شبہات

یہاں بعض لوگوں کو یہ سوال پریشان کر سکتا ہے کہ جس تعبیر پر تم اعتراض کر رہے ہو، ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ اس سے متاثر ہو کر کتنے لوگوں میں زبردست انقلاب آگیا۔ پھر ہم کیسے مان لیں کہ یہ سب کچھ غلط تھا۔ میں کہوں گا کہ بے شک آپ کا خیال صحیح ہے۔ مگر آپ ماضی کے مشاہدے کو حال کا واقعہ فرض کرنے کی غلطی کر رہے ہیں۔ اگر آپ اپنے عقیدت کدے سے باہر آ کر اپنی تصوراتی شخصیتوں کو ان کے موجودہ حلیے میں دیکھ سکیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ جس چیز کو آپ ’’انقلاب‘‘ سمجھ رہے ہیں۔ وہ درحقیقت وقتی جوش تھا جو کب کا ختم ہو چکا ہے۔ (الا ماشاء اللہ)

اصل میں انسان کی یہ خصوصیت ہے کہ وہ اپنے لیے کوئی آئیڈیل (آدرش)چاہتا ہے۔ غلط فلسفوں یا مذہب کی غلط تعبیروں کی طرف بہت سے لوگوں کا دوڑ پڑنا اسی اندرونی طلب کا نتیجہ ہے۔ مگر آئیڈیل کی تلاش دراصل اپنے خالق کی تلاش کا فطری جذبہ ہے۔ اس لیے اس جذبہ کی حقیقی تسکین صرف اسی وقت ہو سکتی ہے، جب آدمی کی تلاش اسے صحیح معنوں میں خدا تک پہنچا دے، جب اس کی روح کسی درمیانی حجاب کے بغیر اپنے آقا سے جا ملی ہو۔ ایسا آدمی ارتقا کے لامحدود امکانات پا لیتا ہے۔ اس کے لیے تنزل کا کوئی سوال نہیں۔ لیکن اگر وہ کسی محدود یا کمتر حقیقت کو کلی حقیقت سمجھ کر اس کی طرف بڑھا تھا تو زیادہ دن نہیں گزریں گے کہ فطرت اس کے ساتھ اپنے عدم مطابقت کو ظاہرکر دے گی۔ مصنوعی آدرش حقیقی آدرش کی جگہ نہ لے سکے گا۔ اور پھر اس کے بالکل قدرتی نتیجے کے طور پر ایسا ہو گا کہ زندگی اپنے سابق معمول کی طرف لوٹنا شروع ہو جائے گی۔ اس کی وہ ہما ہمی ختم ہونے لگے گی جو ابتدائی جوش کے طور پر اس کے اندر پیدا ہو گئی تھی۔ یہاں تک کہ وہ وقت آئے گا جب وہ بالکل سرد ہو کر رہ جائے گا اور اپنے پسند کیے ہوئے فکر کے کنارے اس طرح بے روح حالت میں پڑا رہے گا جیسے رات بھر بیتاب رہنے والے پتنگوں کو آپ صبح کے وقت دیکھتے ہیں کہ وہ بجھی ہوئی روشنی کے گرد بے حس و حرکت پڑے ہیں۔

یہ انجام ایسی کسی تحریک کے تمام اصاغر و اکابر کے لیے مقدر ہے۔ البتہ اگر ان میں سے کسی کے اندر پیدائشی طور پر کچھ عوام فریب خصوصیات موجود ہوں، مثلاً ذہانت، جسمانی وجاہت، گفتگو کا ملکہ، تحریر یا تقریر کی استعداد — تو بہت سے لوگوں کے لیے اس کی یہ ظاہری خصوصیات اس کی مردہ شخصیت کا پردہ بنی رہیں گی۔ اس کے معتقدین اسے زندہ سمجھتے رہیں گے۔ ٹھیک اسی طرح جیسے حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات کے بعد ان کے تابع جن ان کی ظاہری ہئیت کی وجہ سے بدستور انھیں زندہ سمجھتے رہے۔ اسی طرح بعض لوگ طبعی طور پر بعض صفات محمودہ کے مالک ہوتے ہیں۔ مثلاً خوش خلقی اور ترحم وغیرہ۔ ایسے لوگ ہر تحریک میں پائے جاتے ہیں۔ مگر یہ ذاتی نوعیت کی صفات ہیں، جن کو نہ تو تحریک سے منسوب کرنا صحیح ہے اور نہ وہ اپنے اندر کوئی نظریاتی قدر رکھتے ہیں۔ اسی طرح بعض چیزیں جماعتی کردار یا تحریکی اخلاقیات کے طور پر پیدا ہوتی ہیں، آدمی کی ذاتی زندگی خلق کی خدمت سے خالی ہو جاتی ہے۔ مگر ’’شعبۂ خدمت خلق‘‘ کے تحت اجتماعی پروگراموںمیں وہ دوسروں کے ساتھ متحرک نظر آتا ہے۔

2 ۔ بعض مرتبہ دین کے نام پر اٹھنے والی کسی تحریک کی غلطیوںکو سمجھنا لوگوں کے لیے اس لیے بھی مشکل ہو جاتا ہے کہ وہ دیکھتے ہیں کہ اس سے دین کو کچھ فائدے ہو رہے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں کہ جس تحریک سے دین کو فائدہ پہنچے اس میں کوئی غلطی کس طرح ہو سکتی ہے۔ اس کا مفید ہونا خود ہی اس بات کی دلیل ہے کہ وہ صحیح ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں میںکوئی لازمی رشتہ نہیں ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ کوئی کوشش دین کے لیے کسی پہلو سے مفید ہو، مگر اس کوشش کی بنیاد درست نہ ہو۔ یورپ میں بعض عیسائیوں نے خدا کے اثبات پر نہایت اونچے درجے کے سائنسی دلائل فراہم کیے ہیں، جو اب تک کسی مسلمان عالم سے ممکن نہ ہو سکا۔مگر اس کے باوجود کوئی شخص نہیں کہہ سکتاکہ یہی وہ چیز ہے جو ایک انسان سے اللہ تعالیٰ کو مطلوب ہے یا یہ کہ عیسائی خدا کے دین کے صحیح ترجمان ہیں۔

کسی تحریک میں مفید اور غیر مفید یا صحیح اور غلط دونوں پہلوؤں کا ہونا ایک عام مشاہدے کی چیز ہے اور خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قسم کی پیشین گوئی فرمائی ہے۔ حضرت حذیفہ کی طویل حدیث میں یہ الفاظ آئے ہیں:

قَالَ:قُلْتُ:يَا رَسُولَ اللهِ، ‌إِنَّا‌كُنَّا‌فِي‌جَاهِلِيَّةٍ وَشَرٍّ، فَجَاءَنَا اللهُ بِهَذَا الْخَيْرِ فَهَلْ بَعْدَ هَذَا الْخَيْرِ شَرٌّ؟ قَالَ: نَعَمْ. فَقُلْتُ: هَلْ بَعْدَ ذَلِكَ الشَّرِّ مِنْ خَيْرٍ؟ قَالَ: نَعَمْ، وَفِيهِ دَخَنٌ. قُلْتُ: وَمَا دَخَنُهُ؟ قَالَ: قَوْمٌ يَسْتَنُّونَ بِغَيْرِ سُنَّتِي،وَيَهْدُونَ بِغَيْرِ هَدْيِي،تَعْرِفُ مِنْهُمْ وَتُنْكِرُ (صحیح البخاری،حدیث نمبر7084؛صحیح مسلم، حدیث نمبر 1847)۔ یعنی، میں نے پوچھا اے خدا کے رسول ہم لوگ جاہلیت اور شر میں پڑے ہوئے تھے اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے یہ خیر عنایت فرمایا۔ تو کیا اس خیر کے بعد بھی شر ہے ۔ فرمایا ہاں۔ میں نے پھر پوچھا کیا اس شر کے بعد پھر خیر کا زمانہ آئے گا ۔ فرمایا ہاں۔ مگر وہ خالص نہیں ہو گا بلکہ اس میں کھوٹ ہو گا۔ میں نے پوچھا اس کاکھوٹ کیا ہے۔ فرمایا اس وقت ایسے لوگ ہوں گے جو میرے طریقہ کے خلاف طریقہ اختیار کریں گے۔ تم ان میں اچھی بات بھی پاؤ گے اور غلط بات بھی۔

