مخاطبین پر اثر
اس تعبیر سے جو لوگ متاثر ہوتے ہیں ان کے ذہن میں اسلام ایک طرح کے سیاسی اور سماجی نظام کی شکل اختیارکر لیتا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتاہے کہ وہ اپنے مخاطبین کو ٹھیک اسی نظر سے دیکھنے لگتے ہیں، جس نظر سے دنیا کی عام سیاسی اور سماجی تحریکیں اپنے مخاطبین کو دیکھتی ہیں۔ ان کو ہدایت خلق سے زیادہ’’رائے عامہ ہموار کرنے‘‘ کی فکر ہو جاتی ہے، تاکہ موجودہ جمہوری دورمیں اقتدار حاصل کرنے کے لیے زیادہ سے زیادہ ووٹ مل سکے۔ مسلمان اور غیر مسلم دونوں کی حیثیت ان کی نظر میں بدل جاتی ہے۔ یہاں میں پالیسی (مطبوعہ 1959ء) کا ایک فقرہ نقل کروں گا:
’’دعوت قرآنی کے ایک عالمگیر دعوت ہونے کے باعث اس کا مخاطب بلاامتیاز قوم وملت ہر شخص ہے اس لیے جب کہ ہمارے ملک میں مسلم اور غیر مسلم دونوں ہی قسم کی ملتیں پائی جاتی ہیں۔ ہماری تحریک دونوں ہی قسم کے لوگوں کو اپنامخاطب قرار دے گی۔مفاد تحریک کے لحاظ سے بھی دونوں میں سے ہر ایک کی ایک مخصوص اہمیت ہے جو دوسرے کو حاصل نہیں ہے۔
مسلم گروہ کی اہمیت یہ ہے کہ قیاساً تحریک کو اسی گروہ میں سے کارکن مل سکتے ہیں۔ اورتجربتاً مل رہے ہیں۔ اس لیے عملاً ہمارا میدانِ کار یہی گروہ ہے۔ غیر مسلم گروہ کی اہمیت یہ ہے کہ اس وقت ملک میں نہ صرف وہ بہت بڑی اکثریت میں ہے بلکہ علمی سماجی اور معاشی حیثیت سے کہیں فائق تر اور سیاسی حیثیت سے صاحب اقتدار ہے اس لیے کسی تحریک کو کامیابی کے ساتھ چلانے کے لیے ملک کے ایسی اکثریت والے گروہ سے کسی طرح صرف نظر نہیں کیا جا سکتا‘‘ ۔
اس اقتباس پر غور کیجیے ۔ اس کی پہلی کھلی ہوئی غلطی یہ ہے کہ اس کو مسلم اور غیر مسلم دونوں ایک سطح پر نظر آتے ہیں۔ اس کے ذہن میں امت مسلمہ کی مخصوص حیثیت باقی نہیں رہی۔ وہ مسلمانوں کو بھی اسی نظر سے دیکھتی ہے، جیسے دنیا کے دوسرے لوگوں کو۔ مسلم گروہ کی مزید کوئی اہمیت اگر اس ذہن میں آتی ہے تو وہ کسی دینی اور شرعی حیثیت کی بنا پر نہیں، بلکہ اس لیے کہ مفاد تحریک کے لحاظ سے بھی اس کی ایک مخصوص اہمیت ہے، اوروہ یہ کہ قیاساً تحریک کو اسی گروہ میں سے کارکن مل سکتے ہیں، اور تجربتاً مل رہے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں مسلمانوں کے ساتھ اس فکر کو اگر کوئی خاص دل چسپی ہے تو یہ بالکل ویسی ہی ہے جیسے کسی ملک کی وزارت دفاع کو اپنے بھرتی کے علاقے (recruiting area) سے ہوتی ہے۔ ملت اسلامی کا وجود ان کے ذہن میں کسی ذمے داری کا تصور پیدا نہیں کرتا۔ بلکہ وہ ان کے لیے ایک طرح کاکچا مال ہے، جس سے آدمی لے لے کر وہ اس کو اپنی تحریک کا ’’کارکن‘‘ بنا سکتے ہیں۔
