اس دوران میں میں مولانا مودودی کے جواب کا منتظر رہا۔ مگر دو ہفتے گزر گئے، نیز درمیان میں جمات اسلامی ہند کی مجلس شوریٰ کے رکن اور جماعت اسلامی حلقہ بمبئی کے امیر جناب شمس صاحب کا ایک خط موصول ہوا جس میں ایک مزید بات کا ذکر تھا۔ چنانچہ اس حوالے سے میں نے مولانا کے نام تیسرا خط روانہ کیا۔
رامپور، 9جولائی1962ء
رامپور، 9جولائی1962ء
محترمی مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی سلام مسنون
آپ کے خط مورخہ15 جون1962ء کے جواب میں میں نے 25 جون کو ایک لفافہ روانہ کیا تھا جس کے جواب کا انتظار ہے۔ اس دوران میں مجھے جناب شمس پیرزادہ صاحب کا خط ملا جن سے حج کے موقع پر مکہ میں آپ کی ملاقات ہوئی تھی، اور انہوں نے آپ سے میرے مضمون کا ذکر کیا تھا۔ ان کی روایت کے مطابق آپ نے انھیں جواب دیا۔
’’وحید الدین خان صاحب سے کہئے کہ وہ اپنے اعتراضات قلم بند کر کے میرے پاس بھیج دیں۔ میں ان شاء اللہ ان کا جواب دے دوں گا۔‘‘
اب میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ایک مہینہ پہلے آپ نے خود جن اعتراضات کا جواب دینے کی پیش کش فرمائی تھی، ایک مہینہ بعد ان کا جواب دینا آپ کے نزدیک ’’فضول‘‘ کیسے ہو گیا۔ جہاں تک آپ کے خط مورخہ 15 جون کا تعلق ہے اس میں جواب نہ دینے کی جو وجہ بتائی گئی ہے وہ تو بالکل ناقابل فہم ہے۔ آپ نے لکھا ہے کہ ’’آپ کی تحریر میں بڑے مفصل اعتراضات کیے گئے ہیں۔‘‘ اور یہ کہ ’’آپ کی بحث کو پڑھ کر میں نے یہ محسوس کیا ہے کہ مسئلہ چند اعتراضات کا نہیں ہے۔ بلکہ آپ کا مطالعہ آپ کو بالکل اس سمت کے خلاف اس سمت میں لے گیا ہے جس سمت میں میرا آج تک کا مطالعہ مجھے لے گیا ہے۔‘‘ اور اس کے بعد یہ کہہ کر جواب دینے سے معذوری ظاہر کی ہے کہ ’’اس حالت میں یہ بات کچھ فضول ہی محسوس ہوتی ہے کہ میں اور آپ کسی بحث میں الجھیں۔ ‘‘ میں نہیں سمجھ سکا کہ ان دونوں فقروں میں منطقی ربط کیا ہے۔ بظاہر دوسرا فقرہ پہلے فقرہ کا نتیجہ ہے۔ مگر کسی اعتراض کا ’’مفصل‘‘ ہونا اور بنیادی طور پر آپ کے نقطۂ نظر کے ’’خلاف‘‘ ہونا اس بات کو کیسے لازم کرتا ہے کہ آپ اس کا جواب نہ دیں۔ کیا صرف غیر مفصل اور غیر بنیادی باتیں ہی قابل جواب ہوتی ہیں یا آپ کا اپنا مسلک یہی ہے کہ آپ صرف ان اعتراضات کا جواب دیتے ہیں جو مفصل نہ ہوں، اور آپ کے نقطۂ نظر کے بالکل خلاف نہ جاتے ہوں۔ آپ کے اس جواب کی معنویت میری سمجھ میں نہیں آئی۔
میں پھر کہوں گا کہ اس مسئلہ پر خاموشی کا رویہ اختیار کر کے اپنے کو آپ نے بڑی ذمہ داری میں ڈال دیا ہے۔ اگر آپ کا احساس یہ ہے کہ میرا اور آپ کا راستہ ایک دوسرے کے ’’بالکل خلاف سمت‘‘ میں جا رہا ہے۔ تو یقیناً یا آپ صحیح راستہ پر ہوں گے یا میں۔ اب اگر آپ میرے راستہ کو قبول نہیں کرتے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ خود کو صحیح راستہ پر سمجھتے ہیں۔ ایسی حالت میں میں نہیں سمجھتا کہ آپ کے لیے خاموشی کیوں کر جائز ہو سکتی ہے۔ اگر آپ اپنے کو برسرحق سمجھتے ہیں اور اس کے لیے آپ کے پاس قاطع دلائل بھی موجود ہیں تو آپ پر لازم ہے کہ آپ میری غلط فکری کو دور کرنے کی کوشش کریں۔ اگر آپ ایسا نہیں کرتے تو آپ خود کو اس نازک خطرے میں ڈال رہے ہیں کہ آخرت میں آپ سے پوچھا جائے کہ تم ایک شخص کی غلطی کو جان رہے تھے اور وہ خود تم سے دریافت کرنے کے لیے تمہارے پاس حاضر بھی ہوا تھا۔ پھر کیوں تم نے اس کی غلطی اس پر واضح نہیں کی۔ اگر کسی کے پاس حق ہے تو وہ خدا کی ایک امانت ہے۔ اور اس امانت کا سب سے زیادہ مستحق وہ شخص ہے جو اس حق سے محروم ہو۔ پھر کیا آپ اس امانت کو اس کے حقدار تک پہنچانے کی کوشش نہیں کریں گے۔
میری یہ چند سطریں اگر آپ کو متاثر کر سکیں اور آپ اپنا تبصرہ لکھ کر مجھے بھیجنے پر آمادہ ہو جائیں تو میری خوش نصیبی ہو گی۔ اور اگر ایسا نہ ہو تو مجبوراً میں عرض کروں گا کہ میری تحریر مجھے واپس بھیج دیں۔
خادم وحید الدین
