اعظم گڑھ ،24 اکتوبر 1962ء
اعظم گڑھ ،24 اکتوبر 1962ء
محترمی سلام مسنون
گرامی نامہ مورخہ 20 اکتوبر 1962ء ملا۔ مولانا جلیل احسن صاحب کے طریق مراسلت کے سلسلے میں ’’پڑھانے لکھا نے‘‘کا لفظ جو آپ کے خط میں آیا ہے وہی میری بددلی کی اصل وجہ نہیں ہے میرا اعتراض دراصل یہ ہے کہ وہ بالکل مجرد قسم کے سوالات کر رہے ہیں، حالانکہ جب میں نے ایک مسئلہ واضح شکل میں ان کے سامنے رکھا ہے، تو ان کو اس مخصوص مسئلہ سے متعلق سوالات کرنے چاہئیں۔ اس سلسلے میں آپ لکھتے ہیں:
’’مولانا جلیل احسن نے لکھا ہے کہ انہوں نے جو سوالات آپ کے پاس بھیجے ہیں وہ قطعاً غیر متعلق نہیں ہیں نہ پہلے سوال نامہ کے اور نہ دوسرے کے، تاہم ان کامتعلق ہونا واضح نہ ہو تو اس بارے میں آپ ان سے دریافت کر سکتے ہیں۔‘‘
عرض ہے کہ جو کچھ ان کے اپنے ذہن میں ہے، اس کے لحاظ سے ان کا یہ جواب صحیح ہو گا، مگر میرے سامنے تو صرف ان کا سوال نامہ ہے، اور جہاں تک سوال نامہ کا تعلق ہے، اس میں قطعاً یہ نہیں بتایا گیا کہ ان سوالات کا اصل مسئلہ سے کیاتعلق ہے۔ میرا دعویٰ یہ نہیں ہے کہ ان کے سوالات ان کے اپنے نزدیک بھی میرے مسئلہ سے متعلق نہیں ہوں گے۔ میرا کہنا صرف یہ ہے کہ انہوں نے اپنے سوال نامہ میں اس تعلق کاکوئی ذکر نہیں کیا ہے، اور ظاہر ہے کہ جوکچھ ان کے ذہن میں ہے، اس کو معلوم کرنے کا کوئی ذریعہ میرے پاس نہیں۔ اگر وہ اصل مسئلہ سے تعلق کو واضح کرتے ہوئے سوالات کریں تو میں ان شاء اللہ آخر وقت تک ان سے مراسلت کروں گا۔ مگر ایسے سوالات جن کا زیرِ بحث مسئلہ سے متعلق ہونا اپنے ذہن میں رکھا گیا ہو اور سوال نامہ میں اس تعلق کو بالکل واضح نہ کیا گیا ہو، میں ان کو اپنے لیے لاحاصل سمجھتا ہوں اور ایسے مجرد سوال و جواب میں دلچسپی لینے سے اپنے کو معذور پاتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ کوئی بھی تیسرا شخص اس معاملے میں جلیل احسن صاحب کو حق بجانب قرار نہیں دے سکتا۔
براہ کرم آپ انھیں لکھ دیں کہ وہ اصل مسئلہ سے تعلق کو واضح کرتے ہوئے سوالات روانہ فرمائیں تاکہ یہ سلسلہ جاری رہ سکے اور ان پرنصح اور تبلیغ حق کی جو ذمے داری آتی ہے ، وہ ادا ہو جائے اور میں بھی ان کے خیالات کی روشنی میں اپنے معاملہ پر غور کر سکوں۔
خادم وحید الدین
