کرنے کا کام

اب میں بتاؤں گا کہ مذکورہ بالا تشریح ِدین کے مطابق اس وقت کرنے کا کام کیا ہے۔اس سلسلے میں جہاں تک پاکستان کاتعلق ہے۔ وہاں مولانا مودودی قانون شریعت  کے نفاذ کی جو مہم چلارہے ہیں، اس کو شکلاً میں درست سمجھتا ہوں۔ پاکستان ایک مسلمان ملک ہے۔ اور آزادی کے بعد اصولی طور پر وہاں کی آبادی کو یہ اختیار حاصل ہو گیا ہے کہ وہ اپنے یہاں جس طریق زندگی اور جس نظام معاشرت کو چاہے رائج کرے۔ ایسی حالت میں پاکستان کی امت مسلمہ کا یہ فرض ہو گیا ہے کہ وہ اپنے درمیان اسلامی نظام امارت قائم کرے اور اس کے تحت زندگی کے تمام شعبوں کو اسلامی احکام و قوانین کے مطابق منظم کرے ۔ تاہم نفاذ شریعت کی مہم میں حکمت ِتدریج کو ملحوظ رکھنا لازمی طور پر ضروری ہے ۔

مگر میری یہ رائے اس مہم کی شکل کے بارے میں ہے ۔ اس کے پیچھے جو فلسفہ ہے، وہ درست نہیں۔اورفلسفہ کی غلطی ہی کا یہ نتیجہ ہے کہ مطالبہ کی اس مہم میں بہت سی خرابیاں پیدا ہو گئی ہیں۔ اور ہوتی جا رہی ہیں ۔ نیز اسی کا نتیجہ ہے کہ مہم کے افراد میں نیچے سے اوپر تک شدید عملی نقائص پائے جاتے ہیں۔ اس بنا پر اولاً تو مجھے امید نہیں کہ یہ مہم کامیاب ہوگی۔ تاہم اگر وہ کامیاب بھی ہوجائے تو کردار کی کمزوری بہت جلد اسے ناکامی میں تبدیل کر دے گی۔ اور پاکستان میں جماعت اسلامی کی حکومت کا وہی حشر ہو گا جو ہند میں کانگرس وزارت کا ہوا— اگر میرا قیاس غلط ثابت ہو تو یقیناً ً مجھے خوشی ہوگی۔ مگر جہاں تک زبان کے کہنے کا تعلق ہے، ظاہر ہے آدمی وہی کہنے پر مجبو رہے جو وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے ۔

اس کی ایک مثال غلاف کعبہ(1963) کا مسئلہ ہے ۔ غلاف کے ٹکڑوں کو جس طرح دھوم دھام کے ساتھ مکہ روانہ کیا گیا، اور لاکھوں آدمیوں کے جلوس کے ساتھ اس کو ایک تعزیہ کی شکل میں ہوائی اڈے تک پہنچایا گیا ، وہ خواہ اصطلاحی بدعت ہو یا نہ ہو، مگر یہ یقینی ہے کہ یہ محض ایک عوامی تماشا تھا جس کا حقیقی دینداری سے کوئی تعلق نہیں۔ ( اسی طرح یوم شوکت اسلام 1970)۔ مگر وہی لوگ جن کے نزدیک میلاد النبی کے جلسے اور جلوس اسلامیت اور محبت رسول کا ثبوت نہیں تھے۔ آج ان کا فتویٰ یہ ہے کہ غلاف کعبہ کا یہ جلوس ایک ’’ خیر عظیم ‘‘ کا مظاہرہ تھا، جو بہت بڑے پیمانے پر شہر لاہور میں رونما ہوا ۔ اور جو لوگ اس پر تنقید کر رہے ہیں ان کی حیثیت گویا ’’ مکھیوں ‘‘ کی سی ہے، جو اس کے تمام بہترین پہلوؤں کو نظر انداز کر کے گندگی کے چھینٹوں پر جا بیٹھی ہو (ماہنامہ ترجمان القرآن ، اپریل 1963، صفحہ 55)—صحیح ذہن نہ ہو تو تحریکیں بالآخر اسی مقام پر پہنچتی ہیں۔ ابتداء ً جب تک اس قسم کے عوامی واقعات ان کے لیے کسی سیاسی اہمیت کے حامل نہیں ہوتے وہ ان پر تنقید کرتی ہیں۔مگر اگلے مراحل میں پہنچنے کے بعد جب اس قسم کے واقعات میں ان کو سیاسی اہمیت نظر آنے لگتی ہے ۔ تو ان کی زبان اور ان کی اصطلاحات بدل جاتی ہیں جو چیز پہلے فضول اور عیب دکھائی دیتی تھی، وہ اب خیر عظیم بن جاتی ہے۔

