خلاصۂ باب

اس خط کے ساتھ مولانا مودودی سے میری مراجعت کا وہ سلسلہ ختم ہوتا ہے جس کا آغاز پچھلے سال حج کے موقع پر شمس پیر زادہ صاحب کی معرفت وعدۂ جواب سے ہوا تھا ۔ اور خاتمہ دوسرے سال حج سے واپسی کے بعد انکار جواب پر ہوا ہے ۔ مولانا نے زبانی اور تحریری وعدوں کے باوجود اپنے افکار کے بارے میں میری تنقیدوں کا جواب کیوں نہیں دیا۔ اس کے جو اسباب اس درمیان میں انھوں نے اپنے خطوط میں بتائے ہیں، وہ حسب ذیل ہیں :

1۔     آپ کی تحریر میں بڑے مفصل اعتراضات کیے گئے ہیں اور میرے لیے اپنی موجودہ مصروفیتوں کے ساتھ اسے پڑھنا اور پھر اس کا مفصل جواب دینا سخت مشکل ہے ۔

2۔      آپ کا مطالعہ آپ کو بالکل ہی اس سمت کے خلاف سمت میں لے گیا ہے جس سمت میں میرا آج تک کا مطالعہ مجھے لے گیا ہے ۔ اس لیے اب یہ بات فضول ہے کہ میں اور آپ کسی بحث میں الجھیں ۔

3۔      آپ کا مطالعہ ناقص ہے اور اس پر غضب یہ ہے کہ آپ اپنے کو ایک بہت اونچے مقام پر فائز سمجھ رہے ہیں ۔ اب میری مشکل یہ ہے کہ علم کی کمی کے ساتھ جو شخص اس طرح کے زعم میں مبتلا ہو اس سے مخاطب ہونے کی مجھے عادت نہیں۔

4۔      آپ اس مقام سے گزر چکے ہیں جہاں آپ کو سمجھانے کی کوشش مفید ہو سکتی تھی ، اس لیے آپ کا جواب تو نہیں دیا جا سکتا۔ البتہ اگر آپ نے اپنی کتاب شائع کی تو خلق خدا کو آپ کی پیدا کردو وہ غلط فہمیوں سے بچانے کے لیے آپ کے دلائل کا رد کیا جائے گا۔

5۔      آپ کی تحریر مناظر انہ قسم کی ہے اس لیے آپ کو مجھ سے یہ توقع نہیں رکھنی چاہیے کہ میں آپ کے ساتھ سوال وجواب میں الجھ کر آپ سے مناظرہ بازی کروں گا۔ 

6۔      اگر آپ اپنے مقام  بلند سے نیچے اتریں اور یہ بھی محسوس کریں کہ جس آدمی پر آپ نے گرفت کی ہے وہ طفل مکتب نہیں ہے تب یہ ممکن ہے کہ آپ سے گفتگو کی جائے ۔

7۔      آپ اتنے بلند اور بعید مقام تک پہنچ چکے ہیں کہ اب آپ سے گفتگو غیر ممکن والا حاصل ہے ۔ سر دست میرے سامنے اپنی محدود قوت وفراغت کا بہتر مصرف موجود ہے اس لیے آپ سے تحریری مناظرے میں الجھنا میں اپنے لیے ممکن اور موزوں نہیں سمجھتا۔ 

9۔      ہندستان کے بعض اصحاب جن سے آپ کی بحث ہو چکی ہے ، انھوں نے مجھے مشورہ دیا کہ میں اس بحث میں اپنا وقت صرف نہ کروں ۔

10۔   اگر آپ اپنی کتاب شائع کرنا چاہتے ہیں تو شوق سے شائع کریں ۔ میرے کرم فرماؤں کی فہرست پہلے ہی خاصی طویل ہے۔ اس میں آپ کا اضافہ ہو جانے سے کوئی بڑا فرق نہ پڑے گا۔

