ایک شبہ
بنی اسماعیل کے سلسلے میں یہ جو رویہ اختیار کیا گیا کہ تبلیغ کا کام مکمل طور پر کر لینے کے بعد نبی نے ان سے براءت کی اور بالآخر یہ اعلان کر دیا گیا کہ ان میں سے جو ایمان نہیں لائے گا وہ قتل کر دیا جائے گا، اس کو غیر مسلم مورخین عام طور پر اسلام کی جبری تبلیغ قرار دیتے ہیں۔ انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا (1958ء) میں ان آیات کا حوالہ دیتے ہوئے جہاد (Jihad) کے عنوان کے تحت جو الفاظ درج ہیں، ان کا ترجمہ یہ ہے:
’’یہ ایک مذہبی فریضہ ہےجوقرآن میں(9:29, 8:39-42, 2:216-217) محمد کے پیروؤں پر عائد کیا گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان لوگوں سے جنگ کی جائے جو اسلام کے اصولوں (Doctrines) کو قبول نہیں کرتے‘‘۔
اس قسم کے خیالات عرصہ سے اسلام کے خلاف ظاہر کیے جاتے رہے ہیں۔ خاص طور پر عیسائی علما نے اس کو بہت نمایاں کر کے پیش کیا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ آخری رسول نے اہل مکہ کے ساتھ جو لڑائیاں کیں اور اس کے بارے میں جو اعلان فرمایا، اس کا مطالعہ یہ لوگ زیرِ بحث تعبیر کے حاملین کی طرح، اشاعتِ اسلام کے عنوان کے تحت کرتے ہیں، جب کہ درحقیقت یہ اشاعت اسلام کی جدوجہد نہیں بلکہ منکرین رسالت کے اوپر اس خدائی فیصلہ کا ظہور تھا جس کو قرآن میں ’’ أَمْرُ اللهِ ، حکم اللّٰہ ، وَعْدَ اللهِ ‘‘ وغیرہ الفاظ میں بیان کیا گیا ہے اور جو ’’احقاق حق‘‘ اور ’’ابطال باطل‘‘ کے لیے ہوتا ہے یہ اپنی اصل نوعیت کے اعتبار سے، اسلام کے اصولوں کو منوانے کی کوشش نہیں تھی، بلکہ حقیقتاً اسلام کے اصولوں کو نہ ماننے کی سزاتھی جو زمین و آسمان کے مالک کی طرف سے ایک مخصوص شکل میں ان کے اوپر نافذ کی گئی تھی۔ یہ سزا ہر اس انسان کو لازماً ملنے والی ہے جو خدا کی ہدایت کو ماننے سے انکار کر دے۔ فرق صرف یہ ہے کہ عام انسانوں کو قیامت میں ملے گی اور رسول کے براہ راست مخاطبین کو دنیا میں بھی ملتی ہے اور آخرت میں بھی:وَلَنُذِيقَنَّهُمْ مِنَ الْعَذابِ الْأَدْنى دُونَ الْعَذابِ الْأَكْبَرِ لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ (32:21)۔
یہ صحیح ہے کہ اس فیصلۂ الٰہی کے نفاذ سے، منجملہ اور فائدوں کے، اسلام کو تبلیغی اور توسیعی فائدے بھی حاصل ہوئے ۔ مگر یہ اس کے دیگر نتائج تھے۔ جس طرح ہرواقعہ کے بہت سے دیگر نتائج و اثرات ہوتے ہیں۔ جہاں تک حکم کی اصولی نوعیت کا تعلق ہے، وہ وہی تھی جو اوپر مذکور ہوئی۔ نوعیت کا یہ پہلو سامنے نہ رکھا جائے تو اس کے بارے میں شدید غلط فہمی پیدا ہو جانا یقینی ہے۔
كُنْتُمْ خَيْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللهِ (3:110)۔ یعنی، تم بہترین امت ہو جو لوگوں کے لیےنکالی گئی ہے۔ تم معروف کا حکم دیتے ہو اور منکر سے روکتے ہو اور اللہ پرایمان رکھتے ہو۔
اس آیت میں دو الفاظ غور طلب ہیں۔ (1) امر و نہی اور (2) معروف و منکر۔
معروف کے معنی ہیں پسندیدہ اور منکر، ناپسندیدہ۔ اصطلاح شرع میں یہ الفاظ نظریہ وعمل سے متعلق ان تمام چیزوں کے بارے میں بولے جاتے ہیں جن کا شریعت نے مطلوب یا نامطلوب ہونے کی حیثیت سے ذکر کیا ہے، معروف سے مراد شریعت کی تمام مطلوب چیزیں ہیں اور منکر سے مراد اس کی تمام نامطلوب چیزیں۔ خواہ ان کا تعلق عقیدے سے ہو یا عبادت سے یاعمل سے۔ گویا یہ الفاظ پوری شریعت کے قائم مقام ہیں— ’’المَعْرُوف هُوَ اسْمٌ جَامِعٌ لِكُلِّ مَا عُرف مِنْ طَاعَةِ اللهِ وَالتَّقَرُّبِ إِلَيْهِ والإِحسان إِلَى النَّاسِ‘‘ ( لسان العرب ، جلد9، صفحہ 240)۔’’الْمُنْكَرُ ضِدّ الْمَعْرُوفِ. وكلُّ مَا قَبَّحه الشَّرْعُ وحَرَّمه وكَرِهه فَهُوَ مُنْكَرٌ‘‘ (النہایۃ لابن الاثیر، جلد5، صفحہ115)۔
یہاں میں چند حوالے نقل کرتا ہوں:
ابن عباس:لَا إِلٰهَ إِلَّا اللهُ هُوَ أَعْظَمُ الْمَعْرُوفِ، وَتَنْهَوْنَهُمْ عَنِ الْمُنْكَرِ، وَالْمُنْكَرُ هُوَ التَّكْذِيبُ، وَهُوَ أَنْكَرُ الْمُنْكَرِ (تفسير الطبري ، جلد5، صفحہ676)۔
مقاتل:أنَّ الْخَيْرَ الْإِسْلَامَ وَالْمَعْرُوفَ طَاعَةُ اللَّهِ، وَالْمُنْكَرَ مَعْصِيَتُهُ (تفسير روح المعاني، جلد 2، صفحہ 238)۔
خازن:وَالمَعْرُوفُ هُوَ التَّوْحِيدُ، وَالمُنْكَرُ هُوَ الشِّرْكُ (تفسير الخازن ، جلد1، صفحہ 285)۔
رازی:وَأَعْرَفُ الْمَعْرُوفَاتِ الدِّينُ الْحَقُّ وَالْإِيمَانُ بِالتَّوْحِيدِ وَالنُّبُوَّةِ، وَأَنْكَرُ الْمُنْكَرَاتِ (تفسير الرازي ،جلد8، صفحہ 325)۔
آلوسی بغدادی :المُتبادِرُ من المعروفِ: الطّاعاتُ، ومن المُنكَرِ:المعاصي التي أَنْكرَها الشَّرعُ‘‘ (تفسير روح المعاني ، جلد2، صفحہ 244)۔
حافظ الدین نسفی ’’ :{بِالمَعْرُوفِ} بالإيمانِ وطاعةِ الرَّسولِ، {وَتَنْهَوْنَ عَنِ المُنْكَرِ} عن الكُفْرِ وكُلِّ مَحظُورٍ.‘‘ (تفسير النسفي،جلد1، صفحہ 282)۔
امام راغب :المَعْرُوفُ: اسمٌ لكلِّ فعلٍ يُعْرَفُ بالعقلِ أو الشَّرعِ حُسْنُهُ، والمُنْكَرُ:ما يُنْكَرُ بهِما‘‘ ( المفردات في غريب القرآن ، صفحہ561)۔
اب امر و نہی کے الفاظ کو لیجیے۔ ’’امر‘‘ کے معنی ہیں حکم دینا’’إذا كَلَّفْتَهُ أن يَفْعَلَ شَيْئًا‘‘ (المفردات في غريب القرآن،صفحہ88)، اور ’’ نہی ‘‘ کا مطلب ہے روک دینا:نَهَاهُ عن كَذَا أي مَنَعَهُ عَنْهُ (ارشاد الفحول للشوكاني، جلد1، صفحہ278)۔ حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ امر و نہی کے اس عمل کے سلسلے میں شریعت کا اولین تقاضا یہ ہے کہ لوگوں کو بزور اس کا پابند بنایا جائے:
مَنْ رَأَى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ، وَذَلِكَ أَضْعَفُ الْإِيمَانِ‘‘(صحيح مسلم ،حدیث نمبر 49)۔ یعنی، تم میں سے جو شخص کسی منکر کو دیکھے تو چاہیے کہ اسے طاقت سے بدل دے۔ اگر ایسا نہ کر سکے تو زبان سے اسے برا کہے، اور ایسا بھی نہ کر سکے تو دل سے اس کو برا سمجھے۔ اور یہ ایمان کا سب سے کمزور درجہ ہے۔