ہندستان میں ہمیں جو کام کرنا ہے ا س کو میں چند شقوں میں تقسیم کرکے الگ الگ عنوانات کے تحت بیان کروں گا۔

1۔ پہلی بات یہ کہ ہم ان فرائض اور ذمے داریوں کوادا کریں، جو ذاتی طور پر کسی مومن سے مطلوب ہوتی ہیں ۔ صحیح معنوں میں خدا کے عبادت گزار بنیں، ہمارے جان اور ما ل میں خدا کا جو حق عائد ہوتا ہے، اس کو ٹھیک ٹھیک ادا کریں۔ اور اخلاق و معاملات میں ان تمام پابندیوں کو اختیار کریں، جو اسلامی شریعت میں شخصی زندگی سے متعلق بیان کی گئی ہیں۔

2۔ دوسری چیز جو ہندستان کے مسلمانوں پر شرعی فریضہ کی حیثیت سے عائد ہوتی ہے۔وہ تنظیم ہے جس کو قرآن میں: اِعْتَصِمْ بِحَبْلِ اللهِ ( آل عمران ، 3:103) کے الفاظ میں بیان کیاگیا ہے۔ اس چیز کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ تین مسلمان اگر کسی ’’ فلاۃ ‘‘ میں ہوں ، تو اس موقع کے لیے بھی حکم ہے کہ وہ اپنی جماعت بنا لیں اور اپنا ایک امیر مقرر کر لیں۔(مسند احمد،حدیث نمبر 6647)

تنظیم کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان الگ الگ ٹولیوں میں بٹے ہوئے یا متفرق نہ ہوں، بلکہ ایک گروہ کی شکل میں زندگی گزاریں۔ ان کا ایک منتخب امیر ہو جس کی سب ا طاعت کرتے ہوں۔ ان کا ایک مرکزی ادارہ ہو جہاں سے انھیں ہدایات دی جاتی ہوں۔ موجودہ حالات میں جس درجہ کی تنظیم ہمارے لیے ممکن ہو، اس درجہ کی ایک تنظیم برپا کرنا ہمارے اوپر ایک شرعی فریضہ ہے، اور اس فریضہ سے ہندوستان کے مسلمان اس وقت تک سبکدوش نہیں ہوسکتے، جب تک وہ عملاً اپنے درمیان ایسی ایک تنظیم قائم نہ کر لیں۔اور اس کے ماتحت اپنے اسلامی فرائض کو ادا کریں۔ یہ تنظیم اہل ایمان کی دنیوی ضرورتوں میں سے ایک نا گزیر ضرورت ہے ۔جیسا کہ حدیث میں ارشادہواہے:

عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، أَنَّ نَبِيَّ اللهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ: إِنَّ الشَّيْطَانَ ذِئْبُ الْإِنْسَانِ كَذِئْبِ الْغَنَمِ يَأْخُذُ ‌الشَّاةَ ‌الْقَاصِيَةَ وَالنَّاحِيَةَ، فَإِيَّاكُمْ وَالشِّعَابَ، وَعَلَيْكُمْ بِالْجَمَاعَةِ وَالْعَامَّةِ (مسنداحمد،حدیث نمبر 22028)۔یعنی، حضرت معاذ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس طرح بھیڑیا تنہا بکری کو پکڑ لیتا ہے اسی طرح شیطان انسان کا بھیڑیا ہے ، تم الگ الگ ٹولیوں میں متفرق ہونے سے بچو اور جماعت کو اور سب کے ساتھ مل کر رہنے کو لازم سمجھو۔