میری باتوں کا جواب نہ دینے کے یہ وجوہ کس حد تک قابل لحاظ ہیں ، اس کا فیصلہ ناظرین خود فرما سکتے ہیں ۔ جہاں تک میرا تعلق ہے میں بہر حال یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ مذکورہ بالا اسباب میں سے کوئی ایک بھی ایسا ہے کہ اس کی بنا پر مولانا میرے سوالات کا جواب دینے سے مکمل انکار کر دیتے — ظاہر ہے کہ کوئی اعتراض اگر ’’ مفصل ‘‘ ہے تو اپنی معذوری کی بنا پر آدمی یہ تو کر سکتا ہے کہ وہ اس کا مختصر جواب دے ۔ مگر کسی اعتراض کا مفصل ہونا اس بات کی کافی وجہ نہیں ہے کہ وہ جواب دینے کے لیے مانع بن جائے ۔ اسی طرح کوئی فکر اگر آپ کی فکر سے بالکل مختلف ہو تو اس کا تقاضا یہ ہے کہ آپ اس کی مکمل تردید کریں ۔ نہ یہ کہ آپ اس کا جواب دینے ہی سے انکار کر دیں۔ اسی طرح اگر مجیب کے نزدیک سائل کا مطالعہ ناقص ہے یا اس کا احساس یہ ہے کہ سائل اپنے آپ کو اونچے مقام پر فائز سمجھنے کے وہم میں مبتلا ہو گیا ہے ، تو یہ بھی مجیب کا محض ایک دعویٰ ہے اور دعوے کے اظہار سے زیادہ بہتر یہ ہے کہ وہ اپنی دلیل کو پیش کرے ۔ اسی طرح جواب دینے سے پہلے یہ فیصلہ کر لینا کہ سائل اس مقام سے گزر چکا ہے جہاں اس کو سمجھانے کی کوشش مفید ہو سکتی تھی ، اپنے بارے میں مخصوص ذریعہ علم کا حامل ہونے کا اعلان تو ضرور ہے ، مگر اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ سائل کے سوال کو ناقابل جواب قرار دینے میں بھی وہ حق بجانب ہے ۔ اسی طرح یہ بات کہ سائل جس سے سوال کر رہا ہے اس کی عظمت کا وہ قائل نہیں ہے ، یہ بھی مجیب کا صرف اپنا ایک وجدان ہے اور وجدان کے اظہار سے زیادہ ضروری ہے کہ وہ اصل مسئلہ کے بارے میں اپنے علم کا اظہار کرے ۔ پھر آخر میں وعدہ کے باوجود محض اس بنا پر جواب دینے سے انکار کر دینا کہ ہندستان کے ’’بعض اصحاب ‘‘ جو مجھ سے اس مسئلہ پر بحث کر چکے ہیں انھوں نے مشورہ دیا کہ مولانا مودودی اس کام میں اپنا وقت صر ف نہ کریں ، یہ بھی کوئی معقول وجہ نہیں ہے ۔ اگر کسی نے مولانا کی خیر خواہی میں ان کو ایسا خط لکھ دیا تھا تو میری خیر خواہی کے اعتبار سے مولانا کا فرض تھا کہ وہ مجھ سے پوچھتے کہ تمہارے بارے میں مجھے اس قسم کی خبریں پہنچی ہیں ۔ اس وقت میں انھیں بتاتا کہ جن حضرات نے مجھ سے اس مسئلہ پر بحث کی ہے ان کی ’’ بحث ‘‘ کی حقیقت کیا ہے ۔ بہر حال اب وہ اس بحث کی پوری روداد اس خط وکتابت میں دیکھ سکتے ہیں جو اس کتاب کے ساتھ شائع کی جا رہی ہے ۔ اس سے وہ خود اندازہ کر لیں گے کہ بحث کرنے والوں نے اصل مسئلہ پر بحث کرنے کے بجائے صرف غیر متعلق مسائل چھیڑے ہیں ۔ اور افسوس کہ انھوں نے خود مولانا مودودی کو بھی اسی قسم کی غیر علمی اور غیر منطقی روش میں مبتلا کر دیا۔