اس حدیث کے مطابق، اس حکم کے سلسلے میں اولین مطلوب یہ ہے کہ ’’منکر‘‘ کو طاقت کے ذریعہ بدل دیا جائے الاّیہ کہ اس کی استطاعت نہ ہو۔
معلوم ہوا کہ اس آیت میں یہ حکم دیا گیا ہے کہ شریعت کے تمام تقاضے، خواہ وہ عقائد سے متعلق ہوں یا عبادات سے، اخلاق و معاملات سے متعلق ہوں یا اور کسی چیز سے، بہ شرط استطاعت ان سب کو بالجبر عائد کیا جائے اور اس کے خلاف نظریہ و عمل سے بہ زور باز رکھا جائے۔
یہ تشریح صاف ظاہر کر رہی ہے کہ ایسی کسی آیت کو تحریک اسلامی کے مکمل نصب العین کی تعبیر کے لیے اختیار نہیں کیا جا سکتا۔ کیوں کہ اسلامی تحریک، عام دنیوی تحریکوں کی مانند نہیں ہے۔ جن کا مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ عوام الناس کو مقہور و مغلوب کر کے ان کے اوپر ایک خاص قانون کی حکومت قائم کر دیں۔ بلکہ اسلامی تحریک لوگوں کے اندر یہ احساس بیدار کرنے کی تحریک ہے کہ وہ خدا کو پہچانیں اور آنے والے دن سے ڈر کر اس کی تیاری کی فکر کریں۔ یہی اسلامی تحریک کا اولین مطلوب ہے۔ اس کے بعد ثانوی درجہ میں جو چیز مطلوب ہے، وہ یہ ہے کہ اگر لوگ اپنے آپ کو بدلنے پر راضی نہ ہوں تو بشرط حالات انھیں بدلنے پر مجبور کیا جائے تاکہ دنیا کانظام ابتر نہ ہونے پائے۔
اسی طرح اس آیت میں جن چیزوں کے امر و نہی کا حکم دیا گیا ہے، ان میں عقائد و عبادات تک شامل ہیں۔ اس سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ ان الفاظ کو اہل ایمان کے عمومی مشن کا ترجمان نہیں قرار دیا جا سکتا۔ کیوں کہ اس تشریح کے مطابق اس حکم کا کلی انطباق صرف مسلمانوں پر ہو سکتا ہے۔ غیر مسلموں پر اس کا صرف جزئی انطباق ہو گا۔ جب کہ زیرِ بحث تعبیر اس آیت کو اس عام نصب العین کے ماخذ کی حیثیت سے پیش کرتی ہے جو داعیان اسلام کو مسلمانوں اور غیر مسلموں کے اوپر مشترکہ طور پر انجام دینا ہے۔
جہاں تک ان لوگوں کا تعلق ہے جو اسلام قبول کر چکے ہیں، ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا مطالبہ ہے کہ استطاعت کے بقدر ان سے اسلامی تقاضوں کی لازماًپیروی کرائی جائے۔ اور کسی بھی معاملہ میں انحراف کو برداشت نہ کیا جائے۔ حتیٰ کہ اگر وہ انحراف پر اصرار کریں تو اُن سے ’’قتال‘‘ بھی کیا جا سکتا ہے (مجموعۂ فتاویٰ ابن تیمیہ، جلد 4، صفحہ 281)
امام غزالی لکھتے ہیں:
’’قال تعالی:وَإِنْ طائِفَتانِ مِنَ المُؤْمِنِينَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَيْنَهُما‘‘ الآية، والإصلاحُ نَهْيٌ عن البَغْيِ وإعادَةٌ إلى الطّاعَةِ، فإنْ لم يَفْعَلوا فقد أمَرَ اللهُ تعالى بِقِتالِه فقالَ ’’فَقاتِلُوا الّتِي تَبْغِي حتّى تَفِيءَ إلى أَمْرِ اللهِ‘‘، وذلِكَ هو النَّهْيُ عن المُنْكَرِ‘‘ (إحياء علوم الدين،جلد2، صفحہ 307)۔
مسلمانوں کے سلسلے میں جبری تعمیل کے اس اصول کا تعلق کسی خاص معاملے سے نہیں ہے بلکہ ساری شریعت اس حکم میں داخل ہے مثلاً دس سال کامسلمان بچہ اگر نماز نہ پڑھے تو اس کے بارے میں حکم ہے کہ اس کومار کر نماز پڑھاؤ۔ ظاہر ہے کہ مار کے خوف سے جو نماز پڑھی جائے وہ حقیقتاً نماز نہیں ہو گی۔ یہ حکم صرف اس لیے دیا گیا ہے کہ مسلمانوں کے دائرے میں کھلم کھلا دین سے انحراف کی فضا پیدا نہ ہو سکے۔ یہ معاشرتی سطح پر اسلامی نظم و ضبط کو برقرار رکھنے کی ایک کوشش ہے۔ مسلم خاندان کی حد تک یہ بات بالکل صحیح ہے۔ لیکن اگر کوئی شخص غیر مسلمین کے بچوں کو مار مار کر نماز پڑھانا شروع کر دے تو ایک صحیح بات اپنے غلط انطباق کی وجہ سے بے معنی ہوجائے گی۔
اب اگر حکم کو عمومی پیمانے پر پورے مفہوم کے ساتھ منطبق کیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ مسلمانوں کی طرح غیر مسلمین کو بھی (بہ شرط استطاعت) سیاست سے لے کر عقائد و عبادات تک تمام اسلامی تقاضوں کا حکماً پابند کیا جائے اور کسی ’’تفریق و تقسیم کے بغیر‘‘ ہر ہر معاملہ میں خلاف اسلام باتوں سے انھیں بالجبر روکا جائے۔ دوسرے لفظوں میں ان کا مذہب تبدیل کرا کے انھیں پورے معنوں میں مسلمان بنا لیا جائے اور ان پر ریاست کے وہی حقوق قائم ہوں جو مسلمانوں کے اوپر اسلامی ریاست کو دیے گئے ہیں۔
ظاہر ہے کہ یہ بات صحیح نہیں۔ کیوں کہ غیر مسلموں کے سلسلے میں، بعض منفرد رایوں کو چھوڑ کر، یہ بات متفق علیہ ہے کہ ان کو حکماً عقائد اسلامی اور عباداتِ الٰہی کا پابند نہیں کیا جا سکتا۔ عقائد و عبادات ہمارے لیے دعوت کا موضوع تو بن سکتے ہیں مگر وہ ہمارے لیے امر و نہی کا موضوع نہیں بن سکتے۔ یعنی ہم کو یہ تو کرنا ہے کہ غیر مسلموں کے سامنے توحید پیش کریں اور عبادت اور پرستش کے اسلامی طریقوں کو اختیار کرنے کی رغبت دلائیں۔ مگر توحید کا ’’حکم‘‘ دینا اور شرک سے ’’روکنا‘‘ یا اسلامی عبادات کو حکماً ان پر عائد کرنا اور پرستش کے غیر اسلامی طریقوں کو زبردستی چھڑانا، ہمارے حدود و اختیار سے باہر ہے۔ یہ ’’إِكْراهٌ فِي الدِّينِ‘‘ہے جس کو شریعت میں صریح طور پر خارج از بحث قرار دیا گیا ہے۔ اس معاملے میں ہمارے اور غیر مسلمین کے درمیان آمر اور مامور کارشتہ نہیں بلکہ داعی اور مدعو کارشتہ ہے۔
اہل ایمان مخصوص حالات میں، غیر مسلموں پر بھی ’’امر و نہی‘‘ کا فعل انجام دے سکتے ہیں۔ مگر غیر مسلموں پر امر و نہی کا دائرہ محدود ہے۔ اس لیے یہ الفاظ اس پورے کام کا عنوان نہیں بن سکتے جو غیر مسلموں کے اوپر ہمیں کرنا ہے۔ غیر مسلموں کے سلسلے میں اولین مطلوب یہ ہے کہ ان کو کفر و شرک سے نکال کر اسلام کی طرف لایا جائے تاکہ وہ جہنم کے خطرے سے بچ سکیں۔ اور جنت کے مستحق ہوں۔ اس کام کا ذریعہ دعوت و تبلیغ اور نصیحت و تذکیر ہے۔ اب اگر یہ کوشش کارگر نہ ہو اور وہ خدا پرستی کی راہ پر آنے کے لیے آمادہ نہ ہوں تو ثانوی درجہ میں جو چیز مطلوب ہے وہ یہ کہ اسلامی حکومت اپنے ماتحت غیر مسلموں کو اس حد تک قوانین شریعت پرمجبور کرے جس حد تک اجتماعی عدل قائم کرنے اور معاشرہ کو فساد سے محفوظ رکھنے کے لیے ضروری ہے۔
