فقہ سے استدلال

ایک استدلال یہ ہے:

’’جہاد، قطع ید، حد قذف، حد زنا، حد خمر اور معاملات میں اللہ کی نازل کردہ ہدایت کے مطابق فیصلہ کرنا، یہ قرآن کے قطعی احکام ہیں، جن سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن آج ان پر عمل نہیں ہو رہا ہے۔ ہر مسلمان قرآن میں پڑھتا ہے۔ مدرسوں میں ان پر بحثیں ہوتی ہیں، مقررین اورمصنفین ان کی باریکیاں بیان کرتے ہیں۔ مگر جب عمل کا سوال آتا ہے تو بڑی آسانی سے کہہ دیا جاتا ہے کہ اس کے لیے حکومت ضروری ہے اور آج اسلامی حکومت موجود نہیں۔ ہم کہتے ہیں کہ جب یہ احکام اسلامی حکومت پر موقوف ہیں تو پھر شرط موقوف علیہ کی تحصیل ہم پرواجب ہے۔ جیسا کہ شریعت اسلامی کا ایک کلیہ اور طے شدہ اصول ہے کہ فرائض و واجبات کی ادائیگی جن چیزوں پر موقوف ہوتی ہے، وہ بھی فرض اور واجب ہو جاتی ہیں۔ مثلاً وضو کی فرضیت کے ساتھ ساتھ پانی کے حصول کی کوشش بھی بقدر استطاعت فرض ہے۔

أَلَا تَرَى أَنَّ تَحْصِيلَ أَسْبَابِ الْوَاجِبِ وَاجِبٌ وَتَحْصِيلَ أَسْبَابِ الْحَرَامِ حَرَامٌ؟ (مسلم الثبوت مع شرحه فواتح الرحموت، جلد1، صفحہ 94) ۔ یعنی، کیا تم نہیں جانتے کہ واجب کے ذرائع کا حاصل کرنا واجب اور حرام کے ذرائع کا حاصل کرنا حرام ہے باجماع (زندگی ،دسمبر 1962ء)۔

اس استدلال میں ایک مغالطہ چھپا ہوا ہے۔ وہ یہ کہ تحصیل اسباب الواجب واجب کے اصول کو اس طرح بیان کیا گیا ہے گویا یہ کوئی مطلق حکم ہے، اور اس کا تعلق ہر اس چیز سے ہے جو ’’فرض اور واجب‘‘ کی حیثیت سے قرآن و حدیث میں مذکور ہوئی ہیں۔ یعنی ہر وہ فعل جس کا شریعت میں حکم دیا گیا ہو۔ اہل ایمان کے لیے لازم ہے کہ اگر وہ بالفعل اس پر قائم نہ ہوں تو اس کے ان اسباب کو فراہم کرنے کی جدوجہد کریں ۔ جس کے بعد وہ اس کے اوپر قائم ہو سکیں۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ صورت حال یہ نہیں ہے کہ ہر وہ فعل جو شرعاً واجب کی حیثیت رکھتا ہو، اس کے اسباب کا فراہم کرنا بھی لازماً واجب ہو، بلکہ اس کی کچھ شرطیں ہیں۔ یہاں ہم اڈیٹر زندگی کے وہ الفاظ نقل کرتے ہیں جو انہوں نے مذکورہ بالا سطروں کے نیچے بطور نوٹ درج کیے ہیں:

’’جس واجب کے اسباب و شروط کی تحصیل واجب ہوتی ہے، اس میں علمائے اصول فقہ نے دو قیدیں لگائی ہیں۔ ایک یہ کہ وہ واجب مطلق ہو، شارع کی طرف سے کسی سبب یا شرط کے ساتھ مقید نہ ہو، دوسرے یہ کہ وہ سبب و شرط مکلف کے مقدور میں ہو۔ ان دو قیدوں میں سے کوئی ایک قید بھی اگر غائب ہو جائے تو پھر سبب و شرط کی تحصیل واجب نہ ہو گی۔ پہلی قید کی شرعی مثال وجوب ِزکوٰۃ کا مسئلہ ہے۔ چاندی سونے میں وجوب زکوٰۃ کا سبب ایک مکمل نصاب کی ملکیت ہے اور شرط حولان حول ہے، لیکن کسی مسلمان پر نہ اس سبب کی تحصیل واجب ہے اور نہ اس شرط کی۔ یعنی کسی مسلمان پر نہ تو یہ واجب ہے کہ وہ جدوجہد کر کے صاحب نصاب بنے اور نہ کسی صاحب نصاب پر یہ واجب ہے کہ زکوٰۃ ادا کرنے کے لیے وہ سال بھر تک بہرحال نصاب کو محفوظ رکھے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وجوب زکوٰۃ کا حکم مطلق نہیں ہے بلکہ شریعت کی طرف سے ایک مقید حکم ہے۔ شریعت کامطالبہ یہ ہے کہ اگر کوئی مسلمان صاحب نصاب ہو اور سال بھر تک اس کے پاس نصاب محفوظ رہے تو اس سبب و شرط کی تحصیل کا فریضہ عائد نہیں ہوتا بلکہ جب سبب و شرط پائے جائیں تو اس حکم پر عمل واجب ہوتا ہے۔‘‘ دوسری قید کی مثال نماز کے اوقات ہیں جن کو اسباب کی حیثیت حاصل ہے، لیکن ان اسباب کی تحصیل کسی پر واجب نہیں اس لیے کہ وہ انسان کے بس سے باہرہے۔

اس اقتباس کامطلب یہ نہیں کہ اڈیٹر زندگی کو مذکورہ بالا مضمون نگار سے اختلاف ہے یا وہ اس بحث میں میری رائے سے متفق ہیں۔ وہ احکام کی مندرجہ بالا تقسیم کو تو مانتے ہیں۔ البتہ ان کا خیال ہے کہ ’’چور کا ہاتھ کاٹنے اور زانی کو کوڑے مارنے‘‘ کی تکلیف (Obligation) جو مسلمانوں کو دی گئی ہے، وہ ایک ’’مطلق تکلیف‘‘ ہے۔ اس کا وجود یا صحت ادا حکومت کی شرط پر موقوف ہے۔اس لیے اس شرط کی تحصیل بھی یقیناً واجب ہے۔ وہ مزید لکھتے ہیں:

’’علمائے حق اس پر متفق ہیں کہ نصب امام یا اسلامی حکومت کا قیام ان احکام کی ادائیگی کے لیے موقوف علیہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ یعنی ان احکام کے وجوب میں بھی بات یہ نہیں ہے کہ اگر خلیفہ موجود ہو اور حکومت قائم ہو تو ان پر عمل کرو۔ بلکہ بات یہ ہے کہ یہ احکام جو تم پر واجب ہیں وہ نصب خلیفہ اور حکومت کے بغیر ادا نہیں ہو سکتے لہٰذا ان احکام پرعمل کرنے کے لیے تم پر اس شرط کی تحصیل واجب ہے‘‘۔ (زندگی،دسمبر 62 ء، مطابق رجب 82 ھ)

موصوف نے یہاں علمائے حق کے جس ’’اتفاق‘‘ کا ذکر کیا ہے، وہ بجائے خود صحیح ہے۔ یعنی اجتماعی احکام کے نفاذ کے لیے اسلامی حکومت کی موجودگی ضروری ہے۔ مگر خود اجتماعی احکام کے مخاطب کون لوگ ہیں۔ یہ ایک الگ مسئلہ ہے، جو اس ’’اتفاق‘‘ سے نہیں نکلتا۔ موصوف کی غلطی یہی ہے کہ وہ ان احکام کا مخاطب عام اہل ایمان کو قرار دے رہے ہیں۔ جس ’’تم‘‘ کے لیے یہ حکم ہے، اس ’’تم‘‘ کے اطلاق میں غلطی کررہے ہیں۔ حالانکہ اجتماعی اور تمدنی احکام کا مخاطب اہل ایمان کاوہ معاشرہ ہے جو بااختیار حیثیت رکھتا ہو، نہ کہ عام اور متفرق اہل ایمان۔ یعنی یہ مقید حکم ہے، نہ کہ مطلق حکم۔ (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو کتاب کا باب ’’دین کا صحیح تصور‘‘)

