تقابل

اوپر میں نے جو اسلام کی تشریح کی ہے ، اس کا ایک نمایاں پہلو یہ ہے کہ دین کی اصل حقیقت اور اس کا ظاہری ڈھانچہ دونوں اس میں اپنا صحیح مقام پا لیتے ہیں اور کوئی بھی مجروح نہیں ہوتا اور نہ اپنی واقعی حیثیت کو کھوتا۔ جب کہ زیرِ بحث تشریح میں ایسا نہیں ہے۔اس فرق کو میں چند مثالوں سے واضح کروں گا۔

نماز کی مثال

زیرِ بحث تعبیر کے مطابق دنیا میں مومن کو جو کام کرنا ہے، وہ یہ کہ خدا کے قانون کی حکومت قائم کرے۔ اس لیے قدرتی طور پر دین کے تمام اجزاء اسی اصل کا ضمیمہ بن جاتے ہیں۔ اور نماز کی حیثیت یہ ہو جاتی ہے کہ وہ ایک طرح کا ٹریننگ کورس ہے، جس کے ذریعہ اسلامی انقلاب کے سپاہی تیار کیے جاتے ہیں، ’’ اسلامی عبادات پر تحقیقی نظر ‘‘ نامی کتاب میں نماز کو’’ فرد کی تیاری کا پروگرام ‘‘ بتایا گیا ہے جس کے پانچ حصے ہیں:

1۔     آدمی کے ذہن میں اس حقیقت کے ادراک کو تازہ رکھنا کہ و ہ دنیا میں ایک خود مختار وجود نہیں ہے۔ بلکہ رب العالمین کا بندہ ہے۔ اور یہاں اسی حیثیت سے اس کو کام کرنا ہے ۔

2۔     بندہ کی حیثیت سے اسے فرض شناس بنانا، اور اس میں ادائے فرض کی عادت پیدا کرنا۔

 3۔    فرض شناس اور نا فرض شناس میں تمیز کرنا اور نا فرض شناس افراد کو چھانٹ کر الگ کر دینا۔

4۔     خیالات کا ایک پورا نظام، ایک پوری آئیڈیالوجی آدمی کے ذہن میں اتار دینا اور اس کو ایسا مستحکم کرنا کہ ایک پختہ سیرت بن جائے۔

5۔     آدمی میں یہ قوت پیدا کرنا کہ اپنے عقیدے اور اپنے علم و بصیرت کے مطابق جس طرز عمل کو صحیح سمجھتا ہو اس پر عمل کر سکے ۔ اور اپنے نفس و جسم کی تمام طاقتوں سے اس راہ میں کام لے سکے۔

نماز کے ساتھ جماعت کی شرط لگانے کا مقصد انھیں مقاصد کو اجتماعی سطح پر پیدا کرنا ہے۔

کیوں کہ:

’’مسلمان کے لیے یہ دنیا سخت جدوجہد ، مقابلہ اور کش مکش کا معرکہ کار زار ہے۔یہاں  خدا سے بغاوت کرنے والوں کے بڑے بڑے جتھے بنے ہوئے ہیں۔جو انسانی زندگی میں خود اپنے بنائے ہوئے قوانین کو پوری قوت کے ساتھ جاری کر رہے ہیںاور ان کے مقابلے میں مسلمان پر یہ ذمہ داری — بھاری کمر توڑ دینے والی ذمہ داری — ڈالی گئی ہے کہ یہاں خدا کے قانون کو پھیلائے اور جاری کرے۔ انسان کے بنائے ہوئے قوانین جہاں جہاں چل رہے ہیں انھیں مٹائے۔اور ان کی جگہ اللہ وحدہ لا شریک لہٗ کے قانون کا نظام زندگی قائم کیا جائے۔ یہ زبردست خدمت جو اللہ نے مسلمانوں کے سپرد کی ہے ۔ اس کو اللہ کے باغی جتھوں کے مقابلے میں کوئی اکیلا مسلمان انجام نہیں دے سکتا۔ اگر کروڑوں مسلمان بھی دنیا میں موجود ہوں۔ مگر الگ الگ رہ کر انفرادی کوشش کریں، تب بھی وہ مخالفین کی منظم طاقت کے مقابلے میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔ اس لیے نا گزیر ہے کہ وہ سارے بندے جو خدا کی عبادت کرنا چاہتے ہیں ایک جتھا بنیں ۔ اور مل کر اپنے مقصد کے لیے جدوجہد کریں۔ نماز انفرادی سیرت کی تعمیر کے ساتھ یہ کام بھی کرتی ہے ۔ وہ اس اجتماعی نظام کا پورا ڈھانچہ بناتی ہے۔ اس کو قائم کرتی ہے اور قائم رکھتی ہے۔اور اسے روزانہ پانچ مرتبہ حرکت میں لاتی ہے۔ تاکہ وہ ایک مشین کی طرح چلتا رہے ‘ ‘۔ (اسلامی عبادات پر تحقیق نظر، صفحات 41-45)

نماز کی اس تشریح میں جو فائدے بتائے گئے ہیں وہ کلیۃً غلط نہیں ہیں۔ مگر اس تشریح میں اصل بات غائب ہوگئی۔ نماز کی اصل حقیقت یہ ہے کہ وہ:

  • خدا کی یاد ہے:وَاَ قِمِ الصَّلٰوةَ لِذِكْرِيْ (2:14)۔
  • وہ خدا کے آگے جھکنا اور اپنے احساسات کی قربانی پیش کرنا ہے:الَّذِيْنَ هُمْ فِيْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَ (23:2)۔
  • وہ بندے کو ایک ایسے مقام پر پہنچانے کا ذریعہ ہے جہان بندہ خدا سے سرگوشی کرنے لگتاہے :إِذَا كَانَ أَحَدُكُمْ فِي صَلَاتِهِ فَإِنَّهُ ‌يُنَاجِي ‌رَبَّهُ (مسند احمد،حدیث نمبر 14099)۔
  • نماز خداسے ربط قائم کرکے اس سے دعاء و استعانت کا نام ہے:وَاسْتَعِيْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوةِ (2:45)۔
  • نماز میں مشغول رہ کر بندہ اپنے رب سے قربت کا تجربہ حاصل کرتا ہے ۔ جو مومن کے لیے سب سے بڑی نعمت ہے:وَاسْجُدْ وَاقْتَرِبْ (96:19)۔

مگر زیرِ بحث انقلابی تصور کے خانے میں یہ چیزیں کہیں بیٹھ نہیں رہی تھیں، انقلابی مشن سے ان کا کوئی جوڑ نہیں بنتا تھا۔ اس لیے نماز پر تحقیقی نظر ڈالنے کے باوجود نماز کا یہ اصل پہلو اس کی نگاہوں سے اوجھل ہو گیا۔ اس کی تصویر میں یہ رخ اس طرح غائب ہو گیا جیسے کوئی کیمرہ مین پیچھے سے فوٹو لے رہا ہو تو اس کے فوٹو میں آدمی کی پیٹھ اور دوسرے پچھلے حصے تو دکھائی دیں گے مگر اس کا چہر ااور اس کے آگے کا تمام وجود اس کی لی ہوئی تصویر میں نہیں آئے گا۔

جہاں تک ان دوسری خصوصیات کا تعلق ہے جن کا اوپر اقتباس میں ذکر ہے ، وہ حقیقی نماز کے ثمرات ہیں جو آپ سے آپ نماز کے اندر پیدا ہوتے ہیں۔ خدا سے کسی بندہ کا تعلق جڑنا دراصل ساری حقیقتوں کا اپنی صحیح ترین شکل میں باہم مل جانا ہے۔ اور جب حقیقتیں اپنی صحیح ترین شکل میں باہم مل جائیں تو اسی سے وہ تمام چیزیں پیدا ہوتی ہیں جن کو ہم خوبی یا صفات محمودہ سے تعبیر کرتے ہیں۔ کیوں کہ تما م خوبیاں دراصل حقیقتوں کے اتصال ہی کے لازمی نتائج ہیں۔ الیکٹرک فٹر بلب کو روشن نہیں کرتا اور نہ پنکھے کوچلاتا ، وہ صرف یہ کرتا ہے کہ ان چیزوں کا تعلق پاو ر ہاؤس سے جوڑ دیتا ہے۔ اس جوڑنے ہی کا یہ نتیجہ ہے کہ تمام چیزیں اپنی اپنی جگہ روشن اور متحرک ہوجاتی ہیں۔

مگر بات صرف اتنی ہی نہیں ہے ۔ انسان محض ایک بے جان مشین نہیں ہے ۔ بلکہ وہ ایک شعوری وجود ہے ۔ اس لیے جب وہ خدا سے تعلق قائم کرتا ہے تو یہ تعلق لازمی طور پر اس کے شعور کو بیدار کرتا ہے ، اور وہ اس سے کچھ چیزوں کا تقاضاکرتا ہے۔ وہ اس سے کہتا ہے کہ جس خدا سے تم ڈرتے ہو ، جس سے تم محبت کرتے ہو، جس سے قریب ہونے کی تمہارے اندر انتہائی آرزو ہے ، تم اپنی عملی سرگرمیوں میں اسے بھلا نہیں سکتے۔ عملی سرگرمیوں میں اگر خدا تمہیں یاد نہ رہتا ہو تو اس کا مطلب یہ ہے کہ مسجد میں بھی خدا تم کو یاد نہیں آیا۔کیوں کہ ممکن نہیں کہ ایک جگہ خدا یا د رہے او دوسری جگہ خدا بھول جائے۔نفسیات کی سطح پر اگر خدا کسی کو ملا ہے ۔ تو ناممکن ہے کہ اس کی عملی زندگی خدا کی یافت سے محروم ہو۔وہ لازماً اپنے ظاہری اعمال کو بھی مطلوبات الٰہی سے اسی طرح پر نور کرے گاجس طرح اس کا اندرونی وجود خدا سے منور ہوا ہے۔ دنیا میں اس کی زندگی جن جن نسبتوں سے متعلق ہوگی، ان تمام نسبتوں میں لازمی طور پر اس کا تعلق باللہ ظاہر ہوتا چلا جائے گا۔

