اعظم گڑھ، 8 نومبر 1962ء

اعظم گڑھ، 8 نومبر 1962ء

محترمی جناب مولانا ابواللیث صاحب امیر جماعت اسلامی ہند۔ سلام مسنون

آپ کاخط مورخہ 27 اکتوبر ملا۔ مجھے افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑتا ہےکہ اس خط میں اور اس سے پہلے 19 اکتوبر والے خط میں آپ نے جو انداز اختیار کیا ہے وہ بالکل قانونی اور منطقی قسم کا ہے۔ حالانکہ یہ طریقہ کسی ایسے شخص کے لیے موزوں نہیں ہے جو مسئلہ کوواقعی طور پر حل کرنا چاہتا ہو۔ منطقی طریقہ کا حاصل صرف یہ ہے کہ آدمی اپنے طور پر یہ سمجھ کرمطمئن ہو جائے کہ اس نے ایک انڈے کو دو انڈا ثابت کر دیا ۔ مگر ظاہر ہے کہ اس طرح کے ’’دلائل ‘‘ سے حقیقت نہیں بدل سکتی۔

میں دوبارہ واضح طور پر آپ کے سامنے یہ رکھنا چاہتا ہوں کہ اصل مسئلہ کیا ہے اور آپ سے درخواست کرتا ہوں کہ اصل مسئلہ کی نسبت سے اپنا واضح جواب روانہ فرمائیں۔

مسئلہ کا آغاز یہاں سے ہوتا ہے کہ مجھ کو جماعت اسلامی سے فکری اختلاف پیدا ہوا۔ میں نے اس سلسلے میں اپنے خیالات واضح طور پر لکھ کر آپ کے حوالے کیے۔ اس کے بعد آپ کے الفاظ میں میری تحریر ’’مفصل تبصرہ کرنے کے لیے مولانا صدر الدین صاحب کو باقاعدہ متعین کیا گیا جو جماعت کی نگاہ میں اس کام کے لیے موزوں تر آدمی تھے‘‘۔ یہ تبصرہ میرے سامنے آیا تو اس میں مجھے اپنے خلاف کوئی دلیل نہیں ملی۔ چنانچہ میں نے 10 اگست کے خط میں آپ کو لکھا کہ اس تبصرہ کو بار بار پڑھنے کے باوجود میرے اصل نقطہ نظرمیں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ وہ بجنسہٖ اپنی جگہ باقی ہے۔ اس کے بعد آپ کے حسب ارشاد 19 اگست کو میں نے اس کے متعلق اپنے تاثرات مختصراً قلم بند کر کے آپ کی خدمت میں بھیج دیے۔ میں اس کے لیے بھی تیار تھا کہ مولانا صدر الدین صاحب کی تحریر کا مفصل تجزیہ کرکے بتاؤں کہ وہ کیوں میرے لیے قابل قبول نہیں ہے۔ اور اس کے بعد صدر الدین صاحب دوبارہ مجھے مطمئن کرنے کی کوشش فرمائیں۔ مگر آپ حضرات مزید افہام و تفہیم کے لیے تیار نہیں ہوئے۔ آپ لکھتے ہیں کہ —’’مولانا صدر الدین صاحب آپ کے تاثرات پر تبصرہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ بشرطیکہ آپ کی تحریر کا انداز وہ نہ ہو جو پہلے تھا‘‘۔ مگر اسی شرط کو میں انکار سمجھتا ہوں۔ کیوں کہ میرا جو انداز ہے وہ یہی ہے کہ میں نے اپنی تحریر میں کچھ ایسے علمی اسباب پیش کیے ہیں جو میرے لیے ان کی بات تسلیم کرنے میں مانع ہیں۔ ظاہر ہے کہ میں یہ انداز چھوڑ کر بلادلیل ان کی بات کو قبول نہیں کر سکتا۔ اس لیے نہ کبھی ان کی شرط پوری ہو گی اور نہ وہ کبھی تبصرہ کریں گے۔