اجتماعیت ، اسلام میں لازمی طور پر مطلوب ہے ۔مگر اس حکم سے دراصل وہ اجتماعیت مراد ہے جو سارے اہل اسلام پر مشتمل ہو۔ اس سے کمتر درجہ کی اجتماعیت کو اس کا مصداق ٹھہرانا دراصل امت میں فرقہ بندی پیدا کرنا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ مکمل اجتماعیت کے ظہور میں آنے سے پہلے کوئی اجتماعیت قائم نہیں ہوگی۔ یقیناً اس سے پہلے بھی جماعتیں بنیں گی ۔ مگر ان جماعتوں کی حیثیت دراصل مطلو ب اسلامی اجتماعیت کے قائم مقام کی نہیں ہے ۔ بلکہ وہ مطلوب اجتماعیت کو پیدا کرنے کی کوشش ہے ، جو انفرادی کوشش کی شکل میں بھی ظہور کرتی ہے، اور اجتماعی کوشش کی شکل میں بھی۔ اگر دوسرے نوع کی اجتماعیت کے بارے میں تصور واضح نہ ہو تو اس کا شدید اندیشہ ہے کہ اجتماعی کوشش کو اصل اسلامی اجتماعیت کا قائم مقام سمجھ لیا جائے اور اس سے نکلنے کو ارتداد کے ہم معنی سمجھاجانے لگے۔

موجودہ حالات میں ہماری اس اجتماعیت کا مقصد یہ ہوگا کہ حسب استطاعت ہم ایک تنظیمی وحدت میں منسلک ہوں، تاکہ ہمارے تما م دینی اور ملی کام اجتماعی مصالح کے تحت انجام پائیں۔ ہمارا دارالقضا اور بیت المال ہو جس کے تحت لوگوں کو شرعی مسائل بتائے جائیں۔ باہمی قضا یا کا احکام ِاسلامی کے مطابق فیصلہ کیا جائے، اور زکوٰۃ اور دوسری مالیات اجتماعی طور پر وصول اور خرچ کی جائیں۔ تبلیغ و اشاعت کا کام منظم طور پر انجام دیا جائے۔مکاتب و مدارس اور مساجد و مقابر کی دیکھ بھال ہو ،نو مسلموں کی حفاظت و تربیت کی جائے، وغیرہ وغیرہ۔

فقہ کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ ’’ شرعی معاملات میں مسلمانوں پر غیر مسلم حاکم کا حکم خواہ ظاہرا ً نافذ ہو جائے مگر باطناً نافذ نہیں ہوتا‘‘۔ مثلاً ایک غیر مسلم حاکم ایک مسلمان کا نکاح فسخ کرے تو خواہ اس کا یہ حکم احکامِ شرعی کے مطابق ہی کیوں نہ ہو، اور زوجین میں بھلا تفریق ہی کیوں نہ ہوجائے، لیکن درحقیقت نہ اس کے احکام فسخ کرنے سے نکاح فسخ ہوگا، اور نہ شرعاً عورت کے لیے دوسرے شخص سے نکاح کرنا جائز ہوگا۔اگر وہ نکاح کرے گی تو اس کا نکاح باطل ہوگا، اور اسلامی شریعت کی نگاہ میں اس کی اولاد ناجائز اولاد ہوگی ۔ گویا قضاء شرعی حاصل کرنے کے لیے اسلامی قاضی کا ہونا ضروری ہے ۔ پھر اسی کے ساتھ فقہا یہ کہتے ہیں کہ اہل شہر جب کسی شخص کے اقتدار پر بیعت کر لیں تو وہ سلطان ہوجاتا ہے ۔ مگر قاضی کو اس طرح عامۃالمسلمین مقرر نہیں کر سکتے۔قاضی وہی ہو سکتا ہے جس کا تقرر خود خلیفہ نے کیا ہو، ان دونوں مسئلوں کو ملا کر بعض لوگ یہ کہتے ہیں کہ غیر مسلم حکومت کے اندر رہتے ہوئے قضائے شرعی حاصل کرنے کی کوئی صورت ہی نہیں ۔ کیوں کہ قضائے شرعی کے لیے بااختیار قاضی کا ہونا ضروری ہے ۔ اورقاضی کو عامۃالمسلمین بطور خودمقرر نہیں کر سکتے ۔ بلکہ صرف حکومت ہی اس کا تقرر کر سکتی ہے۔ اور حکومت بھی وہ جو اسلامی ہو ۔ اس لیے اب ہمارے لیے دو ہی صورت ہے۔ یا تو ہم عملا ً ارتداد کوقبول کر لیں یا پھر اقتدار کوبدل کر اسلامی حکومت قائم کریں۔

