دین

اس سلسلے کا  چوتھا اور آخری لفظ ’’ دین ‘‘ ہے ۔ کتاب میں پہلے کلامِ عرب سے اس کے چار معانی متعین کیے گئے ہیں ۔ اور اس کے بعد ’’ قرآن میں لفظ دین کا استعمال ‘‘ کے عنوان کے تحت حسب ذیل سطریں درج ہیں :

’’ ان تفصیلات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ لفظ دین کی بنیاد میں چار تصورات ہیں ، یا با لفاظ دیگر یہ لفظ عربی ذہن میں چار بنیادی تصورات کی ترجمانی کرتا ہے‘‘۔

1۔   غلبہ وتسلط ، کسی ذی اقتدار کی طرف سے ۔

2۔  اطاعت، تعبد اور بندگی صاحب اقتدار کے آگے جھک جانے والے کی طرف سے۔

3۔  قاعدہ وضابطہ اور طریقہ جس کی پابندی کی جائے ۔

4۔  محاسبہ اور فیصلہ اور جزا وسزا۔

انھیں تصورات میں سے کبھی ایک کے لیے اور کبھی دوسرے کے لیے اہل عرب مختلف طور پر اس لفظ کو استعمال کرتے تھے ۔ مگر چوں کہ ان چاروں امور کے متعلق عرب کے تصورات پوری طرح صاف نہ تھے اور کچھ بہت زیادہ بلند بھی نہ تھے اس لیے اس لفظ کے استعمال میں ابہام پایا جاتا تھا اور یہ کسی باقاعدہ نظامِ فکر کا اصطلاحی لفظ نہ بن سکا۔ قرآن آیا تو اس نے اس لفظ کو اپنے منشاء کے لیے مناسب پا کر بالکل واضح اور متعین مفہومات کے لیے استعمال کیا اور اس کو اپنی مخصوص اصطلاح بنا لیا ۔ قرآنی زبان میں لفظ دین ایک پورے نظام کی نمایندگی کرتا ہے جس کی ترکیب چار اجزاء سے ہوتی ہے ۔

1۔  حاکمیت واقتدارِ اعلیٰ ۔

2۔  حاکمیت کے مقابلے میں تسلیم واطاعت۔

3۔  وہ نظامِ فکر وعمل جو اس حاکمیت کے زیرِ اثر بنے ۔

4۔  مکافات جو اقتدار اعلیٰ کی طرف سے اس نظام کی وفاداری واطاعت یا سر کشی وبغاوت کے صلہ میں دی جائے ۔

قرآن کبھی لفظ دین کا اطلاق معنی اول ودوم پر کرتا ہے ، کبھی معنی سوم پر ، کبھی معنی چہارم پر اور کہیں الدین بول کر یہ پورا نظام اپنے چاروں اجزاءسمیت مرا د لیتا ہے ۔ (صفحات87-88)

اس کے بعد صاحب کتاب ان چاروں معانی کے لیے قرآن کی الگ الگ آیتیں درج کر کے آخر میں ’’ دین  ایک جامع اصطلاح ‘‘ کے عنوان کے تحت لکھتے ہیں:

’’ یہاں تک تو قرآن اس لفظ کو قریب قریب انھیں مفہومات میں استعمال کرتا ہے جن میں یہ اہلِ عرب کی بول چال میں مستعمل تھا ۔ لیکن اس کے بعد ہم دیکھتے ہیں کہ وہ لفظ دین کو ایک جامع اصطلاح کی حیثیت سے استعمال کرتا ہے اوراس سے مراد ایک ایسا نظامِ زندگی لیتا ہے جس میں انسان کسی کا اقتدار اعلیٰ تسلیم کر کے اس کی اطاعت وفرماں برداری قبول کرے ، اس کے حد و د وضوابط اور قوانین کے تحت زندگی بسر کرے ۔ اس کی فرماں برداری پر عزت، ترقی  اور انعام کا امیدوار ہو اور اس کی نا فرمانی پر ذلت وخواری اور سزا سے ڈرے ۔ غالباً دنیا کی کسی زبا ن میں کوئی اصطلاح ایسی جامع نہیں ہے جو اس پورے مفہوم پر حاوی ہو۔ موجودہ زمانہ کا لفظ ’’ اسٹیٹ ‘‘ کسی حد تک اس کے قریب پہنچ گیا ہے ، لیکن ابھی اس کو ’’ دین ‘‘ کے پورے معنوی حدود پر حاوی ہونے کے لیے مزید وسعت درکار ہے ‘‘۔ (صفحات 93-92)

اس اقتباس میں دین کی انتہائی تعبیر زندگی کی ایک جامع اسکیم یا اسٹیٹ کے نظام کے الفاظ میں کہی گئی ہے ۔ اس میں شک نہیں دین ایک اعتبار سے اسٹیٹ اور نظام بھی ہے ۔ مگر دین کا جامع اور مکمل تصور دینے کے لیے جو اسٹیٹ اور نظام کے الفاظ بولے جائیں تو یقیناً دین نہایت ناقص اور نا مکمل ہو کر رہ جاتا ہے ۔ کیوں کہ اسٹیٹ یا نظام ، خواہ کتنا  ہی وسیع اور جامع ہو ، وہ بہر حال صرف ایک قانونی ڈھانچہ یا ایک مجموعہ ہدایات ہے جس کا انسان کے جذبات واحساسات سے کوئی حقیقی تعلق نہیں ۔ وہ انسان کے اپنے اندرون سے نہیں اُبلتا۔ بلکہ خارج سے اس کے اوپر مستولی کیا جاتا ہے۔ اس کے بر عکس، دین خدا سے تعلق جوڑنے کا نام ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ بندے اور خدا کے درمیان جو تعلق ہونا چاہیے ، وہ اپنی فطری شکل میں قائم ہو گیا ہے ۔ اس کے بعد زندگی میں جو اعمال وافعال ظاہر ہوتے ہیں ، وہ سب گویا اسی تعلق کے خارجی ظہور ہیں جو خدا کی ہدایت اور رہنمائی کے مطابق بندہ اپنی زندگی میں شامل کرتا چلا جاتا ہے ۔ اسٹیٹ اور نظام مجرد ایک ظاہری ڈھانچہ ہے ۔ اس کے برعکس ،دین ایک حقیقت کے اندرونی تمکن کا خارجی ظہور۔ یہی وجہ ہے کہ زندگی میں حقیقی اور پائدار ثمرات صرف دین ہی کے ذریعہ پیدا ہو سکتے ہیں ۔ نظام اور اسٹیٹ کے تصورات صرف ابتدائی جوش دیتے ہیں اور اس کے بعد زندگی اور نظام دونوں الگ الگ ہو جاتے ہیں اور دونوں میں کوئی حقیقی ربط باقی نہیں رہتا۔ 