اس طرح میرے سوالات کو حل کرنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ اور اس کے بجائے میرے بارے میں یہ کہا جانے لگا کہ ’’مولانا صدر الدین صاحب نے ہر بات کا مکمل جواب دے دیا تھا۔ مگر وہ تو اپنی بات پر اڑے ہوئے ہیں۔ ایسے آدمی کو کون سمجھا سکتا ہے۔ اور ایسی حالت میں مزید گفتگو کا کیا حاصل ہے‘‘۔

مجھے تسلیم ہے کہ میں نے جو مختصر تبصرہ آپ کی خدمت میں روانہ کیا تھا، اس کے سلسلے میں میری بعض غلطیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ مگر وہ ’’غلطی‘‘ ایسی ہے کہ مجھے حیرت ہے کہ کہنے والے نے اس کا ذکر ہی کیوں کیا۔ مثلاً آپ کو یاد ہو گا 6 ستمبر 1962ء کو جب آپ رام پور آئے تھے۔ اور ناظم درس گاہ کے کمرے میں میرے مسئلہ پر گفتگو ہو رہی تھی۔ اس وقت آپ کے علاوہ صدر الدین صاحب افضل حسین خاں صاحب، عبدالحئی صاحب، عروج قادری صاحب، اور جلال الدین انصر صاحب بھی موجود تھے، میں نے اپنی جوابی تحریر پر تبصرہ کرنے کے لیے اصرار کیا۔ مگر آخر وقت تک آپ یا صدر الدین صاحب اس پر آمادہ نہیں ہوئے۔ البتہ اس موقع پر گفتگو کے دوران صدر الدین صاحب نے ایک جملہ یہ فرمایا۔ ’’آپ نے تو اپنے جواب میں حوالے کی اتنی بڑی غلطی کی ہے کہ…‘‘ یہ سن کرمیں ڈر گیا۔ میں سمجھا کہ میں نے واقعی کوئی بڑی شدید قسم کی غلطی کر ڈالی ہے۔ مگر پوچھنے کے باوجود صدرالدین صاحب نے اس وقت کچھ نہیں بتایا۔ اور نہ آپ لوگوں نے ان سے یہ کہنے کی ضرورت سمجھی کہ  وہ اس کو مجھے بتائیں۔ چند دن بعد میں نے ان کے کمرہ میں ان سے مل کر دریافت کیا تو معلوم ہواکہ حوالے کی غلطی یہ تھی کہ ان کی تحریر کا ایک ٹکڑا اپنے تبصرہ میں نقل کرتے ہوئے ایک جگہ ’’اس طرح کی‘‘ کا لفظ مجھ سے چھوٹ گیا ہے۔ اول تو اس لفظ کے چھوٹنے سے اصل مدعا پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اس کے علاوہ اس کے چھوٹنے کی ذمہ داری مجھ سے زیادہ خود صاحب تحریرکے اوپر ہے۔ کیوں کہ اس لفظ کو لکھنے کے بعد انہوں نے دو موٹی لکیروں سے اسے کاٹ دیا تھا۔ اور اس کے بعد پھر اس پر باریک قلم سے صحیح کا دو نشان (   ؐ   ؐ) بنا دیا تھا۔ اتفاق سے میری نظر اس نشان پرنہیں پڑی اوروہ نقل کرنے میں رہ گیا۔

یہ تنقید اتنی بے وزن ہے کہ اس کو سننے کے بعد میں نے اپنے جی میں کہا ’’کاش صدرالدین صاحب نے اس کا ذکر نہ کیا ہوتا۔ کیوں کہ اس کا ذکر نہ کرنا ان کے حق میں زیادہ اچھا تھا۔‘‘