مگر اس استدلال کی بنیاد ایک غلط فہمی پر ہے۔فقہا کا یہ کہنا کہ قاضی کو عامۃالمسلمین مقرر نہیں کر سکتے۔ایک خاص معنی میں ہے۔میں یہاں امام ابن بزاز حنفی کا اقتباس نقل کروںگا:

اجْتَمَعَ أَهْلُ الْبَلْدَةِ وَقَدَّمُوا رَجُلًا عَلَى الْقَضَاءِ لَا يَصِحُّ لِعَدَمِ الْضَرُورَةِ، وَإِنْ مَاتَ سُلْطَانُهُمْ اجْتَمَعُوا عَلَى سُلْطَنَةِ رَجُلٍ جَازَ لِلضَّرُورَةِ (الفتاوی البزازیۃ، جلد 1، صفحہ 489)۔یعنی، اہل شہر نے جمع ہو کر قضاء کے لیے کسی شخص کو آگے بڑھایاتو یہ صحیح نہیں ہے ۔ کیوں کہ ضرورت داعی نہیں ہے ۔ لیکن اگر بادشاہ مرجائے اور کسی شخص کی سلطنت پر سب لوگ مجتمع ہوجائیں تو یہ جائز ہے کیوں کہ ضرورت داعی ہے ۔

معلوم ہوا کہ ان دونوں قسم کے معاملات میں فرق کرنے کی وجہ ’’ ضرورت ‘‘ہے ۔ یعنی سلطان کے تقرر کے لیے عامۃالمسلمین کی آراء کی ضرورت ہے۔ اس لیے وہ اپنی رائیں دے کر اس کا تقر ر کرتے ہیں۔ مگر قاضی کے تقرر کے لیے ان کی رایوں کی ضرورت نہیں کیوں کہ سلطان خود اس کے تقرر کے لیے موجود ہے ۔ علامہ ابن عابدین صاحبِ رد المختار نے بزازیہ سے اس مسئلہ کو نقل کرکے لکھا ہے:

قُلْت :وَهَذَا حَيْثُ لَا ضَرُورَةَ وَإِلَّا ‌فَلَهُمْ ‌تَوْلِيَةُ ‌الْقَاضِي أَيْضًا (ردالمختار ، جلد 5، صفحہ 367)۔ یعنی، یہ مسئلہ ( کہ عامۂ مسلمین کاکسی کو قاضی بنانا صحیح نہیں ہے ) اس موقع کے لیے ہے جہاں اس کی ضرورت نہیں ہے ورنہ عامۂ مسلمین کو تولیت قضا کا بھی اختیار ہے ۔

مطلب یہ ہے کہ ایسی حالت میں جب کہ اقامت قاضی کے لیے مسلمانوں کی ضرورت نہ ہو عامۂ مسلمین کی اقامتِ قاضی صحیح نہیں ہے ۔ لیکن اگر ضرورت ہو تو پھر مسئلہ یہ ہے کہ فلھم تولیۃ القضاء یعنی عامۂ مسلمین کو جس طرح اقامت سلطان کا حق ہے ، اقامت قاضی کا بھی حق ہے۔ مسلمان جس شخص کی حیثیت قضا پر متفق ہو جائیں وہ شرعی حیثیت سے قاضی قرار پائے گا :يَصِيرُ الْقَاضِي ‌قَاضِيًا ‌بِتَرَاضِي الْمُسْلِمِينَ(ردالمختار لابن عابدین،جلد5، صفحہ 369)۔

