اس کے بعد مدرستہ الاصلاح کے بحرانی حالات کی وجہ سے یہ سلسلہ کچھ دنوں کے لیے رک گیا ۔ حتیٰ کہ مولانا میرے خطوط کا جواب بھی نہ دے سکے۔ اس کے بعد جولائی 1962ء کے پہلے ہفتہ میں مولانا جلیل احسن صاحب مدرستہ الاصلاح سے سبک دوش ہو کر چند دنوں کے لیے رام پور تشریف لائے یہاں مولانا ابواللیث صاحب نے ان سے گفتگو کر کے انھیں تحریر کا جواب دینے کے لیے آمادہ کیا۔ اس کے بعد ان سے جو گفتگو ہوئی اور وہ جس منزل پر پہنچی، اس کی روداد اس خط و کتابت سے معلوم ہو گی جو اس دوران میں میرے اور موصوف کے درمیان ہوئی۔ میں نے مولانا کو لکھا کہ امیر جماعت سے معلوم ہوا کہ انہوں نے آپ سے گفتگو کی ہے۔ اور آپ میری تحریر پر تبصرہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔ براہ کرم اپنی آمادگی سے مطلع فرمائیں۔ تاکہ تحریر آپ کی خدمت میں روانہ کی جا سکے۔ اس کے جواب میں حسب ذیل خط ملا:
چترپور 9 جولائی 1962ء
چترپور 9 جولائی 1962ء
برادر مکرم وعلیکم السلام
1۔ مولانا ابواللیث صاحب نے مجھ سے اسی طرح کہا جیسا آپ نے لکھا ہے۔
2۔ میں نے کہا مجھ سے معاملہ اس طرح ہو سکتا ہے، اور اس کی اطلاع بھی آپ کو دی ہے کہ مسودہ کو آخری شکل دے کر اس کی نقل ملے، میں پڑھوں اور پھر طالب علم کی طرح سوالات کروں توضیح مطالب چاہوں دلائل پر غور کروں اور پوچھوں ا س طرح یہ مساءلۃجو تحریر کے ذریعہ ہو گا۔ اس میں دیر لگے گی، اس طرح کی مکاتبت میں مدت کی تحدید نہ آپ کر سکتے ہیں نہ میں کر سکتا ہوں اس کے لیے بہرحال صبر درکار ہے۔ والسلام
جلیل احسن