اصل یہ ہے کہ دین کے نام پر ہونے والی کوششوں کی دو قسمیں ہیں۔ ایک شہادت دین اور دوسرے تائید دین ۔ شہادت دین کی تحریک وہ ہے جو خالص دین کی تبلیغ کے لیے اٹھے اور اس کی صحیح ترین شکل میں کام کرے۔ جس میں اس قسم کا کوئی خلا نہ ہو جس کی طرف ہم نے اوپر اشارے کیے ہیں۔ یہی مطلوب ہے اور آخرت میں وہی لوگ دراصل شاہد کی حیثیت سے اٹھائے جائیں گے جنہوں نے اس انداز سے کام کیا ہو۔ تائید دین کی تحریک وہ ہے جس سے بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر دین کو تقویت پہنچے۔ مثلاً باطل افکار کی تردید، دشمن کے مقابلے میں مدافعت، اس کے کسی جزء کو باقی رکھنے کی جدوجہد ، وغیرہ۔ اس دوسرے کام کے لیے نہ صرف صحت فکر بلکہ صحت عمل بھی ضروری نہیں ہے۔ جیسا کہ حدیث میں آیا ہے:

إِنَّ اللهَ ليؤيد ھذا الدِّينَ ‌بِالرَّجُلِ ‌الْفَاجِرِ (صحیح البخاری،حدیث نمبر3967)۔ یعنی، اللہ یقیناً فاجر آدمی کے ذریعہ بھی اس دین کی تائید (مدد) کرتا ہے۔

مجھے یہ کہنے میں ذرا بھی تامل نہیں کہ میں زیرِبحث فکر کے حاملین کے کام کی قدر کرتا ہوں، ان لوگوں نے اسلام کے دفاعی محاذ پر مفید خدمات انجام دی ہیں، میں یہ بھی کہنے کے لیے تیار ہوں کہ موجودہ زمانے کے بہت سے ’’اسلامی نمائندوں‘‘ کے مقابلے میں وہ کہیں زیادہ اسلام کے مفاد کا احساس رکھتے ہیں۔ مگر اسی کے ساتھ میرا شدید احساس یہ ہے کہ انہوں نے اسلام کا جو تصور دینے کی کوشش کی ہے وہ صحیح نہیں ہے۔ انہوں نے بے شک بیرونی حملوں کے مقابلے میں اسلام کی مدافعت کرنے کی کوشش کی ہے۔ مگر اس سے بڑھ کر ان کے کام کا دوسرا پہلو یہ ہے کہ انہوں نے اسلام کی تشریح کی ہے، انہوں نے اسلام کی ایک تعبیر پیش کی ہے۔ اور اسی دوسرے معاملہ میں وہ غلطی کر گئے۔ ان کی تعبیر میں حقیقتِ دین شدت سے مجروح ہو گئی۔ اور یہی وہ پہلو ہے جس نے مجھے ان کے بارے میں زبان کھولنے پر مجبور کیا۔ اگر ان کا کام صرف مدافعت تک محدود ہوتا، اور دین کی ایک مخصوص تعبیر پیش کرنے کی کوشش انہوں نے نہ کی ہوتی۔ تو میں ہرگز یہ حماقت نہ کرتا کہ ان کے خلاف قلم اٹھاؤں۔

3۔      ’’آپ کے تجزیے میں صداقت تو معلوم ہوتی ہے۔ مگر یہ بھی سمجھ میں نہیں آتا کہ مولانا مودودی نے دین کی تشریح میں جو کچھ لکھا ہے۔ وہ سب غلط ہے‘‘ —ایک صاحب نے میری تحریر پڑھنے کے بعد کہا۔ یہ شبہ نہایت آسانی کے ساتھ رفع ہو سکتا ہے اگر ہم زیرِ بحث لٹریچر کی نوعیت کو سمجھ لیں۔ جیسا کہ میں پہلے بتا چکا ہوں۔ مولانا مودودی نے اجزائے دین میں سے کسی جزء پر کام نہیں کیا ہے۔ بلکہ انہوں نے پورے دین کی مجموعی تشریح کی ہے۔ انہوں نے دین کے بارے میں وہ کلّی تصور قائم کرنے کی کوشش کی ہے، جس کے تحت پورے دین کو اس کے سارے اجزاء سمیت سمجھا جا سکے۔ یہ ایک بہت بڑا کام ہے۔ مگر اسی کے ساتھ وہ نہایت نازک کام بھی ہے۔ کیوں کہ اس کی صحت و غلطی کا تعلق پورے دین کے بارے میں آدمی کے نقطۂ نظر سے ہے۔ اگر وہ صحیح ہو تو پورے دین کے بارے میں آدمی کا نقطۂ نظر صحیح ہو گا۔ اور اگر وہ غلط ہو تو پورے دین کے بارے میں اس کا نقطۂ نظر غلط ہو جائے گا۔

شاہ ولی اللہ اگر وضو کی حکمت بتانے میں غلطی کر جائیں تو اس سے ان کی کتاب کے بقیہ حصوں پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ لیکن مولانا مودودی نے جو کام اپنے ذمے لیا ہے، اس کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔ انہوں نے پورے دین کی حکمت بتانے کی کوشش کی ہے۔ اس لیے اگر وہ غلطی کریں تو اس کی وجہ سے ان کا پورا فلسفہ متاثر ہو جائے گا۔ اور سارا لٹریچر قابل اعتراض شکل اختیار کر لے گا۔ اجزائے دین کی حکمت بیان کرنے والوں کی غلطی مقامی نوعیت کی ہوتی ہے۔ وہ صرف اس مخصوص مسئلے سے متعلق ہوتی ہے، جس کے بارے میں غلطی کی گئی ہے۔ جب کہ کل دین کی حکمت بتانے والے کی غلطی اس کی پوری تقریر پر پھیل جاتی ہے، وہ اس کے پورے فکر کو غلط کر کے رکھ دیتی ہے۔

ایک تعمیر سامنے کھڑی ہو اور اس کے ایک حصے کے بارے میں آپ کہیں کہ ’’یہ کھڑکی ہے، تو یہ اس کے ایک جزء کی تشریح ہے۔ اگر آپ کھڑکی کو ’’دروازہ‘‘ کہہ دیں تو اگرچہ یہ غلطی ہو گی، مگر یہ غلطی صرف ایک خاص جزء تک محدود رہے گی۔ اس سے تعمیر کے بقیہ حصوں کے  بارے میں آپ کے نقطۂ نظر پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ یہ بالکل ممکن ہے کہ تعمیر کے دیگر حصوں کےبارے میں آپ نہایت صحیح رائے رکھتے ہوں۔ مگر ایک کھڑکی کی نوعیت سمجھنے میں آپ سے غلطی ہو گئی ہو۔ اس کے برعکس، جب سامنے کھڑی ہوئی تعمیر کے بارے میں آپ کہتے ہیں کہ یہ       ’’مکان‘‘ ہے تو آپ کا یہ بیان پوری عمارت کے بارے میں آپ کی تشریح کو ظاہر کرتا ہے۔ یہ لفظ بتاتا ہے کہ وہ مرکزی تصور کیا ہے، جس کے تحت آپ اس کے تمام اجزاء کو ایک مجموعہ کے ساتھ جوڑتے ہیں۔ اس کے برعکس، اگر آپ اس کے بارے میں کہیں کہ یہ ’’کارخانہ ہے‘‘ تو یہ پورے مجموعہ کی دوسری تشریح ہو گی۔ اب ایک اور ہی تصور کے تحت آپ اس کے مختلف اجزاء کو اپنے ذہن میں سمجھنے کی کوشش کریں گے۔ اس طرح عمارت کے صرف کسی ایک جزء کے بارے میں آپ کا تصور نہیں بدلے گا۔ بلکہ پوری تعمیر کے بارے میں آپ کا نقطۂ نظر کچھ سے کچھ ہو جائے گا۔

اب ظاہر ہے کہ ایک جزئی غلطی پر جس طرح محدود تنقید کی جاتی ہے، اسی کی توقع ایک ایسی غلطی کے بارے میں نہیں کرنی چاہیے جس نے پورے مجموعے کے بارے میں آدمی کا تصور بدل دیا ہو۔

