اصل کام کے بجائے د وسرے کام

آج کل جماعت اسلامی کے رہنما بظاہر ملی معاملات میں کافی پیش پیش نظر آ رہے ہیں۔ تعلیمی کانفرنسوں میں شرکت ، مسلم کنونشن کی تجاویز ،فسادات کے مواقع پر ریلیف کا کام، مسلمانوں کا انگریزی اخبار نکالنے کی کوشش، ملکی اور عالمی مسائل پر بیانات اور ’’انٹرویو‘‘۔ مگر یہ حقیقتاً کسی فکری سرچشمہ سے نکلی ہوئی چیز نہیں ہے۔ اس کے اسباب کچھ اور ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان سرگرمیوں میں وہ حقیقی روح نہیں پائی جاتی، جو خدمت دین کے کاموں میں فی الواقع ہونی چاہیے۔

1۔      جماعت اسلامی کی تاریخ میں یہ نیا رجحان پیدا ہونے کی پہلی اور خاص وجہ یہ ہے کہ جماعت کا جو فکر ہے، اس کے مطابق اس کا ذہن قدرتی طور پر ’’سیاسی‘‘ قسم کے کام تلاش کرتا ہے۔ تقسیم ملک کے بعدپاکستان کے مخصوص حالات کی بنا پر وہاں کی جماعت کو ایسے کام مل گئے اور وہ اس کے سہارے کھڑی ہو گئی۔ مگر ہندوستان کے حالات مختلف تھے۔ اس لیے یہاں ایسا کوئی کام نکل نہ سکا۔ یہ چیز ہندوستان میں تحریک کے ا فراد کو جمود ا ور سرد مہری میں  مبتلاکر رہی تھی۔ پہلے اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے ’’تعمیر ذہن اور تزکیۂ قلب‘‘ کی مہم شروع کی گئی۔ اور جماعت کی پالیسی میں طے کیا گیا کہ داخلی تربیت کے محاذ پر ’’ہماری سب سے زیادہ قوت اصولاً تو صرف ہونی ہی چاہیے۔ لیکن جماعت کے موجودہ حالات نے اس کی اہمیت اور زیادہ بڑھا دی ہے۔‘‘ چنانچہ ’’تحریک اور جماعت سے تعلق رکھنے والے مسائل‘‘ کی تین تقسیموں میں سے داخلی مسائل پر سب سے زیادہ یعنی ’’عام حالات میں بحیثیت مجموعی کم از کم نصف قوت‘‘ صرف کرنے کا فیصلہ کیا گیا، اور سارے ملک میں ایک مقررہ پروگرام کے مطابق تربیت و تزکیہ کا کام شروع ہو گیا۔ مگر تھوڑے ہی دنوں کے تجربہ کے بعد محسوس ہونے لگاکہ اس کاکوئی خاص فائدہ نہیں ہے۔ افراد جماعت کے جس داخلی زوال کو روکنے کے لیے اسے شروع کیا گیا تھا۔ اس میں کوئی کمی نہیں آئی۔

اس دوران میں جماعت کے اندر بہت سے لوگ شدت سے یہ بات پیش کر رہے تھے کہ جماعت نے تربیت کا جو طریقہ اختیار کیا ہے، وہ خانقاہی تربیت کا طریقہ ہے۔ اس سے جماعت کے اندر کوئی زندگی پیدا ہونے والی نہیں ہے۔ یہ شیر کو گھاس کھلا کر موٹا کرنے کی کوشش ہے جو کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ جماعت کے اندر زندگی پیدا کرنے کی صحیح صورت یہ ہے کہ انقلابی انداز میں کوئی عملی پروگرام بنایا جائے۔ یہ ایک انقلابی جماعت ہے، اس لیے انقلابی پروگرام ہی سے اسے غذا مل سکتی ہے۔ پہلے فکر کی ناکامی کے اندر سے یہ دوسرا فکر دھیرے دھیرے ابھر رہا تھا۔ جماعت کے بعض رہنما جو اس فکر سے کچھ زیادہ متفق نہیں ہیں، مگر حالات نے انھیں جس رعیت کا راعی بنایا ہے، اس کے مخصوص ذہن کے پیش نظر انھیں بھی کوئی دوسری تدبیر نظر نہیں آتی۔ بالآخر اس چیز نے جماعت کو عملی اور ہنگامی کاموں کی طرف موڑ دیا۔ ملک کی عمومی سیاست میں تو اس کے لیے اس طرح کے کام کا موقع نہیں تھا۔ البتہ مسلم سیاست کے میدان میں جماعت نے کچھ ایسے ’’عملی کام‘‘ ڈھونڈ لیے ہیں جن کے سہارے تحریک کے افراد کو زندہ رکھا جا سکے۔

