اعظم گڈھ، 30 اپریل 1963ء

اعظم گڈھ، 30 اپریل 1963ء

محترمی  مولانا سید ابو الا علیٰ مودودی     سلام مسنون

گرامی نامہ مورخہ 21 مارچ ملا ۔ مجھے حیرت ہے کہ آپ نے وعدہ کے باوجود میرے سوالات کا جواب دینے سے انکار کر دیا ۔ اگر آپ کسی وجہ سے تفصیلی جواب دینے کا موقع نہیں پا رہے تھے تو آپ میری بات پر ایک مجموعی تبصرہ کر سکتے تھے ، اور اگر یہ بھی آپ کے لیے ممکن نہیں تھا تو آخری شکل یہ تھی کہ پوری بحث سے کسی ایک پوائنٹ کو لے کر آپ اس کا تجزیہ کر دیتے اور اس طرح مجھ پر یہ واضح فرما نے کی کوشش کرتے کہ تمہارا استدلال نہایت کمزور ہے ۔ اس کے اندر کوئی علمی وزن نہیں ۔

اپنے پچھلے خطوط میں یہ ساری صورتیں میں نے آپ کے سامنے رکھی تھیں ۔ مگر ان میں سے کسی صورت کو اختیار کرنے کے بجائے آپ نے مجھ پر طنز یہ حملے کر ڈالے ۔ اگر آپ کے پاس طنز وتعریض کے لیے الفاظ تھے تو یقیناً جواب دینے کے لیے بھی الفاظ ہو سکتے تھے مگر آپ نے معلوم نہیں کیوں پہلی صورت کو پسند فرمایا اور دوسری صورت کو چھوڑ دیا۔

میں عرض کروں گا کہ ایسا کر کے آپ نے اپنے لیے بہت مخدوش راہ کا انتخاب کیا ہے۔ پہلی بات تو یہ کہ جب ایک شخص آپ کے سامنے اپنا ذہن لے کر آتا ہے اور آپ جانتے ہیں کہ اس کا ذہن غلط ہے اس کے باوجود آپ ایک لفظ بھی اس کے جواب میں نہیں کہتے اور بلا جواب اسے لوٹا دیتے ہیں تو گویا جس حد تک آپ کو اس کی غلطی کا علم ہے اس حد تک آپ اس کی غلطی کی ذمے داری اپنے سر لے رہے ہیں ۔ سوچئے کہ یہ کتنی سنگین بات ہے ۔

دوسری بات یہ کہ آپ جان چکے ہیں کہ میں اپنے مطالعہ سے جن خیالات تک پہنچا ہوں ، میرے نزدیک وہ اس نوعیت کے خیالات ہیں جو مجھے اس نتیجے تک لے جاتے ہیں کہ ’’ دین مجروح ہوا ہے ‘‘ اب اگر میرا یہ احساس باقی رہتا ہے تو لازماً میرے لیے ضروری ہو جاتا ہے کہ اپنی وسع کے بقدر اس کا اعلان واظہار کروں ۔ اگر آپ کا مطالعہ اور آپ کا علم میرے اس احساس کو غلط سمجھتاہے تو آپ کے لیے ضروری تھا کہ میرے اس احساس کو بدلنے کی کوشش کر کے مجھے اس اقدام سے بچانے میں اپنا حصہ ادا کرتے ۔ اس کے بعد بھی اگر میں اقدام کی حماقت کرتا تو اس کی ذمہ داری میرے اوپر ہوتی۔ مگر جب آپ نے اپنا جواب دے کر مجھے اس سے روکنے کی کوشش نہیں کی تو اب میرے اقدام کی ذمہ داری براہ راست آپ کے اوپر چلی گئی ہے ۔

زیرِ بحث مسئلہ میں آپ کا جواب حاصل کرنے کے لیے پچھلے گیارہ مہینے سے میں آپ سے جو ربط قائم کیے ہوئے تھا ، بلا شبہ وہ گواہی دیں گے کہ آج میں مظلوم ہوں۔ کاش آپ جانتے کہ خود ظالم بننا اور دوسرے کو مظلومی کی پوزیشن میں ڈال دینا آدمی کو خدا کی مدد سے محروم کر کے دوسرے کو اس کا مستحق بنا دیتا ہے ۔ خدا کی مدد ہمیشہ مظلوم کو ملتی ہے، نہ کہ ظالم کو ۔

خادم وحید الدین

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom

Ask, Learn, Grow

Your spiritual companion