یہ صحیح ہے کہ دین کا اظہار ان چیزوں کی شکل میں بھی ہوتا ہے جن کے مجموعے کو اسٹیٹ اور نظام کہا جاتا ہے ۔ مگر خدا کا دین اصلاً نام ہے اس اعلیٰ ترین کیفیت کا جس کا ظہور دعا واخلاص، (المومن، 40:65)اور عبادت وانابت (الزمر، 39:17) کی شکل میں ہوتا ہے ۔ دین دار بننے کے بعد اس دنیامیں آدمیوں کو جو سب سے بڑی نعمت ملتی ہے ، وہ اپنے رب سے اسی قسم کا تعلق ہے ۔ شخصی حیثیت سے ایک مومن کے لیے دین کی اعلیٰ ترین حقیقت یہ ہے کہ بندہ اپنے رب کی طرف حد درجہ مشتاق ہو کر خوف وطمع کے جذبا ت کے ساتھ اس کو پکار رہا ہو، اس نے اپنے تمام احساسات وجذبات کو اس کے لیے خاص کر دیا ہو، وہ بالکل اس کا عابد اور پرستار بن گیا ہو۔ اپنی ساری توجہ اس نے اس کی طرف مائل کر دی ہو ۔ یہی شخصی اعتبار سے دین کی اعلیٰ ترین حقیقت ہے ۔ یہی ایک دین دار کی وہ سب سے بڑی یافت ہے جس کو لے کر اسے اپنے رب کے پاس جانا ہے ۔ جس کو اس کے دین نے یہ چیز دی ، اسی نے دراصل دین کو پایا۔ اور جس کو اس قسم کا تعلق باللہ نہیں ملا۔ وہ سب کچھ پانے کے باوجود ابھی تک دین سے محروم ہے۔ یہی نہیں بلکہ سیاسی دین داری بھی حقیقۃً اسی کی زندگی میں پیدا ہو سکتی ہے جس کے اندر حقیقی دین داری پیدا ہوئی ہو۔ اس اصلی اور حقیقی دین داری میں جو شخص جتنا ناقص ہو گا ، اتنا ہی وہ سیاسی دین داری میں ناقص ثابت ہو گا۔ 

جب ہم دیکھتے ہیں کہ دین کی سب سے بڑی حقیقت ، بلکہ اس کا اصل اورمغز، دین کی ’’جامع ‘‘ تصویر بنانے کے باوجود اس میں نظر نہیں آتی تو ہم یہ ماننے پر مجبور ہوتے ہیں کہ دین کی وہی ’’ناقص ‘‘ تصویر صحیح تھی جو صدیوں سے امت اپنے سینے سے لگائے چلی آرہی تھی ۔ دین کی یہ نئی تصویر ، اپنی جامعیت کے باوجود اس کی حقیقی تصویر نہیں ۔ دین کی اس تصویر میں ایک زمینی نتیجے کو پانا دین کا مقصد اصلی قرار پانا ہے ، جب کہ شخصی ذمہ داری کی حیثیت سے ایک ذاتی نتیجے کو پانا دین کا اصل مقصود ہے ۔ یہاں مجھے ایک بزرگ کے الفاظ یاد آتے ہیں جو انھوں نے میرے اسی قسم کے اعتراض کے جواب میں کہے تھے ۔

انھوں نے کہا کہ ہمارے نزدیک امت مسلمہ بحیثیت امت جس چیز کو پا لینا چاہتی ہے ، وہ قطعی طور پر ایک ایسی زندگی کا قیام ہے جس میں دین اللہ کے سوا کسی اور دین یا نظام فکروعمل کی کار فرمائی باقی نہ رہ جائے ‘‘۔ مگر یہ جماعت کا نصب العین ہے ، نہ کہ فرد کا ۔ جہاں تک فرد کی حقیقی غایت مقصود کا تعلق ہے وہ قطعی طور پر صرف اللہ کی رضا اور آخرت کی فلاح کا حصول ہے ۔ اور یہ رضا اور فلاح اسی طرح حاصل ہوتی ہے کہ فرد اپنی ذاتی ذمہ داریوں کو پوری طرح ادا کر دے ۔ اگر اس نے اپنی انفرادی ذمہ داریوں کو ادا کر دیا تو وہ اس حال میں مرا کہ اس کا دینی کام پورا ہوگیا تھا۔ لیکن جماعت یا امت کے نصب العین کا معاملہ اس سے مختلف ہے ۔ اس سلسلے میں نہ تو جدوجہد کا کوئی آخری وقت ہے ۔ نہ اس کا حاصل کر لینا جماعت کی ذمہ داری۔ جب تک امت مسلمہ اس سر زمین پر موجود ہے اس وقت تک اس نصب العین — مکمل اسلامی نظام کے قیام — کے لیے جدوجہد چلتی رہے گی ’’موصوف کے الفاظ میں پہلی چیز افراد کا انفرادی نصب العین ہے ۔ اور دوسری چیز ’’ جماعت کا اجتماعی نصب العین‘‘۔

نصب العین کی اس دوہری تقسیم کے باوجود اصل بات اپنی جگہ باقی رہی ۔ دونوں صورتوں میں نصب العین ایک ہی ہے ۔ دنیا میں مکمل اسلامی نظام کا قیام ۔ فرق صرف یہ ہے کہ فرد اپنی بساط بھر کوشش کر کے اپنی ذمہ داری سے سبک دوش ہو جاتا ہے اور جماعت کی ذمہ داری یہی ہے کہ وہ نسل در نسل اس کو جاری رکھے ۔ تاآنکہ ساری دنیامیں مکمل اسلامی نظام کا قیام عمل میں آجائے ۔

مگر اس تقسیم کا اصل مسئلہ سے کوئی تعلق نہیں ۔ اس سے جو کچھ ثابت ہوتا ہے وہ صرف یہ ہے کہ فرد اس وقت تک مکلف ہے جب تک وہ دنیا میں موجود ہے، اور جماعت اس وقت تک مکلف ہے جب تک وہ دنیا میں موجود ہے، اس سے یہ کہاں ثابت ہوا کہ ’’ مکمل اسلامی نظام کا قیام ‘‘ وہ اصل مشن ہے جس کو انبیاء لے کر آئے اور جو ہمارے سپرد ہوا ہے ۔

اجتماعی نصب العین کے مندرجہ بالا مخصوص تصور کو ثابت کرنے کے لیے موصوف نے ایک تاریخی نظیر بھی دی ہے ، جو ان کے الفاظ میں حسب ذیل ہے :

’’ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کی تلاش میں آئے تھے ۔ یعنی ان کا مشن یہ تھا کہ بنی اسرائیل پھر سے پوری طرح اسلامی زندگی اختیار کر لیں ۔ لیکن جہاں تک ان کی اپنی راست جدوجہد کا تعلق ہے ، کل بارہ افراد آپ کے ساتھی بن سکے ۔ مگر آپ کے بعد بھی اس دعوت الی الخیر کا سلسلہ جاری رہا ۔ حتیٰ کہ ایک لمبی مدت گزر چکنے پر وہ وقت آسکا جب آپ کے پیروؤں کا بول بالا ہوا ۔ منکرین مغلوب ہو کر رہ گئے، اور وہ بات عالمِ وجود میں آگئی جسے آں جناب وجود میں لانا چاہتے تھے ، یعنی وہ مشن پورا ہو گیا جسے آپ نے شروع کیا تھا ۔ چنانچہ قرآن مجید نے سورہ صف کے آخر میں اس طویل المدت اور کثیر المراحل سر گزشت کو جس انداز میں بیان کیا ہے اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اس کے نزدیک یہ دراصل ایک ہی تحریک اور ایک ہی مشن کی جدوجہد کی تاریخ ہے ۔ حالاں کہ تحریک کا بانی اور مشن کا ا صل علم بردار دنیا سے کب کا جا چکا تھا ‘‘۔ میں عرض کروں گا کہ یہ حوالہ صحیح نہیں ۔ عیسائیوں کی تاریخ سے یہ ثابت نہیں ہوتا اور نہ قرآن وحدیث میں اس کا کہیں ذکر ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام کی وفات کے بعد ان کے پیروؤں نے مذکورہ بالا قسم کی کوئی جدوجہدجاری رکھی اور بالآخر ہمہ گیر اور مکمل اسلامی نظام قائم کیا ۔ سورہ صف کی جس آیت کا حوالہ دیا گیا ہے اس میں بھی ’’ ظاہرین ‘‘ کا لفظ ہے جس کے معنی محض ’’ غلبہ ‘‘ کے ہیں، نہ کہ کسی قسم کا جامع اور مکمل نظام قائم ہونے کے، اور آیت کے الفاظ کے مطابق یہ غلبہ بھی ایک دین کا دوسرے دین پر نہیں تھا بلکہ اعدائے مسیح پر مومنین مسیح کا تھا۔ 

