غیرشعوری عمل
ایک اینٹ کی پوزیشن بدل دی جائے تو اس میں اتنا ہی فرق ہو کر رہ جائے گا، جتناایک بار پیدا ہوا ہے۔ مگر انسانی ذہن بدلنے کامعاملہ اس سے مختلف ہے۔ انسان ایک فکری مخلوق ہے۔ اس کا ذہن بدلنے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی سوچنے کی لائن بدل گئی۔ اس کے بعد ساری چیزیں اس کے ذہن میں ایک نئے انداز سے ڈھلنا شروع ہو جائیں گی۔ حتیٰ کہ بہت سی واضح اور کھلی ہوئی باتوں کے سلسلے میں بھی اس کا ذہن غیر شعوری طور پر ایسی عجیب و غریب رائیں قائم کر لے گا کہ اسے خود بھی خبر نہیں ہو گی کہ اس نے کیا کیا۔
اس سلسلے میں زیرِ بحث ذہن کی چند مثالیں لیجئے:
قرآن کی ایک آیت ہے:يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ(4:135)۔ ’’قوام‘‘قائم کا مبالغہ ہے جس کا مطلب ہے خوب قائم کرنے والا یا خوب قائم رہنے والا۔ اس لحاظ سے یہاں قَوّٰمِيْنَ بِالْقِسْط کے معنی قسط کی ٹھیک ٹھیک پیروی کے ہیں۔ چنانچہ اردو مترجمین نے اس فقرے کا ترجمہ ’’اے ایمان لانے والو انصاف پر قائم رہو‘‘ یا ’’انصاف پر خوب قائم رہنے والے بنو‘‘ کے الفاظ میں کیا ہے۔ اور یہی اس کے اصل مفہوم کے لحاظ سے زیادہ صحیح ترجمہ ہے۔
علامہ آلوسی بغدادی اس فقرے کی تشریح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
كُونُوا قَوَّامِينَ بِالْقِسْطِ أي: مُواظِبِينَ عَلَى العَدْلِ فِي جَمِيعِ الأُمُورِ، مُجْتَهِدِينَ فِي ذَلِكَ كُلَّ الاجْتِهَادِ، لَا يَصْرِفُكُمْ عَنْهُ صَارِفٌ (تفسير روح المعانی ،جلد3، صفحہ 161)۔ یعنی، تمام معاملات میں عدل کی روش پر قائم رہو اس پر پوری کوشش کرو، کوئی پھیرنے والا تمہیں عدل کی روش سے پھیر نہ سکے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس فقرے میں اہل ایمان کی اپنی ذات کے بارے میں ایک حکم ہے۔ وہ ان سے کہہ رہا ہے کہ وہ اپنے معاملات میں پوری طرح قسط کی روش پر عامل ہو جائیں۔ لیکن زیرِ بحث ذہن نے چونکہ دین کا تصور ایک ایسے ’’نظام‘‘ کی شکل میں کیا ہے جس کو زمین پر جاری و نافذ کیا جاتا ہے۔ اس لیے اس کے ذہن میں قیام کا یہ فعل ایک خارجی فعل بن گیا۔ اور اس نے اس کا ترجمہ کیا:
’’اے ایمان لانے والو! انصاف کے علمبردار بنو‘‘ (تفہیم القرآن، جلد 1)۔ اس علمبرداری کی مزید تفصیل اس نوٹ سے ہوتی ہے جو اس ترجمہ کے نیچے دیا گیا ہے:
’’یہ فرمانے پر اکتفا نہیں کیا کہ انصاف کی روش پر چلو، بلکہ یہ فرمایا کہ انصاف کے علمبردار بنو۔ تمہارا کام صرف انصاف کرنا ہی نہیں ہے، بلکہ انصاف کا جھنڈا لے کر اٹھنا ہے۔ تمہیں اس بات پر کمربستہ ہونا چاہیے کہ ظلم مٹے اور اس کی جگہ عدل ور استی قائم ہو۔ عدل کو اپنے قیام کے لیے جس سہارے کی ضرورت ہے مومن ہونے کی حیثیت سے تمہارا مقام یہ ہے کہ وہ سہارا تم بنو‘‘ ۔(تفہیم القرآن، سورۃ النساء، نوٹ نمبر 164) دیکھیے ذہن کے فرق کی وجہ سے ایک ذاتی نوعیت کا حکم، غیر شعوری طور پر عالمی انقلاب برپا کرنے کے ہم معنی ہو گیا۔