اسلام کے امراء کے لیے غیر مسلمین سے تعرض کرنے کی متعدد صورتیں ہیں۔ ایک اسلامی معاشرہ میں امر بالمعروف کا شعبہ مسلمانوں کو مفسدات دین سے بچانے کے لیے سرگرم ہو، اور اس دوران میں اسے اطلاع ملے کہ کچھ غیر مسلمین نے مسلمانوں کی بستی میں ایک ایسے غلط کام کا آغاز کیا ہے، جو دوسروں تک متعدی ہو سکتا ہے۔ تو خود مسلمانوں کو ا س منکر میں پڑنے سے بچانے کے پہلو سے ضروری ہو گا کہ اس فتنہ کو ان کے درمیان سے ختم کر دیا جائے۔ (ابن تیمیہ نے اپنی کتاب الحسبہ فی الاسلام میں اس کی کچھ مثالیں دی ہیں) اسی طرح شریعت کے ممنوعات و منکرات میں سے کچھ چیزیں ایسی ہیں جن کی غیر مسلموں پر صرف تبلیغ کی جائے گی۔ مثلاً کافرانہ اور مشرکانہ عقائد۔ مگر اسی کے ساتھ اس فہرست کی کچھ چیزیں ایسی بھی ہیں جن کے معاملے میں (بشرط استطاعت) مسلمانوں کو یہ حق ہے کہ وہ غیر مسلموں کو جبراً ان سے روک دیں۔ مثلاً رشوت اور قتل وغیرہ۔ گویا ’’امرونہی‘‘ (اپنے انتہائی معنوں میں) غیر مسلموں پر کیے جانے والے کام کی صرف جزئی ترجمانی کرتا ہے۔ یہ ایک استثنائی صورت ہے، نہ کہ کلی صورت۔
اب اگر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے الفاظ کو اس پورے کام کا عنوان قرار دیا جائے جو غیر مسلموں کے اوپر ہمیں کرنا ہے تو یا تو عقائد و عبادات کو زبردستی ان پر مسلط کرنا لازم آتا ہے۔ یااگر واقعی اس کو حد کے اندر محدود رکھا جائے تو ان الفاظ کو غیر مسلموں کے اوپرکیے جانے والے کام کا کلی ترجمان قرار دینے کی صورت میں غیر مسلم ہمارے لیے صرف سماجی اور معاشرتی اہمیت رکھنے والے قوانین کا موضوع بنتے ہیں۔ اور شریعت کاوہ اہم ترین حصہ اس سے خارج ہو جاتا ہے جو عقائد و عبادات سے تعلق رکھتا ہے۔ کیوں کہ ان معاملات میں ہم حکم کرنے اور روک دینے کا طریقہ اختیار نہیں کر سکتے، بلکہ صرف تبلیغ اورنصیحت کر سکتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر اس استدلال کو مان لیا جائے تو اسلامی تحریک اور اسلامی فوج میں کوئی فرق باقی نہیں رہتا۔ بے شک اسلامی فوج بھی اسلامی زندگی کی ایک حقیقت ہے۔ مگر اسلامی تحریک اس سے وسیع تر چیز ہے اور وسیع تر تصور کے تحت ہی اسے سمجھا جا سکتا ہے۔
معلوم ہوا کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے الفاظ اصلاً تبلیغ و دعوت کے کام کے ترجمان نہیں ہیں، جو اولین مطلوب کی حیثیت سے ہمیں دوسروں کے اوپر کرنا ہے۔ بلکہ حدیث کے الفاظ میں یہ ’’تغییر‘‘ کے فریضہ کو بتاتے ہیں، جو خود سے قبول نہ کرنے کی صورت میں بقدر وسع انجام دیا جاتا ہے۔ پھر اس آیت میں چوں کہ عقیدے اور عمل سے متعلق تمام منفی اور مثبت تقاضوں کے بارے میں ’’تغییر‘‘ کا حکم ہے۔ اس لیے اس کا کلی انطباق صرف مسلمانوں کے اوپر ہو سکتا ہے۔ کیوں کہ انھیں کے بارے میں ہمیں یہ حق ہے کہ بشرط استطاعت شریعت کے ہر تقاضے کو بزور ان کے اندر پیدا کرنے کی کوشش کریں، خواہ وہ عقیدے اور عبادت سے متعلق ہو یا اخلاق اور معاملات سے۔ اس کے برعکس، غیر مسلموں پر دین کے بہت بڑے حصے کی صرف تبلیغ و تلقین کرنی ہے اور یہ کوشش کرنی ہے کہ وہ خود ان کے اندر پیدا ہو جائے اور اپنے آپ وہ اس کو اختیار کر لیں۔ شریعت کا صرف ایک محدود اور نسبتاً ثانوی درجہ کی اہمیت رکھنے والا حصہ ہے، جس کے سلسلے میں، بشرط استطاعت، ہم ان کے اوپر تغییربالید کا طریقہ اختیار کر سکتے ہیں۔
علامہ رشید رضا کی تشریح کے مطابق، داعیان حق کا اصل اور اولین کام لوگوں کو حق کی طرف بلانا اور ان کے اندر ایمان و اسلام کی روشنی پیدا کرنا ہے۔ ’’امر و نہی‘‘ (حکماً پابند کرنا اور حکماً روکنا) اس کے بعد کی چیز ہے، جو دو پہلوؤں سے اسلام کے اندر شامل ہوتی ہے۔ ایک یہ کہ مخاطبین جب دعوت حق کو قبول کر لیں تو ان کی زندگیوں کو اسلام کی راہ پر لانے، اور انھیں تمام شرعی ذمے داریوں کا حامل بنانے کے لیے ان کے اوپر نگرانی اور احتساب کا ایک مسلسل عمل جاری کیا جائے۔ اور دوسرے اس لحاظ سے کہ اہل ایمان کا جو گروہ ہے، وہ اپنے آپ کو منظم، باعمل اور بامقصد بنائے رکھنے کے لیے اپنے درمیان اس قسم کا نظام قائم کرے تاکہ وہ بگاڑ سے بچا رہے اور خدا کی نصرت اس کا ساتھ نہ چھوڑے (تفسیر المنار، جلد 4 ، صفحہ 27-28)۔
حقیقت یہ ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے الفاظ اہل اسلام کے مشن کی علی الاطلاق تعبیر کے لیے موزوں نہیں ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن میں نبوت کے مشن کی تعبیر کے لیے یہ الفاظ اختیار نہیں کیے گئے ہیں۔ امت مسلمہ کودنیا میں جو فریضہ سونپا گیا ہے وہ وہی ہے جس کے لیے پہلے انبیاء بھیجے جاتے تھے۔ یہ امت گویا نبیوں کی قائم مقام ہے۔ مگر جب ہم کتاب الٰہی کا مطالعہ کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو سارے قرآن میں کہیں بھی انبیاء کے عمومی مشن کی حیثیت سے پیش نہیں کیا گیا ہے۔ درجنوں آیتیں ہیں جن میں یہ بتایا گیا ہے کہ انبیاء ورسل کی بعثت کا مقصد کیا تھا۔ مگر کہیں بھی یہ الفاظ نہیں ہیں کہ— ’’ہم نے رسول اس لیے بھیجے تاکہ وہ دنیا والوں پر معروف کاامر اور منکر کی نہی کریں‘‘۔ اب یہ واقعہ کہ قرآن میں انبیاء کے عمومی کام کی تعبیر کے لیے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے الفاظ استعمال نہیں ہوئے ہیں، یہ بذات خود اس بات کا کافی ثبوت ہے کہ ان الفاظ کو علی الاطلاق اس پورے نصب العین کو سمجھنے کاماخذ نہیں بنایا جا سکتا، جو پیغمبر کی نیابت میں ہمیں اہل دنیا کے اوپر کرنا ہے۔