اس آیت کی تاویل کے سلسلے میں قدیم مفسرین سے تین قول نقل کیے گئے ہیں ۔ ایک حجت وبرہان کے ذریعہ غلبہ ۔ دوسرے یہ کہ آخر وقت میں حضرت مسیح علیہ السلام کا ’’ رفع ‘‘ ہوا تو آنجناب کے بارہ ساتھی جو اس وقت آپ کے پاس تھے باہم مختلف الرائے ہو گئے ۔ کوئی کہنے لگا کہ آپ خدا تھے ، کسی نے کہا ، آپ ابن اللہ تھے ، کسی نے کہا نہیں آپ خدا کے بندے اور رسول تھے ۔ اس پر ان ساتھیوں میں جھگڑا ہواا ور تلوار چلنے کی نوبت آگئی ۔ جس میں بالآخر وہ لوگ جیت گئے جنھوں نے صحیح بات کہی تھی ۔ تیسری رائے یہ ہے کہ اس آیت میں جس غلبہ کا ذکر ہے اس سے مراد وہ غلبہ ہے جو آخری رسول کے زمانے میں ہوا ، مگر علامہ آلوسی نے اس کے متعلق لکھا ہے کہ ’’وهو خِلافُ الظَّاهِر‘‘ یعنی، یہ تاویل ظاہر الفاط کے مطابق نہیں ہے ۔ (روح المعانی ، جلد 14، صفحہ 286)

ذاتی طور پر میرا رجحان یہ ہے کہ یہاں بعض متاخر علما کی رائے زیادہ صحیح ہے جو سورہ صف کی اس آیت میں یہود کے اوپر عیسائیوں کا (بحیثیت قوم ) فی الجملہ غلبہ مراد لیتے ہیں ۔ اس تاویل کے مطابق  ٱلَّذِينَ آمَنُوا سے مراد مکمل قسم کے مومن نہیں ہیں، بلکہ حضرت مسیح علیہ السلام کی نبوت کا اقرار کرنے والے (عیسائی ) مراد ہیں، اور یہود کے اوپر عیسائیوں کا غلبہ کسی قسم کے ’’نظام ‘‘ کا قیام نہیں ہے، بلکہ وہ محض ایک عمومی غلبہ ہے، جو یہود کے اوپر ان کے اس جرم کی دنیوی سزا کے طور پر مسلط کیا گیا ہے کہ انھوں نے حضرت مسیح کی نبوت کو نہیں مانا اور اپنے ارادے کی حد تک ، ان کو قتل کرنے کا جرم کیا ۔

’’ دین ‘‘ کے عربی زبان میں کئی معنی آتے ہیں مگر اس کا وہ اصل مفہوم جس کی وجہ سے اسلام کو دین کہا گیا ، وہ پستی اور جھکاؤہے:

الدِّينُ:‌الذُّلُّ (لسان العرب، جلد13، صفحہ 170)۔

دَانَهُ دِينًا، أَيْ أَذَلَّهُ وَاسْتَعْبَدَهُ (الصحاح للجوہری، جلد5، صفحہ 2118)۔

حدیث میں آیا ہے :

الكَيِّسُ‌مَنْ‌دَانَ نَفْسَهُ وَعَمِلَ لِمَا بَعْدَ المَوْتِ(سنن الترمذی،حدیث نمبر 2459)۔ یعنی، عقل مند وہ ہے جو اپنے نفس کو مغلوب کرے اور آخرت کی زندگی کے لیے عمل کرے ۔

دین دار بننا اصلاً کوئی سیاسی اور تمدنی واقعہ نہیں بلکہ وہ ایک بالکل ذاتی واقعہ ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک فرد خدا کے آگے اپنے آپ کو جھکا دے ، وہ اپنے نفس کو اس کے لیے زیرِ کر دے ، وہ اپنے تمام احساسات اور جذبات کو مکمل طور پر اس کے حوالے کر دے ۔ انھیں معنوں میں حضرت ابراہیم ؑ مکمل ’’ مسلم ‘‘ تھے، حالاں کہ انھوں نے اپنی زندگی میں کبھی کوئی ہمہ گیر نظام قائم نہیں کیا اور اسی اعتبار سے مکہ میں آخری رسول کے دین دار ہونے کا اعلان کیا گیا تھا حالاں کہ اس وقت تک نہ اسٹیٹ بنا تھا اور نہ اجتماعی احکام اترے تھے :

قُلِ اللهَ أَعْبُدُ مُخْلِصاً لَهُ دِينِي ۔ فَاعْبُدُوا مَا شِئْتُمْ مِنْ دُونِهِ (39:14-15)۔ یعنی، کہو ، میں تو اللہ ہی کی عبادت کرتا ہوں اس کے لیے اپنے دین کو خاص کرتے ہوئے تم اس کے سوا جس کی چاہے عبادت کرتے رہو۔

اسی  اعتبار سے اقامت صلوٰۃ اور ایتائے زکوٰۃ کو دین قیم کہا گیا ہے (البینۃ، 98:5)۔ حالاں کہ ظاہر ہے کہ یہ کل دین نہیں ہے۔

جب دین داری کی یہ کیفیت کسی کے اندر پیدا ہوتی ہے تو قدرتی طور پر اس کی عملی زندگی بھی اس سے متاثر ہوتی ہے ، اس کو جن معاملات سے سابقہ پیش آتا ہے ان میں وہ دوسرے طریقوں کوچھوڑ کر خدا کے پسند کیے ہوئے طریقے کو اختیار کرلیتا ہے ۔ اس کی خارجی زندگی ، اس کی اندرونی حوالگی کی تصویر بن جاتی ہے ۔ اس کے لیے نا قابل تصور ہو جاتا ہے کہ اپنے اختیار کو کسی ایسے کام میں استعمال کرے جو خدا کی پسند کے خلاف ہو ۔ اس لحاظ سے سیاست اور تمدن سب کچھ دین میں داخل ہے۔

پہلی چیز دین کی اصل حقیقت ہے اور دوسری چیز اس حقیقت کا وہ تقاضا جو حالات کی نسبت سے اہلِ دین پر عائد ہوتا ہے ۔ پہلی چیز لازماً ہر حال میں اور ہر شخص سے مطلوب ہے۔ اس کے بغیر کسی کی دین داری ، دین داری نہیں بنتی ۔ اس لحاظ سے تمام انبیا وصلحا مکمل معنوں میں دین دار تھے۔ مگر دین کے تمدنی اور اجتماعی تقاضے علی الا طلاق مطلوب نہیں ہیں۔ بلکہ حالات کی نسبت سے ان میں فرق ہوتا رہتا ہے ۔ اسی لیے اس دوسرے اعتبار سے مختلف زمانے کے دین داروں میں فرق رہا ہے ۔ کوئی اس کی تعمیل کر سکا اور کسی نے اس کی تعمیل نہیں کی ۔ کسی کے اوپر اس قسم کے احکام اترے اور کسی کو ایسے احکام دیے ہی نہیں گئے ۔

یہی وجہ ہے کہ دین ، اپنی فہرست کے اعتبار سے جن اجزا ء کے مجموعے کا نام ہے ، وہ شریعت میں الگ الگ لکھے ہوئے تو ملتے ہیں ۔ مگر ایسی کوئی آیت نہیں ملتی جس میں علی الاطلاق اس پوری فہرست کی تعمیل کا مطالبہ کیا گیا ہو ، الہٰ ، رب اور عبادت کی بحث میں ’’ جامع مفہوم ‘‘ کی جو آیات پیش کی گئی ہیں ۔ ان کی حقیقت پچھلے صفحات میں آپ ملاحظہ فرما چکے ہیں ۔ اب ان آیتوں پر بھی غور کر لیجیے جو دین کے جامع تصورکو ثابت کرنے کے لیے کتاب میں نقل کی گئی ہیں  :