2۔ عربی زبان میں ’’عبادت‘‘ کا جو مفہوم ہے اس کو ظاہر کرنے کے لیے لغت کی کتابوں میں اکثر ’’خضوع‘‘ کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔ خضوع کے معنی ہیں جھکنا، کسی کے آگے اپنے آپ کو پست کرنا۔ یہ ایک حسی کیفیت ہے جو ابتداء ً قلب میں پیدا ہوتی ہے، اور اعضاء و جوارح پر اس کا اثر ظاہر ہوتا ہے۔ مگر زیرِ بحث ذہن کے لیے عبادت کاتصور کسی حسی کیفیت کی صورت میں کرنامشکل ہے۔ اس کے نزدیک دین کا انتہائی تصور یہ ہے کہ وہ ایک مکمل نظام کی شکل میں زمین پر موجود ہو جائے— دوسرے لفظوں میں دین اپنی آخری شکل میں ایک طرح کے ظاہری ڈھانچہ کا نام ہے، نہ کہ کسی قلبی حالت کا ۔ چنانچہ خضوع کا مفہوم اس کے ذہن میں بدل گیا۔ ذیل میں چند ترجمے ملاحظہ ہوں:
(الف) الْعِبَادَة:الطَّاعَة مَعَ الخضوع (عبادت اس اطاعت کو کہتے ہیں جو پوری فرماں برادری کے ساتھ ہو)۔
(ب) إِيَّاكَ نَعْبُدُ :أَي نُطِيعُ الطاعةَ الَّتِي يُخْضَعُ مَعَهَا (ہم تیری عبادت کرتے ہیں، یعنی ہم تیری اطاعت پوری فرماں برادری کے ساتھ کرتے ہیں)۔
(ج) فُلانٌ عابِدٌ، وَهُوَ الخاضِعُ لِرَبِّهِ، المُسْتَسْلِمُ المُنْقَادُ لأَمْرِه( وہ اپنے مالک کا فرماں بردار اور اس کے حکم کا مطیع ہے)۔
)قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں، باب عبادت ، آغاز(
’’فرماں برادری‘‘ کے معنی بعینہٖ وہی ہیں جواطاعت کے معنی ہیں۔ اس لحاظ سے اس ترجمہ کامطلب یہ ہواکہ ’’عبادت پوری طرح اطاعت کرنے کانام ہے‘‘۔ ظاہر ہے کہ ا س ترجمہ میں خضوع کامفہوم سرے سے غائب ہو گیا۔
3۔ سورۂ احزاب کے پانچویں رکوع میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک عمل کے متعلق مخالفین کے اعتراض کا جواب دیا گیا ہے۔ اس سلسلے میں جو فقرے ارشاد ہوئے ہیں ان میں سے ایک جملہ وَخاتَمَ النَّبِيِّينَ ہے (33:40) ۔ اس سلسلۂ بیان میں یہ فقرہ کیوں آیا ہے ’’تفہیم القرآن‘‘ میں اس کی وجہ بتاتے ہوئے کہا گیا ہے:
’’اور وہ خاتم النبیین ہیں — یعنی ان کے بعد کوئی رسول تو درکنار کوئی نبی تک آنے والا نہیں ہے کہ اگر قانون اور معاشرے کی کوئی اصلاح ان کے زمانے میں نافذ ہونے سے رہ جائے تو بعد کا آنے والا نبی یہ کسرپوری کر دے۔ لہٰذا یہ اور بھی زیادہ ضروری ہو گیا تھا کہ اس رسم جاہلیت کا خاتمہ وہ خود ہی کر کے جائیں‘‘ (تفہیم القرآن، جلد 4 ،الاحزاب، حاشیہ نمبر 77؛ختم نبوت ،1962ء، صفحہ 7)۔
