خط و کتابت مولانا ابو الاعلیٰ مودودی
اب مولانا مودودی صاحب کو لیجئے۔ ابتداء ً دسمبر 1961ء میں میں نے اپنی تحریر کی ایک نقل تیار کر کے ان کے نام روانہ کرنے کی کوشش کی تھی مگر وہ حامل تحریر کی غلط فہمی کی وجہ سے مولانا موصوف تک نہ پہنچ سکی اور چند مہینہ بعد کلکتہ سے میرے پاس واپس آ گئی۔ اس کے بعد پھر میں نے تحریر کی ایک نقل10 مئی 62ء (مطابق 5ذی الحجہ1381ھ) کو دستی طور پر لاہور روانہ کی۔ مگر انھیں دنوں اتفاق سے وہ حج کے لیے عرب کے سفر پر روانہ ہو گئے تھے، اس لیے عملاً میری تحریر انھیں 8جون1962ء کو ملی۔ اپنی تحریر کے ساتھ میں نے انھیں جو خط لکھا وہ یہ تھا:
اس خط کے ساتھ ایک تحریر بعنوان ’’تعبیر کی غلطی‘‘ روانہ کر رہا ہوں براہِ کرم ’’اس کو ملاحظہ فرمائیں۔ اور اس کے متعلق اپنے تفصیلی جواب سے مطلع فرمائیں۔ تاکہ آپ کے جواب کی روشنی میں اس مسئلے پر مزید غور کیا جا سکے۔
میں پندرہ سال پہلے 1947ء میں آپ کی تحریروں سے متاثر ہوا۔ اس کے کچھ دنوں بعد جماعت اسلامی ہند میں رکن کی حیثیت سے شامل ہو گیا اور اعظم گڑھ میں دعوت و تحریک کا کام کرنے لگا۔ اس حال میں دس سال کے قریب گزر گئے۔ اس کے بعد اکتوبر 1965ء میں مجھے یہاں کی جماعت کے شعبۂ تصنیف و تالیف میں معاونت کی غرض سے رام پور بلایا گیا۔ یہاں آنے کے بعد مجھے جو تحریری کام کرنا تھا، اس کے لیے ضروری ہوا کہ میں قرآن کا باقاعدہ مطالعہ کروں جس کا موقع اس سے پہلے کی زندگی میں مجھے کم ملا تھا۔ جب میں نے قرآن کو ازسرنو پڑھنا شروع کیا تو میں نے دیکھا کہ میں ایک نئے احساس سے دوچار ہو رہا ہوں۔ میں نے محسوس کیا کہ قرآن میرے موجودہ خیالات کی تصدیق نہیں کر رہا ہے۔ قرآن میں مجھے اسلام کی تصویر اس سے مختلف نظر آئی جو میں نے جماعت اسلامی کے لٹریچر میں اب تک دیکھی تھی۔ اس چیز نے مجھے ایک طویل ذہنی کشمکش میں مبتلا کر دیا۔ جس کا ہر اگلا دن میری اس کیفیت کو شدید تر کرتا رہا ہے۔ پہلے میں نے اس کے متعلق یہاں کی جماعت کے ذمہ دار افراد سے تبادلۂ خیال کرنے کی کوشش کی۔ مگر وہ میرے احساس کو بدل نہ سکے۔ بالآخر میں نے طے کیا کہ اپنے خیالات کو مکمل طور پر قلم بند کر ڈالوں۔ یہ میرے اس ذہنی سفر کی مختصر روداد ہے جس کا آغاز پانچ سال پہلے ہوا تھا۔ اور یہ مراسلہ تحریر جس کی آخری شکل ہے۔ یہ تحریر چونکہ اصلاً آپ کو بھیجنے کی غرض سے نہیں لکھی گئی تھی، بلکہ بعد کو اس کا فیصلہ کیا گیا، اس لیے مختلف پہلوؤں سے آپ اس میں عدم مناسبت پائیں گے، آپ کو وہ مراسلہ کے بجائے مضمون نظر آئے گی۔ مگر میں درخواست کروں گا کہ ان پہلوؤں سے صرف نظر کرتے ہوئے آپ اس کی اصل بات پر اپنا واضح تبصرہ روانہ فرمائیں۔‘‘
میں اس سلسلے میں مولانا مودودی کے جواب کا شدت سے منتظر تھا۔ کیوں کہ اس فکر کے خالق ہونے کی وجہ سے انھیں سے سب سے زیادہ توقع تھی کہ وہ اس فکر پر بھرپور تبصرہ کریں گے۔ مگر ایک روز ڈاک سے مجھے ایک لفافہ ملا جس میں موصوف کا حسب ذیل خط بند تھا۔
