گفتگو اور خط و کتابت
افراد جماعت سے عام تبادلۂ خیال
جماعت اسلامی سے پندرہ سال متعلق رہنے کے بعد 1962ء کے آخر میں میں نے اس سے استعفیٰ دے دیا۔ 15 اکتوبر 1962ء کو میں نے اپنا استعفیٰ روانہ کیا تھا جو چھ مہینے بعد قَیِّم جماعت کے خط مورخہ 25 اپریل 1963ء کے مطابق منظور کر لیا گیا۔ یہ علاحدگی اچانک عمل میں نہیں آئی بلکہ اس کے پیچھے کشمکش کی ایک لمبی تاریخ ہے۔ جہاں تک ان فکری اسباب کا تعلق ہے جو مجھ کو اس انتہائی فیصلے تک لے گئے ان کا مطالعہ آپ اگلے صفحات میں کریں گے، یہاںمیں گفتگو اور خط و کتابت کی وہ روداد مختصر طور پر درج کرنا چاہتا ہوں جو اس فیصلہ سے پہلے تقریباً چار سال تک جاری رہی تاکہ آپ اصل واقعہ کے پورے پس منظر کو سمجھ سکیں۔
میں تقسیم ہند کے بعد نومبر 1947ء میں جماعت اسلامی کی تحریک سے متاثر ہوا اور تقریباً دس سال تک یکسوئی کے ساتھ اس سے مل کر کام کرتا رہا۔ یہ وقت تھا جب کہ اس کے بہت سے دیگر افراد کی طرح میں یہ سمجھتا تھا کہ مجھ کو آخری صداقت کا علم ہو گیا ہے۔ اس زمانے میں میں زیادہ تر جماعت کے عملی کاموں میں مشغول رہا، اور جماعت کے مخصوص لٹریچر کے علاوہ دیگر چیزوں کے مطالعے کی طرف بہت کم توجہ د ے سکا۔ اس کے بعد ایک ایسا وقت آیا جب بعض اسباب نے مجھے یکسوئی کے ساتھ مطالعے کے مواقع فراہم کر دیے۔ خاص طور پر دو سال کابیشتر وقت میں نے قرآن کو پڑھنے اور اس کے مطالب پر غور و فکر کرنے پر صرف کیا، اس وقت پہلی بار میں نے محسوس کیا کہ اس فکر پر میرا یقین متزلزل ہو رہاہے، قرآن کے مطالعے کے دوران میں شدت سے مجھ پر یہ احساس طاری ہوا کہ قرآن میرے اس تصور دین کی تصدیق نہیں کررہا ہے، جس کو میں اب تک اسلام کا صحیح ترین تصور سمجھ رہا تھا۔
خوش قسمتی سے اس زمانے میں جماعت اسلامی کے شعبۂ تصنیف و تالیف سے متعلق ہونے کی وجہ سے میں جماعت کے مرکزی دفتر (رام پور) میں مقیم تھا، اور اسی کے ساتھ چوں کہ میں اس کی مرکزی مجلس شوریٰ کا رکن تھا، اس لیے جماعت کے انتہائی منتخب افراد سے ملنے جلنے کے مواقع بھی مجھے حاصل تھے، چنانچہ میں نے اپنی ذہنی کشمکش کے سلسلے میں تحریک کے اوپر کے افراد اور مرکزی شخصیتوں سے تبادلۂ خیال شروع کیا، مگر طویل مدّت کے غور و فکر اور بحث و گفتگو کے بعد بالآخر میں اس نتیجے پر پہنچا ہوںکہ اس فکر کی طرف سے زبانی یا تحریری طور پر اب تک جتنے بھی دلائل دیے گئے ہیں ان میں سے کوئی ایک بھی—کم از کم میرے علم و فہم کی حد تک— ان سوالات کو رفع نہیں کرتا جس نے مجھے موجودہ حالت تک پہنچایا ہے۔
پہلا مرحلہ
یہ باتیں کیوں میرے لیے غیر تسلی بخش ثابت ہوئیں، اس کا اندازہ آپ بآسانی کر سکیں گے اگر میں ان میں سے بعض کا یہاں مختصر ذکر کر دوں۔
1۔ اس سلسلے میں میری گفتگو کا آغاز 1959ء میں ایک مرکزی شخصیت سے ہوا جو جماعت میں اوپر کے محدود ترین افراد میں سے ایک سمجھے جاتے ہیں، ان سے عرصہ دراز تک باتیں ہوتی رہیں مگر وہ کوئی فیصلہ کن بات مجھے نہ بتا سکے، انھیں خود بھی بہت سے معاملات میں جماعت سے شکایت تھی مگر میری فکری الجھن کو دور کرنے میں انہوں نے میری کوئی خاص رہنمائی نہیں کی، ایک بار میں ’’اظہار دین‘‘ والی آیت کے بارے میں ان سے گفتگو کر رہا تھا۔ میں نے کہا کہ آپ لوگ اس سے رسول کا اور رسول کی تبعیت میں امت مسلمہ کا نصب العین اخذ کرتے ہیں۔ اگر فی الواقع اس آیت میں وہ مخصوص مشن بتایا گیا ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ نے سلسلۂ وحی و رسالت جاری کیا تھا تو یہ الفاظ قرآن میں صرف آخری رسول کا مشن بتانے کے لیے کیوں ملتے ہیں۔ دیگر انبیاء کے مقصد بعثت کو ظاہر کرنے کے لیے بھی قرآن میں اس قسم کے الفاظ کیوں نہیں ہیں۔ انہوں نے جواب .دیا— ’’ممکن ہے آخری رسول کے بعد مقصد رسالت بدل کر اظہار دین کر دیا گیا ہو‘‘ اوکماقال ۔
2۔ایک اور بزرگ جو جماعت میں انتہائی چوٹی کی حیثیت رکھتے ہیں، ان سے باربار گفتگو ہوئی مگر وہ ہمیشہ مجھ کو یہی سمجھاتے رہے کہ تم جو کچھ سوچ رہے ہو اس میں اور جماعت کی فکر میں کوئی خاص فرق نہیں ہے، دونوں تقریباً ایک ہی ہیں۔ یہ گفتگوئیں جون 1960ء سے لے کر ستمبر 1961ء تک رامپور، دہلی اور اعظم گڑھ میں ہوئیں حتیٰ کہ جولائی 1960ء میں جب مجلس شوریٰ نے مجھے رسالہ زندگی کی ادارت کے لیے نامزد کیا، اور میں نے صرف اس بنیاد پر اس کو قبول کرنے سے معذوری ظاہرکی کہ جماعت کی فکر سے مختلف فکر رکھتے ہوئے میں اپنے لیے اس کو صحیح نہیں سمجھتا تھا کہ جماعت کے آرگن میں اڈیٹر کی ذمہ داری قبول کر لوں۔ اس وقت بھی موصوف نے مجھ کو یہی باور کرانے کی کوشش کی کہ یہ محض تمہارا شدت احساس ہے کہ تم کو اپنے خیالات جماعت کی فکر سے مختلف نظر آتے ہیں، حالانکہ دونوں میں کوئی فرق نہیں۔ ان کا مشورہ تھا کہ میں اس وہم کو اپنے اندر سے نکال دوں اور ’’زندگی‘‘ کی ادارت قبول کر لوں۔
اس قسم کے اور بھی بعض افراد ہیں جنہوں نے مجھ کو یہ باورکرانے کی کوشش کی کہ یہ محض لفظی فرق ہے، ورنہ حقیقتاً دونوں باتوں میں کوئی فرق نہیں۔
دوسرا مرحلہ
3۔یہ گفتگوئیں اس وقت کی ہیں جب کہ میری تحریر ’’تعبیر کی غلطی‘‘ ابھی وجود میں نہیں آئی تھی۔ اس کے بعد میں نے اپنے خیالات کو قلم بند کر لیا اور تحریری صورت میں لوگوں کے سامنے اسے رکھنا شروع کیا، خیال تھا کہ اس طرح زیادہ بہتر تبصرے مل سکیں گے۔ مگر اب بھی مجھے کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں ہوئی، جماعت اسلامی کے ایک چوٹی کے بزرگ کو جب پہلی بار میں نے اپنی تحریر دی تو انہوں نے یہ کہہ کر اسے واپس کر دیا کہ میں نے اسے ’’غور‘‘ سے پڑھ لیا ہے، مگرتبصرہ بعد کو دوبارہ پڑھنے کے بعد کروں گا۔ میں نے اصرار کیا تو یہ مختصر جملہ ارشاد فرمایا :
’’مقاصد سے بڑی حد تک اتفاق،
مباحث سے بڑی حد تک اختلاف‘‘
یہ21 اکتوبر 1961ء کی بات ہے۔ دوسری گفتگو اس کے ڈیڑھ مہینے بعد 12 دسمبر کو ہوئی اور اس کے چھ مہینے بعد ان کے خیالات مزید تفصیل کے ساتھ میرے سامنے آئے، مگر بعد کے اظہار خیال میں انہوں نے صرف اپنے ’’اختلاف‘‘ ہی کی تفصیلات پیش کیں، ان کا ’’اتفاق‘‘ میرے سامنے نہیں آیا۔
یہاں میں اپنے اس احساس کا اظہار کروں گا کہ جماعت کے حلقہ میں اب تک میں جن لوگوں سے واقف ہوا ہوں ان میں صاحب موصوف پہلے شخص ہیں جن کو میں دین سے واقفیت کے معاملہ میں سب سے زیادہ اہمیت دیتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ اگر وہ جماعت کے عام رکن کی حیثیت میں ہوتے تو یقیناً ان کا تبصرہ کچھ اور ہوتا۔ مگر یہ قدرتی بات ہے کہ ایک سرکاری افسر کسی واقعہ کے بارے میں جو کچھ کہے گا اس میں شعوری یا غیر شعوری طور پر اس کی منصبی حیثیت غالب آ جائے گی اور حقیقت سے مطابقت کی رعایت بہت کم ہو گی۔