اس طرح اس تعبیر میں بعض ثمرات و نتائج ( جو دراصل اضافی ہیں۔ کیوں کہ آدمی اگر کسی جزیرے میں تنہا ہو تو وہاں اس قسم کی انقلابی تربیت کی کوئی ضرورت نہیں) اس طرح نمایاں ہو کر سامنے آگئے گویا یہی اصل ہیں۔ اور جو اصل پہلو تھا وہ سرے سے اس تصویر میں اوجھل ہو کر رہ گیا۔

2۔ اس سلسلے کی دوسری بات یہ ہے کہ یہ تعبیر کسی ٹکراؤ کے بغیر پورے دین سے ہم آہنگ ہوجاتی ہے ۔ جب کہ زیرِ بحث تعبیر کو دینی ڈھانچہ میں اختلال پید اکیے بغیر اس کے اندر اسے فٹ نہیں کیا جا سکتا۔ اس کی ایک مثال اس تعبیر کا ’’  عملی شہادت ‘‘ کا مخصوص نظریہ ہے جس کو صرف اس لیے ایجاد کرنے کی ضرورت پیش آئی کہ اس کے بغیر اس تعبیر سے متاثر ذہن اس کام کو سمجھ نہیں سکتا تھا جس کو شہادت یا دعوت و تبلیغ کے عنوان کے تحت ہمارے اوپر فرض کیا گیاہے۔

عملی شہادت کا یہ نظریہ جس کا اوپر حوالہ دیا گیا۔ وہ یہ ہے کہ شہادت کے کام کے دو اجزاء ہیں۔ایک’’قولی شہادت‘‘ دوسرے ’’عملی شہادت‘‘ قولی شہادت زبان و قلم سے دین کی دعوت پیش کرنے کا نام ہے ۔ مگر صرف زبانی تبلیغ شہادت کی ادائیگی کے لیے کافی نہیں ہے ، بلکہ یہ بھی ضروری ہے کہ :

’’ ہم اپنی زندگی میں ان اصولوں کا عملا ً مظاہرہ کریں جن کو ہم حق کہتے ہیں۔ دنیا صر ف ہماری زبان ہی سے ان کی صداقت کا ذکر نہ سنے، بلکہ خود اپنی آنکھوں سے ہماری زندگی میں ان کی خوبیوں اور برکتوں کا مشاہدہ کرلے۔ وہ ہمارے برتاؤ میں اس شیر ینی کا ذائقہ چکھ لے ۔ جو ایمان کی حلاوت سے انسان کے اخلاق و معاملات میں پیدا ہوتی ہے۔ وہ خود دیکھ لے کہ اس دین کی رہنمائی میں کیسے اچھے انسان بنتے ہیں، کیسی عادل سوسائٹی تیار ہوتی ہے ۔ کیسی صالح معاشرت وجود میں آتی ہے، کس قدر ستھرا اور پاکیزہ تمدن پیدا ہوتا ہے ، کیسے صحیح خطوط پر علوم و ادب اور فنون کا نشو و نما ہوتا ہے۔ کیسا منصفانہ ، ہمدردانہ اور بے بضاع معاشی تعاون رونما ہوتا ہے۔ اور انفرادی و اجتماعی زندگی کا ہر پہلو کس طرح سدھر جاتا ہے ، سنور جاتاہے اور بھلائیوں سے مالا مال ہوجاتا ہے۔ اس شہادت کا حق اس طرح ادا ہو سکتا ہے کہ ہم فرداً فرداً بھی اور قومی حیثیت سے بھی اپنے دین کی حقانیت پر مجسم شہادت بن جائیں۔ ہمارے افراد کا کردار اس کی صداقت کا ثبوت دے۔ ہمارے گھر اس کی خوشبو سے مہکیں اور ہماری دکانیں اور کارخانے اس کی روشنی سے جگمگائیں، ہمارے ادارے اور ہمارے مدرسے اس کے نور سے منور ہوں، ہمارا لٹریچر اور ہماری صحافت اس کی خوبیوں کی سند پیش کرے۔ ہماری قومی پالیسی اور اجتماعی سعی و جہد اس کے برحق ہونے کی روشن دلیل ہو۔غرض ہم سے جہاں اور جس حیثیت میں بھی کسی شخص یا قوم کو سابقہ پیش آئے، وہ ہماری شخصی اور قومی کردار میں اس بات کا ثبوت پا لے کہ جن اصولوں کو ہم حق کہتے ہیں وہ واقعی حق ہیں۔ اور ان سے فی الواقع انسانی زندگی اصلح اور اعلیٰ اور ارفع ہوجاتی ہے‘‘۔