پہلی آیت یہ ہے :

قاتِلُوا الَّذِينَ لا يُؤْمِنُونَ بِاللهِ وَلا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللهُ وَرَسُولُهُ وَلا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتابَ حَتَّى يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَدٍ وَهُمْ صاغِرُونَ (9:29)۔ یعنی، اہل کتاب میں جو لوگ نہ اللہ کو مانتے ہیں (یعنی اس کو واحد مقتدر اعلیٰ تسلیم نہیں کرتے ) نہ یومِ آخرت (یعنی یوم الحساب اور یوم الجزاء ) کو مانتے ہیں ، نہ ان چیزوں کو حرام مانتے ہیں جنھیں اللہ اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا ہے ، اور دین حق کو اپنا دین نہیں بناتے ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ وہ ہاتھ سے جزیہ ادا کریں اور چھوٹے بن کر رہیں۔

اوپر میں نے آیت کا جو ترجمہ دیا ہے وہ صاحب کتاب کا ترجمہ ہے ۔ اور اس کے بعد حسب ذیل سطریں درج ہیں:

’’ اس آیت میں ’’دین حق‘‘ اصطلاحی لفظ ہے جس کے مفہوم کی تشریح  واضح اصطلاح جل شانہ نے پہلے تین فقروں میں خود ہی کر دی ہے ۔ ہم نے ترجمہ میں نمبر لگا کر واضح کر دیا ہے کہ لفظِ دین کے چاروں مفہوم ان فقروں میں بیان کیے گئے ہیں اور پھر ان کے مجموعے کو دینِ حق سے تعبیر کیا گیا ہے ‘‘۔ (صفحہ 93)

اس استدلال میں آیت کے جو معانی نکالے گئے ہیں ، میرے علم کی حد تک وہ نہ کسی مفسر نے بیان کیے ہیں اور نہ آیت کے الفاظ اس کے متحمل ہیں ۔ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ کے فقرے سے دین کا ’’ پہلا ‘‘ اور ’’ دوسرا ‘‘ مفہوم نکالنا، یعنی یہ کہ وہ خدا کی ’’حاکمیت واقتدار اعلیٰ ‘‘ نہیں مانتے اور اس ’’حاکمیت کے مقابلے میں تسلیم واطاعت کا رویہ اختیار نہیں کرتے ، ویسا ہی استدلال ہے جیسے کچھ لوگ ایمان باللہ سے ایمان بالریاست کا مفہوم اخذکرتے ہیں ۔ اسی طرح  وَلَا يُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗ سے دین کا ’’ تیسرا مفہوم ‘‘— (وہ نظام فکرو عمل جو اس حاکمیت کے زیرِ اثر بنے ) ثابت کرنا محض الفاظ کی کھینچ تان ہے، نہ کہ علمی استدلال۔ پھر وَلَا يَدِيْنُوْنَ دِيْنَ الْحَقِّ میں دینِ حق کا مذکورہ بالا چاروں مفہوماتِ دین کے جامع کی حیثیت سے مذکور ہونا ، ایک ایسا دعویٰ ہے جس کے لیے سرے سے کوئی دلیل نہیں ۔ آیت میں کوئی بھی لفظی قرینہ ایسا نہیں ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ دین حق یہاں معانی چہار گانہ کے مجموعہ کے لیے استعمال کیا گیا ہے ۔

یہ آیت زیرِ بحث کتاب میں جو مخصوص مفہوم ثابت کرنے کے لیے نقل کی گئی ہے ، وہ تو یقیناً اس سے نہیں نکلتا اور نہ کوئی مفسر اس کا قائل ہے۔ مگر اس سے قطع نظر آیت کی صحیح تاویل کیا ہے، اس میں علما کا اختلاف ہے۔ ایک گروہ يَدِيْنُوْنَ دِيْنَ الْحَقِّ سے اسلام قبول کرنا مراد لیتا ہے (تفسیر القرطبی،جلد 8،صفحہ 110)۔ لیکن اس تاویل کی صورت میں آیت کے اندر ایک تضاد پیدا ہو رہا ہے ۔ اس کے مطابق اہل کتاب سے جنگ چھیڑنے کی وجہ یہ قرار پاتی ہے کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کو اپنا دین نہیں بناتے ۔ جب جنگ چھیڑنے کی وجہ یہ ہے تو اسی بنیاد پر جنگ کا خاتمہ بھی ہونا چاہیے۔ یعنی یہ جنگ اس وقت رکنی چاہیے جب اہلِ کتاب دینِ حق کو قبول کر لیں یا لڑ کر ہلاک ہو جائیں جب ابتدائے جنگ کی بنیاد یہ ہے تو انتہائے جنگ کی بنیاد بھی قدرتی طور پر اسی کو ہونا چاہیے ۔ مگر آیت کہتی ہے کہ اگر وہ جزیہ دے کر سیاسی اطاعت قبول کر لیں تو جنگ روک دی جائے گی۔ دوسرے لفظوں میں، جنگ جب شروع ہو گی تو اس جرم کی بنا پر شروع ہو گی کہ اہل کتاب دین اسلام کو قبول کیوں نہیں کرتے مگر اس کے بعد صرف اس بنیاد پر روک دی جائے گی کہ انھوں نے جزیہ دینا منظور کر لیا ہے۔

 اس لیے آیت کی صحیح تاویل یہ ہے کہ یہاں يَدِيْنُوْنَ دِيْنَ الْحَقِّ کا فقرہ اہل دین کی سیاسی اطاعت قبول کرنے کے معنی میں آیا ہے ۔ لَا يُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْاٰخِرِ وَلَا يُحَرِّمُوْنَ مَا حَرَّمَ اللّٰهُ وَرَسُوْلُهٗتک ان کے ایمان نہ لانے کا ذکر ہے ۔ اور اس کے بعد وَلَا يَدِيْنُوْنَ دِيْنَ الْحَقِّ میں سیاسی اطاعت قبول نہ کرنے کا ۔ اہلِ کتاب کے لیے صحیح تو یہ تھا کہ وہ نبی آخر الزماں پر ایمان لاتے جس کی انھیں عرصہ سے بشارت دی جاتی رہی ہے ۔ مگر جب انھوں نے ایسا نہیں کیا تو دوسری متبادل صورت یہ تھی کہ وہ نبی کی سیاسی اطاعت پر راضی ہو جائیں۔

الْوَاجِبَ فِي الْمُشْرِكِينَ الْقِتَالُ أَوِ الْإِسْلَامُ، وَالْوَاجِبُ ‌فِي ‌أَهْلِ ‌الْكِتَابِ الْقِتَالُ أَوِ الْإِسْلَامُ أَوِ الْجِزْيَةُ (تفسير الرازی ، جلد16، صفحہ 25)۔مگر اس دوسری صورت پر بھی وہ آمادہ نہیں ہوئے ۔ اب چوں کہ انھیں اختیار کاحق صرف پہلی صورت کے بارے میں ہے ۔ اور جہاں تک دوسری صورت کا تعلق ہے ۔ وہ لازماً مطلوب ہے اس لیے حکم دیا گیا کہ ان سے جنگ کر کے انھیں اس پر مجبور کرو۔

پہلے فقرے میں جس ایمان اور تحریم ما حرم اللہ کا ذکر ہے، اس سے بعض لوگوں نے موسوی شریعت پر ان کے ایمان وعمل کا فقدان مراد لیا ہے اور بعض نے آخری رسول کی شریعت پر ۔ مگر ان دونوں میں کوئی تضاد نہیں ہے ۔ کیوں کہ اگر وہ اپنے دین پر واقعی ایمان رکھنے والے ہوتے تو ان کا ایمان لازماً انھیں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ایمان تک پہنچاتا۔ کیوں کہ پچھلے تمام انبیاء نے آپ کی بشارت دی اور اپنی امتوں کو آپ کے اتباع کا حکم دیا۔