4۔ایک بزرگ جو عالم بھی ہیں اور مجلس شوریٰ کے رکن بھی۔ انہوں نے تحریر دیکھنے کے بعد کہا کہ اس سے پہلے آپ سے جو مختصر باتیں ہوئی تھیں، ان سے میں نے یہ سمجھا تھا کہ آپ کو یہ اعتراض ہے کہ مولانا مودودی نے دین کی تشریح میں غلو کیا ہے، اور اس معنی میں مجھے آپ سے اتفاق تھا۔ مگر اب آپ کی تحریر دیکھنے کے بعد معلوم ہوا کہ آپ کا اعتراض یہ ہے کہ انہوں نے دین کی تعبیر ہی غلط کی ہے۔ اب مجھے آپ سے سخت اختلاف ہے۔ انہوں نے کہا کہ تفصیلی گفتگو بعد کو ہو گی۔ مگر بار بار کی ملاقات میں یاددہانی کے باوجود تفصیلی گفتگو کی نوبت نہیں آئی اور نہ ایسا ہوا کہ میرے کسی پوائنٹ کو لے کر وہ اسے رد کرتے۔ اس سلسلے میں ان سے آخری ملاقات 17 اکتوبر 1962ء کو اعظم گڑھ میں ہوئی۔ جب انہوں نے دوبارہ تفصیلی طور پر میری تحریر کا مطالعہ کیا۔ مگر مطالعہ کے بعد جب میں نے تبصرہ پوچھا تو وہ خاموش رہے، صرف یہ جملہ ارشاد فرمایا:
’’مجھے آپ کے نقطۂ نظر سے اختلاف ہے‘‘
5۔ایک بزرگ جو جماعت اسلامی کے تحریری محاذ پر کام کر رہے ہیں، انہوں نے میری تحریری یادداشت پڑھ کر اس کے بارے میں خود بھی تحریری رائے دی۔ یہ پوری تحریر بعینہٖ حسب ذیل ہے :
برادر محترم السلام علیکم و رحمۃ اللہ
میں نے آپ کا مقالہ پڑھا۔ اس کو ختم کرنے کے بعد میرے دل سے دو دعائیں نکلیں ایک اپنے لیے اور ایک آپ کے حق میں۔ اے اللہ میرے معبود اگر میں نے تیرے بھیجے ہوئے دین کو صحیح طور پر نہیں سمجھا ہے، تو مجھے اس کا صحیح فہم عطا فرما اور میدان حشر میں مجھے ان لوگوں میں نہ اٹھا جنہوں نے تیرے دین میں ذرہ برابر بھی تحریف کی ہو یا کسی تحریف کی تائید کی ہو بلکہ اپنے ان نیک بندوں کے زمرے میں اٹھا جو اس دین پر جئے اور مرے جسے تیرے حبیب سیدنا محمد صلے اللہ علیہ وسلم نے پیش کیا ہے۔
اے اللہ تمام جہان کے معبود برحق اگر تیرے بندے وحید الدین کا ذہن، دین کا صحیح فہم پا لینے کے بعد غلط تعبیر کی طرف جا رہا ہے تو پھر اسے صحیح فہم تک واپس لا، اور انھیں میدان حشر میں ان لوگوں میں نہ اٹھا، جنہوں نے تیرے دین کو غلط سمجھ کر اسے محدود کر دیا۔ اور یہ سمجھ ہی نہ سکے کہ دنیا میں تو نے انسان کو کس چیز کا خلیفہ بنایا ہے۔
اس دعا کے بعد میں نے پھر آپ کے مقالے پر غور کیا، لیکن اپنے تھوڑے سے علم و فہم کو بحیثیت مجموعی اس مقالے کے خلاف ہی پایا، آپ نے جو کچھ پیش کیا ہے، ظاہر ہے کہ اس کا جواب چند لفظوں میں نہیں دیا جا سکتا ، اس کے لیے کم سے کم اتنے ہی صفحات کی ضرورت پڑے گی، جتنے آپ نے صرف کیے ہیں اور پھر جواب فضول بھی ہے، اس لیے کہ ہر جواب کو آپ یہی سمجھیں گے کہ یہ دوسروں کے ذہن سے سوچا ہوا ہے۔
آخر میں چند باتیں نصح و خیر خواہی کے جذبے سے لکھ رہا ہوں، آپ اسی روشنی میں غور کریں:
1۔آپ مولانا مودودی اور پوری جماعت اسلامی کی طرف سے شدید سوءِ ظن میں مبتلا ہیں اور یہ سوء ِظن جو آپ کے دماغ میں بند تھا، اب اسے آپ نے کاغذ پر انڈیل دیا ہے۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کو کہیں اس کی جواب دہی نہیں کرنی ہے۔ آپ کے بہت سے اعتراضات اور بہت سی سوء ظنی محض آپ کے دماغی مفروضات کا نتیجہ ہیں، جس کی کوئی حقیقت نہیں۔