دوسری بات یہ ہے کہ ان احکام کامقید یا مشروط ماننے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ’’جب حکومت قائم ہو تو ان پر عمل کرو‘‘۔ بلکہ اس شرط یا قید کا مطلب یہ ہے کہ ان احکام کے نفاذ کامطالبہ عام مسلمانوں سے نہیں ہے، بلکہ آزاد اور بااختیار اہل ایمان اس کے مخاطب ہیں۔ جب بھی اہل ایمان کاکوئی ایسا گروہ پایا جائے تو اس پرفوراً یہ حکم عائد ہو جائے گا اور اس کے لیے ضروری ہو گا کہ اس ’’سبب‘‘ کو حاصل کرے جو ان احکام کی تعمیل کے لیے موقوف علیہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ یعنی اسلامی حکومت قائم کرے تاکہ ان احکام کو اس کے درمیان نافذ کیا جا سکے۔ دوسرے لفظوںمیں یہ کہ بااختیار مسلم معاشرہ پر ان احکام کی تنفیذ واجب ہے اور چونکہ اس پر ان کی تنفیذ واجب ہے اس لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے درمیان اسلامی حکومت قائم کرے تاکہ ان احکام کو نافذ کر سکے۔

مگر بات یہیں ختم نہیں ہوتی ، بلکہ اس استدلال میں اور بھی غلطی چھپی ہوئی ہے۔ وہ یہ کہ جہاں تک زیرِ بحث تعبیر کا تعلق ہے، اس کے حق میں نصب امامت کے مسئلہ سے استدلال کرناسرے سے غلط ہے۔ کیوں کہ یہ تعبیر پورے کارِ دعوت کی تشریح ہے۔ وہ سارے احکام کے بارے میں ہماری ذمہ داری کو بتاتی ہے۔ جب کہ نصب امامت کامسئلہ صرف کسی سوسائٹی کی سیاسی تنظیم سے متعلق ہے، وہ ایک محدود مسئلہ کے بارے میں اسلام کے تقاضے کو بتاتا ہے۔ اس سے زیرِ بحث تعبیر پر استدلال کرنا ایسا ہی ہے، جیسے معاشی تقاضوں سے پیدا ہونے والے مسائل کو سامنے رکھ کر پورے انسان کو سمجھنے کی کوشش کی جائے۔ ظاہر ہے کہ معاشی حکم زندگی کے ایک جزئی مسئلہ سے متعلق ہے۔ اس کو پورے انسان کے مطالعہ کاعنوان نہیں بنایا جا سکتا۔

