نقطۂ نظر میں فرق
تعبیرکی اس غلطی کاپہلاکھلا ہوانقصان یہ ہے کہ اس کی وجہ سے ذہنوںمیں دین کا تصور بدل گیا ۔ ہر چیز میں کچھ جزئی پہلو ہوتے ہیں۔ اورایک اس کی مجموعی حقیقت ہوتی ہے۔ جزئی پہلوؤں میں سے کسی کے بارے میں مشاہدہ غلطی کر جائے تو یہ غلطی اپنے مقام پر رکی رہتی ہے، لیکن مجموعی حقیقت کے بارے میں تصورکا بدل جانا پورے وجود کے بارے میں نقطہ نظر کو بدل دیتا ہے۔ ارسطو کا خیال تھاکہ عورتوں کے منھ میں مرد سے کم دانت ہوتے ہیں۔ یہ اگرچہ ایک غلطی تھی، مگر جزئی اورمقامی غلطی تھی۔ اس لیے اس کی وجہ سے زندگی میں کوئی حقیقی خرابی پیدا نہیں ہوئی۔ اس کے بجائے جن مفکرین نے عورت کے بارے میں مساوات کانظریہ پیش کیا اور یہ سمجھا کہ عورت اپنی صلاحیتوں کے اعتبار سے ویسی ہی ہے جیسے مرد، انہوں نے عورت کے پورے وجود کے متعلق غلط رائے قائم کی۔ اس کی وجہ سے عورت کی پوری ہستی کے بارے میں ان کی رائے کچھ سے کچھ ہو گئی۔ جس کے نتیجے میں خاندان اور سماج کے اندر ایسی ایسی خرابیاں پیدا ہوئیں جن کااس فکر کے ابتدائی موجدین نے تصور بھی نہیں کیا تھا۔
زیرِ بحث تعبیر کی غلطی کا تعلق بھی مجموعی فکر سے ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے جن ذہنوںمیں جگہ بنائی وہ پورے مجموعہ دین کو ایک مختلف نظر سے دیکھنے لگے۔ اور جب مجموعہ کے بارے میں نقطہ نظر بدل جائے تو پھر اسی نسبت سے سارے متعلق اجزاء کی حیثیت میں فرق آ جاتا ہے۔ اس فکر نے دین کی جو تصویربنائی ہے، اس میں بظاہر سارے اجزائے دین موجود ہیں۔ مگر سب کے سب اپنے اصل مقام سے ہٹے ہوئے ہیں۔ اس میں اجزائے دین کی ترتیب کچھ اس ڈھنگ سے ہوئی ہے کہ دیکھنے والا جب اس کو دیکھتا ہے تو اس میں اسلام بحیثیت ’’نظام‘‘ تو بہت ابھرا ہوا نظر آتا ہے، مگر اس کا تعبدی پہلو کمزور پڑ جاتا ہے۔ اس تصویر میں ایمان، اسلام، تقویٰ،احسان ، سب کچھ موجود ہے۔(۱) مگر یہ الفاظ اصلاً تعلق باللہ کے مراحل کو ظاہرنہیں کرتے بلکہ وہ ’’تحریک اسلامی کی اخلاقی بنیادیں‘‘ ہیں۔ وہ تعلق باللہ کے ان مخصوص مظاہر کے پیمانے ہیں جوامامت صالحہ اور ’’نظام حق کے قیام ‘‘ کی شکل میں ظاہر ہوتا ہے۔ جو اس تعبیر کے نزدیک ’’دین کا حقیقی مقصود‘‘ اور دنیامیں ’’مسلمان کی سعی کا منتہا ہے‘‘۔ یہ حقیقتِ ایمانی کے ظہور کے وہ مراتب ہیں، جو یہ بتاتے ہیں کہ آدمی مذکورہ بالا انقلابی جدوجہد کے اعتبار سے کس مقام پر ہے۔
جب دین کا تصور یہ ہو جائے تو پھر آپ کو تعجب نہ کرنا چاہیے۔ اگر ایسے افراد کا دینی تعلق ایک مخصوص سیاسی ڈھانچہ کے نفاذ کے بارے میں تو خوب ظاہر ہوتا ہو، مگر ذکر و شکر اوراخبات وانابت کی حقیقتیں ان کے یہاں غائب ہو گئی ہوں۔
(۱) ایمان، اسلام، تقویٰ، احسان کی اصطلاحات جن تدریجی معنوں میں اس لٹریچرمیں استعمال ہوئی ہیں، وہ اس مخصوص مفہوم میں قرآن میں موجود نہیں ہیں۔ مگر یہ ایک لفظی سی بات ہے اس لیے اس پر اعتراض کرنے کی ضرورت نہیں۔ کیوں کہ یہ الفاظ خواہ تدریجی معنوں میں قرآن و حدیث میں نہ آئے ہوں، لیکن یہ تو ایک واقعہ ہے کہ ایمان ایک ترقی پذیر حقیقت ہے، اور اس کے اگلے پچھلے مراحل ہوتے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ان کی تشریح کے لیے ہم کچھ اور الفاظ استعمال کریں۔
