سرائمیر 26 مارچ 1962ء
سرائمیر 26 مارچ 1962ء
برادر مکرم سلام علیک
آپ کا مقالہ واپس کر رہا ہوں، اور خوشی ہوئی کہ اس کا آخری مسودہ جیسا کہ آپ نے تحریر فرمایا ہے، تیار کر رہے ہیں۔ مشورۃً عرض ہے کہ آخری مسودہ تیار ہو جائے تو وہاں آپ کے پاس مولانا صدر الدین، مولانا حامد اور مولانا عروج صاحب نیز دوسرے اصحاب عربیت و تفقہ موجود ہیں، انھیں دکھائیں، ان کی تنقیدوں اور تبصروں کو ’’قبول‘‘ کریں، ایک بات جو آپ نے سوچ لی ہے اس پر اڑ نہ جائیں۔ یہ طریقہ طالب حق کا نہیں ہے۔ اس مرحلہ سے گزرنے کے بعد مجھے پڑھنے کو دیں۔ اور ظاہر ہے کہ میں طالب علم ہوں، سوالات کروں گا۔ توضیح کراؤں گا۔ دلائل کے بارے میں پوچھوں گا۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ میرا طریقہ اس طریقہ کی تحریروں کے بارے میں مکاتبت کا ہے، مخاطبت اور مکالمت کا نہیں جیسا کہ میں نے عرض کیا تھا، زبانی بھی اور تحریراً بھی۔
رام پور میں کئی اصحاب سے (میری گفتگو ہوئی تھی) ان سب اصحاب کی یہ متفقہ رائے تھی کہ آپ ایک بات جب اپنے ذہن میں جما لیتے ہیں، تو پھر اس میں کسی تبدیلی کے لیے سوچنا بالکل خارج از بحث ہو جاتا ہے، بھائی خدا کرے یہ بات غلط ہو۔ میرا بھی اندیشہ غلط ہو۔ لیکن اگر بات ایسی ہے جیسی کہ سنی ہے، اور جس کا خدشہ آپ کی یہ تحریر دیکھ کر مجھے بھی لاحق ہوا ہے، تو یہ طریقہ طالبین حق کا طریقہ نہیں ہے، اس پر آپ کو سوچنا چاہیے۔‘‘
جلیل احسن