 لَوْ كَانُوا مُؤْمِنِينَ بِمَا بِأَيْدِيهِمْ ‌إِيمَانًا ‌صَحِيحًا لَقَادَهُمْ ذَلِكَ إِلَى الْإِيمَانِ بِمُحَمَّدٍ، صَلَوَاتُ اللهِ عَلَيْهِ، لِأَنَّ جَمِيعَ الْأَنْبِيَاءِ الْأَقْدَمِينَ بَشَّرُوا بِهِ، وَأَمَرُوا بِاتِّبَاعِهِ (تفسير ابن كثير ، جلد4، صفحہ 132)۔

تفسیروں میں يَدِيْنُوْنَ دِيْنَ الْحَقِّ کے بارے میں یہ رائے بھی منقول ہوئی ہے :

وَقَالَ أَبُو عُبَيْدَةَ:مَعْنَاهُ وَلَا ‌يُطِيعُونَ طَاعَةَ أَهْلِ الْإِسْلَامِ، وَكُلُّ مَنْ كَانَ فِي سُلْطَانِ مَلِكٍ فَهُوَ عَلَى دِينِهِ وَقَدْ دَانَ لَهُ وَخَضَعَ( البحر المحيط فی التفسير ، جلد5، صفحہ400)۔ یعنی، ابو عبیدہ کا قول ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ مسلمانوں کی اطاعت قبول نہیں کرتے۔ اور جو بھی کسی بادشاہ کے زیرِ اقتدار ہو،تو وہ اس کے دین میں ہے اور اس کے متعلق کہا جائے گا کہ دَانَ لَہ۔

اسی تاویل کو ابن جریر طبری نے اختیار کیا ہے ۔ لکھتے ہیں :

وَلَا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ. يقولُ: ولا يُطيعون الله طاعة الحقِّ. يعنى: أنهم لا يُطيعون طاعة أهل الإسلامِ، مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ:وهم اليهودُ والنصارى.وكلُّ مُطِيعٍ مَلِكًا أو ‌ذا ‌سلطانٍ، فهو دائنٌ له. يقال منه: دانَ فلانٌ لفلانٍ، فهو يَدِينُ له دِينًا (تفسير الطبری، جلد، 11، صفحہ 406)۔ یعنی، وَلَا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّکا مطلب یہ ہے کہ وہ ٹھیک ٹھیک اللہ کی اطاعت اختیار نہیں کرتے اس سے مراد یہودونصاریٰ ہیں ۔ اور جو بھی کسی  بادشاہ یا حاکم کے ماتحت ہو تو وہ اس کے دین میں ہے ۔ عربی زبان میں دَانَ یَدِینُ اس مفہوم کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔

اس تشریح کے مطابق آیت کا مطلب یہ ہواکہ آخری رسول پر ایمان نہ لانے اور خدائی مذہب کی تعلیمات چھوڑنے کے بعد ، ان کے لیے نجات کی صورت یہ تھی کہ وہ دین حق کی سیاسی اطاعت قبول کرلیں مگر اس کے لیے بھی وہ تیار نہیں ہوئے ۔ جہاں تک پہلی چیز کا تعلق ہے ، اس کے لیے تو انھیں مجبور نہیں کیا جا سکتا، مگر آخری  چیز کے لیے تو بہر حال انھیں مجبور کیا جائے گا ۔ اور اس وقت تک ان سے جنگ کی جائے گی جب کہ وہ اسلامی ریاست کی سیاسی ماتحتی پر راضی ہو جائیں ۔

اس کے بعد پانچ آیتیں ایک خاص ترتیب سے نقل کر کے ان سے ایک مرتب نتیجہ نکالا گیا ہے میں یہ پورا حصہ بعینہ یہاں نقل کرتا ہوں:

1۔       اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللّٰهِ الْاِسْلَام (3:19)۔ یعنی،اللہ کے نزدیک دین تو دراصل اسلام ہے ۔

2۔     وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلامِ دِيناً فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الْآخِرَةِ مِنَ الْخاسِرِينَ (3:85)۔ یعنی، اور جو ’’ اسلام‘‘ کے سوا کوئی اور دین تلاش کرے گا ۔ اس سے وہ دین ہر گز قبول نہ کیا جائے گا ۔

3۔      هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْكَرِهَ الْمُشْرِكُونَ(9:33)۔ یعنی، وہ اللہ ہی ہے جس نے اپنے رسول کو صحیح رہنمائی اور دین حق کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ وہ اس کو تمام دین پر غالب کر دے اگرچہ شرک کرنے والوں کو یہ کتنا ہی نا گوار ہو ۔

4۔      وَقاتِلُوهُمْ حَتَّى لا تَكُونَ فِتْنَةٌ وَيَكُونَ الدِّينُ كُلُّهُ لِلهِ (8:39)۔ یعنی، اور تم ان سے لڑو یہاں تک کہ فتنہ باقی نہ رہے اور دین بالکلیہاللہ کے لیے ہو جائے۔

5۔        إِذا جاءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُ ۔ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللهِ أَفْواجاً ۔ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كانَ تَوَّاباً (110:1-3)۔ یعنی، جب اللہ کی نصرت آگئی اور فتح نصیب ہو چکی اور تم نے دیکھ لیا کہ لوگ فوج در فوج اللہ کے دین میں داخل ہو رہے ہیں تو اپنے رب کی حمدوثنا اور اس کی تسبیح کرو اور اس سے درگزرکی درخواست کرو وہ بڑا معاف کرنے والا ہے ۔

ان سب آیات میں دین سے پورا نظامِ زندگی اپنے تمام اعتقادی ، نظری ، اخلاقی اور عملی پہلوؤں سمیت مراد ہے ۔

پہلی دو آیتوں میں ارشاد ہوا ہے کہ اللہ کے نزدیک انسان کے لیے صحیح نظام زندگی صرف وہ ہے جو خود اللہ ہی کی اطاعت وبندگی (اسلام ) پر مبنی ہو۔ اس کے سوا کوئی دوسرا نظام جس کی بنیاد کسی دوسرے مفروضہ اقتدار کی اطاعت پر ہو مالکِ کائنات کے ہاں ہر گز مقبول نہیں ہے اور فطرتاً نہیں ہو سکتا،اس لیے کہ انسان جس کا مخلوق ، مملوک اور پروردہ ہے اور جس کے ملک میں رعیت کی حیثیت سے رہتاہے وہ تو کبھی یہ نہیں مان سکتا کہ انسان خود اس کے سوا کسی دوسرے اقتدار کی بندگی واطاعت میں زندگی گزارے اور کسی دوسرے کی ہدایات پر چلنے کا حق رکھتا ہے ۔

تیسری آیت میںفرمایا گیا ہے کہ اللہ نے اپنے رسول کو اس صحیح وبر حق نظامِ زندگی، یعنی اسلام کے ساتھ بھیجا ہے اور اس کے مشن کی غایت یہ ہے کہ اس نظام کو تمام دوسرے نظاموں پر غالب کر کے رہے ۔

چوتھی آیت میں دینِ اسلام کے پیروؤں کو حکم دیا گیا ہے کہ دنیا سے لڑو اور اس وقت تک دم نہ لو جب تک فتنہ یعنی ان نظامات کا وجود دنیا سے مٹ نہ جائے جن کی بنیاد خدا سے بغاوت پر قائم ہے اور پورا نظامِ اطاعت وبندگی اللہ کے لیے خالص نہ ہو جائے۔