ایسے لوگ قدرتی طور پر مسلمانوں کے پیش نظر کوئی اصلاحی پروگرام بنانا صحیح نہ سمجھیں گے۔ کیوں کہ ان کے نزدیک یہ اسلام کی عالمی انقلابی حیثیت کے خلاف ہو گا۔ اس سے اسلام کا ’’جہانی نظریہ‘‘ ہونا لوگوں کی نظر میں مشتبہ ہو جائے گا۔ حتیٰ کہ یہ ذہنیت اس حد تک بڑھے گی کہ شدید ترین حالات میں اگر ان میں سے کچھ کمزور دل لوگوں کو امت مرحومہ کی زبوں حالی پر رحم آجائے گا۔ اور وہ جماعت کی پالیسی میں ’’ملی مسائل‘‘ کا اضافہ کرنا چاہیں گے تو اس کے اندر ایسے لوگوں کو فوراً قوم پرستی کی بو محسوس ہونے لگے گی۔ وہ شدید احتجاج کریں گے کہ یہ اسلام کی اصولی حیثیت کے منافی ہے کہ ایک مخصوص گروہ کے پیش نظر کوئی پروگرام بنایا جائے۔
یہی حال غیر مسلموں کا ہوا۔ جو لوگ ایمان نہیں لائے اورابھی تک کفرو شرک کی حالت میں پڑے ہوئے ہیں، ان سے ہمارے تعلق کی نوعیت یہ ہے کہ ہم ان کے درمیان حق کے گواہ ہیں۔ آخرت کی جن حقیقتوں سے غافل ہو کر وہ ہلاکت کی طرف جا رہے ہیں، اس سے ان کو ہمیں آگاہ کرنا ہے۔ قیامت کے آنے والے خطرے سے ہوشیار کرنے کے لیے ہمیں ان کے سامنے ’’نذیر عریاں‘‘ بن جانا ہے۔ مگر غلبہ حاصل کرنے کو اصل اسلامی نصب العین قرار دینے کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے بارے میں آپ کو یہ بے چینی نہیں ہوئی کہ ان کو آنے والے خوفناک دن سے بچائیں ۔ بلکہ ان کا خیال آپ کے ذہن میں آیا تو اس پہلو سے آیا کہ ’’اپنی تحریک کوکامیابی کے ساتھ چلانے کے لیے ملک کی اکثریت والے گروہ سے صرف نظر نہیں کیا جا سکتا‘‘۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ غیر مسلموں کی اصل حیثیت اس تعبیر کے ذہن میں مدھم پڑ گئی۔ اس کو یہ فکر نہیں ہوئی کہ انھیں آگ کے خطرے سے نکالیں۔ اس کے بجائے یہ ذہن انھیں اس نظر سے دیکھنے لگا کہ کسی طرح ان کی ’’رائے‘‘ کو اپنے حق میں ’’ہموار‘‘ کر لے تاکہ ان کا ووٹ کسی اور کو ملنے کے بجائے ہم کومل جائے۔ اس سلسلے میں دستور کی دفعہ 5 کا یہ فقرہ نہایت عبرت انگیز ہے:
’’جماعت اپنے نصب العین کے حصول کے لیے تعمیری اور پرامن طریقے اختیار کرے گی۔ یعنی وہ تبلیغ و تلقین اوراشاعت افکار کے ذریعہ ذہنوں اور سیرتوں کی اصلاح کرے گی اور اس طرح ملک کی اجتماعی زندگی میں مطلوبہ صالح انقلاب لانے کے لیے رائے عامہ کی تربیت کرے گی‘‘۔
دیکھیے غیر مسلم جو اصلاً ہمارے لیے انذار یوم التلاق (آخرت کے دن سے آگاہ کرنے ) کا موضوع ہیں، وہ اس تعبیر کے خانے میں بس رائے عامہ ہموار کرنے کا موضوع بن کر رہ گئے۔ گویا اگر وہ بیلٹ بکس کی حد تک ہماری موافقت میں ہو جائیں تو ان کے بارے میں اس کے آگے ہمیں کچھ اور سوچنے کی ضرورت نہیں۔ کیوں کہ ’’اجتماعی زندگی‘‘ میں صالح انقلاب لانے کے لیے اتنا ہی کافی ہے۔