4۔ ’’اس لمبی بحث کے باوجود ہماری سمجھ میں نہیں آیا کہ دونوں تعبیروں میں فرق کیا ہے‘‘ ——بعض لوگوں کی زبانوں سے آپ اس قسم کے الفاظ بھی سنیں گے۔ میں اس شبہےکو بالکل بے بنیاد نہیں سمجھتا۔ مگر کبھی ایسا ہوتا ہے کہ دو چیزیں باہم مشابہ ہونے کے باوجود حقیقت کے اعتبار سے بالکل مختلف ہوتی ہیں۔ ایک بچہ اپنی چار پہیوں کی گاڑی کو الٹ دے اور رسی باندھ کر اس کی پشت کی جانب سے گھسیٹنا شروع کر دے تو سرسری طور پر دیکھنے والے کے لیے گاڑی کی شکل میں کوئی خاص تبدیلی نہیں ہو گی۔ مگر یہ یقینی ہے کہ بچے کی اس حرکت سے گاڑی کی معنویت بالکل برباد ہو جائے گی۔

جو لوگ یہ شبہ ظاہر کرتے ہیں، وہ دونوں تعبیروں کا فرق ان کی ظاہری صورتوں میں ڈھونڈ رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا فرق انھیں دکھائی نہیں دیتا۔ کیوں کہ دونوںمیں جو فرق ہے، وہ حقیقتاً ان کی ظاہری صورت میں نہیں بلکہ ان کی معنوی ہیئت میں ہے۔ زیرِ بحث تعبیر کی غلطی یہ نہیں ہے کہ اس نے دین کی شکلوں کو بالقصد بدل دیا ہے۔ بلکہ اس نے ان شکلوں کی نوعیت سمجھنے میں غلطی کی ہے۔ گویا عمل نہیں بدلا بلکہ عمل کا فلسفہ بدل گیا۔ بقیہ خرابیاں جو اس کے اندر ہمیں نظر آتی ہیں، وہ بالقصد نہیں لائی گئیں بلکہ اسی غلطی کے نتیجے کے طور پر ظاہر ہوئی ہیں۔

اصل یہ ہے کہ ہرچیز کی ایک حقیقت ہوتی ہے۔ اور ایک اس کی ہیئت۔ اگر آپ کسی چیز کی اصل حقیقت کو پا لیں تواس سے متعلق تمام ظاہری اجزاء کو بھی ان کی صحیح ترین شکل میں سمجھ سکتے ہیں۔ اور اگر آپ حقیقت کو سمجھنے میں غلطی کر جائیں تو ہرچیز آپ کے ذہن میں مختلف صورت اختیار کر لے گی۔ مثلاً ہاتھی کا ایک مجسمہ کہیں کھڑا ہو تو اس کو ہاتھی سمجھنے کی صورت میں اس کا پورا ڈھانچہ آپ کے ذہن میں ہاتھی کے تصور کے ساتھ جڑ جائے گا۔ لیکن اگر اس کھڑے ہوئے ڈھانچے کو آپ پتھر کا تراشا ہوا مکان سمجھ لیں تو اس کے متعلق آپ کی تشریح بالکل بدل جائے گی۔ اب آپ اس کے پیروں کو ستون قرار دیں گے،اس کی پیٹھ آپ کو مکان کی چھت نظر آئے گی، اور سونڈ اور دم کے بارے میں آپ کہیں گے کہ یہ چھت سے لٹکا ہوا پرنالہ ہے، اس کے دونوں کانوں کو آپ روشن دان سمجھنے لگیں گے۔ اس طرح ہاتھی کا پورا ڈھانچہ آپ کے ذہن میں مکان کے ڈھانچہ کی حیثیت حاصل کر لے گا۔ اور جب ایسا ہو گا تو اس سے آپ کے تعلق کی نوعیت بھی ٹھیک اسی کے مطابق بننے لگے گی۔ اب ہاتھی کی شکل آپ کو سواری کا تصور نہیں دے گی بلکہ وہ آپ کے لیے ایک قیام گاہ ہو گی۔ جس پر سفر نہیں کیا جا سکتا بلکہ جس کے نیچے ٹھہر کر آرام کیا جاتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ کسی مسئلے کو آپ جس رخ سے دیکھتے ہیں اسی کے مطابق اس سے آپ کے سارے تعلقات قائم ہوتے ہیں۔ کمیونزم بھی اجتماعی معیشت کا حامی ہے۔ اور سرودیہ تحریک بھی۔ مگر ایک اپنے مقصد کی تشریح مادی اصطلاحوں میں کرتا ہے۔ اور دوسرا روحانی اصطلاحوں میں۔ اس فرق کا نتیجہ یہ ہے کہ ایک فکر سے متاثر ہونے والوں کا ذہن تمام تر سیاست پرمرکوز ہو جاتا ہے اور دوسری فکر سے متاثر ہونے والوں کا ذہن صرف انسان کی اخلاقی حس سے اپیل کرنے پر۔

اس تعبیر کی غلطی یہ ہے کہ اس نے بعض اسباب سے ، جن کی طرف ہم پہلے اشارہ کر چکے ہیں، اسلام کی تصویر کو صحیح شکل میں نہیں سمجھا، اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ پوری تصویر کی نوعیت اس کے ذہن میں بدل گئی۔ اور وہی ڈھانچہ جو ایک چیز کا ہاتھی ہونا بتا رہاتھا، وہی زاویۂ نگاہ کے فرق سے ایک مکان کی صورت میں نظر آنے لگا۔ ٹھیک اسی طرح جیسے زندگی کے تمام مظاہر ایک خدا پرست کی نظر میں خالق کی تخلیق دکھائی دیتے ہیں۔ مگر ڈارون کے مخصوص فکری سانچے میں وہ اس نظریے کی تصدیق بن گئے کہ نباتات اور حیوانات کا وجود کسی عمل تخلیق کی پیداوار نہیں بلکہ صرف عمل ارتقاء کی پیداوار ہے۔

یہاں میں ایک مثال دوں گا۔ اس تعبیر نے اسلامی تصورات کی جو انقلابی تشریح کی ہے، اس کی روشنی میں جب اس نے دیکھا تو اس کو نظر آیا کہ — ’’اسلام کا آخری مقصد‘‘ ہے         ’’مدنیت صالحہ اور حکومت الٰہیہ کو وجود میں لانا‘‘ ۔مقصد کی اس تشریح کا بالکل لازمی نتیجہ یہ ہواکہ نماز، روزہ وغیرہ تربیتی ضمیمے بن گئے جن سے اس مخصوص مہم کے لیے افراد ’’چھیل بنا کر تیار کیے جاتے ہیں‘‘ (اسلامی عبادات اور خطبات)۔ اور عقائد اس ’’صالح تمدنی و سیاسی نظام‘‘ کی       ’’فکری بنیادیں‘‘ قرار پائے۔ اس طرح وہ چیزیں جو اسلام میں براہ راست مطلوب تھیں وہ اس تعبیر کے خانے میں بالواسطہ حیثیت کے مقام پر چلی گئیں۔ جب اسلامی جدوجہد کا اصل مقصد دنیا میں ایک مخصوص نظام بنانا قرار دیا جائے تو اخروی حقیقتیں آپ کی زندگی میں یہ حیثیت نہیں کر سکتیں کہ وہ بذات خود مقصود ہوں۔ اس طرح کے نصب العین کے ساتھ وہ صرف تربیتی ضمیمے ہی کی حیثیت سے جگہ پا سکتی ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ بعد کی پالیسی میں اس قسم کے الفاظ لکھے ہوئے ملتے ہیں— ’’ہمیں اپنا دعوتی کام اس ڈھنگ پر انجام دینا ہو گا کہ دعوت اپنے حقیقی محرک کے ساتھ صحیح شکل میں مخاطب کے ذہن نشیں ہو جائے۔ یعنی نجات اخروی کو زندگی کے اصل مسئلے کی حیثیت سے پیش کیا جائے۔ اور نظام باطل کی بنیادوں پر تنقید کرتے ہوئے دعوت کے بنیادی نکات، توحید، آخرت اور رسالت کو دل و دماغ میں راسخ کیا جائے‘‘ (زندگی، اگست 1960)۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس جدید شرح نے سابق متن میں کوئی تبدیلی نہیں کی ہے۔ اس کا کارنامہ صرف یہ ہے کہ اصل بات کو باقی رکھتے ہوئے اس میں اس نے ’’محرک‘‘ کا لفظ بڑھا دیا ہے۔ اس کے نزدیک بھی اسلامی تحریک کااصل منشا یہی ہے کہ نجات دنیوی کاایک نظام کھڑا کیا جائے۔ البتہ نجات دنیوی کی اس جدوجہد کا محرک یہ ہوناچاہیے کہ اس سے نجات اخروی حاصل ہو گی!

