حدیث سے استدلال
حال میں مجھے ایک مضمون پڑھنے کا اتفاق ہوا جس میں کہا گیا تھا کہ ’’جماعت اسلامی نے اپنے لیے جو نصب العین اختیار کیا ہے اس میں جماعت کے کسی فرد کی پسند و ناپسند کاکوئی دخل نہیں ہے۔ بلکہ اسے اس بات پر یقین حاصل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء کرام کو اور آخر میں سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اسی نصب العین ، اسی مشن اور اسی مقصد کے لیے مبعوث فرمایا تھا۔ اور اب قیامت تک کے لیے ان کی نیابت میں امت محمدی کا یہی مقصد وجود ہے۔ اس طرح جماعت اسلامی کے نصب العین کارشتہ، آپ سے آپ بعثت محمدی کے مقصد سے جڑ جاتا ہے۔‘‘ یہ نصب العین صاحب مضمون کے الفاظ میں یہ تھا—’’دنیا میں اللہ کی تشریعی حکومت قائم کرنا‘‘، ’’اللہ کے بھیجے ہوئے دین و شریعت کی تنفیذ اور دنیا کی اصلاح‘‘، ’’دین حق کو قائم کرنا اور اسے تمام ادیان باطلہ پر غالب کرنا‘‘ ۔
صاحب مضمون کے نزدیک یہی ’’بعثت محمدی کا مقصد‘‘ تھا، ’’جو کتاب اللہ میں بھی موجود ہے۔ احادیث رسول میں بھی پایا جاتا ہے اور اسلامی تاریخ میں بھی ملتا ہے۔‘‘ ان کثیر دلائل میں سے انہوں نے اس مقالے میں صرف ایک حدیث پیش کی تھی، جو ان کے نزدیک ان کے دعوے کو ’’بہ وضاحت‘‘ ثابت کرتی ہے اور اس سلسلے کی دوسری نصوص کی ’’بہترین شرح‘‘ ہے۔
یہ امام بخاری کی ایک روایت ہے جس کو دوسرے محدیثین نے بھی نقل کیا ہے۔ عطاء بن یسار فرماتے ہیں کہ انہوں نے عبداللہ بن عمرو بن العاص سے ملاقات کی اور ان سے دریافت کیا ’’مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وہ صفت بتائیے جو تورات میں بیان ہوئی ہو‘‘۔ اس کے جواب میں انہوں نے تورات میں مذکور آپ کی کچھ صفتیں بیان کیں۔ ان میں سے ایک صفت یہ تھی:
وَلَنْ يَقْبِضَهُ اللهُ حَتَّى يُقِيمَ بِهِ الْمِلَّةَ الْعَوْجَاءَ، بِأَنْ يَقُولُوا:لَا إِلَهَ إِلَّا اللهُ، فَيَفْتَحَ بِهَا أَعْيُنًا عُمْيًا، وَآذَانًا صُمًّا، وَقُلُوبًا غُلْفًا( صحيح البخاري ،حدیث نمبر 4558)۔ یعنی، اللہ اس وقت تک ان کی روح قبض نہ کرے گا جب تک ان کے ذریعہ سے ملت عوجا کوسیدھا نہ کر لے، اس طرح کہ لوگ لا الٰہ الاّ اللہ کہنے لگیں۔ پس وہ اس کے ذریعہ سے بہت سی اندھی آنکھوں، بہرے کانوں اور بند دلوں کو کھولے گا۔
اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے یہ نتیجہ نکالا گیا تھا —’’سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد اقامت دین تھا۔ آپ کی بعثت سے سینکڑوں سال پہلے تورات میں یہ پیشینگوئی موجود تھی کہ جب تک دین قائم نہ ہو جائے آپ کی وفات نہ ہو گی۔‘‘ اور پھر مقالے کے آخر میں یہ اعلان تھا:
’’یہ تفصیل ہمارے اس یقین میں اضافہ کرتی ہے کہ جماعت اسلامی نے اپنے لیے جو نصب العین اختیار کیا ہے، اس میں اس نے کوئی غلطی نہیں کی ہے۔ بلکہ یہی نصب العین فی الواقع پوری امت مسلمہ کا نصب العین ہے، جس سے وہ غفلت برت رہی ہے۔‘‘ (زندگی ، اپریل 1962ء)