چونکہ تبلیغ کے بجائے ’’قیام اور نفاذ‘‘ کاتصور پہلے سے ذہن میں بیٹھا ہوا تھا۔ اس لیے کار نبوت کی تشریح کرتے ہوئے غیر شعوری طور پر ’’نافذ کرنے‘‘ اور عملاً ختم کرنے کے الفاظ زبان پر آ گئے۔ حالانکہ اگر کار نبوت کی ادائیگی کا یہ مطلب ہو کہ ہر نبی کو جو کچھ خدا کی طرف سے ملے وہ اس کو بالفعل کر کے دکھائے، اور جو کچھ غلط ہو اس کا عملاً خاتمہ کر دے تو یہ ایک ایسا معیار ہے جو کسی ایک نبی کے یہاں بھی نہیں ملے گا۔ پچھلے انبیاء تو درکنار خود آخری رسول بھی جن کونسبتاً کام کا زیادہ موقع ملا وہ بھی اس معیار پر پورے نہیں اتر سکتے۔ (مثال کے طور پر والدین سے سلوک کے بارے میں آپ کی معرفت جو احکام نازل ہوئے، ان کا عملی مظاہرہ آپ نے نہیں فرمایا) ۔
چنانحہ سورۂ احزاب کے اس فقرے کی تشریح میں امام رازی اور علامہ آلوسی نے بھی ٹھیک یہی بات کہی ہے، مگر وہاں ’’نافذ کرنے‘‘ کے بجائے ’’بیان کرنے‘‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ امام رازی لکھتے ہیں:
وَخاتَمَ النَّبِيِّينَ وَذَلِكَ لِأَنَّ النَّبِيَّ الَّذِي يَكُونُ بَعْدَهُ نَبِيٌّ إِنْ تَرَكَ شَيْئًا مِنَ النَّصِيحَةِ وَالْبَيَانِ يَسْتَدْرِكُهُ مَنْ يَأْتِي بَعْدَهُ، وَأَمَّا مَنْ لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ يَكُونُ أَشْفَقَ عَلَى أُمَّتِهِ وَأَهْدَى لَهُمْ وَأَجْدَى، إِذْ هُوَ كَوَالِدٍ لِوَلَدِهِ الَّذِي لَيْسَ لَهُ غَيْرُهُ مِنْ أَحَدٍ(التفسير الكبير ، جلد 25، صفحہ 171)۔یعنی، یہاں خاتم النبیین اس لیے فرمایا کہ ایسا نبی جس کے بعد دوسرا نبی آنے والا ہو، اگر وہ بتانے اور نصیحت کرنے میں کوئی کمی کرے تو بعد کو آنے والا نبی اسے پورا کر سکتا ہے۔ مگر جس کے بعد کوئی نبی آنے والا نہ ہووہ تو اپنی امت کے اوپر زیادہ شفیق ہو گا۔ اور انھیں زیادہ رہنمائی دینے والا اور زیادہ فائدہ پہنچانے والا ہو گا۔ کیوں کہ اس کی حیثیت ایسے باپ کی سی ہے جس کے لڑکے کا اس کے بعد کوئی سرپرست نہ ہو۔
دونوں جگہ ایک ہی بات ہے۔ مگر پہلی مثال میں ذہن نے اس کو ’’نفاذ‘‘ اور ’’خاتمہ‘‘ سے تعبیر کیا اور دوسری مثال میں ’’نصیحت‘‘ اور ’’بیان‘‘ سے۔ واضح ہو کہ سورہ احزاب کے اس مخصوص ٹکڑے میں جس کار نبوت کا ذکر ہے، وہاں عمل بھی مطلوب تھا۔ کیوں کہ اس کے بغیر عربی مسلمانوں کی وہ نفسیاتی کراہت دور نہیں ہو سکتی تھی جو صدیوں کی روایات کی وجہ سے متینیٰ کی منکوحہ سے شادی کرنے کے متعلق ان کے اندر پیدا ہو گئی تھی۔ مگر تفہیم القرآن کے محولہ فقرے میں یہ بات نہیں کہی گئی ہے بلکہ وہاں ایک عام اصول کے طور پر اس کو بیان کیا گیا ہے۔ اور اس اعتبار سے یہ تشریح غلط ہے۔
یہ نظریاتی اعتبار سے اس تعبیر کی غلطی کے چند نتائج تھے۔ اب میں اس کے عملی نتائج کا ذکر کروں گا۔ (نظریاتی نتائج کی مزید مثالیں کتاب کے دوسرے ابواب میں دیکھی جا سکتی ہیں)۔