پھر ان سب سے بڑھ کر حیرت انگیز بات یہ ہے کہ میرے چھیڑے ہوئے مسائل پر مجھ سے خط وکتابت کرنے کو مولانا مودودی نے ’’ تحریری مناظرہ بازی ‘‘ قرار دیاہے ۔ یہ میرے نزدیک ایسی ہی بات ہے جیسے کوئی شخص معقول الفاظ کے ساتھ اپنا ایک مطالبہ لے کر کسی کے یہاں جائے ۔ اور وہ اس کے اصل مطالبہ پر گفتگو کرنے کے بجائے اس کو محض ایک گالی دے کر اسے لوٹا دے ۔ میں نے مولانا کو لکھا  تھا کہ میرا اصل مسئلہ یہ ہے کہ آپ کی تشریح دین کے مطابق اسلامی مشن کا جو تصور سامنے آتا ہے ، وہ مجھے واقعی طور پر قرآن وحدیث سے ثابت ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔ اس سلسلے میں جن آیات واحادیث سے استدلال کیا جاتا ہے ، ان پر گفتگو کر کے بتایا کہ کیوں کر میرے نزدیک یہ آیات واحادیث اس مخصوص تصور کا ماخذنہیں بنتیں— کیامناظرہ بازی اسی کا نام ہے ۔ اگر یہ مناظرہ بازی ہے تو پھر تنقید کی وہ کون سی قسم ہے جس کو مناظرہ بازی سے مستثنیٰ قرار دیا جائے گا۔ 

مجھے حیرت ہے کہ مولانا میرے بارے میں اس قسم کی غیر متعلق باتیں ثابت کرنے کی تو پیہم کوشش کرتے رہے ۔ مگر وہ اصل مسئلہ جس کے لیے میں نے ان سے رجوع کیا تھا ، اس کے بارے میں مکمل طور پر خاموش رہے ۔ انھوں نے میری دوسری غلطیاں اور کمزوریاں ثابت کرنے کی کوشش تو بہت کی ، حتی کہ اس معاملہ میں سنی سنائی باتوں پر اعتماد کرنے میں بھی انھوں نے کوئی حرج نہیں سمجھا۔ مگر جس مسئلہ میں میرے خیالات تحریری طور پر ان کے سامنے موجود تھے اور جس کے متعلق میں اصلاً ان کا جواب معلوم کرنا چاہتا تھا ، ان کے بارے میں ایک لفظ ارشاد نہیں فرمایا۔ میری جس حیثیت کے بارے میں خود میری اپنی  پیش کردہ معلومات کی بنا پر وہ اس پوزیشن میں تھے کہ میرے بارے میں ایک فیصلہ دے سکیں ، اس کے متعلق تو میرے اصرار و الحاح کے باوجود انھوں نے سرے سے کوئی گفتگو نہیں کی ۔ البتہ میری دوسری حیثیت جس کے بارے میں ان کے پاس بے دلیل قیاس اور بالواسطہ روایت کے سوا کچھ نہیں تھا ، ان کے متعلق پوری قطعیت کے ساتھ اپنی رائے کا اعلان کر دیا — اپنی اس غیر منطقی روش کی کوئی دل فریب لفظی توجیہ کر کے ممکن ہے وہ سادہ لوح عوام کے سامنے بری الذمہ ہو جائیں ۔ مگر مجھے نہیں معلوم کہ قیامت کے روز وہ خدا کے سامنے کس طرح بری الذمہ ہو سکیں گے ۔

Maulana Wahiduddin Khan
Share icon

Subscribe

CPS shares spiritual wisdom to connect people to their Creator to learn the art of life management and rationally find answers to questions pertaining to life and its purpose. Subscribe to our newsletters.

Stay informed - subscribe to our newsletter.
The subscriber's email address.

leafDaily Dose of Wisdom

Ask, Learn, Grow

Your spiritual companion