اس کے بعد مولانا جلیل احسن صاحب کو لیجیے جو آپ کے الفاظ میں دوسرے شخص ہیں جن سے ’’خواہش کی گئی تھی کہ وہ بھی میرے خیالات سمجھنے اور جماعت کانقطۂ نظر سمجھانے کے لیے خط و کتابت کریں‘‘ مگر انہوں نے اس مقصد کے لیے ایسا عجیب و غریب طریقہ اختیار کیا جس کو کسی اور پہلو سے خواہ جو بھی اہمیت حاصل ہو۔ مگر اسے کسی بھی طرح ’’جماعت اسلامی کانقطۂ نظر سمجھانے‘‘ کا نام نہیں دیا جا سکتا۔ پچھلے نو مہینے سے میرا مسئلہ ان کے سامنے ہے۔ مگر آج تک اصل مسئلہ کے بارے میں ایک لفظ انہوں نے نہیں لکھا۔ البتہ دوسری طرح طرح کی باتیں کرتے رہے جس میں سے ایک خاص بات ان کی یہ ’’شرط‘‘ تھی کہ وہ میرے ’’طویل مقالہ‘‘ کو پڑھ کر سوالات کریں گے، توضیح ِ مدعاکے طالب ہوں گے دلائل پر گفتگو کریں گے‘‘۔ میں نے ان کی یہ شرط مان لی۔ مگر جب ان کاسوال نامہ آیا تو میں نے دیکھاکہ اس میں اصل تحریر کے بارے میں کوئی ’’سوال‘‘ نہیں ہے، میرے کسی مدعا کی ’’وضاحت‘‘ دریافت نہیں کی گئی ہے، اور نہ میرے دلائل پر کوئی ’’گفتگو‘‘ ہے۔ اس کے برعکس، اس میں مجرد قسم کے کچھ سوالات تھے جن کے بارے میں قطعاً نہیں بتایا گیا تھا کہ ان کا زیرِبحث مسئلہ سے کیا تعلق ہے۔ اس کے بعد دوسرا سوال نامہ آیا تو وہ بھی بعینہٖ اسی قسم کا۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر جلیل احسن صاحب سے میری خط و کتابت نہ چل رہی ہوتی، اوران کے یہ سوال نامے یکایک مجھے ملتے تو میں انھیں واپس بھیج دیتا۔ اور ان کو لکھتا کہ یہ شاید کسی عربی درس گاہ کے امتحان کا پرچہ ہے جو غلطی سے آپ نے میرے نام بھیج دیا ہے۔ میں نے اس طریق مراسلت کے نامناسب ہونے کا ذکر کیا تو ان کایہ جواب آیا:

’’میں اپنے طریق مراسلت پر مصر ہوں۔ اوروہ طریقہ جو دوسروں نے اختیار کیا، وہ آپ کے لیے مضر اور ان کے لیے لاحاصل ہے۔ میں، آپ جانتے ہیں کہ میں ’’پڑھانے لکھانے‘‘ ہی کا کام کرتا ہوں۔ یہ پڑھانے لکھانے کا انداز کیوں کر چھوڑوں۔ اس سے آپ کے فکر رفیع اور علم کبیر کے احساس کو چوٹ لگتی ہے، تو افسوس ہے۔ زیرِ بحث مسئلہ پر غور کرنے اور کرانے کا، بالخصوص آپ کے لیے میرے پاس یہی راستہ ہے جس کو آپ نے پڑھانے لکھانے کا نام دیا ہے۔‘‘

جلیل احسن صاحب کے اس جواب میں طنز و تعریض کے سوا اس بات کی کوئی دلیل نہیں ہے کہ اپنے جس طریق مراسلت پر انھیں اصرار ہے، وہ ’’جماعت اسلامی کا نقطۂ نظر سمجھانے کے لیے‘‘ کیوں موزوں ہے۔ موٹی سی بات ہے کہ جب ایک شخص کہتا ہے کہ جماعت اسلامی کا فکر صحیح نہیں ہے اور اس کے لیے کچھ متعین دلائل پیش کرتا ہے تو آپ کو اس کے دعوے اور اس کے دلائل کے بارے میں سوالات کرنے چاہئیں ۔ اس کے بجائے اگر کسی تمہید و تشریح کے بغیر آپ اس قسم کے الفاظ بولنا شروع کر دیں اچھا بتاؤ فلاں آیت میں ولیعلم کا عطف کس پر ہے‘‘ اور فلاں آیت میں ذالک کا مشار‘‘ الیہ کیا ہے‘‘ تو یہی کہا جائے گا کہ یہ الل ٹپ قسم کے سوالات ہیں۔ اور سوال کی حد تک ان کا اصل مسئلہ سے کوئی تعلق نہیں۔ مولانا جلیل احسن صاحب کے دونوں سوالنامے اسی قسم کے سوالات پر مشتمل ہیں۔ آپ جب بھی چاہیں انھیں دیکھ سکتے ہیں۔