5۔ پانچویں آیت ، جس سے اس سلسلے میں استدلال کیا جاتا ہے، حسب ذیل ہے:
هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْكَرِهَ الْمُشْرِكُونَ (9:33)۔ یعنی، وہی ہے جس نے اپنا رسول ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اس کو تمام دینوں پر غالب کر دے خواہ مشرکوں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔
زیرِ بحث تشریح کے مطابق اس آیت میں فرمایا گیا ہے کہ ’’اللہ نے اپنے رسول کو صحیح اور برحق نظامِ زندگی یعنی اسلام کے ساتھ بھیجا ہے، اور اس کے مشن کی غایت یہ ہے کہ اس نظام کو تمام دوسرے نظاموں پر غالب کر کے رہے۔‘‘ (قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں) اب چوں کہ امت مسلمہ کو ختم رسالت کے بعد وہی کام انجام دینا ہے جس کے لیے خدا کا رسول بھیجا گیا تھا، اس لیے اس آیت کے مطابق رسول کی تبعیت میں مسلمانوں کا نصب العین یہ قرار پاتا ہے کہ وہ اسلامی نظام کو تمام دوسرے نظاموں پر غالب کریں اور زندگی کے تمام شعبوں میں اسلام کی حکمرانی قائم کر دیں۔ رسالہ زندگی ماہ محرم 1382 ہجری میں ’’اشارات‘‘ کے عنوان کے تحت ایک پورا مضمون شائع ہوا ہے۔ فاضل مضمون نگار کو ان کے کسی ’’رفیق‘‘ نے یہ بات پہنچائی تھی کہ ’’بعض لوگ‘‘ جماعت اسلامی کے نصب العین پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ اس کے مطابق دین کو قائم کر دینا ہماری ذمہ داری قرار پاتی ہے، نہ کہ اس کو قائم کرنے کی کوشش کرنا، اور اس اعتراض کی بنیاد یہ ہے کہ جماعت نے ’’اپنے دستور میں اقامت دین لکھا ہے، اقامت دین کی جدوجہد درج نہیں کیا ہے۔‘‘ اس کے جواب میں موصوف نے مختلف مثالیں دی ہیں جن سے ان کے نزدیک یہ بات ’’شفاف آئینہ کی طرح چمک اٹھتی ہے‘‘ کہ جب کسی فرد یا گروہ کو خدا کی طرف سے کوئی حکم دیا جائے تو اس سے مراد یہ نہیں ہوتی کہ ’’وہ اس حکم کو وجود میں لے آئے، بلکہ صرف یہ ہوتی ہے کہ اسے وجود میں لانے کی سعی کرے۔‘‘ چند احکام کی مثالیں دے کر بڑے جوش سے لکھتے ہیں:
’’اب فرض کیجیے کہ کوئی شخص یہ اعتراض کرتا ہے کہ اللہ نے ان احکام میں انسان پر ایسی ذمہ داری ڈالی ہے جو اس کے بس میں نہیں ہے تو اس کا جواب یہی ہو گا کہ ان احکام میں ذمہ داری جو کچھ ڈالی گئی ہے وہ صرف کوشش کی ہے، نہ کہ ان چیزوں کو بالفعل عالم وجود میں لے آنے کی۔ اس جواب پر اگر معترض کہے کہ قرآن میں یہ کہاں ہے کہ ’’آگ سے بچانے کی کوشش کرو‘‘۔ ’’اصلاح کی جدوجہد کرو‘‘ اور ’’اقامت دین کے لیے سعی کرو‘‘ تو اس کے جواب میں نرمی سے کہا جائے گا کہ آپ اعتراض کے موڑ سے ہٹ کر تنہائی میں خود اس مسئلہ پر غور کریں، اس لیے کہ اب آپ کا یہ اعتراض عقل عام سے بھی علیٰحدہ ہے اور امر و احکام کی زبان سے ناواقفیت کی بھی دلیل ہے‘‘۔ (صفحہ 7)
مضمون میں یہ نہیں بتایا گیا ہے کہ یہ ’’بعض لوگ‘‘ کون ہیں، جنہوں نے یہ بے معنی اعتراض آپ کے ’’رفیق‘‘ کے سامنے پیش کیا۔ تاہم جہاں تک میرے اس نکتہ کا معاملہ ہے، اس کااس اعتراض سے کوئی تعلق نہیں، میراکہنا یہ نہیں ہے کہ آپ کے نصب العین کے دستوری الفاظ کے مطابق اہل ایمان کی ذمہ داری جدوجہد کے بجائے عملاً قائم کرنے کی ہو جاتی ہے۔ بلکہ میرا کہنا یہ ہے کہ اگر آیت اظہار دین کو نصب العین کا ماخذ بنایا جائے تو اس آیت کی روسے آپ کی ذمہ داری یہ قرار پاتی ہے کہ آیت میں جس کام کا ذکر ہے، اس کو آپ عملاً وقوع میں لا کر چھوڑیں۔ کیوں کہ آیت میں محض ’’کوشش‘‘ کا ذکر نہیں ہے، بلکہ ایک لازمی نتیجے کا اعلان ہے :وَيَاْبَى اللّٰهُ اِلَّآ اَنْ يُّتِمَّ نُوْرَه (9:32)۔
دوسرے کے قائم کیے ہوئے سوال کی بنیاد پر کسی اور کے نقطۂ نظر کی تردید کرنا اس اعتبار سے بہت کارگر طریقہ ہے کہ اس میں مخالف کی تردید کرنا بہت آسان ہو جاتا ہے۔ مگر یہ وہی طریقہ ہے جس کے متعلق جماعت اسلامی کو اپنے مخالف علما سے شکایت رہی ہے۔ ان حضرات نے اپنے معتقدین کے فراہم کیے ہوئے نکات کی بنیاد پر جماعت اسلامی پر تنقید کر ڈالی تھی، اس کے جواب میں جماعت کے ذمہ داروں کی طرف سے کہا گیا کہ جماعت کا نقطہ نظر اس کی اپنی کتابوںمیں چھپا ہوا موجود ہے اس لیے جس کو جماعت پر تبصرہ کرنا ہو وہ جماعتی لٹریچر کو اچھی طرح پڑھ کر اس کی روشنی میں جماعت پر تبصرہ کرے۔ دوسروں کے مرتب کیے ہوئے سوالات کی بنیاد پر کوئی رائے قائم کر کے جماعت کو اپنی تنقیدوں کا نشانہ بنانا صحیح نہیں ہے۔ یہی بات میں اپنے ناقدین سے کہوں گا۔کیوں کہ مجھے اندیشہ ہے کہ مخالفین کے اس آزمودہ نسخہ کو کچھ لوگ میرے اوپر دہرانے کی کوشش کریں گے۔
مذکورہ آیت دراصل دو آیتوں پر مشتمل ایک ٹکڑے کا حصہ ہے جو قرآن کی تین سورتوں (التوبہ، الفتح، الصف)میں آئی ہے۔ یہاں میں سورہ توبہ کا ٹکڑا نقل کرتا ہوں:
يُرِيدُونَ أَنْ يُطْفِؤُا نُورَ اللهِ بِأَفْواهِهِمْ وَيَأْبَى اللهُ إِلَاّ أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ وَلَوْ كَرِهَ الْكافِرُونَ۔ هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ (9:32-33)۔ یعنی، یہ لوگ چاہتے ہیں کہ خدا کے نور کو اپنی پھونکوں سے بجھا دیں، مگر اللہ اس کے بغیر ماننے والا نہیں ہے کہ وہ اپنے نور کو مکمل کر دے، خواہ کافروں کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو، وہی ہے جس نے اپنا رسول ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اس کو تمام دینوں پر غالب کر دے، خواہ مشرکوں کو کتنا ہی ناگوار ہو۔