اصل یہ ہے کہ تمام مناصب شرعیہ کے قیام کا منبع و مصدر حقیقتا ً عامۂ مسلمین ہی ہیں۔ اسلامی خلافت کی موجودگی میں چونکہ خلیفہ کو مسلمانوں کی ولایت حاصل ہوجاتی ہے ۔اس لیے وہ نیابۃً عن المسلمین ان کے حقوق کا استعمال کرتا ہے ۔ اگر خلیفۃ المسلمین یا والی کسی شخص کو قاضی مقررکرتا ہے اور وہ صحیح ہوتا ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ خلیفہ یا والی منتخب ہونے کے بعد عامۂ مسلمین کا نائب ہوجاتاہے اور اسی نیابت کی وجہ سے مسلمانوں کی طر ف سے شرعاً اس کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ قاضی مقرر کر ے اور اس تقرر کے بعد وہ قاضی حقیقتاً مسلمانوں ہی کا نائب ہوتا ہے ۔ اسی بنا پر فقہا یہ کہتے ہیں کہ خلیفہ اور والی کے انتقال سے اس کا مقرر کردہ قاضی منصب قضاء پر بدستور قائم رہتا ہے۔ کیوں کہ حقیقتاً اس کو یہ منصب عامۂ مسلمین کی طرف سے ملا ہے اور وہ بدستور موجود ہے۔ اس لیے جہاں سے اس کو یہ منصب حاصل ہوا ہے، جب وہ موجود ہے تو خلیفہ یا والی کے مرنے سے اس کا منصب فوت نہیں ہو سکتا (ملاحظہ ہو بدائع الصنائع، مصر 1910ء، جلد 7،صفحہ 16، بیان مایخرج بہ القاضی عن القضاء

3۔ تیسری ضروری چیز وہی ہے، جس کو میں نے پہلے’’ شہادت و تبلیغ‘‘ کے عنوان کے تحت بیان کیا ہے۔ یعنی اس ملک کے غیر مسلموں کے سامنے دین اسلام کو پیش کرنا ۔ ان کے سامنے منذر اور مبشر بن کر کھڑا ہونا۔ ختم نبوت کے بعد مسلمان نبی کے قائم مقام ہیں۔ وہ اہل دنیا کی طرف مبعوث ہیں اور ہم اس قوم کی طرف مبعوث ہیں جہاں ہم پیدا ہوئے ہیں۔اس لیے یہاں کے باشندوں کی نسبت سے یہ اہم ترین کام ہے، جو مسلمانوں کو اس ملک میں انجام دینا ہے۔ اپنی بہترین اہلیت اور بہترین طاقت کو استعمال کر کے انھیں اس ملک کے لوگوں کے سامنے اس حد تک اسلام کو رکھ دینا ہے کہ قیامت میں کوئی یہ نہ کہہ سکے کہ اس کو اس کی خبر نہیں تھی۔ ہم کو انتہائی خیر خواہی اور حق پسندی کے ساتھ نشر افکار کی ایک مہم شروع کرنی ہے، جو برسہا برس تک جاری رہے اور اس ملک کے ایک ایک شخص تک اسلام کی آواز انتہائی موثر اور قابل قبول شکل میں پہنچا دے۔

یہ ایک نہایت صبر آزما اور طویل ترین عمل ہے ۔ جو بہترین صلاحیت اور بے پناہ طاقت چاہتا ہے ۔ پھر اس راہ میں وہ سب کچھ پیش آسکتا ہے جس کو ہم اسلامی دعوت کی تاریخ میں پڑھتے رہے ہیں۔ مگر ایمان اور عزیمت کا تقاضا یہی ہے کہ اس راہ میں خواہ جو کچھ پیش آئے۔ بہر حال اسے جاری رکھا جائے یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ لوگوں کے دل ہمارے پیغام کی قبولیت کے لیے کھول دےیا ہمارے لیے کوئی سبیل پیدا فرما دے۔