2۔ آپ نے اظہار خیال کے لیے جو انداز اختیار کیا ہے، وہ انتہائی جارحانہ ہے، جیسے کوئی جماعت کا شدید مخالف اظہار خیال کرے اور اس معاملے میں آپ نے مولانا امین احسن کو بھی اپنے پیچھے چھوڑ دیا ہے، حد یہ ہے کہ آپ نے تحریف دین تک کا الزام عائد کر دیا ہے۔
3۔میرا مشورہ ہے کہ آپ یہ جارحانہ انداز بدل دیں ورنہ اس تحریر کا حشر وہی ہو گا، جو مولانا امین احسن کی تحریروں کا ہوا۔
4۔ایک بزرگ جو مجلس نمائندگان کے رکن بھی ہیں، انہوں نے یہ تحریر پڑھنے کے بعد اس پر کافی دیر تک اظہار خیال کیا۔ جس کا حصہ یہ ہے کہ :
’’مجھے اس سے زیادہ اختلاف نہیں، مگر پورا اطمینان بھی نہیں۔ اصل میں اس طرح کے مسائل پر میں نے زیادہ غور و فکر نہیں کیا۔ اس لیے اس کی بابت کوئی قطعی رائے قائم کرنا مشکل ہے‘‘ ۔
’’نتائج‘‘ والے باب سے انہوں نے پورا اتفاق کیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر نظریات کے بارے میں میرا تجزیہ صحیح ہے، تو لازماً یہی نتائج برآمد ہوں گے ویسے جماعت کے اندر عملاً یہ تمام نتائج ظاہر ہو چکے ہیں، مگر دوسرے لوگ اس کے دوسرے اسباب بتاتے ہیں۔
یہ گفتگو 28 ا کتوبر 61 ء کو ہوئی تھی، اس کے تین مہینے بعد 6 فروری 62ء کو پھر ان سے ملاقات ہوئی تو معلوم ہوا کہ اب ان میں کافی تبدیلی آ چکی ہے۔ انہوں نے فرمایا ’’میں شرح صدر کے ساتھ اس کو غلط سمجھتا ہوں‘‘۔ مگر پوچھنے کے باوجود اس شرح صدر کی کوئی تفصیل نہیں بیان کی، پانچ مہینے کے بعد 5 جولائی کو ان سے تیسری گفتگو ہوئی۔ انہوں نے کہا ’’میں اس پوزیشن میں نہیں ہوں کہ اس پر کوئی تحقیقی تبصرہ کر سکوں، مگر میرا خیال اس کو پڑھنے کے بعد بھی یہی ہے کہ مولانا مودودی کی تشریح بالکل صحیح ہے، ان کی تحریروں میں کوئی پیراگراف ایسا ہو سکتا ہے جس سے مجھے اختلاف ہو، مگر بنیادی طور پر میں ان کی تشریح کو صحیح اور آپ کی تشریح کو غلط سمجھا ہوں‘‘ ۔
اس کے سوا انہوں نے کوئی دلیل بیان نہیں کی اور نہ میرے کسی اعتراض کا تجزیہ کر کے بتایا کہ وہ کیوں میری بات کو غلط سمجھتے ہیں۔ جب میں نے بار بار دلیل کے لیے اصرار کیا تو جھنجھلا کر فرمایا’’:آپ مجھے جاہل سمجھ لیجیے۔‘‘
7۔بعض ایسے لوگ ملے جنہوں نے میری تحریر دیکھنے کے بعد اپنے اُس یقین کا تو بڑی شدت سے اظہار کیا کہ ’’مولانا مودودی نے دین کی جو تشریح کی ہے وہ بالکل صحیح ہے‘‘ اور یہ کہ ’’تمہاری تحریر میں مغالطوں اور پھسپھسے دلائل کے سوا اور کچھ نہیں‘‘۔ مگر شدید اصرار کے باوجود ان میں سے کسی نے یہ زحمت نہیں گوارا فرمائی کہ میرے دلائل کا تجزیہ کر کے بتائیں کہ وہ کس طرح دلیل نہیں بلکہ محض مغالطہ ہیں۔
انہوں نے میرے کسی ایک اعتراض کو علمی طور پر رد نہیں کیا۔ اور اپنے دعوے کی کوئی ایک دلیل بھی نہیں دی، مگر اس کے باوجود اپنی بات کو اس طرح دہراتے رہے گویا ان کا برسر حق ہونا اور میرا برسر باطل ہونا اتنا واضح ہے کہ اس کے لیے کسی دلیل اور ثبوت کی ضرورت نہیں۔ آپ تعجب نہ کریں اگر میں کہوں کہ یہ معمولی ارکان نہیں تھے، بلکہ وہ لوگ تھے جو جماعت کے علما میں شمار ہوتے ہیں اور ذمہ دارانہ مناصب پر فائز ہیں۔