چنانچہ اس اضافے کے باوجود سارا تقریری و تحریری کاروبار اسی طرح جاری ہے جیسے وہ پہلے تھا۔ حتیٰ کہ عین اس پالیسی کی تشکیل کے بعد (نومبر 1960ء میں) دارالسلطنت میں ملکی پیمانے پر ایک عظیم اجتماع منعقد کیا جاتا ہے۔ مگر اس سلسلے میں جو تعارفی اعلانات شائع ہوتے ہیں۔ اور وہاں جو تقریریں کی جاتی ہیں۔ ان میں سے کسی ایک سے بھی اس بات کا ثبوت نہیں ملتاکہ یہ کسی ایسی تحریک کا اجتماع ہے، جو ’’نجات اخروی‘‘ کو ’’اصل مسئلے‘‘ کی حیثیت سے لوگوں کے سامنے لانا چاہتی ہے۔ بلکہ ساری کارروائیوں میں اسلام کاتعارف اس حیثیت سے کرایا جاتا ہے کہ وہ بہتر شہری، بہتر سماج اور بہتر ریاست کو وجود میں لانے کا ذریعہ ہے۔

اس مثال میں آپ صاف طور پر دیکھ سکتے ہیں کہ دین کے نقشہ میں نماز، روزہ اور جنت، دوزخ سب کچھ موجود ہیں۔ مگر فکر کے فرق کی وجہ سے یہ چیزیں اپنے اصل مقام پر باقی نہیں رہیں  —خدا کا دین خود اپنے ہی ڈھانچہ میں اجنبی ہو کر رہ گیا۔

5 ۔    بعض طبیعتیں ایسی ہوں گی جو میری معروضات کو رد تو نہیں کریں گی مگر اس میں انھیں کافی ’’مبالغہ‘‘ معلوم ہو گا۔ ان کو یقین نہیں آئے گا کہ یہ انھیں کی تصویر ہے جواس قدر بھیانک شکل میں ان کے سامنے نظر آ رہی ہے۔ اگر ایسا ہو تو میں کہوں گا کہ آپ کی مثال اس شخص کی سی ہے جو تو دہ برف(Iceberg )کی سائنس سے بے خبر ہو۔ اس کے سامنے اگر سمندر کی گہرائی سے ایک ہزار فٹ اونچا برفانی تودہ نکال کر رکھ دیا جائے تو اس کو یقین نہ آئے گا کہ یہ برف کا پہاڑ وہی چیز ہے جو اس کی آنکھوں نے سطح آب پر صرف ایک سو فٹ اوپر ابھرا ہوادیکھا تھا۔

اس شبہ کی خاص وجہ یہ ہے کہ جب ایک شخص اس تعبیر کا لٹریچراوراس کے حاملین کی زندگیوں کو دیکھتا ہے، تو اس کو نظر آتا ہے کہ ان کے یہاں بظاہر وہ سب کچھ موجود ہے، جو قرآن و حدیث میں بتایا گیا ہے۔ پھر اس کی سمجھ میں نہیں آتا کہ اس تعبیر میں وہ کیا نقص ہے، جس کی وجہ سے اس کے اوپر اتنی شدید تنقید کی گئی ہے۔ مگر یہ ’’سب کچھ‘‘ جو آپ اس تعبیر کے ڈھانچے میں دیکھ رہے ہیں، وہ سب کا سب اس کا حقیقی حصہ نہیں ہے۔ اس کے بیشتر اجزاء وہ ہیں، جو کسی شعور کی بنا پر اختیار نہیں کیے گئے ہیں۔ بلکہ محض روایتی اثرات کے تحت بے روح طور پر اس کے مجموعے میں شامل ہو گئے ہیں۔

اصل میں انسان جو کچھ کرتا ہے، وہ سب وہی نہیں ہوتا جو جانے بوجھے تصور کے تحت عمل میں آتا ہو۔ بلکہ اس کا بڑا حصہ وہ ہے جو لاشعور میں دبے ہوئے محرکات کی بنا پر صادر ہوتا رہتا ہے۔ ہمارے شعوری علم میں چونکہ ہمارا اپنا کوئی مخصوص نظریہ ہوتا ہے، اس لیے ہم اپنی پوری زندگی کو اسی کی طرف منسوب کر دیتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ہم جو کچھ کر رہے ہیں، وہ سب اسی نظریے کی بنا پر کر رہے ہیں۔ حالانکہ اگر ہم اپنانفسیاتی تجزیہ کریں تو معلوم ہو گا کہ ہمارے اعمال و عقائد کاایک بڑا حصہ وہ ہے، جس کا ہمارے شعور اور فیصلے سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ محض ان اثرات کے تحت ہماری زندگی میں شامل ہو گئے ہیں، جو لاشعور میں چھپے ہوئے ہیں۔ لاشعور آپ کے وجود کا وہ بڑا حصہ ہے جو ذہنی سمندر میں ڈوبا ہوا ہے۔ اس کے بغیر محض شعوری تصورات کی روشنی میں اپنے آپ کو سمجھنے کی کوشش کرنا ویسی ہی ایک غلطی ہے، جیسے کوئی شخص سمندر میں تیرتے ہوئے تو دۂ برف (Iceberg) کی جسامت کا اندازہ محض ظاہری مشاہدہ کی بنا پر کرنے لگے۔

ایک مثال سے اس کی مزید وضاحت ہو جائے گی۔ سترھویں اور اٹھارھویں صدی کے درمیان یورپ میں جو بڑے بڑے مفکر اور سائنس داں پیدا ہوئے اگر آپ ان کامطالعہ کریں تو آپ دیکھیں گے کہ ان کی اکثریت کائنات کا ایک خدا مانتی ہے۔ ڈیکارٹ سے لے کر نیوٹن تک سب خدا کاوجود تسلیم کرتے تھے۔ حتیٰ کہ ڈارون کی مشہور کتاب اصل الانواع (Origin of Species) جو انیسویں صدی کے وسط میں شائع ہوئی، اور جو مذہبی حلقوں میں سب سے زیادہ بحث و تنقید کا موضوع رہی ہے اس میں بھی کئی بار خالق (Creator) کا ذکر ملتا ہے۔ اس نے اپنی یہ کتاب ان الفاظ پر ختم کی ہے— ’’زندگی کے اس ارتقائی نقطہ ٴنظر میں کتنی عظمت ہے کہ خالق نے ایک یا چند اشیاء میں ابتداء ً روح پھونکی اور اس کے بعد مختلف فطری طاقتوں کے عمل سے بے شمار انواع حیات وجود میں آ گئیں‘‘ ۔

(The Origin of Species, pp. 528-529)