چنانچہ جو کام سابق تربیتی پروگرام سے نہ ہو سکاتھا۔ وہ اب کچھ ہوتا ہوا نظر آنے لگا ہے۔ جب سے اس قسم کے مخصوص ’’عملی کام‘‘ شروع ہوئے ہیں جماعت کے اندر زندگی کی ایک نئی لہر دوڑ گئی ہے۔ اس کے رہنماؤں میں بھی ایک نیا اعتماد پیدا ہو گیا ہے۔ مگر اس نئی زندگی کے معنی یہ نہیں ہیں کہ جماعت کے افراد کے تعلق باللہ میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ان کی نمازیں پہلے کے مقابلے میں بہتر ہونے لگی ہیں، وہ اپنے رب کی طرف زیادہ راغب ہو گئے ہیں۔ بلکہ یہ صرف ایک تحریکی زندگی ہے۔ اور اسی لیے لازمی طور پروقتی بھی۔ مجھے اس میں ذرا بھی شبہ نہیں کہ اس سستے نسخہ کو پا کر جو رہنما آج خوش ہو رہے ہیں، ان کو زیادہ دیر تک خوشی منانے کاموقع نہیںملے گا۔ حالات کاایک ذرا سا پلٹا اس سارے گھروندے کو الٹ کر رکھ دے گا، اور اس وقت وہ دیکھیں گے کہ جس داخلی زوال کو انہوں نے عارضی پردوں میں چھپا دیا تھا۔ وہ پہلے سے زیادہ بھیانک شکل میں اس کے نیچے موجود ہے۔

2۔      اسی کے ساتھ اس کی دوسری وجہ جو بظاہر غیر شعوری طور پر جماعت کی زندگی میں داخل ہو گئی ہے، یہ ہے کہ جماعت وہ کام نہیں کر سکی جس کو انجام دینا اس نے اپنے ذمہ لیا تھا۔ اس لیے ناکامی کے احساس نے اپنی نفسیاتی تسکین کے لیے کچھ آسان کام ڈھونڈ نکالے ہیں۔ تقسیم کے بعد جماعت نے ایک متعین لائحہ عمل اپنے لیے بنایا تھا۔ جس کے چار اجزاء  تھے— قومی کشش مکش کا خاتمہ، مسلمانوں کے اندر وسیع پیمانے پر علم دین کی اشاعت اوران کی اخلاقی، تمدنی اور معاشرتی زندگی کی اس حد تک اصلاح کہ ان کے ہمسایہ غیر مسلموں کو اپنی سوسائٹی کی نسبت ان کی سوسائٹی صریحاً بہتر محسوس ہونے لگے۔‘‘ ملک کی ذہنی طاقت کا زیادہ سے زیادہ حصہ اپنے گرد اکٹھا کرنا۔ اور تمام کارکنوں کا ملک کی مقامی زبانوں میں ’’تحریر و تقریر کی قابلیت‘‘ بہم پہنچانا اور ان میں اسلام کا ضروری لٹریچر منتقل کرنا۔ اپریل 1947ء کے اجتماعِ مدراس میں یہ لائحہ عمل منظور کرتے ہوئے جماعت کے کارکنوں سے کہا گیا تھا کہ آئندہ پانچ سال میں آپ کو یہ کام کر لینے ہیں:

’’آپ کی مٹھی بھر جماعت کو آئندہ پانچ سال میں بہت بڑا کام کرنا ہے…اتنا بڑا کام جو پہاڑ کھود کر جوئے شیر لانے سے کم نہیں ہے…آپ کو مسلمانوں کی رائے عام اور اس کے قومی رویے کا رخ بدلنا ہے۔ آپ کو عامۂ مسلمین کی اعتقادی، اخلاقی ، اور تمدنی اصلاح کرنی ہے۔ آپ کو مسلمانوں کے اہل دماغ طبقے میں نفوذ کرنا اور اسے ذہنی و عملی انتشار سے بچا کر اسلامی انقلاب کی راہ پر لگانا ہے۔ آپ کو ملک کے مختلف حصوں کی زبانوں میں اسلامی لٹریچر کی اشاعت کاانتظام کرنا ہے‘‘۔

یہ وہ کام تھا جس کے لیے ’’پورے انہماک کےساتھ اپنی ساری اجتماعی طاقت‘‘ صرف کرنے کی تلقین کی گئی تھی۔ اس سلسلے میں مجھے پانچ سال کی مدت سےکوئی بحث نہیں ہے۔ اس قسم کے اندازے عموماً غلط ہوتے ہیں۔ مگر ایسی حالت میں جب کہ ان میں سے کوئی ایک کام بھی ابھی تک نہ ہو سکا جماعت کے لیے لازم تھا کہ اس کو انجام دینے میں پوری قوت سے لگی رہتی۔ مگر ’’پہاڑ کھود کر جوئے شیر لانے‘‘ کی طاقت اس میں باقی نہیں رہی تھی۔ دوسری طرف مسلمانوں کے اندر کسی جماعت کے نہ ہونے کی وجہ سے اس کا موقع پیدا ہو گیا تھا کہ کوئی ان کے ذوق کے مطابق نعرے لگائے تو فوراً اس پر لبیک کہنے کے لیے تیار ہو جائیں گے۔ تقسیم ہند کے بعد مسلم لیگ کے خاتمہ سے مسلم قیادت کی جو جگہ خالی ہوئی تھی اس پر جس طرح جمعیۃ علما قبضہ کرنا چاہتی تھی، اس پر تبصرہ کرتے ہوئے ایک مرتبہ مولانا ابواللیث صاحب نے لکھا تھا:

’’یہ لوگ میدان خالی پا کر سرپٹ دوڑ رہے ہیں‘‘۔

آج یہی الفاظ جماعت اسلامی پر لوٹ آئے ہیں۔ جو جمعیۃ علما کی ناکامی کے بعد مسلم قیادت کا میدان حاصل کرنے کے لیے سرگرم دکھائی دے رہی ہے۔

2۔      ایک اور وجہ عام مسلم سیاست سے متاثر ہونا ہے۔ جماعت عرصہ دراز سے مسلمانوں کی اس تنقید کا ہدف بن رہی تھی کہ وہ ان کا کوئی کام نہیں کرتی، وہ ان کے عملی مسائل کے حل میں کوئی حصہ نہیں لیتی، اور اسلامی نظام قائم کرنے کے ایک خیالی آئیڈیل کے پیچھے پڑی ہوئی ہے۔ یہ تنقیدیں اب محض تنقیدیں نہیں رہ گئی تھیں۔ بلکہ اس کی وجہ سے عام مسلمانوں کے اندر جماعت سے دل چسپی بہت کم ہو گئی تھی۔ اس صورت حال نے دھیرے دھیرے اثر ڈالا اور اب نوبت یہاں تک پہنچی کہ جماعت اسی راہ پر مڑ گئی جس کے متعلق اپنے آغاز میں اس نے شعوری طور پر فیصلہ کیا تھا کہ ادھر اس کو نہیں جانا ہے۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom

Ask, Learn, Grow

Your spiritual companion