میرے اس خط کے جواب میں مولانا ابواللیث صاحب کا خط مورخہ 28 فروری ملا جس میں دوبارہ مجھے مجلس شوریٰ کے اجتماع میں شرکت کرنے کے لیے دہلی بلایا گیا تھا۔ میں نے لکھا کہ:
’’میں دہلی نہ آ سکوں گا۔ اس لیے آپ جو کچھ کہنا چاہتے ہیں، اس کو لکھ کر بھیج دیں۔ ان شاء اللہ میں اس پر پوری سنجیدگی کے ساتھ غور کر کے آپ کو اپنے جواب سے مطلع کردوں گا۔‘‘
اس کے بعد موصوف کا خط مورخہ 10 اپریل ملا جس میں پھر تاکید کی گئی تھی کہ میں مجلس شوریٰ کے اجلاس میں شرکت کروں تاکہ اس موقع پر بات چیت بھی ہو سکے۔ ورنہ بصورت دیگر اعظم گڑھ میں ملاقات ہو سکتی ہے۔ کیوں کہ مولانا عید اضحیٰ سے پہلے اپنے وطن تشریف لانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اس کے بعد خط میں درج تھا:
’’لیکن اگر خدانخواستہ آپ اس تاخیر کے لیےآمادہ نہ ہوں تو پھرمیں بجز اس کے اور کیا کہہ سکتا ہوں کہ آپ یہ سمجھتے ہوئے اپنے کاموں کا نقشہ بنائیں کہ آپ کا تعلق جماعت سے منقطع ہو چکا ہے، میں یہ جاننے کا منتظر ہوں کہ آپ تشریف لا رہے ہیں یا میری آمد تک معاملہ کو ملتوی رکھنا چاہتے ہیں۔ یا خدانخواستہ آخری گفتگو کے بغیر ہی معاملہ کو فوراً ختم کر دینا چاہتے ہیں۔‘‘
مولانا ابو اللیث صاحب کا یہ خط آیا تو اس وقت میں اعظم گڑھ میں موجود نہ تھا۔ واپسی کے بعد میں نے حسب ذیل خط لکھا:
جواب
اعظم گڑھ، 26اپریل 1963 ء
محترمی سلام مسنون
میں دو ہفتہ کے لیےباہر چلا گیا تھا۔ اس لیے آپ کا خط مورخہ 10اپریل مجھے کل شام کو مغرب بعد ملا۔ جواباً عرض ہے کہ اگر آپ کی خواہش ہے کہ آپ سے میری ایک ’’آخری گفتگو‘‘ ہو جائے تو میں اس کے لیے راضی ہوں۔ آپ جو باتیں آخری طور پر کہنا چاہتے ہیں اگر وہ آپ نے خط میں لکھ دیا ہوتا تو اب تک یہ کام بھی ہو گیا ہوتا۔ لیکن بہرحال جب آپ عید اضحیٰ کے پہلے اعظم گڑھ آنے والے ہیں تو یہیں گفتگو ہو جائے گی۔
خادم وحید الدین