جہاں تک ذاتی طور پر آپ کا تعلق ہے ۔ آپ سے میری شکایتیں حسب ذیل ہیں:

میرا شدید احساس ہے کہ اس بحث میں آپ نے حق طلبی اور حق پسندی کا ثبوت نہیں دیا۔ بلکہ اس کو اس طرح دیکھا گویا یہ محض میرا جواب دینے یا ایک اعتراض کو دفع کرنے کا مسئلہ ہے۔ اگر صورت حال یہ ہوتی ہے کہ جو سوالات میں نے چھیڑے ہیں، ان کا آپ کے پاس تشفی بخش جواب ہوتا اور مطالعہ اور غور و فکر کے نتیجے میں علیٰ وجہ البصیرت آپ پر یہ واضح ہو گیا ہوتا کہ میں غلطی پر ہوں، تو بے شک ایسا رویہ آپ کے لیے صحیح ہو سکتا تھا۔ مگر خود آپ کے اعتراف کے مطابق صورت حال یہ نہیں ہے۔ کیوں کہ جب بھی میں نے ان مسائل پر آپ سے رائے دینے کی درخواست کی تو ہمیشہ آپ نے یہی عذر کیا کہ ’’اس پر رائے زنی کے لیے جس تیاری کی ضرورت ہے وہ ابھی میں نہیں کر سکا ہوں اور موجودہ مصروفیتوں میں میرے لیے اس کا موقع بھی نہیں ہے۔‘‘

ایسی حالت میں آپ کے لیے وہ رویہ کسی طرح درست نہیں ہو سکتا جو میری تحریر دیکھنے کے بعد آپ نے اختیار کیا۔ صدر الدین صاحب کی تحریر پر جو تبصرہ میں نے19 اگست کو آپ کی خدمت میں روانہ کیا تھا، مجھے یقین ہے کہ اس میں ایسی باتیں تھیں جن کے متعلق آپ کو ٹھہر کر سوچنا چاہیے تھا۔اور صدرالدین صاحب سے پوچھنا چاہیے تھا کہ اس کا ان کے پاس کیا جواب ہے۔ مگر میری تحریر کے بارے میں آپ صدر الدین صاحب کو جو خط لکھتے ہیں اس کا انداز ایسا ہے گویا کوئی بات ہی نہیں ہوئی۔ اور مولانا صدر الدین صاحب کے الفاظ اب بھی آپ کے نزدیک اسی طرح ثابت شدہ ہیں جیسے وہ آپ کے نزدیک پہلے تھے۔ مجھے آپ کے خط مورخہ 28 اگست (بنام صدر الدین صاحب) پر سب سے زیادہ حیرت اسی پہلو سے ہے۔ یہ وہ پہلا خط ہے جو آپ نے میرا جواب دیکھنے کے بعد مولانا صدرالدین صاحب کو لکھا تھا۔ مگر حیرت ہے کہ اس میں صدر الدین صاحب کی تحریر کے بارے میں میری بعض نہایت واضح قسم کی سنگین گرفتوں تک کا کوئی ذکر نہیں۔ مثلاً اقیموا الدین کی آیت کے سلسلے میں جلالین کے دو شارحین کی طرف غلط انتساب۔