پہلی بات یہ ہے کہ اس آیت میں ’’اظہار دین‘‘ (دین کو غالب کرنے) کا ذکر ہے، جو ایک ایسا عمل ہے، جو کافرین و مشرکین کی ’’کراہت‘‘ کے باوجود وقوع میں آتا ہے، جب کہ نبی کا اصل اور اولین کام تبلیغ دین ہے جس کا مقصد یہ ہے کہ لوگ برضا و رغبت نبی کی بات قبول کر لیں اور اس کو بخوشی اپنی زندگی میں شامل کر لیں۔ نبی اصلاً لوگوں کو جہنم کے عذاب سے بچانے کے لیے آتا ہے جو اسی وقت ممکن ہے جب کہ لوگ اپنے ارادہ سے دین کو مان لیں، نہ کہ ان کی کراہت کے باوجود بجبران کے اوپر دین کو غالب و مسلط کر دیا جائے —ایسی حالت میں ظاہر ہے کہ اظہار دین (وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ) کو نبوت کے اصل اور مکمل مشن کا ترجمان نہیں قرار دیا جا سکتا۔
دوسرے ان آیات میں چند واضح قرینے ایسے موجود ہیں، جو ہم کو یہ ماننے کی طرف لے جاتے ہیں کہ یہاں جس عمل کا ذکر ہے وہ حقیقتاً کوئی انسانی مشن نہیں ہے۔ بلکہ وہ ایک الٰہی منصوبہ ہے، وہ اپنی اصل نوعیت کے اعتبار سے خدا کے ایک فیصلہ کا اظہار ہے، نہ کہ کسی انسانی کوشش کا بیان۔ یہ صحیح ہے کہ اس عمل کو وقوع میں لانے کے لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو بطور وسیلہ استعمال کیا تھا اور اس لحاظ سے آخری نبی کی غایت بعثت میں یہ چیز شامل تھی کہ آپ کے ذریعہ سے عرب میں اس واقعہ کورونما کیا جائے گا۔ مگر اپنی اصل حقیقت کے اعتبار سے یہ ایک خدائی منصوبہ تھا، نہ کہ نبوت کی وہ عام اور مخصوص ذمہ داری، جس کا ایک پیغمبر اپنی ذاتی حیثیت میں مکلف ہوتا ہے، اور جس کے متعلق کہا گیا ہے کہ:وَاِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَه (5:67)۔ یعنی، اگر تو نے اس ’’فعل‘‘ کو انجام نہیں دیا تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ تم نے اپنے فریضۂ رسالت کو ادا نہیں کیا۔
1۔ پہلا قرینہ یہ کہ یہاں جو الفاظ استعمال ہوئے ہیں، ان پر غور کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ ایک خبر ہے، نہ کہ عام معنوں میں محض ایک حکم۔ یعنی ان الفاظ میں اظہار دین کی صرف کوشش کرنے کا حکم نہیں دیاگیاہے بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ اظہار دین کو لازماً وقوع میں آنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو اسی لیے بھیجا ہے تاکہ اس کے ذریعہ سے اپنے دین کو تمام دوسرے ادیان پرغالب کر دے۔ کفار و مشرکین اگرچہ اس واقعہ کو روکنے کے لیےاپنی ساری قوت صرف کر رہے ہیں۔ مگر مالک کائنات ایسے کسی امکان کو تسلیم کرنے سے انکار کرتا ہے جب اس کا منصوبہ عمل میں نہ آئے۔
’’وَكَفَى بِاللهِ شَهِيدًا‘‘ على أنَّ ما وَعَدَهُ كائِنٌ لا مَحالَةَ.‘‘ (تفسير ابي السعود، جلد8، صفحہ 114)۔ یعنی، اظہار دین کا یہ وعدہ جو اللہ تعالیٰ نے کیا ہے وہ لازماً پورا ہو کر رہے گا۔
’’وَكَفَى بِاللهِ شَهِيدًا‘‘ عن الحسن:شَهِدَ على نفسِه أنَّهُ سيُظهِرُ دينَك (تفسير الكشاف ،جلد4، صفحہ 346)۔ یعنی، امام حسن بصری سے مروی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خود اپنی ذات کی شہادت دی ہے کہ وہ عنقریب تمہارے دین کو غالب کر دے گا۔
اس اندازِ بیان سے صاف ظاہر ہے کہ اس میں کسی ایسی مخلوق کے مشن کا ذکر نہیں ہے، جس کے بس میں صرف یہ ہے کہ وہ کوشش کر دے، خواہ اس کی کوششوں کا نتیجہ نکلے یا نہ نکلے۔ بلکہ اس میں ایک ایسی ہستی کے عمل کا ذکر ہے جو’’ کن فیکون‘‘ کی شان رکھتا ہے۔ یہاں دراصل اللہ تعالیٰ کے اپنے ایک ارادے کا اعلان ہے جس کو وہ کفار و مشرکین کی ساری مخالفتوں کے باوجود لازماً پورا کرنے والا ہے۔ کلام الٰہی کا انداز یہ ہے کہ وہ فیصلہ کن انداز میں یہ امکان تسلیم کرنے سے انکار کر رہے ہیں کہ عرب میں جس واقعہ کو ظہور میں لانا طے کیا گیا ہے، وہ ظہور میں نہ آئے— ظاہر ہے کہ یہ خدا ہی کا فعل ہو سکتا ہے، نہ کہ کسی انسان کا۔ ارادے اور واقعہ میں اس قسم کا لزوم خدا کے لیے تو بیشک ممکن ہے، مگر انسان کے بس میں نہیں ہے کہ وہ جو کچھ چاہے اس کو حالات کے علی الرغم وقوع میں بھی ضرور لادے۔
2 ۔ دوسرا قرینہ لِيُظْهِرَهٗ عَلَي الدِّيْنِ کی ضمیر سے متعلق ہے۔ متعلقہ فقروں پر غور کرنے کے بعد یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہاں لِيُظْهِرَ کا فاعل خدا ہے۔ کیوں کہ جس نوعیت کے لازمی اظہار دین کا یہاں ذکر ہے اس کاکرنے والا خدا کے سوا اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ چنانچہ مفسرین، بعض مستثنیٰ رایوں کو چھوڑ کر، سب کے سب لِيُظْهِرَ کا فاعل خدا کو مانتے ہیں، نہ کہ رسول کو۔ ضمیر مفعول (ہ) کے بارے میں تو ضرور ان کے درمیان اختلاف ہے۔ کچھ لوگ اس کا مرجع رسول کو مانتے ہیں اورکچھ دین حق کو، مگر لِيُظْهِرَ کافاعل سب کے نزدیک خدا ہے۔ رشید رضا اس سلسلے میں مفسرین کا نقطہ نظر بتاتے ہوئے لکھتے ہیں:
وَفِي الضَّمِيرِ الْمَنْصُوبِ هُنَا قَوْلَانِ:(أَحَدُهُمَا) أَ نَّهُ لِلرَّسُولِ صلى الله عليه وسلم وَهُوَ مَرْوِيٌّ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ رضي الله عنه وَالْمَعْنَى حِينَئِذٍ أَنَّهُ تَعَالَى يُظْهِرُ هَذَا الرَّسُولَ عَلَى كُلِّ مَا يَحْتَاجُ إِلَيْهِ الْمُرْسَلُ هُوَ إِلَيْهِمْ مِنْ أُمُورِ الدِّينِ؛ عَقَائِدِهِ وَآدَابِهِ وَسِيَاسَتِهِ وَأَحْكَامِهِ ، لِأَنَّ مَا أَرْسَلَهُ بِهِ هُوَ الدِّينُ الْأَخِيرُ الَّذِي لَا يَحْتَاجُ الْبَشَرُ بَعْدَهُ إِلَى زِيَادَةٍ فِي الْهِدَايَةِ الدِّينِيَّةِ ( تفسير المنار، جلد10، صفحہ339)۔یعنی، ضمیر منصوب (ہ) کے بارے میں یہاں دو قول ہیں۔ ایک یہ کہ وہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہے۔ یہی عبد اللہ بن عباس سے مروی ہے۔ ایسی صورت میں اس کا مطلب یہ ہو گا کہ اللہ تعالیٰ رسول کو ان تمام امور دین سے باخبر کر دے گا جس کی اسے رسول کی حیثیت سے ضرورت ہے۔ یعنی عقائد، آداب ، سیاست، احکام۔ کیوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم آخری دین لے کر بھیجے گئے تھے، جس کے بعد انسان کو دینی ہدایت کے لیے کسی اور چیز کی ضرورت نہیں۔