صاحب مضمون نے ملت عوجا کا ترجمہ ’’کج دین‘‘ کیا ہے۔ مگر بعد کو بان یقولوا کا فقرہ بتاتا ہے کہ یہاں ملت بمعنی گروہ ہے۔ کیوں کہ کسی قول کا قائل اشخاص ہوتے ہیں، نہ کہ ان کا دین۔ یہاں دراصل اللہ تعالیٰ کی اس مخصوص اسکیم کا ذکر ہے، جس کے مطابق آخری رسول کو اپنے مخاطبین اولین سے جنگ کر کے انھیں عقیدہ بدلنے پر مجبور کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔ جس کے نتیجے میں بہت سے بے دینوں کو راہ راست حاصل ہوئی۔ یہاں میں بدر الدین عینی اور ابن حجر کے الفاظ نقل کروں گا۔ جس سے اس تشریح کی مزید وضاحت ہوتی ہے:
قولہٗ ’’حَتَّى يُقِيمَ بِهِ‘‘، أَي: حَتَّى يِنْفِيَ بِهِ الشِّرْكَ وَيَثْبُتَ التَّوْحِيدَ. قَوْلُهُ:’’الْمِلَّةُ الْعَوَجَاءُ‘‘، هِيَ مِلَّةُ العربِ، وَوَصَفَهَا بِالْعَوَجِ لِمَا دَخَلَ فِيهَا مِنْ عِبَادَةِ الْأَصْنَامِ وَتَغْيِيرِهِمْ مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ، عَلَيْهِ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ، عَنِ اسْتِقَامَتِهَا، وَإِمالَتِهِمْ بَعْدَ قَوَامِهَا. وَالْمُرَادُ مِنْ إِقَامَتِهَا:إِخْرَاجُهَا مِنَ الْكُفْرِ إِلَى الْإِيمَانِ (عمدة القاري للعینی، جلد11، صفحہ243)۔ یعنی، یقیم بہ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ اپنے رسول کے ذریعہ شرک کی نفی اور توحید کا اثبات کر دے، ملّت عوجا سے مراد ملت عرب ہے۔ عربوں کو کج اس لیے کہا کہ انہوں نے اپنے جد اعلیٰ حضرت ابراہیم کے دین کو بدل دیا تھا، اور ان کے اندر بت پرستی گھس گئی تھی۔ ملت عرب کی اقامت ان کو کفر سے نکال کر ایمان کی طرف لاناہے۔
قوله: حَتَّى يُقِيمَ بِهِ الْمِلَّةَ الْعَوَجَاءَ، أَيْ: مِلَّةَ الْعَرَبِ، وَوَصَفَهَا بِالْعَوَجِ لِمَا دَخَلَ فِيهَا مِنْ عِبَادَةِ الْأَصْنَامِ، وَالْمُرَادُ بِإِقَامَتِهَا أَنْ يُخْرِجَ أَهْلَهَا مِنَ الْكُفْرِ إِلَى الْإِيمَانِ (فتح الباري لابن حجر ، جلد4، صفحہ343)۔ یعنی، ملت عوجا سے مرادملّت عرب ہے ان کوکج اس لیے کہا گیا کہ ان کے اندر بت پرستی آگئی تھی، اور ان کی اقامت سے مراد ان کو کفر سے نکال کر ایمان کی طرف لانا ہے۔
اس تشریح سے واضح ہے کہ اس حدیث سے مندرجہ بالا استدلال صحیح نہیں:
1۔ اول یہ کہ حدیث میں جس چیز کا ذکر ہے، وہ ہے ’’لاالٰہ الاّ اللہ کہلانا‘‘۔ مگر معلوم نہیں کہ کس دلیل کی بنا پر اس کو ’’دنیا کی اصلاح‘‘ اور ’’تشریعی حکومت کے قیام‘‘ کے معنی میں لے لیا گیا ہے۔
2 ۔ دوسرے یہ کہ حدیث کے الفاظ کے مطابق اس میں امت کا فریضہ نہیں بیان کیا گیا ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ کے اپنے ایک عمل کا ذکر ہے۔ جس کو وہ رسول کے واسطہ سے انجام دے گا۔ أي يُقِيمَ اللهُ تعالى بواسِطَتِهِ المِلَّةَ العِوَجَاءَ بأن يقولوا :لا إلهَ إلا الله (ارشاد الساری للقسطلانی، جلد 4، صفحہ 52)۔