ایک ایسا شخص جس کے اندر تلاش حق کا جذبہ ہو، اس موقع پر فوراً اس کے سامنے یہ سوال آئے گا کہ آخر معاملہ کیا ہے۔ ایک آیت جس کے اوپر جماعت اسلامی کے ہمہ گیر انقلابی نصب العین کی عمارت کھڑی کی گئی ہے، اس کے متعلق ایک شخص دعویٰ کرتا ہے کہ آیت کے مخصوص الفاظ کی بنا پر علمائے تفسیر نے بالاتفاق اس میں ’’الدین‘‘ سے ہمہ گیر شریعت کا مفہوم مراد نہیں لیا ہے۔ بلکہ صرف دین کی بنیادی تعلیمات مراد لیتے ہیں۔ اس لیے اس آیت سے کوئی ہمہ گیر انقلابی نصب العین اخذ نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے جواب میں جماعت کا ایک لائق ترین عالم کئی مہینے کی تلاش و جستجو کے بعد دو حوالے فراہم کرتا ہے۔ اور کہتا ہے کہ مدعی کا یہ کہنا غلط ہے۔ کیوں کہ بعض ایسے مفسر موجود ہیں جن کے نزدیک ’’اقامت دین کے اس حکم میں شریعت کے تفصیلی احکام بھی داخل ہیں۔ اور پورے کے پورے داخل ہیں۔‘‘

اب مدعی دوبارہ آپ کے سامنے آتا ہے اور کہتا ہے کہ ان علما کی طرف یہ انتساب بالکل غلط ہے۔ وہ دونوںمفسرین کے مکمل اقتباسات آپ کے سامنے رکھ دیتا ہے۔ جس سے صریح طور پر یہ ثابت ہوتا ہے کہ انہوں نے جو بات الَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ کے فقرے سے متعلق کہی تھی، اس کو بالکل غلط طور پر  اقیمو ا الدین کے فقرے کے ساتھ جوڑ دیا گیا۔ حالانکہ یہ دوسرا فقرہ جو اصلاً زیرِ بحث ہے، اس کے متعلق انہوں نے صراحت کی ہے کہ یہاں عموم مراد نہیں۔ میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ایسی کھلی ہوئی گرفتوں کے باوجود آپ کا خاموش رہنا اور صدرالدین صاحب کو اس طرح خط لکھنا گویا کہ ان کے دعاوی اور استدلال میں آپ کے نزدیک اب بھی کوئی فرق نہیں پڑا، کیسے صحیح ہے۔ یہ طرز عمل تو ظاہر کرتا ہے گویا اصل مسئلہ تحقیق حق کا نہیں ہے، بلکہ صرف میری تردید کا ہے۔ آپ کو دلائل اور واقعات پر غور کرنا نہیں ہے بلکہ صرف یہ دیکھنا ہے کہ ایک تنقید جو سامنے آ گئی ہے اس سے کس طرح نپٹا جائے۔

حقیقت یہ ہے کہ آپ نے جو طریقہ اختیار کیا اس میں حق کا ساتھ دینے کے بجائے جماعت اسلامی کی وکالت کا سا انداز پیدا ہو گیا ہے۔ جیسا کہ میں پہلے لکھ چکا ہوں اس کی کھلی ہوئی مثال یہ ہے کہ مولانا صدر الدین صاحب نے قَاتِلُوهُمْ حَتَّىٰ لَا تَكُونَ فِتْنَةٌ والی آیت میں تیسیرالقرآن کے اندر وہی بات لکھی ہے جو میں کہتا ہوں مگر میری تحریر کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے مخالف موقف اختیار کر لیا، کیوں کہ جماعت اسلامی کی بات کو ثابت کرنے کے لیے ایسا کرنا ضروری تھا۔ میری یہ تنقید اگرچہ مولانا صدر الدین صاحب پر ہے۔ مگر ان کی تحریر چونکہ آپ کے اتفاق کے ساتھ خود آپ کی طرف سے مجھے دی گئی تھی، اس لیے ان کی ذمہ داری میں خود آپ بھی اس وقت تک شریک ہیں جب تک آپ اس سے برأت ظاہر نہ کر دیں۔