الوَجۡہُ الثَّانِي: أَنَّ الضَّمِيرَ لِدِينِ الْحَقِّ الَّذِي أُرْسِلَ بِهِ صلى الله عليه وسلم وَمَعْنَاهُ أَنَّهُ تَعَالَى يُعْلِي هَذَا الدِّينَ، وَيَرْفَعُ شَأْنَهُ عَلَى جَمِيعِ الْأَدْيَانِ( تفسير المنار، جلد10، صفحہ340)۔یعنی، دوسرا خیال یہ ہے کہ ضمیر (ہ) دین حق کے لیے ہے جس کو لے کر آپ تشریف لائے تھے۔ اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اس دین کو تمام دینوں پر سربلند کرے گا اور اس کی عزت بڑھائے گا۔
امام رازی لکھتے ہیں :
وَأَكْثَرُ الْمُفَسِّرِينَ عَلَى أَنَّ الْهَاءَ فِي قَوْلِهِ لِيُظْهِرَهُ رَاجِعَةٌ إِلَى الرَّسُولِ، وَالْأَظْهَرُ أَنَّهُ رَاجِعٌ إِلَى دِينِ الْحَقِّ أَيْ أَرْسَلَ الرَّسُولَ بِالدِّينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ أَيْ لِيُظْهِرَ الدِّينَ الْحَقَّ عَلَى الْأَدْيَانِ، وَعَلَى هَذَا فَيُحْتَمَلُ أَنْ يَكُونَ الْفَاعِلُ لِلْإِظْهَارِ هُوَ اللَّهُ، وَيُحْتَمَلُ أَنْ يَكُونَ هُوَ النَّبِيَّ أَيْ لِيُظْهِرَ النَّبِيُّ دِينَ الْحَقِّ (تفسير الرازي، جلد8، صفحہ882)۔یعنی، بیشتر مفسرین کی رائے یہ ہے کہ لیظھرہٗ کی ضمیر (ہ) رسول کی طرف راجع ہے۔ مگر زیادہ قرین قیاس یہ ہے کہ اسے دین حق کی طرف راجع مانا جائے۔ یعنی رسول کو بھیجا دین حق کے ساتھ تاکہ اس کو تمام دوسرے ادیان پر غالب کر دے۔ پس یہاں دو امکانات ہیں۔ ایک یہ کہ اظہار کا فاعل خدا ہو۔ اور دوسرے یہ کہ اس کا فاعل نبی ہو۔ یعنی۔ تاکہ نبی دین حق کو غالب کر دے۔
امام رازی نے (اسی طرح اور بعض مفسرین نے) اگرچہ اظہار کا فاعل خدا کو ماننے کے ساتھ یہ امکان بھی تسلیم کیا ہے کہ اس کا فاعل رسول بھی ہو سکتا ہے۔ مگر ان کی یہ رائے محض نحوی اعتبار سے ہے۔ ورنہ اس فقرے میں جس عمل کا ذکر ہے اس کو وہ حقیقتاً خدا ہی کا عمل مانتے ہیں، رسول صرف اس کا ایک ظاہری ذریعہ تھا، اور بس۔ چنانچہ سورہ توبہ کی تفسیر میں مندرجہ بالا آیات نقل کرنے کے بعد امام رازی لکھتے ہیں:
اعْلَمْ أَنَّهُ تَعَالَى لَمَّا حَكَى عَنِ الْأَعْدَاءِ أَنَّهُمْ يُحَاوِلُونَ إِبْطَالَ أَمْرِ مُحَمَّدٍ صلى الله عليه وسلم وَبَيَّنَ تَعَالَى أَنَّهُ يَأْبَى ذَلِكَ الْإِبْطَالَ وَأَنَّهُ يُتِمُّ أَمْرَهُ، بَيَّنَ كَيْفِيَّةَ ذَلِكَ الْإِتْمَامِ فَقَالَ:هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدى وَدِينِ الْحَقِّ. لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ۔ (تفسير الرازي ، جلد6، صفحہ321)۔ یعنی، جانو کہ اوپر کی آیت (يُرِيدُونَ لِيُطْفِؤُا نُورَ اللهِ) میں اللہ تعالیٰ نے دشمنان حق کے بارے میں بتایا تھا کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے معاملہ کو ختم کر دینے کی تدبیریں کر رہے ہیں۔ اور فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ ان کی کوششوں کو ہرگز پورا نہیں ہونے دے گا۔ اور وہ اس معاملہ کو مکمل کرکے رہے گا، تو اب، مکمل کرنے کی صورت کو بتا دیا کہ وہ کس طرح ہو گا، فرمایا ’’وہی ہے جس نے اپنا رسول ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اس کو تمام دینوں پر غالب کر دے‘‘ ۔
یعنی امام رازی کے نزدیک اوپر کی آیت میں وَاللهُ مُتِمُّ نُورِهِ (61:8) یا وَيَأْبَى اللهُ إِلَاّ أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ (9:32) کے الفاظ میں جس ’’ارادۂ الٰہی ‘‘ کا ذکر تھا، دوسری آیت أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ(61:9) میں اسی کی کیفیت یا عملی صورت کو بتایا ہے۔ گویا یظھرکا ’’فاعل‘‘ رسول کو ماننے کامطلب اصل فاعل کی کیفیت فعل کو بتانا ہے، نہ کہ خود فاعل کومتعین کرنا۔
قاضی بیضاوی نے یہی بات دوسرے انداز سے کہی ہے۔ وہ دوسرے فقرے (هُوَ الَّذِيْٓ اَرْسَلَ رَسُوْلَهٗ) کو پہلے فقرے (يُرِيدُونَ لِيُطْفِؤُا نُورَ اللهِ) کے ’’بیان‘‘ کی حیثیت دیتے ہیں۔ اب چونکہ پہلے فقرے میں اللہ کا فاعل ہونا صریح طور پر مذکور ہے (’’وَاللهُ مُتِمُّ نُورِهِ‘‘، ’’وَيَأْبَى اللهُ إِلَّا أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ ‘‘)۔ اس لیے دوسرے فقرے میں بھی قدرتی طور پر اسی کو فاعل سمجھا جائے گا۔ اس تشریح کے مطابق، خدا کا فاعل ہونا ضمیر محذوف کا مرجع تلاش کرنے کا مسئلہ نہیں رہتا، بلکہ وہ ایک ایسا فاعل ہے جو خود کلام میں مذکور ہے۔ بیضاوی کے الفاظ یہ ہیں:
{هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ} كالبَيانِ لِقَوْلِهِ: {وَيَأْبَى اللهُ إِلَّا أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ}، ولِذَلِكَ كَرَّرَ {وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ}، غيرَ أنَّهُ وَضَعَ المُشْرِكِينَ مَوْضِعَ الكافِرِين(تفسير البيضاوي ،جلد3، صفحہ79)۔ یعنی، آیت (هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ) اس سے پہلے کی آیت (وَيَأْبَى اللهُ إِلَّا أَنْ يُتِمَّ نُورَهُ) کا گویا بیان ہے۔ اسی لیے دوبارہ فرمایا:وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ ۔ اس تکرار میں صرف اتنا فرق ہے کہ پہلے فقرے میں ’’کافرون‘‘ تھا اور دوسرے میں اس کے بجائے ’’مشرکون‘‘ ہے۔
یہی بات آلوسی بغدادی نے ان الفاظ میں لکھی ہے:
’’والجملةُ بَيانٌ وتَقْرِيرٌ لِمَضْمُونِ الجُملةِ السّابِقَةِ، لأنَّ مآلَ الإتْمامِ هو الإظْهارُ‘‘(تفسیر روح المعاني، جلد5، صفحہ278)۔ یعنی،اور آیت (هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ الخ) اپنے سے پہلے کی آیت (يُرِيدُونَ أَنْ يُطْفِؤُا الخ) کا بیان اور اسی کی وضاحت ہے، کیوں کہ اظہار دین دراصل اتمام نور ہی کا آخری انجام ہے۔
