رامپور ،یکم ستمبر 1962ء
رامپور ،یکم ستمبر 1962ء
محترمی مولانا جلیل احسن صاحب،
عبدالحئی صاحب کے نام آپ نے خط لکھا ہے (مورخہ 18 اگست) اور ان کی وساطت سے مجھ سے یہ دریافت فرمایا ہے کہ میں آپ کی اس خلش کے بارے ضرور کچھ لکھوں جو میرے بارے میں آپ کو محسوس ہو رہی ہے، وہ یہ کہ آپ کو اطلاع ملی ہے کہ میں اپنے مضمون کو جلد شائع کرنے کے لیے بہت بیتاب ہوں۔ یہی نہیں بلکہ کوئی رسالہ نکالنا چاہتا ہوں، مگر سرمایہ فراہم ہونے کی کوئی شکل نظر نہیں آتی۔ آپ کومیرے بارے میں اس خبر سے توحش ہو رہا ہے۔
عرض ہے کہ جہاں تک مضمون کی اشاعت کا معاملہ ہے، اگر آپ کے جواب سے میرااطمینان ہو گیا تو ظاہرکہ اس کی اشاعت کا کوئی سوال نہیں، لیکن اگر بالفرض ایسا نہیں ہوا تو آپ یا کوئی دوسرا شخص غالباً مجھے یہ مشورہ نہ دے گا کہ جس چیز کو ساری تلاش و تحقیق کے بعد بالآخر میں صحیح سمجھوں اس کو لوگوں پر ظاہر نہ کروں۔
دوسری بات یہ کہ ’’میں رسالہ نکالنا چاہتا ہوں، مگر سرمایہ فراہم ہونے کی کوئی شکل نظر نہیں آتی، اس لیے رکا ہوا ہوں‘‘۔ اس کے متعلق میں یہی کہہ سکتا ہوں کہ یہ بالکل جھوٹ ہے۔ کوئی شخص بھی یہ جرأت نہیں کر سکتاکہ وہ قرآن ہاتھ میں لے کر گواہی دے کہ میری زبان سے اس نے یہ بات سنی ہے۔ یہ جھوٹ جس شخص نے گھڑا ہے، یقیناً اس کو مجھے بدنام کرنے کا شوق تو ضرور تھا، مگر اس نے عقل سے کام نہیں لیا۔ کیوںکہ یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر میں رسالہ نکالنا چاہوں تو دوسری رکاوٹیں تو میرے لیے ہو سکتی ہیں مگر سرمایہ فراہم کرنے کی رکاوٹ ہرگز نہیںہو گی۔ ان شاء اللہ العزیز۔
اصل تحریر کے سلسلے میں آپ کے مراسلہ کا انتظار ہے۔
خادم وحید الدین