لیکن انھیں علمائے سائنس کے نظریات کی بنیاد پر بعد کو جونسل اٹھی وہ خدا کی منکر یا کم ازکم متشکک (agnostic)تھی۔ اس کی وجہ کیا ہے۔ جب ہم اس پر غور کرتے ہیں تو ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ سائنسی نظریات نے بعد کوجو ذہن بنایا وہی ان نظریات کی اصل روح تھی۔ سائنسدانوں نے جس طرز پر کائنات کامطالعہ شروع کیا، اس کا مطلب یہی تھا کہ خدا کو الگ کر کے کائنات کی توجیہ کی جائے۔ دوسرے لفظوں میں یہ سائنسداں اپنی اصل حقیقت کے اعتبار سے بے خدا مفکر تھے۔ اگر ہم ان کے اقوال یا ان کی تحریروں میں خدا کا اقرار پاتے ہیں تو یہ کسی واضح شعور کی بنا پر نہیں تھا۔ جس مذہبی ماحول میں انہوں نے پرورش پائی تھی، عیسائیت کی جس طویل تاریخ کے درمیان وہ پیدا ہوئے تھے، اس کا فطری تقاضا تھا کہ اس طرح کے ضمیمے ان کے ساتھ لگے ہوئے ہوں ۔ ان کا حقیقی شعور تو خدا کے تصور کو خارج کر کے اسرار کائنات کی کھوج کرتا تھا، مگر لاشعور میں جو احساسات مرتسم ہو گئے تھے، اس کی بنا پر وہ زبان سے اس کا انکار بھی نہ کر سکتے تھے۔ خدا کا تصور ان کے اثاث البیت کا وہ جزء تھا جو گھر میں موجود تو ہوتا ہے مگر اکثر اوقات صاحب خانہ کو اس کی اطلاع بھی نہیں ہوتی۔ خدا ان کی زندگی کا حقیقی جزء نہیں تھا۔ بلکہ وہ محض ر وایتی جزء تھا۔ بعد کی نسلوں میں جب یہ تاریخی اثرات مدھم پڑ گئے تو کھلم کھلا انکار کرنے والے پیدا ہونے لگے، اور وہی علما جو خدا کو مانتے تھے، انھیں کی تحقیقات اس بات کے ثبوت میں پیش کی جانے لگیں کہ اس کائنات کا کوئی خدا نہیں ہے، وہ محض کچھ فطری قوانین کے تحت اپنے آپ چل رہی ہے۔ اب اگر کوئی شخص ان قدیم سائنسدانوں کی تحریروں سے اس قسم کے چند جملے نقل کر کے کہے کہ ان کا طرز فکر خدا پرستی کے خلاف نہیں ہے تو یہ بالکل سادہ لوحی کی بات ہو گی۔

ٹھیک یہی صورت مسلمانوں کے ساتھ بھی پیش آئے گی۔ اسلام چونکہ اپنی ایک مستند کتاب رکھتا ہے اور اس کی ہزار برس سے زیادہ لمبی تاریخ ہے، اس لیے جب بھی مسلمانوں میں کوئی تحریک اسلام کے نام پر اٹھے گی، خواہ وہ حقیقت کے اعتبار سے ناقص ہی کیوں نہ ہو، اس کے یہاں وہ ساری چیزیں درج فہرست ہوں گی، جو تاریخی طور پر اسلام کی طرف منسوب ہو چکی ہیں۔ اور لازماً اس کا جزء سمجھی جاتی ہیں۔ اس طرح جولوگ اس قسم کی کسی تحریک سے متاثر ہوں وہ جب تحریک میں آئیں گے تو اپنے ساتھ ان خیالات کو بھی لے کر آئیں گے، جو انہوں نے خاندان اور قوم کی طرف سے وراثتاً پائے ہیں، اور جو بچپن سے اب تک کے طویل عمل سے ان کے لاشعور میں اس طرح نقش ہو چکے ہیں کہ وہ نکالنا چاہیں، جب بھی انھیں اپنے اندر سے نکال نہیں سکتے۔ یہ معاملہ صرف ان خیالات کی حد تک نہیں ہو گا جو بظاہر ابھی تک ان کی زندگیوں میں شامل تھے۔ بلکہ یہی صورت ان خیالات کے ساتھ بھی پیش آئے گی، جو عملاً اگرچہ ان کی زندگیوں میں نظر نہیں آ رہے تھے، مگر وہ ان کے حافظہ کے خانے میں موجود تھے۔ وہ جب ایسی کسی تحریک سے متاثر ہوں گے، جواسلام کی تجدید کے لیے اٹھی ہو تو اس تاثر کے ساتھ ہی اسلام کے بارے میں ان کے وہ پچھلے تمام احساسات بھی ابھر آئیں گے جو اب تک لاشعور میں دبے ہوئے تھے، وہ اپنی تحریک کے مخصوص پروگرام کے ساتھ ساتھ اسلام کے ایسے اجزاء کو بھی خود بخود قبول کر لیں گے، جن کی طرف تحریک نے انھیں براہ راست توجہ نہیں دلائی تھی، مگر ان کا لاشعور اندر سے کہہ رہا تھا کہ یہ بھی مسلمان ہونے کے لیے ضروری ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مصر کا ایک ’’بے دین‘‘ نوجوان جب الاخوان المسلمون کی تحریک سے متاثر ہوتا ہے تو اسے داڑھی رکھنے کا خیال نہیں آتا اور نہ فوٹو سے پرہیز کرنا وہ ضروری سمجھتا ۔ اس کے برعکس، ہندوستان میں ٹھیک اسی قسم کی ایک تحریک سے یہاں کے ’’بے دینی‘‘ نوجوان متاثر ہو کر داڑھی بھی رکھ لیتے ہیں اور اپنی تصویر بھی خود ہی پھاڑ ڈالتے ہیں۔ مصر اور ہندوستان کا یہ فرق دراصل اس فرق کی وجہ سے ہے، جو دونوں ملکوں کے مروجہ اسلام میں پایا جاتا ہے۔

مگر جو چیز غیر شعوری جذبات کے تحت وجود میں آئے وہ آپ کی زندگی کا حقیقی جزء نہیں ہوتی۔ وہ آپ کے شعور کا حصہ نہیں بنتی۔ چنانچہ یہ صورت حال بھی صرف کاغذ پر یا ظاہری زندگی میں نظر آئے گی۔ آپ کا عمل ہر دیکھنے والے کو بتا دے گا کہ اسلام کا جو تصور آپ کو اپنی مخصوص تحریک سے ملا ہے، وہی آپ کا حقیقی اسلام ہے۔ اسلام کے بقیہ اجزاء جو آپ کے آس پاس نظر آتے ہیں وہ محض رسمی اور روایتی طور پر آپ کے ساتھ لگ گئے ہیں، وہ آپ کے شعوری اسلام کا حصہ نہیں ہیں۔ اس کو چند مثالوں سے سمجھیے۔

1۔     ایک جلسۂ عام کے موقع پر اپنی تحریک کا تعارف کرنے کے لیے آپ ’’خطبہ صدارت‘‘ تیار کرتے ہیں جس میں شروع میں بتایا جاتا ہے کہ ہماری دعوت کے تین نکات ہیں— خدا ، آخرت، رسالت۔ مگر اس کے بعد ’’دنیا میں جو کچھ بگاڑ پایا جاتا ہے اس کا حقیقی سبب ان بنیادی باتوں سے انحراف ہے‘‘ کے فقرے سے جو گریز شروع ہوتا ہے تو چالیس صفحات کا پورا خطبہ مسائل ملکی کی نذر ہو جاتا ہے اور کہیں بھی یہ بتانے کی نوبت نہیں آتی کہ مرنے کے بعد بھی تمہارا کوئی مسئلہ ہے جس سے تمہیں ڈرنا چاہیے۔ البتہ تقریر ختم ہونے لگتی ہے تو پھر روایتی ذہن مجبور کرتا ہے کہ اس قسم کا ایک فقرہ رکھ دیا جائے— ’’مومن کا اول و آخر مقصد محض رضائے الٰہی اور فوز آخرت ہے‘‘۔ آپ کے اس طویل لفظی مجموعے پر بے شک میں کوئی منطقی اعتراض نہیں کر سکتا۔ کیوں کہ اس میں دنیا اور آخرت کی تمام کامیابیوں کو اسلام کی طرف منسوب کر دیا گیا ہے۔ مگر پوری تقریر پڑھ کر ہر آدمی سمجھ سکتا ہے کہ داعی کس بات سے لوگوں کو ڈرانا چاہتا ہے۔ اور اس کے اوپر کیا چیز سوار ہے۔ لسانی جھگڑے اور معاشی قضیے اس کو نظر آتے ہیں یا وہ دیکھ رہا ہے کہ اسرافیل صور لیے کھڑے ہیں، اور اس بات کے منتظر ہیں کہ کس وقت حکم ہو اور پھونک مار کر دنیا کو تہ و بالا کر دیں۔