’’ پانچویں آیت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس موقع پر خطاب کیاگیا ہے جبکہ 23سال کی مسلسل جدوجہد سے عرب میں انقلاب کی تکمیل ہو چکی تھی ، اسلام اپنی پوری تفصیلی صورت میں ایک اعتقادی وفکری ، اخلاقی  وتعلیمی ، تمدنی ومعاشرتی اور معاشی وسیاسی نظام کی حیثیت سے عملاً قائم ہو گیا تھا اور عرب کے مختلف گوشوں سے وفد پر وفد آکر اس نظام کے دائرے میں داخل ہونے لگے تھے ، اس طرح جب وہ کام تکمیل کو پہنچ گیا جس پرمحمد صلی اللہ علیہ وسلم کو مامور کیاگیا تھا تو آپ سے ارشاد ہوتا ہے کہ اس کارنامے کو اپنا کارنامہ سمجھ کر کہیں فخر نہ کرنے لگنا، نقص سے پاک بے عیب ذات اور کامل ذات صرف تمہارے رب ہی کی ہے۔ لہٰذا اس کا ر عظیم کی انجام دہی پر اس کی تسبیح اور حمدو ثنا کرو اور اس ذات سے درخواست کرو کہ مالک اس 23 سال کے زمانہ خدمت میں اپنے فرائض ادا کرنے میں جو خامیاں اورکوتاہیاں مجھ سے سر زد ہو گئی ہوں انھیں معاف فرما دے‘‘۔  (صفحہ 94-95)

اوپر کے اقتباس میں اگر یہ بات کہی گئی ہوتی تو ہمیں اس سے اختلاف نہیں تھا کہ دین ، اپنی فہرست احکام کے لحاظ سے ، ان ساری چیزوں کا نام ہے جو زندگی کے مختلف انفرادی واجتماعی معاملات کے لیے رسول نے اپنے پورے دورِ رسالت میں بتائے ہیں ۔ اور اس لحاظ  سے دین کا لفظ سارے احکامِ اسلامی کا عنوان ہے ۔ یہ ایک تسلیم شدہ بات ہے جس سے اختلاف کا کوئی سوال نہیں ( حوالہ کے لیے ملاحظہ ہو، تفسیر خازن، جلد 1، صفحہ 278)۔

مگر یہاں جو بات کہی گئی ہے وہ یہ نہیں ہے ۔ یہاں یہ کہا گیا ہے کہ دین اسٹیٹ کاایک مکمل نظام ہے ۔ اور اسی حیثیت سے وہ ہم سے مطلوب ہے ۔ رسول اسی لیے آتا ہے اور اس کے مشن کی غایت یہی ہے کہ اس پورے نظام کو دوسرے تمام نظاموں پر غالب کر دے ۔ یہی وہ انقلابی کام ہے جو پیغمبر نے اپنے دورِ رسالت میں انجام دیا اور یہی وہ انقلابی کام ہے جواب ہمیں ساری دنیامیں انجام دینا ہے ۔

دین یادینی مشن کے اسی تصور پر ہم کو اعتراض ہے ۔ دوسرے لفظوں میں اسٹیٹ یا  نظام قائم کرنے کے پہلو کو اصل دعوت نبوت کے طور پر پیش کرنا اور یہ کہنا کہ انبیا ء اول روز سے اسی دعوے کے ساتھ اپنا کام شروع کرتے تھے، صحیح نہیں ۔ زیرِ بحث کتاب پر ہماری پوری تنقید کا خلاصہ یہی ہے کہ جو چیزیں بعد از ایمان مختلف پہلوئوں سے دین میں شامل ہوتی ہیں ان کو اس کتاب میں اصل دعوت رسالت کی حیثیت سے پیش کر دیا گیا ہے ۔ اور اسی کے متعلق ہمارا کہنا ہے کہ یہ کسی آیت سے ثابت نہیں ہوتا۔

پہلی دونوں آیتیں سورہ آل عمران کی ہیں اور دونوں در اصل یہ بتانے کے لیے آئی ہیں کہ اب قیامت تک کے لیے خدا کے یہاں مقبول اور ذریعہ نجات دین صرف ’’اسلام ‘‘ ہے۔ چناچہ پہلے فقرے کے فوراً بعد ارشاد ہوتا ہے :

وَمَا اخْتَلَفَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتابَ إِلَاّ مِنْ بَعْدِ مَا جاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْياً بَيْنَهُمْ وَمَنْ يَكْفُرْ بِآياتِ اللهِ فَإِنَّ اللهَ سَرِيعُ الْحِسابِ(3:19) ۔ یعنی، اور اہل کتاب نے ( دین اسلا م سے ) جو اختلاف کیا تو ایسی حالت کے بعد کہ ان کو علم پہنچ چکا تھا۔ محض ایک دوسرے سے بڑھنے کے سبب سے۔

یعنی وہ دین اسلام کی آخری مقبول اور مستند حیثیت پر جو اعتراض کر رہے ہیں وہ محض ان کی سر کشی ہے ورنہ پچھلے انبیاء کی معرفت جو کچھ انھیں بتایا جا چکا ہے اس کی بنا پر وہ اس کی اس حیثیت کو خوب جانتے ہیں ۔ آیت کا یہی مفہوم مفسرین نے لیا ہے ۔ میں دو حوالے نقل کرتا ہوں :

’’إِنَّ الدِّينَ عِندَ اللهِ الإِسْلامُ‘‘، يعني أنَّ الدِّينَ المَرْضِيَّ عِندَ اللهِ هو الإسلامُ، كما قال تعالى: وَرَضِيتُ لَكُمُ الإِسْلامَ دِينًا، وفيه ردٌّ على اليَهودِ والنَّصارى، وذلكَ لَمّا ادَّعتِ اليَهودُ أ نَّه لا دِينَ أفضلُ من اليَهوديَّةِ، وادَّعتِ النَّصارى أنَّه لا دِينَ أفضلُ من النَّصرانيَّةِ، رَدَّ اللهُ عليهم ذلكَ، فقال:إنَّ الدِّينَ عِندَ اللهِ الإِسلامُ(تفسير الخازن، جلد، 1، صفحہ 234)۔ یعنی، ’’اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللہِ الْاِسْلَامُ‘‘ یعنی اللہ کا پسندیدہ دین صرف اسلام ہے۔ جیسا کہ دوسری جگہ ارشاد ہوا ہے وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا اور اس میں یہود و نصاری کی تردید ہے ، یہودیوں کا کہنا تھا کہ یہودیت سب سے افضل دین ہے، نصاریٰ کا کہنا تھا کہ نصرانیت سب سے افضل دین ہے، اللہ تعالیٰ نے کہا:نہیں۔ اللہ کے نزدیک تو دین صرف اسلام ہے۔

2۔ ’’اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللہِ الْاِسْلَامُ‘‘ أي: لا دِينَ مَرْضِيَّ عِندَ اللهِ تعالى سِوى الإِسلامِ (روح المعانی، جلد2، صفحہ 103)۔ یعنی، ’’اِنَّ الدِّيْنَ عِنْدَ اللہِ الْاِسْلَامُ‘‘ کا مطلب ہے، اللہ کے نزدیک پسندیدہ دین اسلام کے سوا کوئی اور نہیں۔

اسی طرح دوسری آیت کا اصل موضوع بھی یہی ہے، کہ خدا کے یہاں مقبول دین کون سا ہے۔ چنانچہ اس فقرے کے فوراًبعد مسلسل کئی آیتوں میں یہی بات بیان کی گئی ہے کہ اسلام کو چھوڑ کر جو شخص کوئی دوسرا دین اختیار کرے گا وہ خدا کی نگاہ میں’’ کافر‘‘ قرار پائے گا اور آخرت میں عذاب کا مستحق ہوگا۔( آل عمران، 3:85-91)

آیت کا یہی مفہوم مفسرین نے لیا ہے ۔ میں دو حوالےنقل کرتا ہوں:

’’وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الإِسْلامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ‘‘، يعني أنَّ الدِّينَ المَقبولَ عندَ اللهِ هو دِينُ الإسلامِ، وأنَّ كُلَّ دِينٍ سِواهُ غيرُ مَقبولٍ عندَهُ (تفسير الخازن، جلد1،صفحہ 266)۔ یعنی، مقبول دین اللہ کے نزدیک صرف اسلام ہے اس کے سوا کوئی دین اس کے یہاں مقبول نہیں ہوگا۔

’’وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الإِسْلامِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ‘‘ بَيَّنَ تعالى أنَّ مَن تَحَرَّى بَعدَ مَبعَثِهِ صلَّى اللهُ تعالى عليهِ وسلَّم غَيرَ شَريعتِهِ، فهو غَيرُ مَقبولٍ مِنهُ (تفسیرروح المعانی ، جلد، 2، صفحہ 207)۔یعنی، اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا کہ آخری رسول کی بعثت کے بعد جو شخص آپ کی شریعت کے علاوہ کسی اور شریعت کو اختیار کرے گا تو وہ خدا کے یہاں قبول نہیں کی جائے گی ۔

گویاان دونوں آیتوں میں جو بات کہی گئی ہے، وہ اصلاً یہ نہیں ہے کہ انسان کے مختلف شعبہ ہائے حیات کے لیے صحیح نظام وہی ہے، جو خدا کے اقتدار کے تحت منظم کیا گیا ہو۔ بلکہ یہاں دیگر مذاہب کے اس دعویٰ کی تردید ہے کہ وہ خدا کے یہاں نجات کا ذریعہ ہیں، اور اعلان کیا گیا ہے کہ اب ہمیشہ کےلیے ذریعۂ نجات صرف وہ دین ہے، جو آخری رسول کی معرفت بھیجا گیا ہے۔

 تیسری آیت کے سلسلے میں دوسرے مقام پر ہم نے مفصل بحث کی ہے ۔ یہاں صرف ایک پہلوکی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔ جس سے اندازہ ہو گا کہ دین کا زیرِ بحث مخصوص تصور اس سے اخذ نہیں کیاجا سکتا۔

اس آیت کے سلسلے میں مصنف کی تفصیلی شرح جو دوسرے مقام پر نقل کی گئی ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں وہ پورے نظام دین کے نفاذ کو جس طرح اخذ کر رہے ہیں، وہ یہ ہے کہ ان کے نزدیک لِيُظْهِرَهٗ عَلَي الدِّيْنِ كُلِّهٖ کا مطلب یہ ہے کہ اطاعت کی تمام اقسام پر اس کو غالب کر دے ۔ یعنی اپنے نفس کی اطاعت ، رسم ورواج کی اطاعت ، قانون کی اطاعت ، حکومت کی اطاعت — ان ساری اطاعتوں کو ختم کر کے ان کی جگہ خدائی اطاعت قائم کر دے۔ لیکن غور کیجیے تو معلوم ہوگا کہ اس قسم کی ہمہ گیر اطاعت کو خارجی غلبہ سے کسی کے اوپر طاری نہیں کیا جاسکتا ۔ مثلاً نفس کی اطاعت، کیا فوج اور پولیس کے ذریعہ کسی سے چھڑائی جا سکتی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ ’’غلبہ ‘‘کا موضوع صرف کچھ ظاہری اطاعتیں بن سکتی ہیں۔ اطاعت کی ساری اجناس غلبہ کا موضوع نہیں بن سکتیں ۔

 اسی طرح اظہار دین کا واقعہ جس طرح پیش آیا اس سے بھی اس کی تصدیق نہیں ہوتی۔ اس کا تعلق دو گروہوں سے تھا۔ ایک، مشرکین عرب جن سے اما السیف اما الاسلام        کا معاملہ کیا گیا، یعنی یا جنگ کرو یا اسلام لاؤ ، اور دوسرے اہل کتاب جن سے جزیہ لے کر انھیں ان کے مذہب پر چھوڑ دیا۔ گویا ایک گروہ کو مذہبی طور پر مغلوب کیا گیا اور دوسرے کو سیاسی طور پر۔ ظاہر ہے کہ دونوں میں سے کسی گروہ کے بارے میں بھی نہیں کہا جا سکتا کہ ان پر دین اس طرح قائم ہوا کہ اندر سے باہر تک ہر لحاظ سے دین کے تمام تقاضے اور اس کا سارا مطلوب ان کے اوپر نافذ کر دیا گیا تھا۔

 چنانچہ مفسرین نے یہاں عمومی غلبہ کا مفہوم مراد لیا ہے ، خواہ دیگر مذاہب پر یا دیگر مذاہب کے افراد پر ۔

’’لِيُظْهِرَهُ‘‘ ليظهر الرسول عليه السلام عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ على ‌أهل ‌الأديان كلهم. أو ليظهر دين الحق على كل دين(تفسير الكشاف، جلد2،صفحہ 265)۔ یعنی، رسول کو تمام اہل مذاہب پر غالب کر ے یا یہ کہ دین حق کو ہر دین پر غالب کرے ۔

’’لِيُظْهِرَهُ‘‘ ليعليه ’’عَلَى الدين كُلِّهِ‘‘  على ‌أهل ‌الأديان كلهم أو ليظهر دين الحق على كل دين (مدارک التنزیل للنسفی، جلد1، صفحہ 676)۔یعنی، رسول کو تمام اہل مذاہب پر غالب کر ے یا یہ کہ دین حق کو تمام دینوں پر غالب کرے۔

چوتھی آیت کے متعلق تفصیلی گفتگو آگے آرہی ہے جس سے معلوم ہوگا کہ زیرِ بحث تصور کو اس آیت میں صحیح طور پر چسپاں نہیں کیا جا سکتا۔ یہی وجہ ہے کہ اس آیت کی تشریح میں مصنف کے یہاں تضاد پیدا ہو گیا اور ان کو دو جگہ دو باتیں کہنی پڑیں ۔ زیرِ بحث کتاب میں چوں کہ مصنف کو دین کا وسیع اور جامع مفہوم ثابت کرنا تھا۔ اس لیے یہاں انھوں نے دعویٰ کر دیا کہ اس آیت میں ’’دین سے پورا نظام زندگی اپنے تمام اعتقادی، نظری، اخلاقی اور عملی پہلوؤں سمیت مراد ہے ۔ ‘‘(صفحه 94) مگر دوسری جگہ اس آیت سے مشن کا انقلابی مفہوم نکالتے ہوئے انھیں یاد آیا کہ اس میں جس دین کا ذکر ہے، اس کو وجود میں لانے کے لیے ’’قتال‘‘کا حکم دیا گیا ہے۔ یعنی لڑکر لوگوں کو دین پر لے آؤ۔ اس لیے اس آیت کو انقلابی مشن کا ماخذ بنانے کا مطلب یہ ہو گا کہ دین کے اعتقادی اور نظریاتی پہلوؤں کو بھی لڑ لڑ کر لوگوں سے منوایا جائے ۔ حالاں کہ ان چیزوں کے متعلق معلوم ہے کہ ہم کو نصیحت اور فہمایش کا حق ہے، نہ کہ جنگ کا۔ اس لیے دوسری جگہ دین ’’ محدود‘‘ مفہوم کا حامل ہو گیا۔ چنانچہ تفہیم القرآن میں اس آیت کی تشریح کرتے ہوئے انھوں نے اپنا موقف بدل دیا اور  وَيَكُونُ ٱلدِّينُ لِلهِ کا مطلب یہ بیان کیا کہ لوگ خواہ ایمان لائیں یا نہ لائیں مگر زمین پر ملکی قانون خدا ہی کا رہے اور اس کے لیے جنگ کی جائے ۔ (تفہیم القرآن، البقرۃ، آیت 193، حاشیہ 205)

