ براہ کرم اپنا تبصرہ اگست کے آخر تک لکھ کر بھیج دیں، اس کے بعد موصوف کا حسب ذیل خط ملا۔
چتر پور 25 جولائی 1962ء
چتر پور 25 جولائی 1962ء
برادر مکرم جناب وحید الدین خاں! سلام مسنون
میری شرط آپ تسلیم کریں کہ میں پوچھوں گا، اور یہ بھی شرط لازم جانیں کہ میرے یہاں تحدید وقت ناممکن ہے۔
ان دونوں باتوں کو تسلیم کیجیے تب آپ کی مرسلہ تحریر دیکھنے کے لیے اٹھاؤں گا، اگر آپ کو یہ منظور نہ ہو تو تحریر بمسرت واپس کی جائے گی۔ ان باتوں کو میں مدرستہ الاصلاح سے لکھ چکا ، لیکن آپ نے انھیں کلیتہً نظرانداز کرتے ہوئے لکھاکہ تحریر بھیج رہا ہوں، اور یہ کہ تم لازماً اگست کے آخر تک اپنا تبصرہ لکھو۔ میں عرض کرتا ہوں کہ یہ بالکل ناممکن ہے۔ مجھے اس طرح کی تبصرہ نگاری آتی تو بار بار اپنی شرط کا اعادہ کیوں کرتا۔ آخر آپ اتنے بے صبرکیوں ہو گئے؟ کیا بے صبری ’’مومن کامل‘‘ کی صفات میں سے صفت اول ہے؟
جلیل احسن