2۔      اسلام کا ایک ’’جلیل القدر داعی‘‘ اسلام کی تبلیغ میں ہزاروں صفحے سیاہ کر ڈالتا ہے۔ ہم دیکھتے ہیں کہ اس کے یہاں تنقید و تحقیق کی کثرت ہے۔ جوش خطابت بھی پایا جاتا ہے۔ الفاظ کا زور بھی کافی موجود ہے۔ مگر اس کی تحریریں دل کی گھلاوٹ کا ثبوت نہیں دیتیں، اس کے الفاظ میں اندرونی تپش کی آنچ محسوس نہیں ہوتی۔ اس کے اندر حقیقت کی وہ جھلکیاں نہیں ملتیں جو ایک محرم راز دیکھتا ہے اور دنیا کو دکھاتا ہے۔ اس کی سطروں کے درمیان کہیں یہ نظر نہیں آتا کہ آنسوؤں نے ٹپک کر لکھی ہوئی سیاہی کا رنگ بدل دیا ہو۔ وہ نمازاور روزے کے درجنوں فلسفے بیان کرتا ہے۔ مگر اس کو پڑھ کر صاف معلوم ہوتا ہے کہ اس نے نماز روزے کی شکل میں جو چیز پائی ہے وہ محض ایک قسم کا ظاہری عمل ہے، وہ نماز جو آدمی کو جذب کر لیتی ہے، جو خدا سے سرگوشی اور ملاقات بن جاتی ہے، وہ ابھی تک اسے ملی ہی نہیں۔ وہ تعلق باللہ اور آخرت جیسے عنوانات پر مضامین لکھتا ہے۔ مگر اس کے جملوں میں وہ بے قراری نظر نہیں آتی جو اس بات کاپتہ دے کہ وہ ان ہیجان خیز واقعات سے آشنا ہو کر بول رہا ہے۔ اگر اس کے بعض ادبی فقروں کو ہٹا دیجیے تو ایسا معلوم ہو گا کہ یہ دعوت و تزکیہ کا مضمون نہیں ہے، بلکہ فلسفہ شریعت کے موضوع پر کوئی خشک کتاب ہے، جس میں کچھ معلوم احکام کی روشنی میں اسلامی تعلیمات کی ایک ظاہری تشریح کر دی گئی ہے۔

3 ۔ ’’سب کچھ‘‘ درج فہرست ہونے کی بنیاد پر حقیقت کے بارے میں فیصلہ کرنا، سادہ لوحی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ کیوں کہ فہرست کا اندراج ہمیشہ حقیقی نہیں ہوتا۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ کسی مسلک کے بارے میں تاریخی طور پر جو باتیں منسوب ہو چکی ہیں، آدمی خود بھی شعوری یا غیرشعوری طور پر انھیں اپنی طرف منسوب کر لیتا ہے۔ حالانکہ وہ حقیقی طور پر اس کے مسلک کا جزء نہیں ہوتا۔ حتیٰ کہ بعض اوقات بالکل مختلف سمت میں جاتے ہوئے آدمی ایک چیز کو صرف اس لیے اپنی فہرست میں درج کر لیتا ہے کہ اس کو یہ تسکین حاصل رہے کہ وہ مختلف سمت میں نہیں جا رہا ہے۔ مثال کے طور پر ہندوستان کے خلاف چینی جارحیت کے مسئلہ پر جماعت اسلامی ہند نے 1962ء کے آخر میں ایک پوسٹر شائع کیا جس کا عنوان تھا— ’’آزادی کی حفاظت کیجیے‘‘۔ اس پوسٹر میں ’’مل جل کر اس چیلنج کا منھ توڑ جواب‘‘ دینے کے جو وجوہ بتائے گئے تھے ان میں ایک وجہ یہ بھی تھی کہ:

’’(چین) اللہ کے بندوں کو اپنا بندہ اور غلام بنانا چاہتا ہے‘‘ ۔

ظاہر ہے کہ اس فقرے کا چینی جارحیت کے خلاف مظاہرہ سے کوئی تعلق نہیں۔ کیوں کہ چین کے مجرم ہونے کی دلیل اگر یہی ہے تو جماعت اسلامی کے مبینہ نظریہ کے مطابق، ٹھیک یہی جرم وہ حکومت بھی کر رہی ہے۔جس کی حمایت میں یہ مظاہرہ کیا گیا ہے ۔ پھر ایک مجرم کا طرف دار بن کر دوسرے مجرم سے لڑنا کیا معنی — دراصل یہ فقرہ یہاں صرف اس تسکین کے لیے رکھا گیا ہے کہ یہ جو کچھ ہم کرنے جا رہے ہیں یہ عین ہمارے مقصد کا تقاضاہے، یہ اس سے الگ کوئی چیز نہیں ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ نفسیاتی اعتبار سے اصل اہمیت اس کی نہیں ہے کہ آدمی نے اپنی فہرست میں کیا کیا چیزیں درج کر رکھی ہیں ۔ بلکہ اصل اہمیت یہ ہے کہ وہ کس چیز کو اہمیت دیتا ہے ۔ کیوں کہ فہرست میں اندراج کے تو بہت سے اسباب ہوتے ہیں مگر آدمی کی اپنی توجہ کبھی غلطی نہیں کرتی ۔ وہ فوراً بتا دیتی ہے کہ آدمی کی اصل شخصیت کیا ہے ۔ اور وہ کون سا نقطۂ نظر ہے جس کو اس نے واقعی طور پر اپنایا ہے ۔

        آپ ایسے بے شمارمسلمان دیکھیں گے جو اپنے کو مکمل طور پر مذہبی سمجھتے ہیں۔ آپ کبھی انھیں قائل نہیں کر سکتے کہ ان کا اسلام ناقص اسلام ہے ۔ مگر عملی زندگی میں جب ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کے معاملات تو ہر وقت ان کی توجہ کا مرکز بنے رہتے ہیں، اس میں ذرا سا گڑ بڑ ہو تو وہ انتہائی حد تک بے چین ہوجاتے ہیں۔ مگر اسلام اور آخرت سے متعلق چیزوں میں بس واجبی فرائض پر قناعت کیے ہوئے ہیں۔ ان کا اسلام اس سے آگے انھیں کوئی بے چینی عطا نہیں کرتا۔ اس وقت معلوم ہوجاتا ہے کہ ان کا اسلام ناقص ہے، ان کا اصل مذہب دنیا پرستی ہے، نہ کہ آخرت پسندی ۔

یہی چیز ہم کو اس تعبیر میں نظر آتی ہے ۔ بظاہر دیکھیے تو اس میں انقلاب عالم سے لے کر انقلاب نفس تک سب کچھ لکھا ہواملے گا۔ مگر جب ہم دیکھتے ہیں کہ انقلاب عالم کے مسئلہ پر پورا زور صرف ہو رہا ہے، اور انقلاب نفس کا مسئلہ صرف واجبی فرائض کی حد تک قابل توجہ بنا ہے تو اس وقت معلوم ہوجاتاہے کہ اس مکمل فہرست کی حقیقت کیا ہے ۔ اس سلسلے میں چند مثالیں لیجیے۔

1۔ ایک شخص جب ’’ اسلامی انقلاب ‘‘ کے عنوان پر بولتا ہے تو نہایت آسانی سے اس کی سمجھ میں آجاتا ہے کہ اس کام کی انجام دہی کے لیے محض قانونی تعمیل کافی نہیں۔ وہ کہتا ہے کہ ’’آپ کے اوپر خدا کے جو حقوق ہیں ان کی کم سے کم حد تو خدا اور رسول نے مقرر کر دی ہے مگر زیادہ سے زیادہ کی کوئی حدمقرر نہیں کی ہے ‘‘۔  آپ کو چاہیے کہ آگے بڑھنے کی اسپرٹ کے ساتھ اس کام میں حصہ لیں۔ یہ ایک عظیم مقصد ہے جس کے لیے آپ کو ’’فرض اور مطالبے سے زائد‘‘ کام کرنا ہے ۔ آپ کو چاہیے کہ ’’ خدا کے کام کو اپنے ذاتی کاموں پر ترجیح دیں‘‘، اور ’’ مالی اور جسمانی قربانی کا جذبہ اپنے اندر پید اکریں‘‘ ۔ وہ کہتا ہے کہ ’’اس کام کوتکمیل تک پہنچانے کے یے اپنے ان سب مشاغل اور دلچسپیوں کو ختم کر دیجیے جن کے اندر آپ کے وقت اور فکر کا کوئی حصہ اس کام سے ہٹ کر صرف ہوتا ہو، اور ناگزیرِ معاشی ضروریات کے سوا اپنے وقت کا ایک ایک لمحہ اس کام کے لیے وقف کر دیجیے  ‘‘۔