’’ اس شہادت کی تکمیل اگر ہو سکتی ہے تو صرف اس وقت جب کہ ایک اسٹیٹ انھیں اصولوں پر قائم ہوجائے۔ اور وہ پورے دین کو عمل میں لا کر اپنے عدل و انصاف سے ، اپنے اصلاحی پروگرام اور اپنے حسن انتظام سے ، اپنے باشندوں کی فلاح و بہبود سے ، اپنے حکمرانوں کی نیک سیرت سے ، اپنی صالح داخلی سیاست سے ، اپنی راستبازانہ خارجی پالیسی سے ، اپنی شریفانہ جنگ سے اور اپنی وفادارانہ صلح سے ساری دنیا میں اس بات کی شہادت دے کہ جس دین نے اس اسٹیٹ کو جنم دیا ہے وہ درحقیقت انسانی فلاح کا ضامن ہے اور اسی کی پیروی میں نوع انسانی کی بھلائی ہے۔ یہ شہادت جب قولی شہادت کے ساتھ مل جائے۔ تب وہ ذمے داری پوری طرح ادا ہوجاتی ہے جو امت مسلمہ پر ڈالی گئی ہے۔ تب نوع انسانی پر بالکل اتما م حجت ہوجاتاہے۔ اور تب ہماری امت اس قابل ہوسکتی ہے کہ آخرت کی عدالت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کھڑی ہو کر شہادت دے سکے کہ جو کچھ حضور نے ہم کو پہنچایا تھا وہ ہم نے لوگوں تک پہنچا دیا اور اس پر بھی جو لوگ راہ راست پر نہ آئے وہ اپنی کج روی کے خود ذمہ دار ہیں۔‘‘  (شہادت حق )

بظاہر شہادت حق کی یہ تعبیر بہت دلکش معلوم ہوتی ہے ۔ مگر مجھے یہ کہنے کے لیے معاف کیجیے کہ یہ نہ صرف شاعری ہے، بلکہ یہ خدا اور اس کے تمام رسولوں پر زبردست الزام بھی ہے۔ اگر شہادت حق یہی ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی رسول نے شہادت کا حق ادا نہیں کیا۔ کیوں کہ یہ تشریح شہادت کی ’’پوری طرح ‘‘ ادائیگی کے لیے اس بات کو ضروری قراردیتی ہے کہ ’’ پورے دین کو عمل میں لا کر‘‘ ان تمام احکام و ہدایات کا مکمل عملی مظاہرہ کیا جائے، جو انفرادی زندگی سے لے کراجتماعی معاملات حتی کہ بین الاقوامی مسائل تک کے لیے خدا کی شریعت میں موجود ہیں۔(۱) ان معنو ں میں معلوم انبیاء میں سے کسی ایک نے بھی اپنی قوم پر حجت تمام نہیں کی۔ اس کے برعکس، قرآن میں ہم دیکھتے ہیں کہ دورِ دعوت میں جب کہ اہل حق ابھی مظلوم ہیں اور صرف زبانی طور پر اپنا پیغام سنا رہے ہیں۔ اسی وقت محض اس تبلیغ لسانی کی بنیاد پر منکرین دعوت کو یہ تنبیہ دے دی گئی کہ اگر تم اپنے انکارکی روش پر قائم رہے تو یقیناً تم عذاب کے مستحق ہوجاؤ گے (ہود، 11:3)۔ اب اگر تکمیل شہادت اور اتما م حجت کے لیے پورے دین کو عملا ً بروئے کار لا کر دکھانا ضروری ہو تو اس قبل از وقت تنبیہ کے کوئی معنی نہیں ہو سکتے ۔

(۱) ’’عملی شہادت ‘‘ پر یہ تنقید دراصل محولہ بالا تعبیر کے پہلو سے ہے۔ جس میں شہادت کی مطلوبہ ادائیگی کے لیے اس بات کو ضروری قرار دیا گیا ہےکہ ایک مکمل اسٹیٹ کی حیثیت سے شریعت کا عملاً مظاہرہ کیا جائے ۔ ورنہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ شاہد حق کا اپنی ذاتی حیثیت میں باعمل ہونا اس کے اپنے عقیدے اور مسلک کا لازمی تقاضا ہے۔ جوشخص دوسروں کو آخرت سے ڈراتا ہے اور خود آخرت سے نہیں ڈرتا، دوسروں کو خدا پرستی کی تلقین کرتا ہے۔ مگر اس کی اپنی زندگی خدا پرستی کی روح سے خالی ہے، وہ داعی نہیں، ایک مسخرہ انسان ہے ، اس کی دعوتی جدوجہد محض کچھ الفاظ کی تکرار ہے۔ اور صرف الفاظ کی تکرارکسی کو نہ خدا کی نظر میں شاہد بنا سکتی اور نہ بندوں کی نظر میں ۔ شاہ اسماعیل شہید لکھتے ہیں:

’’واعظ بے عمل سد راہ طالب حق است کہ بسبب مداہنت درعمل کلام حق راد ر نظر ایشاں بے اعتبا ر می گرداند ‘‘ (منصب ِامامت ، صفحہ 16)۔

پھر یہی قولی تبلیغ ہے جس کے بعد ہجرت کا واقعہ پیش آتا ہے ۔ جو منکر ین دعوت کے خلاف اعلان برا ءت ہے۔