3۔کہا گیا ہے کہ ’’اللہ تعالیٰ اپنے آخری رسول کی روح اس وقت تک قبض نہ کرے گا جب تک اس کے ذریعے سے لوگوں سے لا الٰہ الا اللٰہ نہ کہلوا لے۔‘‘اس سے صاف ظاہر ہے کہ اس میں ایک ایسے واقعہ کا ذکر ہے، جس میں داعی کو اس وقت تک زندہ رہنا ہے، جب تک لوگ کلمۂ توحید اپنی زبان سے ادا نہ کر دیں۔ اب اگر اس فقرے سے رسول کی نیابت میں مومنین کا نصب العین اخذ کیا جائے تو اس کا مطلب یہ ہو گا کہ ہم میں سے ہر شخص کو یہ عہد کرنا چاہیے کہ وہ اس وقت تک نہیں مرے گا، جب تک اپنے مخاطبین کو مسلمان نہ بنا لے۔ کیا صاحب مضمون ایسا عہد کرنے کے لیے تیار ہیں۔
4۔ ’’یہ دینی اصطلاح (اقامت دین) نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام کی زبان سے بارہا استعمال ہوئی ہے—‘‘ اس دعوے کے ساتھ ایک بزرگ نے کچھ حدیثیں پیش کی ہیں اور مجھ کو مخاطب کرتے ہوئے لکھا ہے
’’اگر موصوف ان احادیث پر بھی غور فرمائیں تو امید ہے کہ وہ ان میں سے کسی کے اندر بھی اقامت دین کے مفہوم کی وہ محدودیت نہ پا سکیں گے جس کے وہ قائل ہیں۔ اس کے بخلاف انھیں صاف نظر آئے گا کہ ان احادیث میں اقامت دین کا وہ سیاسی اور اجتماعی پہلو نہ صرف یہ کہ موجود ہے بلکہ نمایاں طور پر ابھری ہوئی شکل میں موجود ہے جس کے بارے میں ان کا اصرار ہے کہ وہ اقامت دین سے کوئی تعلق نہیں رکھتا۔‘‘
مجھے اقامتِ دین کے ایک شرعی لفظ ہونے سے انکار نہیں۔ اور نہ اس سے انکار ہے کہ ’’دین‘‘ میں سیاسی احکام بھی شامل ہیں۔ مگر ان الفاظ کے حوالے سے اسلامی مشن کی جس تشریح کے حق میں استدلال کیا جا رہا ہے، وہ ہرگز اس سے نہیں نکلتا۔ اس اعتبار سے تمام پیش کردہ حدیثیں اصل مسئلہ سے بالکل غیر متعلق ہیں۔ اس موقع پر میں ان میں سے دو نمایاں حدیثوں کا ذکر کروں گا۔
1۔پہلی حدیث وہ ہے جو صحیح البخاری کتاب الاحکام سے لی گئی ہے:
إِنَّ هَذَا الْأَمْرَ فِي قُرَيْشٍ، لَا يُعَادِيهِمْ أَحَدٌ إِلَّا كَبَّهُ اللهُ عَلَى وَجْهِهِ، مَا أَقَامُوا الدِّينَ‘‘ (صحیح البخاری، حدیث نمبر3497)۔
یہ روایت کئی طرق سے مختلف الفاظ میں آئی ہے جن کو حافظ ابن حجر (فتح الباری، جلد 13، صفحہ116)نے اکٹھاکر دیا ہے۔ اگر میں ان مختلف روایات کو نقل کر دوں تو اس کا مطلب بآسانی واضح ہو جائے گا
(الف) إِنَّ هَذَا الأَمْرَ فِي قُرَيْشٍ مَا أَطَاعُوا اللهَ وَاسْتَقَامُوا عَلَى أَمْرِهِ (السنن الکبری للبیہقی، حدیث نمبر 16537)۔
(ب) الأُمَرَاءُ مِنْ قُرَيْشٍ مَا فَعَلُوا ثَلاثًا:مَا حَكَمُوا فَعَدَلُوا ...(مسند احمد، حدیث نمبر 19782)۔
(ت) يَا مَعْشَرَ قُرَيْشٍ، إِنَّكُمْ أَهْلُ هَذَا الأَمْرِ مَا لَمْ تُحْدِثُوا (مسند احمد، حدیث نمبر 22355)۔