اسی طرح آخری حوالہ (سورہ نصر) پر جو لمبی تقریر کی گئی ہے ، اس کا سورہ کے اصل الفاظ سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُ سے وہ غلبہ مراد ہے جو دشمنان اسلام پر خدا کے رسول کو ہوا۔ اور يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللهِ أَفْوَاجًا میں اس واقعہ کا ذکر ہے کہ غلبہ حاصل ہونے کے بعد لوگوں نے کثرت سے اسلام قبول کرنا شروع کر دیا۔ ابن عباس کی روایت ہے کہ فتح سے پہلے جب آخری رسول اور قریش کے درمیان شدید کشمکش جاری تھی ۔ عرب کے لوگ کہا کرتے تھے کہ اس کشمکش میں جو جیتے گا وہی حق پر ہے ۔ چنانچہ جب آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دشمنوں کو زیرِ کر کے ان کے اوپر غالب ہو گئے تو وہاں کے لوگ جوق در جوق اسلام لانے لگے ۔ اور اس طرح اسلام سیاسی اور عددی دونوں حیثیتوں سے طاقتور ہو گیا ۔ دوسرے لفظوں میں اسلام اس حیثیت میں ہو گیاکہ تبلیغ دین کا وہ کام آئندہ مسلسل جاری رہ سکے ۔ جس کو ختم رسالت کے بعد جاری رکھنا اللہ تعالیٰ کو لازمی طور پر مطلوب تھا۔ یہی وجہ ہے کہ خود صاحب وحی علیہ الصلوٰۃ والسلام اور آپ کے دوسرے قریبی ساتھیوں نے جب یہ سورہ سنی تو انھوں نے سمجھا کہ اب آپ کا وقت قریب آگیا ہے ۔

 یہاں میں تفسیروں کے چند اقتباس نقل کرتا ہوں جس سے اس تشریح کی وضاحت ہوتی ہے:

{إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ وَالْفَتْحُ} ‌‌النَّصْرُ:الْإِغَاثَةُ وَالْإِظْهَارُ عَلَى الْعَدُوِّ، وَالْفَتْحُ:فَتْحُ الْبِلَادِ، وَالْمَعْنَى:نَصْرُ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْعَرَبِ أَوْ عَلَى قُرَيْشٍ وَفَتْحُ مَكَّةَ… {وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ}… أَيْ:إِذَا جَاءَ نَصْرُ اللهِ إِيَّاكَ عَلَى مَنْ نَاوَاكَ وَفَتْحُ الْبِلَادِ وَرَأَيْتَ أَهْلَ الْيَمَنِ يَدْخُلُونَ فِي مِلَّةِ الْإِسْلَامِ جَمَاعَاتٍ كَثِيرَةً بَعْدَ مَا كَانُوا يَدْخُلُونَ فِيهِ وَاحِدًا وَاحِدًا وَاثْنَيْنِ اثْنَيْنِ (مدارک التنزیل للنسفی، جلد، 3، صفحہ 689-688)۔ یعنی، نصر کا مطلب ہے دشمن کے مقابلے میں مدد دینا اور فتح کا مطلب شہروں کو فتح کرنا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اہل عرب یا قریش کے مقابلے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خدا کی مدد ملی اور آپ نے مکہ فتح کیا۔   وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللهِ أَفْوَاجًا کا مطلب یہ ہے کہ جب تمہارے دشمنوں کے مقابلے میں تم کو خدا کی مدد پہنچی اور ملک فتح ہو گیا اور تم نے اہل یمن کو دیکھا کہ وہ دین اسلام میں بڑی بڑی جماعتوں کے ساتھ داخل ہو رہے ہیں۔جب کہ وہ پہلے ایک ایک دو دو کر کے اس میں داخل ہو تے تھے۔

يَدْخُلُونَ فِى دِينِ الله أيْ ملةَ الإسلامِ التي لا دينَ يضافُ إليهِ تعالَى غيرُهَا {أَفْوَاجاً} يدخلونَ أيْ يدخلونَ فيهِ جماعاتٍ كثيفةً كأهلِ مكةَ والطائفِ واليمنِ وهوازنَ وسائرِ قبائلِ العربِ وكانُوا قبلَ ذلكَ يدخلونَ فيهِ واحِداً واحِداً واثنينِ اثنينِ ( تفسير أبي السعود ، جلد9، صفحہ 208)۔ یعنی، يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللهِ أَفْوَاجًا کا مطلب یہ ہے کہ دین اسلام میں کثیر تعداد میں داخل ہو رہے ہیں ۔ جیسے اہل مکہ ، طائف، یمن ، ہوازن اور تمام قبائل عرب ، جو کہ اس سے پہلے ایک ایک دو دو کی تعداد میں اسلام لاتے تھے۔

والمُرادُ بدُخولِ النّاسِ في دِينِهِ تعالى أفواجًا، أي جَماعاتٍ كَثيرة، إسلامُهم من غيرِ قِتالٍ، وقد كانَ ذلك بينَ فَتحِ مَكّةَ ومَوتِهِ عليهِ الصّلاةُ والسّلام، وكانوا قَبلَ الفَتحِ يَدخُلونَ فيهِ واحدًا واحدًا واثنَينِ اثنَينِ ‘‘ ( تفسير روح المعاني، جلد15، صفحہ 492)۔ یعنی، اس سے مراد بغیر لڑائی کے لوگوں کا کثیر تعداد میں اسلام قبول کرنا ہے اور یہ واقعہ فتح مکہ اور آپ کی وفات کے درمیان ہوا۔ فتح سے پہلے لوگ ایک ایک دو دو کر کے اسلام قبول کرتے تھے۔

معلوم ہوا کہ اس سورہ میں جس چیز کا ذکر ہے ، وہ صرف مجیئت فتح اور دخول فی دین اللہ ہے ۔ یعنی خدا کی مدد سے فتح پانا اور لوگوں کا کثرت سے اسلام قبول کرنا ۔ اس فتح و نصرت کا پس منظر کیا تھا اس کا یہاں کوئی ذکر نہیں ہے۔ اس لیے ان آیات سے یہ مفہوم نکالنا کہ اس سے پہلے عرب میں دعوت رسالت کا جو کام ہوا وہ ایک مخصوص اسٹیٹ کا نظام قائم کرنے کی جد و جہد تھی اور یہ فتح و نصرت اسی انقلابی جد وجہد کی تکمیل ، یہ ایک مزید بات ہے جس کو الگ سے لاکر یہاں چسپاں کیا گیا ہے ۔ خود ان آیات میں دعوت رسالت کی یہ نوعیت بیان نہیں کی گئی ہے۔ نہ وہ دوسری جگہ کہیں صراحۃًمذکورہے جس کی بنیاد پر یہاں اس کو قیاس کیا جا سکے ۔ ایسی حالت میں اس استدلال کی مثال بالکل ایسی ہےجیسے کوئی شخص دعوتِ رسالت کی نوعیت یہ فرض کر لے کہ وہ عرب قوم کو مذہبی پیشواؤں اور جاگیر داروں کے اقتدار سے نکالنے کی جدو جہد تھی۔ ایسا شخص اپنے اس مخصوص نقطۂ نظر کو ان آیات کے ساتھ جو ڑ کر کہہ سکتا ہے کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ عرب کی قومی جد و جہد جو محمدصلی اللہ علیہ وسلم کی قیادت میں شروع ہوئی تھی، وہ فتح مکہ کے دن اپنی کامیابی تک پہنچ گئی اور اس کے بعد ملک کے وہ تمام لوگ جو سابق نظام کے تحت دبے ہوئے تھے ، وہ جوق در جوق آپ کے جھنڈے کے نیچے جمع ہونے لگے ۔ اگر یہ دوسرااستدلال صحیح نہیں ہے، تو یقیناً پہلا استدلال بھی صحیح نہیں ہو سکتا۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom

Ask, Learn, Grow

Your spiritual companion