آپ سے دوسری شکایت یہ ہے کہ میرے بارے میں آپ کی طرف سے خیرخواہی کا رویہ ظاہر نہیں ہوا۔ مولانا صدر الدین صاحب کے نام آپ کا خط مورخہ28 اگست اس کی واضح مثال ہے، جو آپ کی توجیہات کے باوجود ابھی تک مجھے سخت قابلِ اعتراض معلوم ہوتا ہے۔ اور جس کا خود آپ نے بالواسطہ طور پر یہ کہہ کر اعتراف کر لیا ہے کہ ’’یہ ایک نجی پرزہ تھا جسے آپ کو پڑھنا بھی نہیں چاہیے تھا ۔ ‘‘آپ کے خط مورخہ27 اکتوبر کا یہ جملہ مجھ پر اعترض سے زیادہ خود آپ کی اس نفسیاتی کیفیت کا اظہار ہے کہ آپ اپنے اس خط کو ایک ایسی تحریر سمجھ رہے ہیں جس کا میری نظر سے گزرنا آپ کے نزدیک مناسب نہیں تھا۔ ایک نفسیات داں آپ کے اس جملے کو اس کے سوا کسی اور چیز پر محمول نہیں کر سکتا۔

اوپر میں نے جو کچھ لکھا ہے، اس سے مندرجہ ذیل باتیں سامنے آتی ہیں۔

1۔ مجھ کو جماعت اسلامی سے جو فکری اختلاف پیدا ہوا ہے۔ اس کے بارے میں آپ حضرات مجھے مطمئن نہیں کر سکے۔ آپ لوگوں نے ایک بار تو میرے سوالات کا جواب دیا۔ مگر یہ جواب جب میری سمجھ میں نہیں آیا اور میں نے اس پر دوبارہ سوالات کیے تو اب جواب دینے سے انکار کر رہے ہیں۔ اور اس کے لیے یہ عذر لنگ پیش کر رہے ہیں کہ تمہارا سوال کرنے کا طرز ایسا ہے کہ اس کا جواب نہیں دیا جا سکتا۔ مولانا جلیل احسن صاحب بے شک اب بھی جواب دینے کے لیے تیار ہیں۔ مگر جس چیز کو وہ ’’جواب‘‘ کہہ رہے ہیں وہ محض ایک لاحاصل پوچھ گچھ ہے۔ جس کا اصل مسئلہ سے کوئی تعلق نہیں۔

2۔ لٹریچر سے فکری اختلاف ختم نہ ہونے کی صورت میں جماعت سے ملے رہنے کی دوسری شکل یہ تھی کہ آپ یہ طے کر دیں کہ ’’مولانا مودودی کا لٹریچر جماعت اسلامی کے فکر کی مستند شرح نہیں ہے‘‘۔ رام پورمیں 6 ستمبر 1962ء کی گفتگو میں یہ تجویز بھی میں نے آپ حضرات کے سامنے رکھی، مگر اس کو قبول نہیں کیا گیا اور ا سے رد کر دیا گیا۔

3۔میرے فکری اختلاف کو دور کرنے کی کوشش تو پوری طرح نہیں کی گئی۔ البتہ اس قسم کی باتیں خوب مشہور ہو رہی ہیں کہ یہ تو ہٹ دھرم آدمی ہیں۔ جس چیز کو پکڑ لیتے ہیں پھر اسے نہیں چھوڑتے۔ اب خود ہی کسی وجہ سے ’’پلٹا‘‘ کھائیں تو کھائیں، ورنہ ان کو سمجھانے بجھانے کا کچھ فائدہ نہیں۔

یہ ہے اصل صورت حال۔ اب آپ بتائیں کہ ایسی حالت میں جماعت اسلامی سے استعفا نہ دوں تو اور کیا کروں۔

خادم وحید الدین

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom

Ask, Learn, Grow

Your spiritual companion