نبی ہجرت کرتا ہے تو اس کے معنی یہ ہوتے ہیں کہ اس نے اپنی امت دعوت پر اس حق کی شہادت دے دی جس کے لیے وہ بھیجا گیا تھا۔ مگر یہ ہجرت کسی عملی شہادت کے بعد نہیں ہوتی۔ مذکورہ بالا قسم کی عملی شہادت تو اسی وقت ممکن ہے جب زیرِ تبلیغ علاقے میں اجتماعی معاملات کا اختیار نبی کے ہاتھ میں آگیا ہو۔ اگر ایسا ہوجاتا تو ہجرت کی ضرورت ہی کیوں پیش آتی۔ ہجرت اسی لیے ہوتی ہے کہ مخاطب قوم نے نبی کو مطاع تسلیم نہیں کیا۔ ایسی حالت میں ان کے درمیان نہ اسلامی اسٹیٹ قائم ہونے کا سوال ہے اور نہ لوگوں کے سامنے قوانین شریعت کا عملی مظاہرہ کرنے کا ، مگر یہی ہجرت قوم کو عذاب کا مستحق بنا دیتی ہے۔

 اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کو انسانوں کے اوپر جو حجت قائم کرنا مطلوب ہے وہ صرف تبلیغی جدوجہد سے پوری ہوجاتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ہجرت کے بعد نبی کی مخاطب قوموں کو مستحق عذاب ٹھہرا کر انھیں ہلا ک نہ کیا جاتا۔ کیوں کہ ہجرت کسی عملی شہادت کے بعد نہیں ہوتی۔ بلکہ قولی شہادت کے بعد ہوا کرتی ہے ۔ بے شک آخری نبی کی ہجرت کا واقعہ دوسرے انبیاء سے کسی حد تک مختلف ہے۔ کیوں کہ آپ کی ہجرت کے بعد فوراً آپ کی قوم پر کوئی آسمانی عذاب نہیں آیا، بلکہ بعد کو مومنین کی تلوار سے منکرین نبوت کا خاتمہ کیا گیا۔ اس دوران میں آپ نے مدینہ پہنچ کر ایک اجتماعی نظام قائم کرنے کی کوشش فرمائی۔مگر مدینہ میں مسلمانوں کا اجتماعی نظام بنانے کی کوشش کارِ شہادت کی تکمیل کے لیے نہیں تھی ۔ شہادت کا کام تو نبی آخری حدتک مکہ میں کر چکے تھے۔ اوراس کام کی تکمیل ہی کا یہ نتیجہ تھا کہ ہجرت سے پہلے انھیں’’أَيُّهَا الْكَافِرُونَ‘‘(109:1) کے لفظ سے خطاب کیا گیا۔( کافرون) اس خطاب میں کسی پیدائشی    ’’ کفر‘‘ کا ذکر نہیں ہے، بلکہ اس کفر کا ذکر ہے جو شہادت کی مطلوبہ ادائیگی کے بعدمتحقق ہوتا ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ مشرکین مکہ کا جرم ہجرت ہی کے وقت متحقق ہوچکا تھا۔ نہ کہ وہ مدینہ کی اسلامی اسٹیٹ کے بعد متحقق ہوا۔ اس کے علاوہ یہ بھی ایک واقعہ ہے کہ مدینہ میں جو نظام بنا، وہ نہ صرف یہ کہ اہل مکہ کی نظروں سے بہت دور تھا۔ بلکہ اس قت تک اس نظام نے کوئی ایسی شکل بھی اختیار نہیں کی تھی جس کو مذکورہ بالا معنوں میں عملی شہادت کہا جا سکے۔ غزوۂ بدر جس میں مشرکین کے اکثر سردار مارے گئے اور جو قرآن کی تصریح کے مطابق ’’ مومنین کے ہاتھوں‘‘ اہل مکہ کے اوپر خدا کا عذاب تھا (9:14)۔ وہ ہجرت کے صرف ڈیڑھ سال بعد واقع ہوا۔(۱) جب کہ زندگی کے بہت سے پہلوؤں کے متعلق شریعت کے احکام ابھی سرے سے نازل ہی نہیں ہوئے تھے۔ اور مدینہ کی ابتدائی ریاست ، یقینی طور پر ان تمام باتوں کا عملی مظاہرہ نہیں کر سکی تھی ، جس کو اوپر کی تشریح  میں ضروری قرار دیا گیا ہے ۔ پھر کیا شہادت کی تکمیل سے پہلے انھیں ’’ راہ راست پر نہ آنے ‘‘ کا مجرم ٹھہرا کر سزا دے دی گئی۔کیا رسولوں نے وہ کام آخری حدتک انجام نہیں دیاجس کے لیے وہ بھیجے گئے تھے، اور اتمام حجت کے بغیر ہی اللہ تعالیٰ نے ان کی مخاطب قوموں کو ہلاک کر دیا۔

(۱) آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نبوت کے تیرھویں سال ربیع الاول کے مہینے میں مدینہ پہنچے ۔ اگلے سال رمضان 2ھ میں بدر کا معرکہ پیش آیا۔ سن عیسوی کے اعتبار سے : قبا میں ورود 20ستمبر 622  —غزوہ بدر 13 مارچ 624 )