3۔ تیسری بات یہ کہ اس حکم سے مہبط وحی نے اس کا جو مطلب سمجھا اور جس کے مطابق اس پر عمل کیا، وہ بھی اپنی نوعیت کے اعتبار سے ایک ایسا عمل تھا، جس کو فیصلۂ الٰہی تو کہہ سکتے ہیں مگر اسے انسانی مشن نہیں کہا جا سکتا۔
یہ اظہار دین، جو صاحب روح المعانی کے الفاظ میں ’’تَسْلِيطُ المُسْلِمِينَ على جَمِيعِ أَهْلِ الأَدْيَان‘‘ (تفسير روح المعاني ، جلد13، صفحہ275) کے ذریعہ حاصل کیا گیا تھا، اس سے کون سا واقعہ مراد ہے۔ اور وہ ہو گیا یا نہیں، اس سلسلے میں امام رازی نے پانچ رائیں نقل کی ہیں۔ تیسری رائے یہ ہے:
الْوَجْهُ الثَّالِثُ:الْمُرَادُ:لِيُظْهِرَ الْإِسْلَامَ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ فِي جَزِيرَةِ الْعَرَبِ، وَقَدْ حَصَلَ ذَلِكَ فَإِنَّهُ تَعَالَى مَا أَبْقَى فِيهَا أَحَدًا مِنَ الْكُفَّارِ(تفسير الرازي ، جلد6، صفحہ33)۔ یعنی، اس کا مطلب ہے عرب کے تمام دینوں پر اسلام کو غالب کرنا۔ اور یہ واقعہ ہو چکا۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے عرب میں ایک بھی کافر باقی نہیں رکھا۔
یہی رائے آیت کے الفاظ سے زیادہ مطابقت رکھتی ہے، کیوں کہ اس میں کافرین و مشرکین کی کراہت کے علی الرغم اظہار دین کو وقوع میں لانے کا اعلان ہے، اس لیے کسی ایسی صورت کو اس کا مصداق قرار نہیں دیا جا سکتا جو ابھی وقوع میں نہ آئی ہو۔ شوکانی لکھتے ہیں:
وَقَدْ وَقَعَ ذَلِكَ وَلِلهِ الْحَمْدُ( فتح القدير للشوكاني ،جلد2 ، صفحہ 405)
اس عمل کا دائرہ عرب کی سرزمین تھی، جیسا کہ بعض علما نے صراحت کی ہے:
قیل: أَرَادَ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ في جَزِيرَةِ العَرَبِ، وقد فَعَلَ (تفسير القرطبي، جلد 8، صفحہ 122) یعنی، اللہ تعالیٰ کا یہ فیصلہ تھا کہ و ہ جزیرِہ عرب میں دین کو غالب کرے گا اور اس نے ایسا کر دیا۔ اظہار دین کا یہ عمل جزیرہ عرب سے مخصوص ہے، جو اس طرح ہو گیا کہ وہاں کوئی کافر باقی نہیں رہا۔
وَقِيلَ:مَخْصُوصٌ بِجَزِيرَةِ الْعَرَبِ، وَقَدْ حَصَلَ ذَلِكَ مَا أَبْقَى فِيهَا أَحَدًا مِنَ الْكُفَّارِ ( البحر المحيط في التفسير ،جلد5 ، صفحہ406)
اظہار دین کا طریقہ بنی اسماعیل کے معاملہ میں یہ اختیار کیا گیا کہ نبی نے اپنے منکرین کے خلاف ایک ایسی جنگ چھیڑ دی جس کا مطلب یہ تھا کہ وہ یا تو ایمان لائیں ورنہ قتل کیے جائیں گے۔ صحیح حدیث میں آیا ہے:
أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ )و في رواية النسائي :أُقاتِلَ المشركينَ( حَتَّى شَہِدُوا:لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ. فَإِذَا قَالُوهَا، عَصَمُوا مِنِّي دِمَاءَهُمْ وَأَمْوَالَهُمْ، وَحِسَابُهُمْ عَلَى الله (صحیح البخاری، حدیث نمبر 1399؛ صحیح مسلم، حدیث نمبر 21؛ سنن النسائی، حدیث نمبر3966 ؛ مسنداحمد، حدیث نمبر 10840)۔یعنی،مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں مشرکین سے جنگ کروں یہاں تک کہ وہ کلمۂ توحید کا اقرار کریں ، جب وہ اس کا اقرار کر لیں تو وہ اپنے جان و مال کو مجھ سے محفوظ کر لیں گے اور ان کا حساب خدا کے ذمہ ہے۔
بعض روایتوں میں اسی کے ساتھ وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ (کے الفاظ بھی آئے ہیں)۔ کسی میں اس کے ساتھ وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ (کا اضافہ ہے، کسی میں) وَكَفَروابِمَا يُعْبَدُ مِنْ دُونِ اللهِ (کےالفاظ ہیں، کسی میں ) وَاسْتَقْبَلُوا قِبْلَتَنَا، وَأَكَلُوا ذَبِيحَتَنَا(ہے اور کسی میں ہے) وَيُؤْمِنُوا بِي وَبِمَا جِئْتُ بِهِ (شرح النووي على صحیح مسلم، جلد 14، صفحہ 84)۔
اوپر میں نے جن پہلوؤں کا ذکر کیا ہے ان کو سامنے رکھ کر غور فرمائیے۔ ظاہر ہے کہ یہ نہایت عجیب بات ہو گی کہ امت مسلمہ کا نصب العین اخذ کرنے کے لیے ہم ایک ایسی آیت کو ماخذ بنائیں، جس میں اللہ تعالیٰ نے اپنے ایک فعل کو بیان کیاہو۔ آخر لغت اور بیان کاوہ کون سا اصول ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ایک ایسا فقرہ جس میں یہ کہا گیا ہو کہ ’’اللہ کا ارادہ ہے کہ وہ ایسا کرے‘‘۔ اس کو اس معنی میں لے لیا جائے کہ ’’اللہ کے بندوں کا مشن ہے کہ وہ ایسا کریں‘‘۔ پھر اس آیت کو اگر امت مسلمہ کے نصب العین کی آیت قرار دیا جائے تو ایک طرف تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ہم لوگوں کے ساتھ ایک ایسی جنگ چھیڑ دیں، جو اس وقت تک ختم نہیں ہو گی، جب تک لوگ اپنا عقیدہ بدل کر مسلمان نہ ہو جائیں، اور دوسری طرف آیت کے الفاظ میں چونکہ محض کوششِ اظہار دین کا ذکر نہیں ہے، بلکہ اظہار دین کو بالفعل وقوع میں لانے کا اعلان ہے۔ اس لیے اس آیت کو نصب العین کا ماخذ بنانے کا مطلب یہ ہو گا کہ اس میں جس ’’اتمام نور‘‘ اور ’’اظہار دین‘‘ کا ذکر ہے، اس کو ہم اپنے دائرۂ عمل میں لازماً وقوع میں لاکر چھوڑیں۔ حالانکہ معلوم ہے کہ انسان کے بس میں صرف کوشش کرنا ہے، نہ کہ کسی نتیجے کووقوع میں لانا ۔
اظہار دین کی آیت کے سلسلے میں ایک رائے یہ بھی منقول ہوئی ہے کہ اس کا مطلب رسول کو ساری شریعت کی تعلیم دینا اور اس سے باخبر کرنا ہے:ليُعَلِّمَهُ شَرائِعَ الدِّينِ كُلَّها، فيُطْلِعَهُ عَلَيْها(تفسير الطبري، جلد 14، صفحہ215)۔ یہ رائے مشہور صحابی حضرت عبداللہ بن عباس کی ہے۔