8۔بعض ایسے بھی خدا کے بندے ملے جنہوں نے کہا کہ اس کے بارے میں ہم کچھ نہیں کہہ سکتے بلکہ توقف کرتے ہیں۔ انہوں نے کہاکہ جماعت کے وہ لوگ جو براہ راست دین کا علم رکھتے ہیں،انھیں چاہیے کہ اس پر غور کر کے اس کا جواب دیں۔ اس قسم کے ایک بزرگ سے میں نے پوچھا ’’جماعت کے خلاف اب تک جو مضامین نکلتے رہے ہیں کیا میری تحریر کو آپ اسی قسم کی ایک چیز سمجھتے ہیں۔‘‘ انہوں نے جواب دیا ’’جماعت کی مخالفت میں جو کچھ لکھا گیا ہے وہ سب میں باقاعدگی سے دیکھتا رہا ہوں، مگر آپ کی تحریر میں اور اس میں کوئی نسبت نہیں۔‘‘ میری تحریر ان کے نزدیک غور طلب تھی، جب کہ دوسری تحریروں کے متعلق ان کا خیال تھا کہ وہ اس قابل بھی نہیں ہیں کہ ان پر غور کیا جائے۔
9۔ اب تک جماعت کے جن لوگوں سے میری ملاقات ہوئی بلااستثناء میں نے محسوس کیا کہ کسی کے پاس میری باتوں کا کوئی جواب نہیں ہے، مگر کوئی بھی اپنے بارے میں اس اعتراف کے لیے تیار نہیں ہوا، البتہ ایک صاحب اس سے مستثنیٰ ہیں، ان کے تبصرے کی روداد جو میری ڈائری میں درج ہے، وہ حسب ذیل ہے :
میں نے آپ کے مضمون کو کئی بار نہایت غور سے پڑھا ، بلکہ اس کا ’’مطالعہ‘‘ کیا، مگر میں اعتراف کرتا ہوں کہ میں اس سے صرف استفادہ کر سکتا ہوں، اس پر تبصرہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہوں، انہوں نے کہا کہ نتائج اور شبہات والے ابواب سے مجھے تقریباً سو فیصد اتفاق ہے، مگر اس کے جو نظریاتی اسباب آپ نے بتائے ہیں ان سے اپنے آپ کو متفق نہ کر سکا،میں جماعت اسلامی کے موجودہ نصب العین کو درست سمجھتا ہوں، مگر اس وقت میرے پاس اس کے لیے کوئی دلیل نہیں ہے، ویسے آپ کی تحریر کے جواب میں میرے دوسرے ساتھی جس قسم کی باتیں کہہ رہے ہیں اس طرح کی باتیں میں بھی کر سکتا ہوں، مگر میرے نزدیک وہ محض الل ٹپ باتیں ہیں، وہ آپ کےاعتراضات کا جواب نہیں ہیں، میں نہیں سمجھتا کہ اس قسم کی باتوں سے آپ کے مضمون کی تردید ہو جائے گی‘‘۔
اس طرح کے چند آدمی اور ملے جنہوں نے میرے خیالات اور میرے تجزیے سے مکمل یا بڑی حد تک اتفاق کیا۔
10۔ ایک بزرگ جو مجلس شوریٰ کے رکن بھی ہیں، ان کو دو ملاقاتوں کے موقع پر میں نے اپنی تحریر مطالعہ کے لیے دی، انہوں نے تحریر تو پڑھ لی، مگر اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔ میں نے بار بار اصرار کیا مگر انہوں نے نفیاً یا اثباتاً کچھ بھی نہیں بتایا۔ البتہ آخری ملاقات میں ایک موقع پر ایسا ہوا کہ ایک گفتگو میں میری زبان سے نکلا’’:یہ بہت بڑی صداقت ہے یا بہت بڑا فریب‘‘۔ انہوں نے جواب دیا:ایسا بھی تو ہو سکتا ہے کہ چھوٹی سی صداقت یا بہت بڑا فریب ہو۔‘‘
11۔ ایک بزرگ نے فرمایا :’’ آپ نے اپنی تحریر میں ہمارے استدلالات کو غلط ثابت کیا ہے لیکن اگرکوئی دلیل غلط ثابت ہو جائے تو اس سے لازمی طور پر مدلول کا غلط ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ میں نے کہا بے شک آپ صحیح کہتے ہیں، لیکن موجودہ دلائل کی غلطی تسلیم کرنے کے باوجود اگر آپ اصل دعوے کو صحیح سمجھ رہے ہیں تو ایسا سمجھنے میں آپ اسی وقت حق بجانب ہو سکتے ہیں جب کہ اس کے لیے آپ کے پاس دوسری کوئی دلیل موجود ہو، اگر ایسا نہ ہو تو آخر کس بنیاد پر آپ اس کو صحیح سمجھتے رہیں گے۔
مگر انہوں نے کوئی دلیل نہیں دی، صرف مزید غور و فکر کا وعدہ کیا، انہوں نے مزید کہا کہ جس طرح آپ نے تمام باتوں کا تجزیہ کیا ہے اس طرح غور کر کے توہم لوگ تحریک میں آئے نہیں، بس ایک اسلامی جذبہ تھا، مولانا مودودی نے کچھ ابھارنے والی باتیں کہیں جن سے اس جذبے کو تحریک ہوئی اور ہم لوگ اس میں شریک ہو گئے۔