پھر یہی نہیں ، بلکہ آپ کے عملی شہادت کے فلسفہ نے خود شہادتِ حق کے تصور کو بدل دیا۔ اس نے شہادت کے کام کے رخ کو آخرت کے عذاب و ثواب سے ہٹا کر دنیا کے عذاب و ثواب کی طرف کر دیا ہے ۔ شہادت کا اصل مقصد آخرت کی حقیقتیں دکھانا ہے۔ مگر اس تعبیر نے شہادت کے کام کو ایک ایسا کام بنا دیا جس کا مقصد یہ ہے کہ لوگوں کو دنیا کی حقیقتیں دکھائی جائیں۔اوپر جو اقتباس میں نے درج کیا ہے ، اس کو ایک بار اور پڑھ جائیے— اگر یہ یوٹو پیا بالفرض عمل میں آجائے اور آپ فی الواقع زندگی کے تمام بین الانسانی اور بین الاقوامی پہلوؤں میں وہ مکمل شہادت دے ڈالیں، جس کا اس عبارت میں ذکر کیا گیا ہے ، تو مجھے بتائیے کہ آپ کس چیز کی شہادت دیں گے— صرف اس بات کی شہادت کہ اسلام اخلاق و معاملات کو درست کرتا ہے۔ اس سے خوش حالی اور انصاف کی فضا پیدا ہوتی ہے۔ وہ معاشرتی بہبود اور سیاسی راستبازی وجود میں لاتا ہے۔ اگر تم نے اسلامی نظام کو اختیار نہ کیا تو تمہاری سیاست و معاشرت بگڑ جائیگی، تم آپس میں لڑ کر تباہ ہوجاؤ گے۔ غور کیجیے کیا یہی وہ چیز ہے جس کی ہمیں دنیا کے سامنے گواہی دینی ہے۔ کیا ہزاروں رسول صرف اس لیے بھیجے گئے تھے کہ وہ خدا پرستانہ عقائد کے دنیوی نتائج لوگوں کو دکھادیں۔ قرآن کی تصریحات کے مطابق شہادت کا اصل کام اہل دنیا کو یہ بتانا ہے کہ   ’’اسلام ہی انسان کی اخروی فلاح کا ضامن ہے‘‘۔ مگر آپ نے اپنی جدوجہد کی آخری منزل پرپہنچنے کے بعد بھی جس چیز کی شہادت دی وہ یہ کہ اسلام ہی انسان کی دنیوی فلاح کا ضامن ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ صرف یہ واقعہ زیرِ بحث تعبیر کے غلط ہونے کاکافی ثبوت ہے کہ وہ اسلام کو زمینی مسائل کا موضوع بنا کر رکھ دیتی ہے، اور اخروی مسائل کا ذکر اگر آتا ہے، تو اس حیثیت سے گو یا وہ کانٹ کی حکمت عملی(practical wisdom) یا والیٹر کا اخلاقی مفروضہ ہے، جس کا مقصد ایک ایسی ذہنی بنیاد فراہم کرنا ہے جو دنیا کی زندگی کو بہتر بنانے میں مدد گار ہو سکے۔

’’عملی شہادت‘‘ کا یہ فلسفہ الگ سے وجود میں نہیں آیا۔ یہ دراصل اسلام کی مذکورہ بالا تعبیر کا لازمی نتیجہ ہے۔ جب آپ نے شہادت کو ایک ایسا کام قرار دیا جو عملا ًکر کے لوگوں کو دکھایا جاتا ہے تو کوئی ایسی چیز ہونی چاہیے تھی، جس کو ’’ عمل ‘‘ کی شکل دی جا سکے ۔ ظاہر ہے کہ عقائد یا تقوی اور خشوع کی کیفیات وہ چیزیں نہیں ہیں، جن کا عملا ً مظاہرہ کیا جائے۔ اور نہ جنت اور جہنم کسی کو دکھائی جا سکتی ہیں۔

عملی مظاہرے کی چیز تو صرف وہ چلتی پھرتی زندگی ہے، جو دنیا میں نظر آتی ہے۔ اس لیے شہادت کی تشریح کرتے وقت آپ کا ذہن قدرتی طورپر دنیوی واقعات کی طرف مڑ گیا۔ ایک ایسا کام جس کا مقصد اخروی واقعات کی شہادت تھا، وہ آپ کے غلط تصور کی وجہ سے دنیوی واقعات کی شہادت بن گیا۔ کیوں کہ اُخروی حقیقتوں کی تو صرف خبر ہی دی جاسکتی ہے۔ دکھانے کی  چیز عالم ظاہر کے واقعات ہیں، نہ کہ عالم باطن کے واقعات۔