عَن ابْن عَبَّاس رضي الله عنه فِي قَوْله تعالیٰ {لِيظْهرهُ على الدّين كُله وَلَو كره الْمُشْركُونَ} قَالَ:ليظْهر الله نبيه صلى الله عليه وسلم على أَمر الدّين كُله فيعطيه إِيَّاه كُله وَلَا يخفى عَلَيْهِ شَيْء مِنْهُ وَكَانَ الْمُشْركُونَ وَالْيَهُود يكْرهُونَ ذَلِك (الدر المنثور للسیوطی، جلد 4، صفحہ 175)۔ یعنی، عبداللہ بن عباس نے اس آیت کی تفسیر میں فرمایا، اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے آخری رسول کو دین کے سارے امور سے آگاہ فرمائے گا۔ وہ اس کو سارا دین عطا کرے گا اور اس پر اس کی کوئی چیز مخفی نہ رہ جائے گی۔ جب کہ مشرکین اور یہود اس کو ناپسند کر رہے تھے۔
اس تشریح کے مطابق یہاں ’’اظہار‘‘ کے معنی غلبہ کے نہیں ہیں، بلکہ بھید پر کسی کو مطلع کرنے کے ہیں۔ عربی میں اظھر علیٰ کے یہ معنی بھی آتے ہیں۔ جیسا کہ قرآن میں ارشاد ہوا ہے:عالِمُ الْغَيْبِ فَلا يُظْهِرُ عَلى غَيْبِهِ أَحَداً (72:26)۔ یعنی، غیب کا جاننے والا وہی ہے۔ وہ اپنے غیب پر کسی کو مطلع نہیں کرتا۔
مگر جہاں تک میں سمجھتا ہوں، صحابی موصوف کی یہ تفسیر غلبہ کے مفہوم کی لازماً تردید نہیں ہے۔ بلکہ یہ ان حکمتوں میں سے ایک حکمت کا بیان ہے جس کے لیے آخری رسول کے ساتھ غلبۂ دین کی مخصوص صورت اختیار کی گئی۔ اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ ہے کہ وہ اپنے رسول کو لازماً غالب کرے گا :كَتَبَ اللّٰهُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِيْ (58:21)۔ یعنی، اللہ نے لکھ دیا ہے کہ میں اور میرے رسول ہی غالب رہیں گے۔ مگر اس غلبہ کی صورت پچھلے انبیاء کے ساتھ عموماً یہ ہوئی ہے کہ انبیاء کے منکرین کو ’’عذاب مستأصل‘‘ کے ذریعہ ہلاک کر دیا گیا اور اہل ایمان کو ان سے نجات دے کر کسی آزاد خطہ میں پہنچا دیا گیا۔ مگر آخری رسول کے سلسلے میں اللہ تعالیٰ کا یہ قانون جس شکل میں نافذ ہوا، وہ صاحب روح المعانی کے الفاظ میں، تَسْلِيطِ الْمُسْلِمِينَ عَلَى جَمِيعِ أَهْلِ الْأَدْيَانِ (روح المعانی، جلد9، صفحہ55) تھا۔ یعنی نبی کے دعوتی علاقہ میں منکرین کو مغلوب کر کے ان کے اوپر اہل ایمان کی حکومت قائم کرنا۔ یہ ایک مخصوص معاملہ تھا جو آخری رسول کے لیے علم الٰہی میں پہلے سے مقدر تھا۔ چنانچہ صحف بنی اسرائیل میں آسمانی بادشاہت کے نام سے لوگوں کو بہت پہلے سے اس کی خبر دی جاتی رہی ہے۔
قانون الٰہی کے اس مخصوص نفاذ کی حکمت کیا تھی، اس کو قرآن کی متعلقہ آیتوں میں ’’اتمام نور‘‘ سے تعبیرکیا گیا ہے۔ یہاں نور سے مراد خاص طور پر وہ احکام و ہدایات ہیں جو دنیوی زندگی میں انسان کی رہنمائی کے لیے نازل کی جاتی ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ نے یہ فیصلہ فرمایا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد رسولوں کی آمد کا سلسلہ بند کرنا ہے تو اس فیصلہ کا لازمی تقاضا تھا کہ زندگی کے سارے پہلوؤں سے متعلق احکام نازل کر دیے جائیں، جو قیامت تک ہرمعاملہ میں انسان کی رہنمائی کرتے رہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ کی یہ سنت رہی ہے کہ پورے دین کو لکھی ہوئی کتاب کی شکل میں یک بارگی نازل نہیں کیا جاتا۔ دین کی اصولی اور بنیادی تعلیمات تو انبیاء پر پہلے ہی مرحلہ میں اتار دی جاتی ہیں، مگر وہ تفصیلی احکام جن کا تعلق معاشرہ اور سیاست سے ہے، وہ اسی وقت اترتے ہیں، جب عملاً کوئی سیاسی اور معاشی تنظیم قائم ہو جائے۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے انبیاء پر صرف بنیادی احکام اترے۔ ان کے مخاطبین نے چوں کہ اس حد تک اسلام کو قبول نہیں کیا تھا کہ ان کی الگ سیاست بنائی جا سکے، اس لیے ایسے احکام بھی ان کے اوپر نہیں اتر سکے۔ مگر آخری رسول کے سلسلے میں ایسی صورت حال کو گوارا نہیں کیا جا سکتا تھا۔ کیوں کہ اس کا مطلب یہ تھاکہ ساری زندگی سے متعلق تعلیمات نازل نہ ہو سکیں۔ اور تمام پیش آنے والے معاملات کے لیے خدا کے دین میں رہنمائی موجود نہ رہے۔
یہی وجہ ہے کہ آخری رسول کے لیے غلبہ کی اس مخصوص صورت کو اختیار کیا گیا اور آپ کو ’’ملک عظیم‘‘ یا ’’آسمانی بادشاہت‘‘ دی گئی۔ اس کے بغیر دین کی تکمیل یا بندوں پر نور الٰہی کا اتمام نہیں ہو سکتا تھا۔ چنانچہ سورۂ فتح میں غلبہ کی حکمت یہ بتائی گئی ہے، تاکہ اللہ تعالیٰ تم کو صراط مستقیم دکھا دے:وَيَهْدِيَكَ صِراطاً مُسْتَقِيماً (48:2)۔صراط مستقیم کی ہدایت سے مراد یہاں تفصیلی احکام کا دیا جانا ہے جیسا کہ ابن کثیر نے لکھا ہے:
أَيْ بِمَا يُشَرِّعُهُ لَكَ مِنَ الشَّرْعِ الْعَظِيمِ وَالدِّينِ الْقَيِّمِ (تفسیر ابن کثیر، جلد 7، صفحہ327 ،سورہ الفتح)۔ یعنی، شریعت اور دین صحیح کے قوانین مقرر کر کے تمہارے لیے صراط مستقیم دکھائے۔
اگر اہل ایمان کو غلبہ اور تمکن نہ دیا جاتا اور انھیں اپنا ایک مستقل معاشرہ منظم کرنے کے مواقع نہ ملتے تو زندگی کے تمام حالات سے انھیں سابقہ پیش نہ آتا۔ اور اس طرح زندگی کے ہر شعبہ سے متعلق احکام بھی نہ اترتے۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ کی سنت ہے کہ عملی حالات پیدا ہونے کے بعد ہی اس صورت معاملہ کے متعلق احکام نازل کیے جاتے ہیں— ان باتوں کو سامنے رکھیے تو یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس نے زیرِ بحث آیت کی مندرجہ بالا تشریح کیوں کی ہے۔ یہ دراصل اس مخصوص حکمت کا بیان ہے، جو غلبہ دین کی اس اسکیم میں چھپی ہوئی تھی۔اس بحث کا مطلب یہ نہیں ہے کہ دین کو غالب کرنے کاکام بس دورِ رسالت سے متعلق تھا، اور اب اس سلسلے میں ہمیں کچھ کرنا نہیں ہو گا۔ اصل میں جب بھی دین اور لادینیت کا مقابلہ ہو تو اس وقت مسلمانوں کا فرض ہو جاتا ہے کہ وہ دین کی طرف سے سینہ سپر ہو کر اس کو غالب کرنے کی جدوجہد کریں ۔ مگر اسی کو علی الاطلاق اہل اسلام کا مشن قرار دینا اور دین کی تشریح اس طرح کرنا کہ یہی اصل کام کی حیثیت سے سامنے آ جائے، صحیح نہیں ہے۔