لیکن اگلے روز جب ایک شخص اصلاح نفس کے لیے سادہ زندگی کی ضرورت پر زور دیتا ہے وہ اس گزارش کو ’’نمائش فقر کا مطالبہ ‘‘ قرار دیتا ہے ، اور کہتا ہے :

’’میں تم کویقین دلاتا ہوں کہ صحابہ کرام اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اپنی زندگی میں مصنوعی درویشی پیدا کرنے کی کوشش نہیں فرمائی اور نہ محض اس غرض سے اپنے لباس، مکان اور خوراک کا معیار کمتر رکھا کہ دیکھنے والے ان کی فقیرانہ شان دیکھ کر داد دیں۔ وہ سب بالکل ایک فطری ، سادہ اور معتدل زندگی بسر کرتے تھے، اور جس اصول کے پابندتھے۔وہ صرف یہ تھا کہ شریعت کے ممنوعات سے پرہیز کریں۔ مباحات کے دائرے میں زندگی کو محدود رکھیں ۔ رزقِ حلال حاصل کریں۔ اور راہ ِ خدا کی جدوجہد میں بہر حال ثابت قدم رہیں۔ خواہ اس میں فقر و فاقہ پیش آئے یا اللہ کسی وقت اپنی نعمتوں سے نوازدے۔ جان بوجھ کر برا پہننا جب کہ اچھا پہننے کو جائز طریق سے مل سکے ۔ اور جان بوجھ کر برا کھانا جب اچھی غذا حلال طریقے سے بہم پہنچ سکے، ان کا مسلک نہ تھا۔ ان میں جن بزرگوں کو راہ خدا میں جدوجہد کرنے کے ساتھ ساتھ حلال روزی فراخی کے ساتھ مل جاتی تھی ، وہ اچھا کھاتے بھی تھے۔اچھا پہنتے بھی تھے، اور پختہ مکانوں میں رہتے بھی تھے۔ خوش حال آدمیوں کا قصداًبد حال بن کر رہنا نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی پسند نہیں فرمایا۔بلکہ آپ نے خود ان کو یہ بتایا کہ اللہ تعالیٰ اپنی نعمت کا اثر تمہارے لباس اور کھانے اور سواری میں دیکھنا پسند فرماتا ہے ‘‘۔

دیکھیے’’ جہاد اصغر‘‘ میں اپنا پورا حصہ ادا کرنے کے لیے جس چیز کی ضرورت اتنی شدت سے محسوس ہوئی تھی اس کی ضرورت ’’جہاد اکبر‘‘(۱)کے وقت یاد نہ رہی ۔ راہ خدا کی وہ جدوجہد جو سیاست کے میدان میں ہوتی ہے اس میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے یہ ضروری معلوم ہوا تھا کہ آدمی ممنوعات و مباحات کے قانونی دائرے سے نکل کر قربانی کی روش اختیار کرے ۔ مگر راہ خدا کی وہ جدوجہد جو نفس کے میدان میں ہوتی ہے وہاں صرف ممنوعات سے پرہیز کافی نظر آیا۔ اصلاحِ زمین کی مہم میں جو چیز اتنی ضروری تھی وہ اصلاحِ ذات کی مہم میں غیر ضروری ہو گئی ۔ پہلی صورت میں نا گزیر معاشی ضرورتوں کے سوا کچھ اور ملنے کی امید نظر نہیں آتی تھی۔ مگر دوسری صورت میں دنیا کی خوش حالی بھی پوری فراخی کے ساتھ حاصل ہو گئی ۔حتی کہ اس نقطہ ٴنظر کو صحیح ثابت کرنے کے لیے بالکل غلط طور پر آپ نے خدا کے رسول کو بھی اپنے ساتھ گھسیٹ لیا۔ حالانکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ رسول خدا نے ’’ جان بوجھ کر ‘‘ اپنے لیے سادہ اور خشک زندگی کو پسند فرمایا تھا۔یہ حقیقت اتنی واضح ہے کہ اس پر دلیل پیش کرنے کی بھی کوئی ضرورت نہیں۔تاہم ایک مختصر سا حوالہ ذیل میں نقل کرتا ہوں:

کان صلی اللہ علیہ وسلم  أَزْهَدَ ‌النَّاسِ ‌فِي ‌الدُّنْيَا ‌مَعَ ‌الْقُدْرَةِ عَلَيْهَا (تفسير ابن كثير، جلد5، صفحہ 327)۔ یعنی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم قدرت رکھنے کے باوجود تمام لوگوں میں سب سے زیادہ دنیا کی چیزوں سے پرہیز کرنے والے تھے۔

(۱) ایک غزوہ سے فارغ ہو کر جب آپ مدینہ واپس پہنچے تو آپ نے اپنے اصحاب سے فرمایا :  قَدِمنا مِنَ الْجِهَادِ الأَصْغَرِ إِلَى الْجِهَادِ الأَكْبَرِ (دیکھیے، الزھد الکبیر للبیہقی، حدیث نمبر 373)۔ یعنی، ہم چھوٹے جہاد کے بعد اب بڑے جہاد کی طرف واپس آئے ہیں۔

2۔ مکی زندگی میں صحابہ کرام کو جن بے پناہ مشکلوں اور مصیبتوں کا سامنا کرنا پڑا، اس کا فلسفہ بیان کرتے ہوئے ایک شخص کہتا ہے کہ ’’ ان کا آنا ضروری تھا‘‘۔    کیوں کہ اس کے بغیر مقصد سے وہ تعلق پیدا نہیں ہو سکتا تھا جو ایک سچے مومن کے اندر ہونا چاہیے ۔ اسلام کے لیے تکلیفیں سہنے ہی کا یہ نتیجہ تھاکہ ان میں وہ صحیح اسلامی ذہنیت پیدا ہوئی جس کی ضرورت تھی ۔ ان کے اندر خالص اسلامی کیرکٹر پیدا ہوا۔ ان کی خدا پرستی میں خلوص آتا اور بڑھتا چلا گیا۔ مصائب کی اس زبردست تربیت گاہ میں کیفیت ِ اسلامی کا طاری ہونا ایک طبعی امر تھا۔ جب کوئی شخص کسی مقصد کے لیے اٹھتا ہے ، اور اس کی راہ میں کش مکش، جدو جہد ،مصیبت ، تکلیف ، پریشانی ، مار، قید ، فاقہ ، جلاوطنی ، وغیرہ ، کے مرحلوں سے گزرتا ہے تو اس ذاتی تجربہ کی بدولت اس مقصد کی تمام کیفیات اس کے قلب و روح پر چھا جاتی ہیں۔ اور اس کی پوری شخصیت اس مقصد میں تبدیل ہو جاتی ہے ‘‘۔

مگر انھیں بزرگ سے جب یہ کہا جائے کہ دنیا کی زندگی میں مومن کو آرام نہیں ڈھونڈنا چاہیے ۔ کیوں کہ اس سے آخرت کا احساس کمزور پڑجاتا ہے ۔ تو وہ فرمائیں گے:

’’شاید تم یہ سمجھتے ہو کہ خدا کی نعمتیں (۱) صرف ان لوگوں کے لیے ہیں جو خدا کا کام کرنے کے بجائے اپنا کام کرتے رہیں۔رہے خدا کا کام کرنے والے تو وہ خدا کی کسی نعمت کے مستحق ہیں ، یا پھر تمہارے دماغ پر راہبوں اور سنیاسیوں کی زندگی کا سکہ بیٹھا ہوا ہے ۔ اور تم دینداری کے ساتھ رہبانیت کو لازم و ملزوم سمجھتے ہو اس لیے کھاتا پیتا دیندار تم کو ایک عجوبہ نظر آتا ہے ‘‘۔

