رام پور 12 نومبر 1962ء
برادر مکرم!
وعلیکم السلام و رحمۃ اللہ۔ آپ کا کارڈ کافی دن ہوئے ملا تھا، جواب میں بڑی تاخیر ہو گئی جس کے لیے معذرت خواہ ہوں۔
آپ کی فرمائش کے باوجود میں اپنے نظریے میں کوئی تبدیلی نہیں کر سکا ہوں اور میں نے اس سلسلے میں امیر جماعت کو جو کچھ لکھا تھا اسے اب بھی پوری طرح معقول ہی سمجھتا ہوں۔
جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے، آپ کو بھی اعتراف کرنا چاہیے کہ میں نے زیرِ بحث مسئلہ کے بارے میں اپنے خیالات اور دلائل پوری وضاحت سے پیش کر دیے ہیں۔ اس لیے مزید رد و قدح کی کوئی سعی کچھ مفید نہ ہو گی، میں اپنے پیش کردہ خیالات اور دلائل پر اب بھی اسی طرح مطمئن ہوں جیسا کہ پہلے تھا، لیکن آپ کو ان کے اندر کوئی خاص وزن محسوس نہیں ہوتا تو قدرتی طور پر بات ختم ہو جانی چاہیے۔ میرے علم و فہم کی جو رسائی تھی اس کا نتیجہ آپ کے سامنے آچکا ہے، اس میں کوئی بات آپ کے کام کی ہو تو اچھی بات ہے، ورنہ اسے نظرانداز کر ۔
پچھلے دنوں یہ معلوم کر کے مجھے بڑا افسوس ہوا کہ میرے نام کا ایک خط جو امیر جماعت نے مجھے بھیجا تھا اور آپ کی دوسری تحریر کے ساتھ میں نے لفافے کے اندر رکھ چھوڑا تھا آپ کے پاس پہنچ گیا ہے اور یہ صورت حال غالباً اس وجہ سے پیدا ہو گئی کہ میں آپ کی تحریر واپس کرتے وقت لفافے کے اندر سے وہ خط نکالنا بھول گیا تھا۔ اس سلسلے میں آپ کو شاید اس بات کا خیال نہیں رہا کہ کسی غیر کے خط کو لے کر رکھ لینا کوئی صحیح بات نہیں۔ چہ جائیکہ اس کو پڑھ بھی لیا جائے، اور پھر متعلقہ شخص کو نہ واپس کیا جائے نہ اس کی اطلاع دی جائے۔ بہرحال اب میری گزارش یہ ہے کہ اس خط کو برائے کرم اب بھی واپس دے دیجیے۔
آپ نے اپنی دوسری مختصر تحریر اس وعدے کے ساتھ واپس لے لی تھی کہ اسے پھر سے مرتب کر کے بھیج دیں گے، اس وعدے کو پورا کیے جانے کا انتظار ہے۔
والسلام صدرالدین