دوسری بات یہ ہے کہ زیرِ بحث تعبیر اسلامی مشن کا جو تصور دیتی ہے، وہ ہے ساری دنیامیں اسلامی حکومت کا قیام۔ یعنی یہ تعبیر ہمارے اس کام کی تشریح ہے، جو مسلم اور غیر مسلم سب کے اوپر علی الاطلاق ہمیں انجام دینا ہے۔ ہم جہاں ہوں اور جس حال میں بھی ہوں، یہی وہ مشن ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہمیں سپرد ہوا ہے۔ اور اسی کے لیے ہمیں متحرک ہونا ہے۔ یہی اس لٹریچر کی اصل دعوت ہے، جو تمام کتابوں میں پھیلی ہوئی ہے۔ مگر نصب امامت کے مسئلہ کا اس قسم کے کسی نصب العین سے کوئی تعلق نہیں۔ نصب امامت کی فرضیت قطعی طور پر مسلمانوں کے اپنے دائرۂ کار کے اعتبار سے ہے، نہ کہ ساری دنیاسے۔ یہ ایک الگ بات ہے کہ جب یہ امامت قائم ہوتی ہے تو اس کے علاقے میں بسنے والے غیر مسلمین بھی اس کے ماتحت ہو جاتے ہیں اور اس کے بہت سے احکام خود ان کے اوپر بھی نافذ ہوتے ہیں۔ مگر متکلمین جب کہتے ہیں کہ :المُسْلِمُونَ لَا بُدَّ لَهُمْ مِنْ إِمَامٍ( العقائد النسفیۃ مع شرحہ للتفتازانی ، صفحہ 467)۔یعنی، مسلمانوں کے لیے ایک امام ضروری ہے ۔ یا نَصْبُ الإمامِ عِنْدَنَا وَاجِبٌ( المواقف فی علم الکلام للایجی، صفحہ 395)۔ یعنی، مسلمانوں کے لیے اپنے اوپر امام مقرر کرناہمارے نزدیک واجب ہے۔ تو یہ مسلمانوں سے متعلق ایک فریضہ کا بیان ہوتا ہے، یعنی اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ      ’’مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ دنیا کے تمام مومنین اور غیر مومنین پر اسلامی حکومت قائم کریں‘‘۔ بلکہ اس کا مطلب صرف یہ ہوتا ہے کہ — ’’مسلمانوں پر فرض ہے کہ وہ اپنے درمیان احکام اسلامی کے نفاذ اورمصالح شریعت کے تحفظ کے لیے اپنا ایک سیاسی امیر مقرر کریں‘‘ ۔

جیسا کہ میں لکھ چکا ہوں کہ میرا اعتراض دراصل نصب العین کی اس تشریح پر ہے، جو زیرِ بحث لٹریچر میں کی گئی ہے۔ اور اس لحاظ سے نصب امامت کے مسئلہ کا حوالہ میرے اعتراض کو دفع نہیں کرتا۔ اس سے زیرِ بحث تشریح کے حق میں استدلال کرنا ایسا ہی ہے جیسے نماز باجماعت کے لیے امام مقرر کرنے کے احکام کا حوالہ دے کر کوئی شخص یہ حکم نکالے کہ ’’ساری دنیاکے اوپر امام مقرر کرو‘‘ ۔

واضح ہو کہ مجھے نصب امامت یا اسلامی حکومت سے کوئی ضد نہیں ہے۔ اگر ایسا کوئی واقعہ یہاں رونما ہو سکے تو یقیناً مجھے خوشی ہو گی۔ میں اس کے لیے بھی تیار ہوں کہ کوئی واقعی عملی موقع ہو تو اس کی جدوجہد میں شریک ہونے کو میں اپنی سعادت سمجھوں۔ مجھے دراصل اس تشریح پر اعتراض ہے، جس نے دین کا حقیقی تقاضا اور اہل ایمان کامشن یہی قرار دیا ہے کہ دنیامیں اسلامی حکومت قائم کرنے کی جدوجہد کی جائے۔ ایک بات عملی حیثیت سے کسی وقت صحیح ہو سکتی ہے لیکن اگر اسی کو عمومی اور نظریاتی حیثیت دی جائے تو یہ نظریہ بجائے خود غلط ہو گا۔

2۔      ایک صاحب لکھتے ہیں:

’’اگر خالص فقہی اور قانونی نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے تو اس کے نتیجے میں بھی یہاں کے مسلمانوں کی ذمہ داری یہی ثابت ہو گی کہ (وہ جماعت کے پیش کردہ نصب العین کے مطابق اس ملک میں اسلامی انقلاب لانے کی جدوجہد کریں) انگریزی دور حکومت سے پہلے ہندوستان دارالاسلام تھا لیکن اس کے بعد کفار نے اس دارالاسلام پر قبضہ کر لیا اور اسے دارالکفر میں تبدیل کر دیا۔ ایسی صورت حال کے بارے میں فقہا کا فتویٰ یہ ہے کہ اس قبضۂ کفر کو ختم کر کے ملک کو پھر سے دارالاسلام بنا لینا مسلمانوں پر واجب ہے۔‘‘

اس استدلال میں بیک وقت دو غلطیاں کی گئی ہیں۔ اول یہ کہ ایک ایسا حکم جومخصوص اوروقتی معاملہ سے متعلق ہے، اس کو عمومی حیثیت دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ ظاہر ہے کہ مغصوبہ دارالاسلام کو واپس لینے کا مسئلہ ایک وقتی صورت حال کے بارے میں شریعت کے حکم کو بیان کرتا ہے۔ جب کہ ہم یہاں ایک عام اورمطلق نوعیت کے مسئلہ سے گفتگو کر رہے ہیں۔ یہ فقہی مسئلہ صرف یہ بتاتا ہے کہ فلاںمخصوص صورت پیش آ جائے تو ا س وقت مسلمانوں کو کیا کرنا چاہیے۔ اس کے برعکس، ہم جس مسئلہ پر غور کر رہے ہیں وہ یہ ہے کہ ہر حال میں مسلمانوں کے کرنے کاکام کیا ہے۔ موصوف اس نکتہ کو نہایت آسانی سے سمجھ سکتے تھے۔ اگر وہ یہ سوچتے کہ ان کا یہ استدلال، اگر اس کا انطباق صحیح ہو ، صرف ہندوستان کے مسلمانوں کی حد تک ان کے لیےایک سیاسی نصب العین کا جواز فراہم کرتا ہے۔ مگر اس استدلال میں ان بہت سے ملکوں کے لیے اس طرح کا نصب العین اختیار کرنے کاکوئی جواز نہیں ہے، جو فقہی مفہوم کے لحاظ سے کبھی  ’’دارالاسلام ‘‘ نہیں بنے تھے۔ حالانکہ آپ کا دعویٰ ہے کہ جس چیز کو آپ اسلام کا مشن کہہ رہے ہیں، وہی ساری دنیا کے مسلمانوں کاواحد مشن ہونا چاہیے۔

اس کی دوسری غلطی یہ ہے کہ اس میں ایک سیاسی حکم سے ایک نظریاتی مسئلہ کے بارے میں استدلال کیا گیا ہے۔ سیاست سے متعلق صرف سیاست کے بار ےمیں شریعت کے تقاضہ کو بیان کرتا ہے، جس طرح عبادت سے متعلق ایک حکم، عبادت سے متعلق شریعت کے تقاضے کو ظاہر کرتا ہے۔ لیکن زیرِ بحث مسئلہ پوری شریعت کی توجیہ سے متعلق ہے۔ پھر ایک جزئی حکم سے پورے مجموعے کے بارے میں کیسے رائے قائم کی جا سکتی ہے۔ کیا ساری شریعت صرف اس مخصوص جزء کا نام ہے۔ موصوف کو یہ دلیل پیش کرتے ہوئے یاد نہیں رہا کہ وہ ایک خالص سیاسی حکم سے اپنے نصب العین کے حق میں استدلال کررہے ہیں۔ حالانکہ اس نصب العین کے بارے میں خود ان کا ا پنا دعویٰ ہے کہ وہ دین کے سارے تقاضوں سے متعلق ہے، نہ کہ صرف اس کے سیاسی حصہ سے۔