12۔ ایک بزرگ نے کہاکہ جہاں تک سابقہ فکر پر تنقید اور آیتوں کی تشریح کا تعلق ہے ، آپ کی باتیں دل کو لگتی ہیں، آپ جو مطلوب اصلی بتاتے ہیں، وہ بھی صحیح معلوم ہوتا ہے، خواہ عملاً ہم اسے حاصل نہ کر سکے ہوں، مگر پوری مثبت شکل پر جب غور کرتے ہیں تو یہ اندیشہ ہوتا ہے کہ انقلاب اور اصلاح عالم کی بات اس میں کہیں مدھم نہ پڑ جائے، انہوں نے کہاکہ جماعت کے علما کو تیار ہو کر اس کا مکمل جواب دینا چاہیے۔
مگر یہی بزرگ جنہوں نے ایک صحبت میں یہ باتیں کہی تھیں اور جو مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن کی حیثیت سے شوریٰ کے اس فیصلہ میں شریک تھے کہ جماعت کے ایک عالم کو چار مہینے کا وقت دے کر متعین کیا جائے کہ وہ اس تحریر کا مفصل جواب تیار کرے۔ وہی بزرگ اس وقت بدل گئے جب اس کے متعلق انھوں نے مولانا مودودی کا خط دیکھا۔جون 1962 کی 26 تاریخ تھی اور عصر بعد کا وقت، مسجد میں میں نے مولانا مودودی کا خط(مورخہ 15 جون 62ء) پڑھنے کے لیے دیا، اس کو دیکھنے کے بعد انہوں نے جو جواب دیا وہ یہ تھا—’’مولانا مودودی نے بالکل صحیح لکھا ہے، ساری باتیں پہلے لکھی جا چکی ہیں۔ اب مزیدجواب دینے کی کوئی ضرورت نہیں۔‘‘
یہ جواب سن کر میں کانپ اٹھا، میں نے سوچا کہ جب تقلید اور شخصیت پرستی کا یہ حال ہے تو کوئی بات سمجھ میں آئے تو کس طرح آئے۔
13 ۔ ایک صاحب جو جماعت اسلامی کے ایک شعبہ کے ذمہ دار اعلیٰ اور مرکزی مجلس شوریٰ کے رکن ہیں، انہوں نے کہا’’:اسپرٹ سے اتفاق Tone سے اختلاف‘‘۔ ان سے ایک گھنٹہ تک گفتگو ہوتی رہی مگر ان کا اتفاق یا اختلاف کچھ میری سمجھ میں نہیں آیا، وہ تسلیم کرتے ہیں کہ میری تعبیر اور مولانا مودودی کی تعبیر میں فرق ہے، مگر دونوں کو صحیح بھی کہتے ہیں۔
اس کے چھ مہینے کے بعد جب اس کے متعلق دوبارہ ان سے گفتگو ہوئی تو انہوں نے کہا ’’ابوالکلام صاحب، مودودی صاحب اور آپ تینوں ایک مشترک غلطی میں مبتلا ہیں۔ وہ یہ کہ کچھ وقتی خرابیوں کا احساس کر کے انھیں دور کرنے کی کوشش کی، مگر اصلاح حال کی کوشش غیر شعوری طور پر تعبیر دین کی کوشش بن گئی۔ جو چیز صرف عملی اصلاح سے متعلق تھی اس کو نظریاتی تشریح کی حیثیت دے دی گئی، نتیجہ یہ ہوا کہ افراط و تفریط پیدا ہو گئی، توازن باقی نہ رہا۔‘‘
14۔ ایک بزرگ نے فرمایا کہ ’’نتائج‘‘ والے باب سے مجھے بالکل اتفاق ہے۔ مگر اس کی جو نظریاتی توجیہ کی گئی ہے اس میں عدم توازن نظر آتا ہے۔ میں نے کہا ’’آپ کچھ مثالوں سے اس عدم توازن کو واضح کیجیے۔‘‘ مگر وہ کوئی مثال نہ دے سکے۔ انہوں نے کہا ’’یہ تحریر ایسی نہیں جس کو ہش کر کے ٹال دیا جائے، اس کو بار بار بہت غور سے پڑھنے کی ضرورت ہے۔ پھر اس پر باقاعدہ تبصرہ کیا جا سکتا ہے۔‘‘ انہوں نے کہا کہ اس کو پڑھ کر مجھ پر اتنا اثر ہوا کہ ذہن برابر اس کے متعلق سوچ رہا ہے، رات تو مجھے دیر تک نیند نہیں آئی۔
15۔ ایک بزرگ جو عالم دین تو نہیں ہیں مگر اپنی دیگر خصوصیات کی بنا پر جماعت میں نمایاں مقام رکھتے ہیں اور مسلسل مجلس شوریٰ کے رکن منتخب ہوتے رہے ہیں۔ انہوں نے کہا ’’آپ کی تحریر بہت ہی زیادہ جھنجھوڑنے والی ہے، اس کے اندر بہت سی صداقتیں نظر آتی ہیں۔ مگر جہاں تک اس کے علمی اور تفسیری حصے کا تعلق ہے، اس پر میں رائے دینے کی حیثیت میں نہیں ہوں، علما ہی اس پر اظہار خیال کر سکتے ہیں‘‘ ۔
انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ پہلے آپ کے ذہن میں نتائج آئے اور ان کی توجیہ ڈھونڈتے ہوئے آپ ان خیالات تک پہنچے یا پہلے آیات کا وہ مفہوم سامنے آیا جو آپ نے لکھا ہے، میں نے کہا نتائج تو بالکل بعد کی چیز ہیں، اصل میں نظریات ہی سے غور و فکر کا آغاز ہوا، اورتحریر مکمل کرنے کے بعد اس کے ساتھ نتائج بھی شامل کر دیے گئے۔
16۔ ایک اور بزرگ نے فرمایا کہ اس تحریرمیں بہت سی آیتیں اور حدیثیں جمع کی گئی ہیں اس سے بظاہر یہ شبہ ہوتا ہے گویا یہ بہت مدلل ہے، مگر کوئی بھی شخص جو عربی جانتا ہو وہ کسی بھی عنوان کے تحت اس طرح کے حوالے جمع کر سکتا ہے، مگر کچھ آیتیں اور کچھ حدیثیں جمع کر دینے کا یہ مطلب نہیں کہ اس کا دعویٰ بھی ثابت ہو گیا۔
میں نے ان سے پوچھا کہ اچھا بتائیے، کسی بات کو پیش کرنے کا وہ کون سا طریقہ ہے جس سے وہ بات مدلل طور پر ثابت ہو جاتی ہے یہی یا کوئی اور۔ انہوں نے جواب دیا۔ اس کا طریقہ بھی یہی ہے کہ متعلقہ نصوص سے اس کو ثابت کیا جائے۔ میں نے کہا جب میری تحریر اپنی شکل کے اعتبار سے ویسی ہی ہے جیسے کوئی واقعی معنوں میں مدلل تحریر ہوتی ہے تو آپ کو کیسے معلوم ہوا کہ یہ اس سے محض صوری طور پر مشابہت رکھتی ہے، وہ حقیقی طور پر اس سے مشابہ نہیں ہے۔ اس کے جواب میں انھیں چاہیے تھا کہ میری تحریر کے کسی حصہ کو لیتے اور اس کا تجزیہ کر کے بتاتے کہ دیکھو یہ بات جو تم نے کہی ہے، وہ بظاہر دلیل کے ساتھ معلوم ہوتی ہے، مگر حقیقتاً وہ بالکل بے بنیاد ہے۔ مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ البتہ وہ اپنے اس بے دلیل اصرار پر قائم رہے کہ تمہارا دعویٰ دلائل سے ثابت نہیں ہوتا۔
17۔ ایک صاحب سے گفتگو ہوئی۔ میں نے بتایا کہ جماعت اسلامی کی تعبیر دین کو میں کیوں غلط سمجھتا ہوں، بعض آیات جن سے اس تعبیر کے حق میں استدلال کیا جاتا ہے، ان کا تجزیہ کر کے بتایا کہ ان آیتوں سے وہ مفہوم نہیں نکلتا ۔
انہوں نے میرے اعتراضات کا کوئی جواب نہیں دیا، اس کے بجائے یہ بحث چھیڑ دی کہ ’’حق پانے کی پہچان کیا ہے‘‘۔ میں نے کہا— آدمی کی عقل اور اس کا قلب دونوں مطمئن ہو جائیں کہ حق یہی ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہ خارجی معلومات اس کی تصدیق کرتی ہوں اور اندرونی احساس اس کو قبول کر رہا ہو۔ انہوں نے کہا نہیں عقل تو بہت دھوکا دینے والی چیز ہے ، وہ طرح طرح سے آدمی کو گمراہ کرتی ہے، اصل چیز قلب ہے، قلب اگر مطمئن ہو جائے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آدمی کو حق مل گیا ہے۔ میں نے کہا یہ کوئی اصول نہیں۔ علم و شریعت دونوں اس کو ماننے سے انکار کریں گے۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ ایک نقطہ ٴنظر جس کو آپ نے پسند کر لیا ہے، اس کے خلاف قرآن و حدیث کے ایسے حقائق آپ کے سامنے رکھے جائیں جس کا آپ کے پاس کوئی جواب نہ ہو، مگر اس کے باوجود آپ اپنی فکر پر بدستور قائم رہیں، اور یہ کہیں کہ میرا قلب مطمئن ہے۔ حالانکہ جس طرح عقل دھوکا کھاتی ہے اسی طرح قلب بھی آدمی کو اکثر دھوکے میں مبتلا کر دیتا ہے۔ وہ آخر وقت تک اصرار کرتے رہے کہ اصل چیز قلب ہے، اگر قلب مطمئن ہو تو یہ اس اطمینان کے لیے کافی ہے کہ آدمی حق پر ہے۔