(د) أَنْتُمْ أَوْلَى النَّاسِ بِهَذَا الأَمْرِ مَا كُنْتُمْ عَلَى الْحَقِّ (کتاب الام للشافعی، جلد1، صفحہ 188)۔
ان احادیث میں ’’امر‘‘ سے مراد خلافت ہے۔ اس کامطلب یہ ہے کہ عرب میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو جو اقتدار بخشا ہے، اس میں خلافت کے منصب کے اولین حقدار قبیلہ قریش کے افراد ہیں۔ اور ان کایہ حق اس وقت تک باقی رہے گا، جب تک وہ دین پر قائم رہیں۔ اور اپنے فرائض کو شرعی تقاضوں کے مطابق انجام دیتے رہیں۔ جب تک وہ ایسا کریں گے، خدا کی مدد انھیں حاصل رہے گی، اور کوئی انھیں ان کے مقام سیادت سے ہٹانے میں کامیاب نہ ہو گا۔
میں سمجھ نہ سکا کہ اس ہدایت یا پیشین گوئی کا اس مسئلہ سے کیا تعلق ہے، جس سے ہم یہاں بحث کر رہے ہیں۔ اگر موصوف کا مطلب یہ ہوکہ اس سلسلے کی بعض روایتوں میں یہ الفاظ آئے ہیں کہ ’’جب تک قریش دین کو قائم رکھیں‘‘ اور اس قائم رکھنے کا تعلق محض اصل دین سے نہیں ہے، بلکہ حکومت و سیاست کے معاملات سے بھی ہے تو مجھے موصوف کے اس خیال سے اتفاق ہے، مگر افسوس کہ جو کچھ وہ ثابت کرنا چاہتے ہیں وہ اس سے ثابت نہیں ہوتا ۔ کیوں کہ حدیث میں ایک ایسی ذمہ داری کا ذکر ہے، جو حاصل شدہ دائرے کے اندر اس کے مسلم حکمرانوں کو انجام دینا ہے۔ جب کہ زیرِ بحث مسئلہ یہ ہے کہ اہل ایمان کو مطلق اعتبار سے جو ’’نصب العین‘‘ اس دنیامیں سونپا گیا ہے، وہ کیا ہے۔ اس لیے انھیں اپنی بات ثابت کرنے کے لیے ایک ایسی حدیث پیش کرنے کی ضرورت تھی، جس میں کہا گیا ہو کہ— ’’اہل ایمان کا مشن یہ ہے کہ وہ زندگی کے تمام انفرادی و اجتماعی شعبوں کو بدل کر دنیا میں ایک مکمل اسلامی حکومت قائم کریں‘‘۔
دوسرے لفظوں میں ایک ایسے فقرے کی ضرورت تھی جس میں کار دعوت کی تشریح کی گئی ہو، نہ کہ ایک ایسا جملہ جس میں بااقتدار مسلمانوں کی حیثیت اور ان کے فرائض بیان کیے گئے ہوں۔ کیوںکہ اس سے تو مجھے بھی اتفاق ہے کہ مسلمانوں کا دائرہ عمل اگر حکومت اور سیاست تک پھیل جائے تو ایسی حالت میں ان کے لیے لازم ہے کہ حکومت و سیاست کے معاملات میں بھی خدا کے دین پر چلیں۔ مگر یہی فقرہ دعوت اسلامی کی مطلق تشریح کے طور پر صحیح نہیں ہے۔
2۔ دوسری حدیث ان الفاظ میں پیش کی گئی ہے:
أُولَئِكَ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صلى الله عليه وسلماخْتَارَهُمُ اللَّهُ لِصُحْبَةِ نَبِيِّهِ وَلِإِقَامَةِ دِينِهِ
یہ ایک لمبی حدیث کا ٹکڑا ہے۔ پہلے میں پوری حدیث یہاں نقل کرتا ہوں:
وَعَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ قَالَ: مَنْ كَانَ مُسْتَنًّا فليستنَّ بِمَنْ قَدْ مَاتَ فَإِنَّ الْحَيَّ لَا تُؤْمَنُ عَلَيْهِ الْفِتْنَةُ. أُولَئِكَ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صلى الله عليه وسلم كَانُوا أَفْضَلَ هَذِهِ الْأُمَّةِ أَبَرَّهَا قُلُوبًا وَأَعْمَقَهَا عِلْمًا وَأَقَلَّهَا تَكَلُّفًا اخْتَارَهُمُ اللهُ لِصُحْبَةِ نَبِيِّهِ وَلِإِقَامَةِ دِينِهِ فَاعْرِفُوا لَهُمْ فَضْلَهُمْ وَاتَّبِعُوهُمْ عَلَى آثَارِهِمْ وَتَمَسَّكُوا بِمَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ أَخْلَاقِهِمْ وَسِيَرِهِمْ فَإِنَّهُمْ كَانُوا عَلَى الْهَدْيِ الْمُسْتَقِيمِ (رواه رزين بحوالہ مشكاة المصابيح،حدیث نمبر193)۔ یعنی، جس کو تقلید کرنی ہو تو چاہیے کہ وہ ان لوگوں کی تقلید کرے جو مر چکے ہیں۔ کیوں کہ زندہ شخص فتنہ سے مامون نہیں ہوتا۔ جو لوگ گزر گئے وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھی تھے، وہ اس اُمت کے بہترین افراد تھے، وہ سب میں زیادہ نیک دل، زیادہ گہرا علم رکھنے والے اور تکلفات سے بری تھے، اللہ نے ان کو منتخب کر لیا تھا اپنے نبی کی صحبت کے لیے اور اپنے دین کی اقامت کے لیے۔ تم ان کی بزرگی پہچانو اور ان کے نقش قدم کی پیروی کرو اور جہاں تک ہو سکے ان کے سیرت و کردار کواختیار کرو، کیوں کہ وہ ہدایت کے صحیح راستہ پر تھے۔
یہ حضرت عبداللہ بن مسعود کی ایک ناصحانہ گفتگو یا تقریر ہے، جو انہوں نے تابعین کے زمانہ میں کچھ مسلمانوں کے سامنے کی تھی۔ اس میں ’’دین کی اقامت‘‘ کے معنی دین کی پیروی کے ہیں۔ ابن مسعود یہ کہنا چاہتے ہیں کہ صحابہ کرام وہ نمونہ کے بہترین لوگ تھے، جن کو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی صحبت کے لیے اور اپنے دین کی قبولیت اور پیروی کے لیے منتخب فرمایا۔ انہوں نے رسول کی رفاقت کا حق ادا کیا اور دین کو اختیار کرنے میں کوئی کمی نہیں کی۔ اس لیے وہ سب سے زیادہ اس بات کے مستحق ہیں کہ دینی معاملات میں ان کے اسوہ کو اپنے سامنے رکھا جائے۔ ان کی زندگی پیرویِ دین کی بہترین مثال ہے۔ یہی وجہ ہے کہ محدثین نے اس روایت کو ’’الاعتصام بالکتاب والسنتہ‘‘ کے باب میں درج کیا ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ محدثین کے نزدیک اس میں کتاب و سنت سے چمٹنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ اشعۃ اللمعات میں اس کا ترجمہ ’’برائے برداشتن دین وے‘‘ کے الفاظ میں کیا گیا ہے۔ برداشتن کے معنی ہیں اٹھانا۔ اس لحاظ سے مفہوم یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو اپنے دین کا حامل بننے کے لیے چن لیا تھا— ظاہر ہے کہ یہ ایسی بات ہے جس سے کسی کو اختلاف نہیں ہو سکتا، مگر اس سے زیرِ بحث تشریح تو ثابت نہیں ہوتی۔ اس تشریح کا ایک نقصان یہ ہے کہ اقامت دین کا لفظ جو اس تقریر میں ایک داخلی عمل کو بیان کرنے کے لیے آیا تھا، وہ اس مخصوص ذہن کی وجہ سے ایک خارجی عمل بن گیا۔ رسالہ زندگی میں اس حدیث پر ایک مضمون شائع ہوا ہے، جس کا عنوان مضمون نگار نے قائم کیا ہے’’صحابہ کرام اقامت دین کے سپاہی‘‘ (زندگی ستمبر 1962ء )۔ حالانکہ اس کا عنوان ہونا چاہیے’’صحابہ کرام دین کے بہترین پیرو‘‘۔