ہندستان کے مسلمان جن حالات میں ہیں، ان حالات میں ان کی یہی ذمہ داری قرآن وحدیث سے ثابت ہوتی ہے۔ یہی علمائے امت نے سمجھا ہے، اور اس طرح کے حالات میں بسنے والے مسلمانوں نے ہمیشہ اسی ڈھنگ سے اپنی شرعی ذمہ داریوں کو ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔

یہ چند کام جو میں نے اوپر بیان کیے ہیں۔ ان کی ایک حیثیت یہ ہے کہ ان کے ذریعہ سے ہم اپنی ذمہ داریوں کو ادا کریں گے۔ جو مسلمان ہونے کی حیثیت سے خدا کی طرف سے ہمارے اوپر عائد ہوتی ہیں۔ دوسرے یہ کہ اگر ہم نے ٹھیک ٹھیک ان ذمہ داریوں کی تعمیل کر دی تو وہ چیز ہمارے لیے خدا کی نصرت کو کھینچنے والی ہوگی۔ بندہ اپنے رب کے احکام کی تعمیل کرکے صرف اپنے فرض سے سبکدوش نہیں ہوتا، بلکہ اسی کے ساتھ وہ زمین و آسمان کے مالک کی عنایات کا مستحق قرار پاتاہے ۔ خدا کی نصرت اس کی طرف متوجہ ہوتی ہے، جس کا نتیجہ دنیا میں تمکین فی الارض اور آخرت میں جنت کی وراثت ہے ۔ ہماری کامیابی کا اصل راز یہی ہے کہ ہم انفرادی اور اجتماعی حیثیت سے اپنی زندگی کو خدا کی مرضی کے مطابق بنائیں اسی کے ذریعہ ہمارے لیے کامیابی کی راہیں کھل سکتی ہیں۔ اس کے بغیر محض کوئی سیاسی مہم یا کوئی انقلابی پروگرام ہمارے مسائل کو حل نہیں کر سکتا۔

 اس سلسلے میں  ایک اور بات سمجھ لینی چاہیے ۔ اوپرجو مختلف کام میں نے بیان کیے ہیں، اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہماری عملی اور دعوتی جدوجہد اسی طرح بالکل ایک لگی بندھی فہرست کے مطابق جاری ہوگی۔ عملی اور دعوتی جدوجہد ایک پھیلی ہوئی چیز ہے، جو کسی منطقی لکیر کی لازمی رعایت کرتے ہوئے نہیں چلتی، بلکہ سیلاب کی طرح پھیلتی اور سمٹتی ہوئی چلتی ہے ۔ اس فہرست کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہم اپنے ذہن میں کس طرح اپنی شرعی ذمہ داریوں کا ایک منضبط تصور قائم کریں کہ ہمارا عملی پروگرام بھی متعین ہوجائے۔ اور تمام شرعی تقاضے بھی اپنی اپنی جگہ حاصل کر لیں۔ یہ مسئلے کی علمی تعیین ہے، نہ کہ اس کی دعوتی تشریح۔ اگر مسئلے کی علمی حیثیت اپنی صحیح اور متعین شکل میں آدمی کے سامنے ہو، تو اس کی جدوجہد ظاہری طور پر مختلف صورتیں اختیار کرنے کے باوجود اپنے اصل مقام کو نہیں کھوتی۔وہ ہر حال میں اپنے صحیح مرکز سے جڑی رہتی ہے، لیکن اگر مسئلہ اپنی علمی حیثیت میں متعین نہ ہو ، یا ہو تو غلط شکل میں ، تو ایسی صورت میں آدمی غلط سمتوں میں بھٹکنے لگتا ہے ۔ حتیٰ کہ بعض اوقات اس کا صحیح کام بھی حقیقتاً اپنے اندر ایک غلط پہلو لیے ہوئے ہوتا ہے۔ کیوں کہ اس کے پیچھے صحیح ذہن موجود نہیں تھا۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom

Ask, Learn, Grow

Your spiritual companion