پھر اپنی فکر کو اسلام کے مجموعے میں فٹ کرنے کے لیے بھی اس قسم کی تفسیر ضروری تھی۔ جب بھی آپ اسلام کی کوئی تشریح کریں تو ضروری ہوگا کہ اسلام کے تمام معلوم و منصوص اجزاء کواس میں سموئیں، اور اپنی تشریح سے انھیں ہم آہنگ کریں۔ اس کے بغیر آپ کی تشریح صحیح اسلامی تشریح نہیں کہی جا سکتی۔ یہ ضرورت بھی آپ کے ذہن کو عملی شہادت کے فلسفہ تک لے گئی۔ تاکہ یہ ثابت ہو سکے کہ شہادت کی ادائیگی کے لیے ایک ہمہ گیر انقلا ب برپا کرنا ضروری ہے ۔ اس کے بغیر اس کام کی تکمیل نہیں ہو سکتی، جو شہادت کے عنوان سے ہمارے اوپر فرض کیا گیا ہے۔اسلامی تحریک کو دنیا کا نظام بدل کر ایک نیا نظام قائم کرنے کی تحریک قرار دینے کے بعد تبلیغ و شہادت کےحکم کی ایسی تشریح کرنی ضروری تھی، جس میں تبلیغ کرنے اور نظام بدلنے کا فرق مٹ جائے اور دونوں ایک نظر آنے لگیں۔ مگر خدا کا دین ایک ایسا ہم آہنگ کل ہے جس کو اس نے کمال درجہ حکمت کے ساتھ باہم متحد کیا ہے ۔ اس کے کسی جزء کی تشریح میں اگر آپ غلطی کریں تو وہ فورا ً اس کے دوسرے اجزاء سے ٹکرا جائے گی۔ اور یہ ٹکراؤ اس بات کا قطعی ثبوت ہو گاکہ آپ کی تعبیر خدا کے دین کی صحیح تعبیر نہیں ۔

3۔ پھر اسی کا نتیجہ ہے کہ دینی حقیقتوں کے اظہار کے لیے اس کو جو بہترین الفاظ ملے وہ سب سیاسی نوعیت کے تھے۔ مثلا ً معراج اسلامی تاریخ کا مشہور ترین واقعہ ہے ۔ قرآن سے معلوم ہوتاہے کہ اس کا مقصد ’’ آیات اللہ‘‘ کا مشاہدہ تھا۔ حدیث میں اس کی تفصیل ملتی ہے کہ اس سفر میں آپ کو عالم مادی کے پیچھے خدا کی اس دوسری دنیا کا مشاہدہ کرایا گیا ، جہاں فرشتے ہیں، جہاں جنت اور دوزخ ہے ، جہاں مرنے کے بعد انسان پہنچا دیا جاتاہے ۔ اس سفر میں آپ کو خدا وند ذوالجلال سے ہم کلامی کا شرف بخشا گیا، گناہوں کی بخشش کی امید دلائی گئی، یہ بتایاگیا کہ برائی کرنے والے کو تو اتنا ہی بدلہ دیا جاتا ہے جتنا اس نے کیا ہے ۔ مگر نیکی کرنے والے کو اس کے اصل عمل سے زیادہ انعام ملتا ہے ۔   

مگر زیرِ بحث تعبیر کے لیے معراج کے اس تصور میں کچھ زیادہ تسکین کا سامان نہیں۔ اس کو شکایت ہے کہ —’’معراج کی رات کی اہمیت بعض دینیاتی بحثوں میں گم ہو کر رہ گئی ہے۔ کم لوگوں کو معلوم ہے کہ اس رات میں انسانیت کی تعمیر کے لیے کتنا عظیم الشان کارنامہ انجام پایا۔‘‘ اس سفر کی نوعیت کا تعارف یہ ذہن مندرجہ ذیل الفاظ میں کرتا ہے۔

’’ اصل بات یہ ہے کہ یہ کرۂ زمین جس پر ہم آپ رہتے ہیں، خدا کی عظیم الشان سلطنت کا ایک چھوٹا سا صوبہ ہے۔ اس صوبہ میں خدا کی طرف سے جو پیغمبر بھیجے گئےہیں ان کی حیثیت کچھ اس طرح کی سمجھ لیجیے، جیسے دنیا کی حکومتیں اپنے ماتحت ملکوں میں گورنر یا وائسرائے بھیجا کرتی ہیں۔  ایک لحاظ سے دونوں میں بڑا بھاری فرق ہے ‘‘۔

آخری فقرہ کو پڑھ کر بظاہر محسوس ہوتا ہے کہ اس کے بعد وہ ’’ فرق‘‘ بتایا جائے گا ، جو حقیقتاً دونوں کے درمیان ہے ۔ یعنی ایک کا تعلق دنیا کی تعمیر سے ہے اور دوسرے کا تعلق آخرت کی تعمیر سے ۔مگر اس کے بعد جو الفاظ درج ہیں وہ یہ ہیں:

’’ دنیوی حکومتوں کے گورنر اور وائسرائے محض انتظام ملکی کے لیے مقرر کیے جاتے ہیں اور سلطانِ کائنات  کے گورنر اور وائسرائے اس لیے مقررہوتے ہیں کہ انسان کو صحیح تہذیب ، پاکیزہ اخلاق اور سچے علم و عمل کے وہ اصل بتائیں جو روشنی کے مینار کی طرح انسانی زندگی کی شاہراہ پر کھڑے ہوئے صدیوں تک سیدھا راستہ دکھاتے ہیں‘‘۔ (معراج کی رات )