آخر میں استدلال کی ایک اور قسم ہمارے سامنے آتی ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو دلیل کے میدان میں اپنی کمزوری محسوس کرنے کے بعد اس عجیب و غریب منطق سے اپنے آپ کو صحیح ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ان کی بات کے لیے کسی دلیل کی ضرورت ہی نہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ تم نے خوامخواہ ہم کو ’’دلیل کے چکّر‘‘ میں ڈال دیا۔ ورنہ یہ بات تو اتنی واضح ہے کہ اس کو تم خود اپنی عقل سے سمجھ سکتے ہو۔ اس کے لیے شرعی دلیل کی کیا ضرورت ہے۔ یہ تو محض تاریخی حالات کا اثر ہے کہ ’’مسلمانوں کو اب یہ بات بڑی اوپری سی لگتی ہے کہ ہم پر یہ بھی فرض ہو کہ ہم حالات کو بدلیں‘‘۔ یہی وجہ ہے کہ ’’اب ہمیں قرآن کی ایسی واضح آیات کی تلاش ہے جس میں ہمیں یہ حکم مل جائے کہ — انقلاب امامت مسلمانوں پر فرض ہے — اور چونکہ ایسا واضح حکم ہمارے سامنے نہیں آتا، اس لیے ہم ایسی تمام آرزوؤں کو غلط اور ایسی تمام کوششوں کو غیر اسلامی سمجھتے ہیں جو کسی صالح انقلاب کے لیے ہو۔‘‘ (الحسنات، مارچ دوم 1962ء)

یہ استدلال مولانا صدر الدین صاحب کی اس تحریر سے لیا گیا ہے، جو انہوں نے میرے جواب میں تیار کی تھی۔ ان کے اس نکتہ کا جواب ابتداء ً میں نے ابواللیث صاحب کے نام اپنے خط مورخہ 19 اگست 1962ء میں دیاتھا، جو کہ اس کتاب کے دوسرے باب میں شامل ہے۔ اب اس کو وہاں سے الگ کر کے اس باب میں درج کر دیا گیا ہے۔ مسلمانوں  کے اوپر اپنے دائرہ اختیار کے لحاظ سے ’’نصب امامت‘‘ تو بیشک فرض ہے، مگر عام معنوں میں ساری دنیاکے اندر انقلاب قیادت کا مشن کہاں سے ثابت ہوتا ہے، یہ مجھے معلوم نہیں۔

میں کہوں گا کہ یہ واقعہ کہ قرآن میں آپ کی اسلامی تعبیرکے حق میں کوئی ’’واضح حکم‘‘ نہیں ملتا۔ یہ بذات خود اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ اسلامی تحریک کی صحیح تعبیر نہیں ہے۔ اگر یہ اس کی صحیح تعبیر ہوتی تو یقیناً خدا کی کتاب میں بھی اس کا ذکر آنا چاہیے تھا۔ اس حقیقت کے باوجود اگر آپ کسی عقلی قیاس کی بنا پر اپنی مخصوص تعبیر پر اصرار کر رہے ہیں تو یہ اس کے مزید نقص کا ثبوت ہے۔ جب ایسا ہو کہ ایک تعبیر کے حق میںقرآن کی واضح تصدیق موجود نہ ہو اوراس کو ماننے والے قرآن کی آیات کے بجائے عقلی قیاسات پیش کر رہے ہوں تو اس قسم کے قیاسات اس کی صحت کا نہیں بلکہ صرف اس کی غلطی کا ثبوت ہوں گے۔ کیوں کہ اسلامی تحریک کامقصد اور امت مسلمہ کا نصب العین قرآن کی صریح آیات سے معلوم ہونا چاہیے، نہ کہ عقلی قیاسات سے۔

یہی وہ محکم دلائل ہیں جن کی بنا پر اس تعبیر کے حاملین یہ یقین کیے ہوئے ہیں کہ ان کی تعبیر قرآن و حدیث کے صریح نصوص سے ثابت ہو چکی ہے۔ کاش انسان یہ جانتاکہ اکثر ’’یقین‘‘ کی حقیقت ایک دھوکہ کے سوا اورکچھ نہیں ہوتی۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom

Ask, Learn, Grow

Your spiritual companion