تیسرا مرحلہ
یہ اپنے خیالات کے سلسلے میں جماعت کے اوپر کے افراد سے میری انفرادی گفتگوؤں کی مختصر روداد ہے جو پورے دو سال تک جاری رہی۔ اس کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ اس قسم کی گفتگوؤں سے کوئی بات بننے والی نہیں ہے۔ اب میں نے طے کیا کہ اس سلسلے میں جماعت کا آخری اور انتہائی جواب معلوم کروں۔ چنانچہ میں نے اپنی تحریرکی ایک نقل امیر جماعت اسلامی ہند مولانا ابواللیث صاحب کو اپنے خط مورخہ یکم اپریل 1962ء کے ساتھ روانہ کر دی۔ خط کا مضمون حسب ذیل تھا۔
’’اس خط کے ساتھ اپنی تحریر کی ایک نقل روانہ کر رہا ہوں، یہ تحریر آپ کے پاس روانہ کرنے کی غرض یہ ہے کہ جماعت اسلامی کے ذمہ دار اعلیٰ کی حیثیت سے میں آپ کے سامنے اپنے وہ خیالات رکھ دوں جنہوں نے مجھ کو جماعت کے بارے میں شدید بے اطمینانی میں مبتلا کر دیا ہے میں ان امورکے سلسلے میں آپ کا واضح جواب معلوم کرنا چاہتا ہوں، تاکہ جماعت سے اپنے تعلق کے بارے میں کوئی آخری رائے قائم کر سکوں۔
آپ کے اس جواب کی نوعیت کیا ہو۔ اس کے بارے میں میری کوئی تجویز نہیں ہے۔ آپ خود سے کوئی جواب دیں۔ یا مجلس شوریٰ یا جماعت کے علما سے مشورہ کر کے مجھے آگاہ فرمائیں۔ بہرحال آپ کی طرف سے جو جواب مجھے ملے گا ۔ میں اس کو جماعت کا جواب سمجھوں گا۔ اور اس کی روشنی میں یہ فیصلہ کروں گا کہ اب مجھے اپنے بارے میں کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے۔‘‘
اس کے دو ہفتہ بعد دہلی میں مجلس شوریٰ کا سالانہ اجلاس شروع ہوا۔ اس موقع پر امیر جماعت نے ارکان شوریٰ کو میری تحریر دیکھنے کے لیے دی۔ اور پھر 19 اپریل کو دن کی دو نشستوں میں کئی گھنٹے اس پر غور کیا گیا۔ چوں کہ مجھے ان نشستوں سے اٹھا دیا گیا تھا، اس لیے مجھے نہیں معلوم کہ اس میںکیا کیا باتیں ہوئیں۔ البتہ آخر میں امیر جماعت نے مجھے اجلاس میں بلاکر بتایا کہ ہم سب لوگوں کو متفقہ طور پر یہ خیال ہے کہ آپ کی تحریر پر پوری سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ مگر اس کا جواب جلدی میں نہیں دیا جا سکتا اس میں کافی وقت لگے گا۔ چنانچہ مولانا صدر الدین صاحب کو اس کے لیے متعین کیاگیا ہے کہ وہ اس کا مفصل جواب تیار کریں۔ بعد کو اس کے لیے چار مہینے کی مدت مقرر ہوئی اور یہ طے ہوا کہ مولانا صدر الدین صاحب اپنا تحریری جواب تیار کر کے اگست کے آخر تک ضرور بھیج دیں۔
اس کے علاوہ امیر جماعت اور شوریٰ کے ارکان نے یہ بھی خواہش ظاہر کی کہ تحریر کی ایک ایک نقل مولانا ابوالاعلیٰ مودودی اور مولانا جلیل احسن ندوی کی خدمت میں بھی روانہ کی جائے اور اس کے متعلق ان لوگوں کی رائیں معلوم کی جائیں، مولانا مودودی کی اہمیت اس لحاظ سے ہے کہ جماعت اسلامی جس فکر کی بنیاد پر اٹھی ہے، اس فکر کے پیدا کرنے والے دراصل وہی ہیں اور مولانا جلیل احسن ندوی کی اہمیت اس اعتبار سے ہے کہ وہ جماعت کے حلقہ میں اس حیثیت سے ایک نمایاں شخص ہیں کہ انہوں نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ قرآن کے مطالعہ میں صرف کیا ہے۔ اور آج بھی قرآن کے استاد کی حیثیت سے ان کے بہترین اوقات کا مصرف یہی کتاب ہے، اس لیے اس سلسلے میں ان کی رائے بہت اہمیت رکھتی ہے۔ اب میں تینوں صاحبان کی روداد الگ الگ بیان کروں گا۔