معراج کا مذکورہ بالا تعارف اصلاً غلط نہیں ہے ۔ میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اس کے تعارف کے لیے زیرِ بحث ذہن کو جو بہترین الفاظ ملے وہ وہی تھے، جس میں یہ واقعہ سیاسی غلاف میں لپٹا ہوا نظر آنے لگا۔ حالانکہ قرآن و حدیث کی تفصیلات کے مطابق اس واقعہ کا اصل پہلو عالم آخرت کا مشاہدہ ہے، نہ کہ نظام دنیا کی تعمیر۔ یہ تعبیر ان مذکورہ تفصیلات کا بھی ذکر کرتی ہے۔ مگر وہ اس کے نزدیک’’ کیفیت معراج ‘‘ سے تعلق رکھنے والی چیزیں ہیں، اور معراج کی حقیقی اہمیت کیفیت معراج میں نہیں، بلکہ مقصد اور نتیجۂ معراج میں ہے ‘‘۔ (معراج کی رات، تمہید)

ذہنیت کا یہ فرق وہاں اور زیادہ نمایاں ہوگیا ہے، جہاں وہ بنیادی ’’ اصول ‘‘ بتائے گئے ہیں، جو معراج کے ’’ اصل مقصد ‘‘ کی حیثیت سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیے گئے تھے۔ یہ ’’چودہ اصول‘‘ ہیں اور اس لیے دیے گئے ہیں، تاکہ ان پر ’’ انسانی تمدن و اخلاق کی تعمیر‘‘ کی جائے۔مصنف کے الفاظ میں — ’’ اسلام کی تحریک ایک اسٹیٹ میں تبدیل ہونے کو تھی ۔ اس لیے اس اہم موقع پر ایک نیا پروانۂ تقرر اور نئی ہدایات دینے کے لیے بادشاہ کائنات نے آپ کو اپنے حضور میں طلب فرمایا۔‘‘ مندرجہ بالا چودہ اصول درج کرنے کے بعد ، مضمون کے آخر میں لکھتے ہیں:

’’ یہ چودہ اصو ل جو معراج کی رات میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو دیے گئے تھے۔ ان کی حیثیت صرف اخلاقی تعلیمات ہی کی نہ تھی۔دراصل یہ اسلام کا مینی فسٹو تھا۔ اوروہ پروگرام تھا جس پر آپ کو آنے والے زمانے میں سوسائٹی کی تعمیر کرنی تھی۔ یہ ہدایات اس وقت دی گئی تھیں جب آپ کی تحریک عنقریب تبلیغ کے مرحلہ سے گزر کر حکومت اور سیاسی اقتدار کے مرحلہ میں قدم رکھنے والی تھی۔ لہٰذا اس دور کے شروع ہونے سے پہلے یہ بتا دیا گیا کہ خدا کا پیغمبر کن اصولوں پر تمدن کا نظام قائم کرے گا۔ اسی لیے معراج میں یہ 14 نکات مقرر کرنے کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے تمام پیروان اسلام کے لیے پانچ وقت کی نماز فرض کی تاکہ جو لوگ اس پروگرام کو عملی جامہ پہنانے کے لیے اٹھیں، ان میں اخلاقی انضباط پیدا ہو اور وہ خدا سے غافل نہ ہونے پائیں ۔ ہر روز پانچ مرتبہ ان کے ذہن میں یہ بات تازہ ہوتی رہے کہ وہ خود مختار نہیں ہیں۔ بلکہ ان کا حاکم اعلیٰ خدا ہے جس کو انھیں اپنے کام کا حساب دینا ہے‘‘۔  ( معراج کی رات)

یہ چودہ اصول سورہ بنی اسرائیل کے تیسرے اور چوتھے رکوع (17:23-38)سے لیے گئے ہیں۔اس سے قطع نظر کہ یہ ہدایات معراج کے سفر میں ملی تھیں یا وہ اس سے الگ ناز ل ہوئیں۔ سوال یہ ہے کہ ’’اسلام کی تحریک اسٹیٹ میں تبدیل ہونے والی ہے ۔ اور تبلیغ کے مرحلہ سے گزر کر حکومت اور سیاسی اقتدار کا مرحلہ پیش آنے والا ہے ‘‘۔ مگر جو ہدایات دی جارہی ہیں وہ سب کی سب شخصی اور اخلاقی نوعیت کی ہیں۔کوئی بھی شخص سورہ بنی اسرائیل کامتعلقہ حصہ کھول کر دیکھ سکتا ہے کہ ان ہدایات میں سے کوئی ایک بھی ایسی نہیں ہے، جس کا قانون اور سیاست سے براہ راست تعلق ہو۔ پہلے اصول کو البتہ ان الفاظ میں سیاسی بنانے کی کوشش کی گئی ہے—’’ اقتداراعلیٰ میں اس کے ساتھ کسی کی شرکت تسلیم نہ کی جائے‘‘مگر یہ صاحب تشریح کی اپنی ایجاد ہے ۔ قرآن کے متعلقہ حصہ میں اس کا کہیں ذکر نہیں۔ پھر معراج کی اس مخصوص تشریح کا نتیجہ یہ ہوا کہ پانچ وقت کی فرض نمازیں ’’اخلاقی انضباط‘‘ پیدا کرنے کا ذریعہ بن گئیں۔ان کا مقصد یہ ہو گیا کہ اس تمدنی پروگرام کو عملی جامہ پہنانے والے اپنا کام ٹھیک طریقہ سے کریں!

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom

Ask, Learn, Grow

Your spiritual companion