غلط تعبیر کے نتائج
’’قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں ‘‘ —اس تعبیر کے تحت پیدا شدہ لٹریچر میں ایک اہم ترین کتاب ہے جس میں دین کا ’’وسیع اورمکمل ‘‘ تصور پیش کیا گیا ہے۔ اس کتاب میں ’’عبادت ‘‘ کی بحث کو ختم کرتے ہوئے کہا گیا ہے:
’’جو لوگ قرآن کی دعوت کا ایک محدود تصور لے کر ایمان لائیں گے، وہ اس کی ناقص وناتمام پیروی کریں گے‘‘ ۔
مگر افسوس کہ قرآنی دعوت کو وسیع اورمکمل کرنے کی کوشش اس کو محدود کرنے کی ایک نئی صورت بن گئی۔ دین کے ناقص تصور کی وجہ سے فطرت اور دین کے درمیان صحیح رشتہ قائم نہ ہو سکا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ دین کے اثرات و نتائج بھی صحیح شکل میں برآمد نہ ہو سکے۔
بجلی کے لیمپ میں آپ کو اس کا تجربہ ہوا ہوگا کہ اس کا پلگ اگر ٹھیک سے لگا ہوا نہ ہو اور آپ بٹن دبائیں تو لیمپ یا تو کم روشنی دے گا یا جل کر بجھ جائے گا۔ یا صرف تار سرخ ہو کر رہ جائے گا۔ لیکن اگر پلگ اپنی جگہ پر ٹھیک سے بٹھا دیا جائے تو لیمپ پوری طرح روشن ہوجاتا ہے۔ اور مسلسل روشنی دیتا رہتا ہے۔ اس مثال میں پلگ خدا کا دین ہے۔ اور اس کا خانہ آپ کی فطرت، اور جو ہاتھ اس کو خانے میں نصب کرتا ہے وہ آپ کاتصور ہے۔ اگر تصورغلط ہو تو اس کاانجام اس ہاتھ کاسا ہو ا جو پلگ کو اس کے خانہ میں ٹھیک ٹھیک بٹھانے میں غلطی کر جائے۔
یہی حال زیرِبحث فکر کا ہے۔ اس کی ایک کجی کی وجہ سے انسانی فطرت اور خدا کے دین کے درمیان صحیح رشتہ قائم نہ ہو سکا، جس کا لازمی نتیجہ یہ تھا کہ زندگیوں میں خدا پرستی کے حقیقی اثرات ظاہر نہ ہوں۔ یہ کجی اگرچہ مخفی نوعیت کی کجی تھی۔ مگر دین کی ترکیب اتنی نازک ہے کہ اگر اس میں ذرا سا بھی فرق پڑ جائے تو پیچیدہ مشین کی طرح اس میں اِس سرے سے اُس سرے تک خلل واقع ہو جاتا ہے۔ ایک ذرا سے فرق سے اس کی ساری حرکت متاثر ہو جاتی ہے۔ چنانچہ اس تعبیرکی بنیاد پر جو افراد تیار ہوئے ہیں، ان کے سلسلے میں آج خود اس تعبیر کے حاملین کا تقریباً متفقہ احساس ہے کہ ان کے اندر حقیقت دین پیدا نہیں ہوئی ۔ یہاں میں اس کے چند پہلوؤں کی طرف اشارے کروں گا ۔ پہلے نظریاتی اور اس کے بعد عملی۔