دیکھیے، یہ بات کہ کسی چیز کی تڑپ کسی ایسے ہی شخص کے دل میں جگہ پا سکتی ہے جس نے اس کے لیے تکلیفیں سہی ہوں۔ یہ سیاسی اور انقلابی پہلو سے تو آپ کو سمجھ میں آگئی۔ مگر یہی بات اس پہلو سے آپ کی سمجھ میں نہیں آئی کہ آخرت کی تڑپ سے وہی دل آشنا ہو سکتا ہے، جس نے آخرت کے لیے دنیا کی لذتوں کو قربان کیا ہو۔ انقلابی فکر کو اپنے اوپر طاری کرنے کے لیے ضروری تھا کہ انقلاب کے لیے سختیاں برداشت کی جائیں۔ مگر طلب آخرت کو اپنے اوپر طاری کرنے کے لیے اس کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی کہ آخرت کی خاطر آدمی ایسے مرحلوں سے گزرے جب کہ اس کے لیے اس نے مشقتیں اٹھائی ہوں ۔ دنیوی مقصود کے متعلق جو چیز اتنی اہم تھی ، اخروی مقصود کے سلسلے میں وہی چیز آپ کے لیے مضحکہ کاموضوع بن کر رہ گئی ۔

3۔ ایک شخص کی سیاسی قوت شامہ تو اتنی تیز ہے کہ وہ ’’ غیر الٰہی نظام حکومت‘‘ کے تحت کوئی بھی ملازمت حاصل کرنے کو    ’’حرام ‘‘ قرار دیتا ہے ، اور یہاں تک فتویٰ دیتا ہے کہ      ’’غیر الٰہی نظام اطاعت کے ایک جزء اور دوسرے جزء میں کوئی فرق نہیں۔ اس کے جواجزاء بظاہر معصوم نظر آتے ہیں، وہ بھی اسی قد ر ناپاک ہیں جس قدر دوسرے غیر معصوم اجزاء‘‘۔

مگر دنیوی ساز و سامان برتنے کے بارے میں وہ اپنی حسیات کا حسب ذیل مظاہرہ کرتا ہے:

’’میرے نزدیک ہر وہ جائز سہولت جو آدمی کو دین کا کام بہتر اور زیادہ مقدار میں انجام دینے کے قابل بنائے۔ نہ صرف جائز ہے، بلکہ اس سے فائدہ اٹھاناافضل ہے ۔ آپ خود غور کریں کہ ایک شخص اگر سیکنڈ کلاس میں آرام سے سفر کر کے دوسرے دن اپنی منزل مقصود پر پہنچتے ہی اپنا کام شروع کر سکتا ہو تو وہ کیوں تھرڈ کلاس میں رات بھر کی بے آرامی مول لے۔ اور دوسرا دن کام میں صرف کرنے کے بجائے تھکان دور کرنے میں صرف کرے۔ اگر وہ گرمی میں بجلی کا پنکھا استعمال کر کے زیادہ دماغی کام کر سکتا ہو تو وہ کیوں پسینے میں شرابور ہو کر اپنی قوت کار کا بڑا حصہ ضائع کر دے۔ کیا ان سہولتوں کو وہ اس لیے چھوڑ دے کہ خدا کی یہ نعمتیں صرف شیطان کا کام کرنے والوں کے لیے ہیں۔ خدا کا کام کرنے والوں کے لیے نہیں‘‘۔

دیکھیے، وہی شخص جس کو مخالف سیاسی نظام میں سہولتیں حاصل کرنا اس قدر شدت سے کھٹک رہا تھا، دنیا کے اندر سہولتیں ڈھونڈنے کے سلسلے میں اس کی حس کند ہو گئی ۔ حالانکہ غیر اسلامی نظام حکومت میں ملازمت اگر باطل سیاست کے ساتھ تعاون ہے ، تو دنیا کی سہولتوں سے فائدہ اٹھانا اپنے نفس کے ساتھ تعاون ہے ۔ وہ دلیل دیتا ہے کہ یہ سہولتیں آدمی کو اس قابل بناتی ہیں کہ وہ دین کا کام زیادہ مقدار میں اور زیادہ بہتر طور پر کر سکے۔ حالانکہ خدا کے دین کا کام بہتر اور زیادہ مقدار میں انجام دینے کے لیے جس چیز کی ضرورت ہے وہ دل کی تڑپ ہے۔ اور دل کی تڑپ اسی وقت رخصت ہونے لگتی ہے، جب اس کو سہولتوں کے غلاف میں لپیٹ دیا جائے۔

واضح ہو کہ سہولت اور ضرورت میں فرق ہے ۔ ضرورت دینی کے لیے تو ہر چیز استعمال کی جا سکتی ہے اور اس وقت وہی چیز افضل ہوگی۔ مگر سہولت جسمانی کے لیے کوئی چیز افضل نہیں۔  اگرچہ شرعاً ایسی تمام چیزوں کا استعمال بالکل جائز ہے ۔ یہاں میں امام غزالی کا ایک اقتباس نقل کروں گا:

اِعْلَمْ أَ نَّهُ لَا وُصُولَ إِلَى اللَّهِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى إِلَّا بِالتَّنَزُّهِ عَنِ الشَّهَوَاتِ وَالْكَفِّ عَنِ اللَّذَّاتِ وَالِاقْتِصَارِ عَلَى الضَّرُورَاتِ فِيهَا وَالتَّجَرُّدِ لِلَّهِ سُبْحَانَهُ فِي جَمِيعِ الْحَرَكَاتِ وَالسَّكَنَاتِ (احياء علوم الدين، جلد1، صفحہ 265)۔یعنی، جاننا چاہیے کہ وصول الی اللہ اس کے بغیر حاصل نہیں ہو سکتا کہ آدمی شہوات و لذات سے کنارہ کش ہوجائے اور اس میں صرف ضروریات پر قناعت کرے اور اپنی تمام حرکات و سکنات کا رخ اللہ کی طرف پھیر دے۔

دنیا کی نعمتیں بے شک جائز ہیں ۔ مگر ان سے بے دریغ فائدہ اٹھانااپنے آپ کوا س خطرے میں ڈالنا ہے کہ آدمی کے نازک احساسات مردہ ہوجائیں۔ اور آخرت طلبی کی اعلیٰ کیفیات سے خالی ہو کر وہ محض اسلامی علوم پر کام کرے، مگر اس کا یہ کام صرف ایک ذہنی موضوع ہو، جس طرح بہت سے مستشرق کسی قلبی وابستگی کے بغیر بیرونی موضوعات پرا پنا زور قلم صرف کرتے رہتے ہیں۔

دین کی خدمت کرنے کے لیے وہ آدمی درکار ہے جس کو فرسٹ کلاس کے گدے پر بھی نیند نہ آئے۔ ہوائی جہاز کا سفر اس کی بے آرامی میں اضافہ کر دے ۔ جن چیزوں کے درمیان عام لوگوں کو چین ملتا ہے ۔ ان چیزوں کے درمیان اپنے آپ کو پا کر اس کا چین رخصت ہوجائے۔

اس طرح کی کتنی ہی مثالیں ہیں جو ہمارے گرد و پیش بکھری ہوئی ہیں۔ اگر آدمی نظر رکھتا ہو تو وہ دیکھے گا پانے والوں نے کیا پایا ہے، اور وہ کیا چیز ہے جس سے وہ ابھی تک محروم ہیں۔ ان صریح واقعات کے باوجود اگر آپ یقین دلائیں کہ میں نے دین میں کوئی کمی بیشی نہیں کی ہے ۔ میں تو اس کو اعلیٰ ترین شکل میں پورا کا پورا قائم کرنا چاہتا ہوں تو میرے نزدیک اس یقین دہانی کی کوئی اہمیت نہیں۔ ایک مسلمان جوحدیثِ رسول ’’‌مَنْ ‌قَالَ ‌لَا ‌إِلَهَ ‌إِلَّا ‌اللَّهُ ‌دَخَلَ الجَنَّةَ‘‘ (سنن الترمذي،حدیث نمبر 2638)کا مطلب یہ سمجھ لے کہ کلمہ گو کے لیے جنت لازمی ہے۔ یعنی، جس نے لا الہ الا اللہ کہا، وہ جنت میں داخل ہوگا۔ ضروری نہیں کہ وہ اسلام کے احکام کا انکار کرے ۔ مگر یہ یقینی ہے کہ اس کے ذہن میں ان احکام پر عمل کی بنیاد کمزور پڑ جائیگی۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom

Ask, Learn, Grow

Your spiritual companion